حضرت علامہ مخدوم یار محمد صدیقی

حضرت علامہ مخدوم یار محمد صدیقی  علیہ الرحمۃ

نو شہرو فیروز سے تقریباً ۳۰ میل دور جانب سکھر قومی شاہراہ پر گوٹھ ’کوٹری کبیر‘‘ واقع ہے۔ یہ گوٹھ مشہور زمانہ بزرگ حضرت مخدوم شیخ محمد کبیر علیہ الرحمۃ کے نام سے موسوم ہے۔ ان کے جد امجد حضرت اسحاقق بین قیس اسدی صدیقی فاتح سندھ مجاہد اسلام غازی محمد بن قاسم علیہ الرحمۃ کے ساتھ سندھ میں آئے تھے۔

کوٹری کبیر قبل مسیح بھی آباد تھا۔ رائے سہاسی اول کے دورم یں اسے ’’رائے گڑھ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اس وقت یہ دریائے سندھ پر ایک ’’پتن‘‘ تھا۔ رائے گڑھ کے علاقہ میں رائے سہاسی اول نے رائے کوٹ یار اور کوٹ کے نام سے ایک قلعہ بھی بنوایا تھا۔ حضرت محمد بن قاسم نے اسے فتح کرکے ’’اروڑ‘‘ کارخ یا اور رائے گڑھ کی فتح کے بعد اسحاق بن قیس اسدی صدیقی کو اس علاقہ کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا۔ اسحاق بن قیس کو خلیفہ خالد ولید بن  عبدالملک کی طرف سے ’’نواب‘‘ کا لقب عطا کیا گیا مگر ان کے لائق فرزند حضرت ہارون بن اسحاق نے جاگیر اور نوابی کو مسترد کرکے فقیری اختیار کی۔ حضرت ہارون بن اسحاق بن قیس کا مزار شریف ’’سوا لاکھ‘‘ قبرستان می ہے۔ لوح کی تختی پر سن وفات ۱۷۱ھ درج ہے۔ ان کی آٹھویں پشت میں مخدوم محمد کبیر پیدا ہوئے (خانزادہ سمیع الوریٰ ،: تزئین ساہتی، ص۱۴)

علامہ محمد کبیر نے مدرسہ قائم کیا جہاں دسویں صدی ہجری کی ابتدا سے تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا۔ علامہ محمد کبیر بلند پایہ کے عالم و عارف تھے۔ میر علی شیر قانع ٹھٹھوی علیہ الرحمۃ اپنی عظیم تاریخی کتاب ’’تحفۃ الکرام‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’شیخ کبیر ایضاً از بزرگان اینجا است مر قد ش مرجع اہل اللہ واقع بھلانی برابر ہالانی است‘‘

حضرت علامہ مخدوم یار محمد صدیقی (بن مخدوم محمد قاسم بن شیخ مخدوم محمد کبیر صدیقی رحمہم اللہ تعالیٰ) اس عظیم علمی و روحانی خانوادہ میں ۱۹ ذوالقعدہ ۱۱۴۹ھ مطابق ۱۷۳۷ء کوٹری کبیر میں تولد ہوئے۔

تعلیم و تربیت:

مخدوم یار محمد نیمدرسہ کوٹری کبیر میں اپنے والد ماجد سے تعلیم و تربیت ، علوم ظاہری و باطنی حاصل کرکے ۱۱۶۸ھ کو فارغ التحصیل ہوئے۔

بیعت:

آپ کے والد ماجد حضرت مخدوم محدم قاسم صدیقی سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے۔

درس و تدریس:

مخدوم یار محمد بعد فراغت مادر علمی درسگاہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، آپ کے دور میں مدرسہ عروف پر پہنچا۔ ملک و بیرون ملک سے بے شمار تشنگان علم آپ کے حضور زانوئے تلذ طے کرتے اور فیضیاب ہو کر جاتے۔ مخدوم یار محمد جلیل القد رعالم دین، قابل فخر مدرس، بے مثال مفتی، شاعر اور کامل اکمل ولی اللہ تھے۔ آپ ۵۱ برس مسند تدریس پر رونق افروز ہوئے۔

تلامذہ:

آپ کے تلامذہ کا سلسلہ طویل ہے، ان میں سے بعض کے اسماء گرامی دریافت ہوئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

٭     امام العارفین حضرت پیر سید محمد راشد پیر صاحب روضے دھنی قدس سرہ درگاہ راشدیہ پیان پگارہ

٭     حضرت یر سید مرتضیٰ علی شاہ لکیاری (پیر صاحب کے برادر)

٭     حضرت علامہ سید محمد عاقل شاہ لکیاری ہالانی تحصیل کنڈیارو

٭     حضرت مولانا مخدوم قاضی محمد عاقل رابع عباسی کھہڑا ضلع خیر پور میرس

٭     حضرت مخدوم محمد جعفرثانی عباسی بوبک تحصیل سیوہن شریف

تصنف و تالیف:

مخدوم یار محمد دن رات درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔ طلباء کی آسانی کیلئے درسی کتب کے کئی نسخے اپنے قلم سے تیار کئے تھے اور مشکل مقامات پر حواشی بھی رقم فرمائی تھی۔ شرعی فتاویٰ بھی جاری فرماتے تھے۔ لیکن تمام تحریرات محفوظ نہیں البتہ آپ کے موجودہ سجادہ نشین میاں غوث محمد گوہر کے پاس ایک قلمی بیاض ہیجس میں بعض تحریرات کا نمونہ عربی و فارسی میں شاعری دستیاب ہے۔

شاعری:

مخدوم یر محمد ، نبی کریم ﷺ کے سچے عاشق تھے حضور پور نور ﷺ کی محبت و سوز میں عربی و فارسی میں شعر کہتے تھے۔ تبرکاً ایک فارسی قطعہ درج کیا جاتا ہے، جس میں نعت اور خلفائے راشدین اور حسنین کریمین اور سیدہ خاتون جنت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مناقب بیان کئے گئے ہیں:

بحق سروری زو شرف لولاک               کہ آمد علتی تکوینی افلاک

بقدرت قادر صٓنح فلک و فاک               نضادرۃ بخش زاغ و باغ غمناک

بخدمت راشدین خلفاء و حسنین      ببرکۃ فاطمہ زہراء تن پاک

حصاری شد مرتب سنگ بنیاد کوہ      الٰہی آنچنا معمور کردان

کہ باید خورہی ہر شخص غمناک               ذہن قاصری تاریخ جسم

بگفتا قلعہ محفوظ ہے پاک

۱۲۱۶ھ

آپ  نے قطعہ تاریخ قلعہ کی سنگ بنیاد پر کہا تھا جس سے قلعہ کا سن تعمیر استخراج ہوتا ہے۔

گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑو (پرانی درگاہ) میں مسجد شریف تھی جہاں امام العارفین حضرت خواجہ سید محمد راشد پیر صاحب روضے دھنہ قدس سرہ نے اپنے والد ماجد و مرشد مربی کے حکم سے امامت و تبلیغ ، تلقین و ارشاد کے فرائض انجام دیتے تھے۔ دن بدن طالبان خدا میں کثرت ہونے لگی جس کے سبب مسجد شریف کی توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی اسلئے حضرت پیر صاحب نے جامع مسجد تعمیر کرائی جس کی تکمیل پر حضرت پیر صاحب نے اففتاح و دعائے خیر کیلئے اپنے استاد مکرم مخدوم یار محمد کو مدعو کیا ۔ مخدوم صاحب نے اس موقع پر درج ذیل تاریخی قطعہ رقم فرمایا:

حمد حق راکنم نخستین یاد           کہ نمودار از عدم ایجاد

ہم دردود حبیب بعد اذان          مع صحبہ والد الامجاد

از خدا خواھم از طریق نیاز          شغل حمد و صلوٰۃ دردم باد

ذکر حق در زبان و جوارح ہم                قلب من ھمچنین بود آباد

پس اذان میشوم مکر کستاخ          صفحہ دل کنم زغم مکر آزاد

زانکہ دیدم مکان بشرف مکین               مرد مان بھر یاب از ارشاد

پیشوائے خدام ’’راشد‘‘ شاہ               بو العجب ایں چنین سدا دور شاد

در ازال چون رشید بود سعید         اسم ھم جسم را وفا کہ نہاد

مسجد و مدرسہ ذکر اشغال           ھم معمور بر دوام کسفاد

اکثیری سعیہ صالحات بود           بیخ ہر سئیات شد برباد

دین نبوی درین زمان فتود           رونقش عشرہ گشت از آباد

سال تاریخ مسجد ش گفتم

مسجد ذاکران حق داد

۱۲۱۲ھ

وصال:

حضرت مخدوم یار محمد صدیقی نے کوٹری کبیر میں ۲۲؍ ذوالقعدہ ۱۲۱۹ھ/ ۱۸۰۵ء بروز اتوار ۷۰ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ یہ تاریخ آپ کے مزار شریف کے کتبہ پر درج ہے۔ آپ کا روضہ اقدس کوٹری کبیر میں مرجع خلائق ہے۔ (ماہنامہ الراشد شعبان ۱۴۱۷ھ)

 

 


(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )

تجویزوآراء