حضرت علامہ مولانا عبدالکریم درس

حضرت علامہ مولانا عبدالکریم درس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 

شہر کراچی کے ممتاز عالم دین اور سلسلہ قادریہ درسیہ کے جلیل القدر شیخ طریقت شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالکریم درس بن شیخ التفسیر علامہ عبداللہ درس بن مولانا خیر محمدرس بن مولانا عبدالرحیم درس شہر کراچی میں ۱۸۶۰ء میں تولد ہوئے۔

تعلیم و تربیت:

ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی (جنہوں نے ۱۱۳ برس کی عمر پائی اور اخیر امر میں برزبان فارسی قرآن مجید کی مکمل تفسیر رقم فرمائی۔ جس کا قلمی نسخہ مدرسہ درسیہ صدر کراچی کی لائبریری میں محفوظ ہے۔) اس کے عد اپنے والد صاحب سے تمام مورجہ علوم و فنون میں فراغت حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کیئے ملک سے باہر سفر کیا۔ پہلے ایران اور پھر جامعۃ الازہر قاہرہ (مصر) تشریف لئے گئے جہاں انہوں نے مصری یمنی اور عراقی علماء سے استفادہ کیا۔ آپ نے سند حدیث حضرت شیخ حسین بن محسن الخزرجی السعدی الانصاری الیمانی سے حاصل کی ۔ آپ کی یہ سند اجازت حدیث کتب خانہ درسیہ میں محفوط ہے۔

قیام مدرسہ:

آپ کے والد ماجد نے ۱۸۷۲ء میں ’’مدرسہ درسیہ‘‘ کراچی کے علاقے صدر  میں باقاعدہ بنیاد ڈالی۔ کثیر علماء یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔

بیعت و خلافت:

آپ نے سلسلہ عالیہ قاریہ مں نقیب الاشراف السید آغا عبدالسلام گیلانی قادری بن السید علی گیلانی علیہ الرحمۃ (۱۳۴۰ھ) سے بغداد شریف کی حاضری کے موقع پر بیعت فرمائی۔ انہوں نے آپ کو اپنی خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔ جس کا تذکرہ ’’شیخ الاسلام سیدنا عبدالقادر گیلانی و االاد ‘‘ نامی کتاب کے صفحہ ۴۳۵ مطبوعہ بغداد شریف میں بھی درج ہے۔

(روزنامہ جرأت کراچی ۱۶ نومبر ۲۰۰۴ئ)

تلامذہ:

آپ کے بہت سے شاگردوں میں سے بعض کے نام معلوم ہوسکے:

٭     مولانا مفتی محمد حسین ٹھٹوی  (جد امجد ڈاکٹر حافظ عبدالباری صدیقی)

٭     مولانا مفتی محمد صڈیق      مکران

٭     مولانا عبدالرحمن بلوچ     خضدار

٭     مولانا حافظ غلام رسول قادری

٭     مولانا حافظ خدا بخش بلوچ

اولاد:

آپ نے دو شادیاں کی پہلی بیوی سے ایک بیٹا مولانا ظہور الحسن درس اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی تولد ہوئی۔

تصنیف و تالیف:

مولانا محمد اصغر درس صاحب نے بتایا کہ داد اجان کے اکثر فتوے ہندوسان سے شائع ہونے والے رسائل مثلاً ہفت روزہ امرتسر وغیرہ مٰں شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ مرتب نہیں کیا جاسکا۔

جناب سید عابد حسین شاہ (چکوال) نے بتایا کہ ’’الفقیہ‘‘ رسالہ کے کئی مکتلف شمارو ں میں مولانا عبدالکریم درس صاحب کے مضامین شائع ہوئے تھے، وہ ان کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔

٭     الرسالہ الدرسیہ فی الفرائض الحنفیہ (عربی)

٭     ایضاح الحق (سندھی)

احباب علماء کرام:

عالم اسلام کے جید علماء کرام سے آپ کے گہرے مراسم تھے۔

٭     امام اہسلنت علامہ مفتی احمد رضا خان قادری محدث بریلوی

٭     تاج الفقہا حضرت علامہ مخدوم حسن اللہ صدیقی

٭     سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی ابو الفیض غلام عمر جتوئی

٭     سید الفقہا حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی

٭     شیخ الاسلام خواجہ محمد حسن جان فاروقی سر ہندی

٭     سید العلماء حضرت علامہ سید اسد اللہ شاہ ٹکھڑ شریف

٭     صدر العلماء مولان امفتی محمد قاسم گڑھی یاسین

٭     خطیب اسلام حضرت مولانا پیر غلام مجدد سرہندی

٭     حجۃ الاسلام مولانا مفتی حامد رضا خان بریلوی(ابن اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی)

٭     عالمی مبلغ اسلام علامہ عبدلعلیم صدیقی (والد علامہ شاہ احمد نورانی)

٭     شیخ الحدیث علامہ سید دیدار علی شاہ محدث الوری لاہور

٭     مفسر قرآن حضرت علامہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری لاہور

٭     حضرت علامہ مفتی ابو بلرکات سید احمد شاہ قادری (والد علامہ سید محمود احمد رضوی لاہور)

٭     شیر اہل سنت علامہ ہدایت رسول قادری لکھنوی (جد بزرگوار مولانا سید وجاہت رسول قادری)

٭     حضرت علامہ مفتی ابو یوسف محمد شریف کوٹلوی (والد مولانا  اب والنور محمد بشیر کوٹلوی مصنف ’’واعظ‘‘)

٭     امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدچ علی پوری ضلع سیالکوٹ

٭     حضرت علامہ مولانا احمد مختار صدیقی میرٹھی    (چچا علامہ شاہ احمد نورانی)

٭     شاعر اہل سنت حضرت علامہ نذیر احم دخجندی صدیقی بمبئی (چچا علامہ شاہ احمد نورانی)

٭     شیخ طریقت حضرت پیر سید ظہور الحسن بٹالوی قادری  (والد ریٹائر د جسٹس سید شمیم الحسن قادری لاہور )

٭     حضرت مولانا عبدالقیوم بختیا ر پوری نزدبو بک اسٹیشن تحصیل سیوہن شریف ضلع دادو

٭     حضرت مولانا عبدالرزاق بو بکائی بو بک تحصیل سیوہن شریف

٭     حضرت مولانا پیر سید تراب علی شاہ راشدی قمبر علی خان ضلع لاڑ کانہ

خدمات جلیلہ و مقبولیت علماء عوام النا س:

۱۹۱۱ء میں علم غیب مصطفی اور حیات النبی ﷺ کے معرکۃ الآ را مسائل پر سندھ کے علماء میں بحث و مناظر ہ کا آغاز ہوا تو ایک جانب مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ ( لیاری کراچی ) اور مدرسہ دارالرشاد گوٹھ پیر جھنڈا ( ضلع حیدرآباد ) کے دیو بندی وہابی علماء مولوی محمد صادق ، مولوی حاجی محمد ہولائی ، حکیم فتح محمدسیوہانی مولوی دین محمد وفائی اور مولوی محمد صدیق سونڈی تھے ۔

جب کہ دوسری جانب اکثر اکا بر علماء و مشائخ اہلسنت ( جن کے اسما ء گرامی لسٹ میں درج کئے جاچکے ہیں ) تھے ۔ ان دنوں مخدوم حسن اللہ صدیقی نے نبی کریم ﷺ کے علم غیب شریف پر دلائل و برہان پر مشتمل عالیشان کتاب ’’نور العینین فی اثبات علم الغیب لسید الثقلین ‘‘تحریر فرمائی ۔ اسد ملت علامہ مولاناسید اسد اللہ شاہ نے معرکۃ الآ ر اکتا ب ’’ہدایہ اسد یہ ‘‘ ( ۳ حصے ) لکھی اور افتخار علمائے احناف علامہ عبدالکریم درس نے عظیم الشان تصنیف ایضاح الحق ( سندھی لکھ کر شائع کی ۔ ڈاکٹر مجید اللہ قادری رقمطراز ہیں : علامہ عبدالکریم درس کے علماء دیوبند کے ساتھ شہر کراچی میں مسئلہ علم غیب عطائی پر کئی منا ظر ے اور مباحثے ہوئے ۔ مولانا عبدالکریم درس کا حضور بنی کریم ﷺ کے علم غیب عطائی پر وہی عقیدہ تھا جو ۱۴ چودہ سو سال سے اہلسنت و جماعت کا چلا آرہا ہے چنانچہ انہوں نے اس موقف کی تائید فر مائی اور دیوبند ی حضرات سے مناظر ے بھی کئے اس سلسلے میں آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی سے رجوع بھی کیا اور ان سے مدد بھی طلب کی چنانچہ اعلیٰ حضرت نے اپنے تصنیف شدہ کئی رسائل کے ساتھ ساتھ علامہ عبدالکریم درس کی مدد کے لئے ان کے خط کے جواب میں اپنے شاگرد و خلیفہ مناظر اسلام حضرت علامہ ہدایت رسول قادری لکھنوی کو ۱۹۱۱ء میں چند علماء کے ساتھ کراچی بھیجا ۔ آپ نے کراچی پہنچ کر مالانا عبدالکریم درس کے ساتھ مل کر دیوبندی حضرات کو علم غیب کے مناظر ے میں شکست سے دوچار کیا‘‘۔ ( امام احمد رضا اور علماء سندھ ص۱۷)

خلیفہ اعلیٰ حضرت ، مجاہد ملت حضرت علامہ احمد مختار صدیقی نے اپنے برادر گرامی قدر مولانا نذیر احمد خجندی کے نام خط لکھا ہے ۔ اس سے آپ کی عظمت و مقبولیت کا پتہ لگتا ہے ۔ رقمطراز ہیں :

برادرم السلام علیکم !

تم سے رخصت ہو کر نہایت آرام کے ساتھ بحری سفر طے ہوا ، سمندر بالکل ساکن ہے تلاطم مطلق نہیں ۔ آج صبح آٹھ بجے کے قریب کراچی پہنچے ، ’’رسالت کمیٹی ‘‘ کراچی کراچی کے ارکان و جملہ اکابر اہل سنت نے مع اپنے مرید ین و معتقدین کی بڑی جماعت کے ساتھ استقبال کیا اور نہایت شاندار جلوس نکالا متعدد موٹریں اور گھوڑا گاڑیاں جلوس میں تھیں اور ہزاروں نفوس پا پیادہ ، سب سے پہلی گاڑی پر دو بڑے بڑے ہلالی علم ( جھنڈے ) پہلی اور دوسری گاڑی میں قصیدہ خوانوں کی جماعت ترنم ریزی کرتی جاتی تھی دس دس پانچ پانچ قدم پر مسلمانان اہل سنت اپنے اپنے مکانوں اور دکانوں کے سامنے جلوس کو روک کر اور ارکان وفد اور اکابر کو مکلف بڑے بڑے ہار پہناتے اور گلاب پاشی کرتے ۔ کراچی میں حضر ت مولانا عبدالکریم درس کا وجود مسعود اہلسنت میں ایک خاص جوش پایا جاتا ہے مگر وہابیہ کی جماعت ’’خلافت کمیٹی ‘‘کے روپیہ کی مدد سے فتنہ کا جال پھیلا رہی ہے ۔ مولیٰ تعالیٰ حق کو غالب فرمائے ‘‘۔

  (اخبا ر غالب بمبئی ص۵، ۱۶ جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ بروز اتوار)

امام احمد رضا بریلوی اور علامہ عبدالکریم درس:

یہ دونوں بزرگ ہمعصر ، ہم مسلک و مشرب اور خیر خواہ تھے ۔ دونوں کے آپس میں گہرے مراسم اور قلبی تعلقات تھے ۔ مولانا اصغر درس بتاتے ہیں :’’ دادا جان ؒ کو اعلی حضرت ؒ سے بڑی محبت تھی اور اکثر و بیشتر ان کی زبان پر اعلیٰ حضرت کا ذکر خیر رہتا۔ آپ عربی فارسی سندھی اور اردو کے بڑے اچھے شاعر بھی تھے چنانچہ آپ نے اپنی ایک نظم میں اعلیٰ حضرت کا ذکر خیر رہتا ۔ آپ عربی فارسی سندھی اور اردو کے بڑے اچھے شاعر بھی تھے چنانچہ آپ نے اپنی ایک نظم میں اعلیٰ حضر ت سے عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا :

شعروں میں میرے اکثر انداز رضا کا ہے

سچ کہتے ہیں یہ جھوٹے یہ ’’درس‘‘رضائی ہے

اعلیٰ حضرت کے وصال پر مولانا عبدالکریم درس نے کئی تاریخی مادے نکالے او ر عربی زبان میں ایک قطع بھی کہا جو مندرجہ ذیل ہے۔

موت العالم الجلیل موت العلم          مقبول حق     احمد     رضا

۱۳۴۰ھ

قطعہ

فارقنا بغتۃ سیدی احمد رضا

اسکنہ اللہ فی قربہ سبحانہ

ھمت لتاریخہ حسین سئلت بہ

فھتف الھاتف ! یا احد اغفرلہ

 (۱۳۴۰ھ)

علامہ درس رقمطراز ہیں :۔ میرے عقائد جناب اعلیٰ حضرت مجدد ملئتہ حاضر ہ مولانا حاجی قاری احمد رضا خان صاحب سنی حنفی قادری بریلوی کے عقائد کے موافق ہیں ۔( ایضاح الحق ص ۱۰)

پروفیسر سید محمد عارف بہاو لپوری اپنے مضمون ’’مولانا احمد رضا اور سر زمین سندھ ‘‘ میں رقمطراز ہیں :مولانا احمد رضا خان ۱۹۰۵ء میں دوسری بار حج سے واپس ہوئے تو کراچی میں سندھ کے مشہور عالم دین مولانا عبدالکریم درس ( مدرسہ درسیہ کراچی ) کے ہاں قیام فرمایا اور یہیں سے واپس بمبئی گئے ۔ مولانا درس کا مولانا بریلوی سے قلمی اور قلبی رابطہ پہلے ہی سے تھا ، چنانچہ کے خاندانی کتب خانہ میں اب بھی مولانا کے خطوط موجود ہیں‘‘۔

مولانا اصغر درس رقمطراز ہیں :۱۳۲۰ھ مین میرے والد ماجد حضرت علامہ ظہور الحسن درس رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت کے وقت حضرت پیر سید ظہور الحسن بٹالوی میرے جدا علامہ عبدالکریم درس رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کے لئے مدرسہ درسیہ صدر کراچی میں تشریف لائے ہوئے تھے اور کسی علمی بحث میں مصروف تھے کہ والد ماجد کی ولادت کی اطلاع دی گئی جس پر پیر سید ظہور الحسن بٹالوی نے بچہ کو لانے کا حکم فرمایا اور خود اذان و اقامت کے بعد اپنا ہی نام نومولود کے لئے تجویز فرمایا۔

لیکن جب اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کو والد ماجد کی ولادت کی اطلاع اور دعا کی درخواست کی گئی تو انہوں نے دعا کے ساتھ مجوزہ نام ظہور الحسن مین تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ تاریخی نام ’’ ظہور الحسنین ‘‘( ۱۳۲۰ھ) تجویز فرمایا ۔ یہ نام اگر چہ معروف نہ ہو سکا مگر مولانا عبدالکریم درس نے اس نام کو اس طرح تاریخ میں محفوظ کیا کہ جب ااپ نے اپنے بیٹے کی تعلیم کے لئے عربی زبان میں رسالہ بنام ’ ’ الرسالہ الدرسیہ فی الفرائض الحنفیہ‘‘ لکھا تو اس میں اپنے لخت جگر کو اعلیٰ حضرت کے تجویز کردہ نام قرۃ العینین ظھور الحسنین ‘‘ لکھ کر خطاب کیا ۔

علامہ درس کو اعلیٰ حضرت نے ایک عربی خط میں اس طرح خطاب فرمایا :

’’الحب المتقبر المحب المتبحر المروج المراسم القدیم المجدد المکارم الفتحیم لشفیق الدرس عبدالکریم احفظہ عن الواھل الوخیم واعانہ علی مایفضیہ الی روضات دارالنعیم آمین بحرمۃ النون والیاسین ‘‘۔ علامہ درس کو اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد خانقاہ عالیہ رضویہ سودا گران بریلی سے خلف اکبر مولانا حامد رضا خان بریلوی رحمتہاللہ علیہ نے خط تحریر فرمایا اس میں یوں مخاطب ہوئے :

’’حضرت محترم مولانا المکرم ذی المسجد والکریم اکرمکم الاکرم تعالیٰ ذوالکرم ‘‘۔

مولانا عبدالکریم درس ، صاحبزادہ مولانا حامد رضا خان بریلوی کی دعوت پر اعلیٰ حضرت کے تیسرے عرس کے موقعہ پر ۱۹۲۴ء میں بریلی تشریف لے گئے ۔ مولانا حامد رضا نے اپنے خط میںآپ کو ان الفاظ سے یاد کیا:

’’آپ جیسے اسا طین ملت اور مبلغین کے لئے شرکت ازبس ضروری ہے ‘‘۔

مولانا درس کی لائبریری میں یہ خط اور اس وقت کا اشتہار جس میں مولانا درس کو ’’مہمان خصوصی ‘‘کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا آج بھی محفوظ ہے۔

خلیفہ اعلیٰ حضرت منا ظر اسلام مولانا سید ہدایت رسول قادری کا وصال ۱۹۱۵ء میں ہوا جن کے لئے اعلیٰ حضرت نے فرمایا ’’آج میرا دست راست جاتا رہا ‘‘ اور جب کراچی (سندھ ) میں مولانا عبدالکریم درس کو اس کی اطلاع ملی تو آپ اعلیٰ حضرت کے دست راست اور اپنے دوست کی جدائی پر نہایت افسردہ ہوئے اور مندرجہ ذیل تاریخ وفا ت کہی ۔

میرا دل سوز سے آتش فشا ہے

پگھلتا جس سے مغز استخواہ ہے

اگر ہے بلبل شیراز سعدی

’’ہدایت‘‘ بلبل ہندوستان ہے

بس اب ’’درس‘‘ یہ تاریخ کہہ دو

’’امام الواعظین معجز بیان ہے‘‘

۱۳۳۳ھ

(تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت )

سماجی خدمات :

آپ نے طرابلس ، بلقان اور ترکی کی جنگ سے متاثرین کے لئے ۱۹۱۳ء میں قاضی عبدالعزیز ، پیر محمد فاروق سر ہندی اور عبداللہ ہارون کے ساتھ مل کر خطیر مالی امداد بہم پہنچائی ۔ تحریک خلافت میں بھی انگریزوں کے خلاف بھر پور کردار ادا کیا اور اہم خدمات انجام دیں ۔

۱۹۱۴ء میں علامہ عبدالکریم درس نے اپنی تقاریر میں شراب نوشی ، سود خوری اور زناو دیگر منکرات کے خلاف عملی جہاد فرمایا اور عوام الناس کو ان گناہوں کے ارتکاب اور شرعی سزاوٗ ں سے خوف دلایا ۔

وصال :

افتخار سنیت حضرت علامہ مولانا عبدالکریم درس قادری کا اعلیٰ حضر ت کے عرس شریف میں شرکت سے واپسی کے بعد جلد ہی ۱۹،شعبان المعظم ۱۳۴۴ھ بمطابق ۴، ،مارچ ۱۹۲۶ء کو بروز جمعرات ۶۶ سال کی عمر میں وصال ہو گیا ۔ آپ کا مزار پر انوار اپنے والد ماجد حضرت علامہ عبداللہ درس کے پہلو میں کراچی کے قدیم قبرستان حضرت مخدوم صاحب محمد یوسف ( دھوبی گھاٹ ) لیاری کراچی میں مرجع خلائق ہے ۔ ( روز نامہ جراٗت کراچی )

آپ کے وصال پر مولانا مفتی حامد رضا خان قادری بریلویؒ نے فارسی زبان میں ایک نظم کہی ہے جس سے تاریخی مادہ بھی مکالا ،ملا حظہ کیجئے :

درس عبدالکریم عبد کریم

کرد جان خودش بحق تسلیم

موت العالم المیہ العالم

ثلمہ دین احمد بے میم

روح الروح و سقاہ

آب کوثر و جعفر و تسنیم

درس وعظ حمایت سنت

رد بدعات و برفہ اہل جحیم

امر معروف نہی عن المنکر

کارا و بود در حیات کریم

درس دین نبی بگو ’’حامد‘‘

ختم شد در کراچی تسلیم

۱۳۴۴ھ

(تذکرہ جمیل ص ۱۷۲ مطبوعہ انڈیا، از : مولانا ابراہیم خوشتر صدیقی )

حجتہ الا سلام مولانا حامد رضا خان بریلوی نے ایک قطعہ عربی زبان میں بھی لکھا تھا جس کو آپ نے کراچی کے ایک معروف بزرگ مولانا غلام رسول قادری کے ساتھ دستی روانہ کیا کہ مولانا درس کے مزار پر اگر کتبہ اب تک نہ لگا ہو تو اس قطعہ کو کتبہ پر لکھ کر لگا دیا جائے ۔

(ماخوذ : امام احمد رضا اور علماء سندھ از: ڈاکٹر مجید قادری ۔ مضمون ’’اما م احمد رضا کے خاندان درسیہ سے مراسم ‘‘ از مولانا محمد اصغر درس کراچی بشمولہ معارف رضا)

مولانا عبدالکریم درس کی ہمہ جہت شخصیت ہے ، ان پر مکمل کتاب کی ضرورت ہے رب کریم ان کی باقیات کو توفیق مرحمت فرمائے تاکہ وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکیں ۔ آمین

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء