حضرت مولانا احمد یار مہر قادری
حضرت مولانا احمد یار مہرقادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا احمد یار قادری بن مولانا عبدالغفار مہر درگاہ شریف خان گڑھ (تحصیل گھوٹکی سندھ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
خان گڑہ میں والد ماجد کی درسگاہ میں انہی کی نگرانی میں دینی تعلیم و تربیت حاصل کی۔
بیعت:
مولانا احمد یار پینتیس (۳۵) سال کی عمر میں جنید وقت حضرت حافظ محمد صدیق علیہ الرحمۃ بانی درگاہ بھر چونڈی شریف کے دست اقدس پر سلسلہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے۔ مرشد کریم سے بے پناہ محبت کے سبب مختصر سی مدت میںمنازل طے کی۔ ۲۰ سال کی عمر میں والد گرامی مولانا عبدالغفار انتقال کر گئے تھے۔ (تذکرہ شعراء سکھر ص۱۶۸)
والد گرامی قدر کے انتقال کے بعد آپ سجادہ نشین مقرر ہوئے بے شمار نفوس آپ سے مردی ہو کر فیضیاب ہوئے۔
تصنیف و تالیف:
عارف کامل حضرت مولانا احمد یار قادری نے مشکوٰۃ شریف کا سندھی ترجمہ اور حاشیہ ’’مراۃ التشریح‘‘ ۷ جلدوں میں اپنے احباب علماء سے تیار کروایا۔ یہ سندھی شرح ۵۰۰ کی تعداد میں عباسی پریس (عباسی کتب خانہ جھونا مارکیٹ کراچی ) سے مولانا شیر محمد گلال نے ۵ ذوالقعدہ ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۳ء یعنی مولانا کی وفات سے دو سال قبل شائع کیا ۔ اس پر مولانا احمد یار نے خود حاشیہ تحریر کیا تھا۔
مطبوعہ مشکوٰۃ شریف مترجم کے سرورق پر یہ عبارت درج ہے ’’حسب الحکم حضرت پیر روشن ضمیر جناب حضرت ھادینا مرشدنا مولانا مطلوب الاحد، محبوب الصمد، حضرت احمد سجادہ نشین درگاہ عالیجاہ حضرت خان گڑھ شریف دام اللہ برکاتہم وحیاتہم ‘‘ (بحوالہ شریعت سوانح نمبر)
شاعری:
مولانا احمد یار سندھی زبان کے بلند پایہ کے شاعر تھے ۔ آپ کا کلام رسائل کی صورت میں شائع ہوا ہے۔ آپ کا کلام سہ حرفیاں، مناجات، مداح، مولود، نعت، غزل، منقبت اور کافی پر مشتمل ہے۔ ادبی اور فنی لحاظ سے آپ کے کلام کا درجہ بلند ہے۔ بعض غزلیات میں فارسی اور سندھی مصرعہ کا حسین امتزاج پیش کیا ہے۔ (تذکرہشعراء سکھر)
سیر و سیاحت:
حضرت مولانا احمد یار نے ہندو پاک کے نامور بزرگان دین کی مزارات مقدسہ پر حاضری کیلئے سفر کیا۔
شادی و اولاد:
حضرت حافظ محمد صدیق قادری نے اپنے مرید امیر حسن میمن کی صاحبزادی رحیم خاتون سے مرید صادق مولانا احمد یار کی شادی کرائی اور خود ہی خطبہ نکاح پڑھایا۔ مولانا کو اہلیہ کے بطن سے دو بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئی۔ (عظیم سندھی انسان ص۲۸۷)
وصال:
مولانا احمد یار نے ۲۳ شوال المکرم ۱۳۵۳ھ بمطابق ۱۹۳۴ء کو درگاہ شریف خان گڑھ (گھوٹکی) میں ۶۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ وہیں مزار شریف مرجع خلائق ہے۔ سالانہ عرس مبارک ہوتا ہے جس میں مریدین و معتقدین شرکت کرتے ہیں۔ آپ کے وصال پر حضرت مولانا بھائی کے صاحبزادوں (مولانا عبدالرحمن ضیائی اور مولانا محمد اعظم سراجی) نے قطعہ تاریخ وصال کہا۔ یہاں مولانا ضیائی کا قطعہ درج کیا جارہا ہے:
عالم علم و صاحب عرفان
بکمال الیقین بصد ایقان
نیر اعظم سپہر کمال
بدر روشن کن جہان جمال
حامی سنت رسول خدا
ماحی شرک و کفر و بدعتہا
ظاہرش گرچہ صورت انسان
باطنش جملہ معنی رحمن
حاسد ش گرچہ از حسد مے دید
بہر خود از حسد بلا و مزید
دید او را کسے کہ دیدہ و راست
نہ کہ اعمی و ناقص النظر است
شپرہ جوید آفتاب سیاہ
نور خورشید را مگرچہ گناہ
رند و مخمور بادۂ عرفان
خضر رہ بہر راہ گم شدگان
از شریعت طریقتش ظاہر
و از حقیقت بمعرفت ماہر
مثبت قول حق بصد برہان
از کلامش عیان بدیع و بیان
در جمیع اُمور صبح و شام
مستقل طبع و ثابت الاقدام
درہمہ حال صاحب تحقیق
بہمہ کاروبار ہا صدیق
مرد حق شیر بیشہ توحید
اعظم القدر صاحب التفرید
مرد مولا و شیر حق احمد
سرہ مکتوم ہیچگون احدم
بانگ رحلت بگوش اوچ و رسید
گفت لبیک بارہا بمزید
بیست ہم سوم از مہ شوال
شب مہ شنبہ بود کان خوشحال
رخت رحلت کشید در جنت
بخوشی آرمید در جنت
۱۳۵۳ھ
چونکہ بود او فنا بذات و صفات
سال وصلش بخوان فنافی الذات
بار دیگر بخوان بقرب انس
ہادی عندلیب باغ قدس
۴۲ ۱۳
اے ’ضیائی‘ دعائے خیربخوان
باد خوش زیر سایۂ یزدان
[ماخوذ : بیاض منتخب غزلیات فارسی (قلمی) از : مولانا عبدالرحمن ضیائی، ملکیت پروفیسر محمد پٹھل ڈہر صاحب ڈہرکی۔ یہ قطعہ پہلی بار زیور اشاعت سے آراستہ ہو رہا ہے، فقیر راشدی، ڈہر صاحب کا مشکور ہے]
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)