حضرت شیخ المحدثین علامہ مولانا غلام رسول رضوی

حضرت شیخ الحدیث جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد پاکستان علیہ الرحمۃ 

ولادت:

اُستاذ العلماء حضرت علامہ مولانا غلام رسول رضوی ابن چودھری نبی بخش ۱۳۳۸ھ؍ ۱۹۲۰ء میں امر تسر کے مضافات میں واقع ایک گاؤں لیسیہ میں پیدا ہوئے۔

مولانا غلام رسول کے والد ماجد کا پیشہ زمینداری تھا اور وہ اپنے بیٹے کو ایک جید عالم دین کی حیثیت سے دیکھنے کے متمنی تھے۔

تعلیم وتربیت

حضرت مولانا غلام رسول نے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ قران مجید صرف ونحو اور اصول فقہ کی ابتدائی کتب امر تسر کی مجد خیر الدین میں واقع مدرسہ نعمانیہ میں پڑھیں۔ بعد ازاںجامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں علامہ مہر محمد سے فنون کی بقیہ کتب پڑھیں، اور یہیں سے دورۂ حدیث کرنے کے بعد سند فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔

پھر صحاح ستہ کی تکرار کی غرض سے لاہور سے بریلی شریف پہنچے اور حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ سے دوبارہ کتب احادیث مکمل طور پر پڑھیں۔

تدریسی زندگی

دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت کے بعد مولانا غلام رسول واپس لاہور تشریف لائے اور شرقپور شریف میں حضرت میاں شیر محمد رحمۃ اللہ علیہ کے درس تدریس کا آغاز فرمایا۔ یہاں مولانا غلام رسول نے چھ سال تک علوم اسلامیہ کا فیضان جاری رکھا۔

علاوہ ازیں آپ نے ہارون آباد، بصیر پور اور بورے والا میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ چار سال لاہور کی قدیمی درس گاہ حزب الاحناف میں منصب تدریس پر فائز ہے۔

اسی دوران مولانا غلام رسول جامع مسجد خراسیاں اندرون لوہاری دروازہ لاہور میں خطیب مقرر ہوئے۔ مسجد ملحقہ ایک باغ (باغیچی نہال چند) میں ایک اسلامی درس گاہ بنانے کا ارادہ فرمایا۔ اس باغیچی میں ہر وقت کھیل ہوتا تھا۔ یہ باغیچی چرس دبھنگ پینے والوں کا اڈہ تھی۔ غرضیکہ کوئی ایسی برائی نہ تھی جو اس جگہ نہ ہوتی ہو۔ لیکن مولانا غلام رسول نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے یہاں جامعہ نظامیہ رضویہ کے نام سے ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی جو آج بحمداللہ پاکستان کی مرکزی درس گاہوں میں سے ایک ہے۔

جامعہ رضویہ مظہر اسلام میں

جامعہ نظامیہ رضویہ نے ابھی اپنی زندگی کے چھ سال ہی طے کیے تھ ے کہ محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد رضوی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا۔ اس حادثہ فاجعہ سے جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں ایک ایسی علمی شخصیت کی ضرورت محسوس ہوئی جو سابقہ بنیادوں پر کام چلاسکے۔ حضرت مولانا غلام رسول حضرت محدثِ اعظم پاکستان رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہونے کے علاوہ داماد بھی ہیں، اور علم وفضل میں ایک اجل فاضل ہیں۔ اس لیے آپ نے جامعہ نظامیہ رضویہ نظامت اپنے قابل مخلص اور محنتی تلمیذ رشید علامہ مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس (اہلسنت) پاکستان کے سپرد کی اور خود جامعہ رضویہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے فرائض انجام دینےلگے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

تصانیف وتراجم

حضرت مولانا غلام رسول کا سارا وقت درس وتدریس میں گزرتا ہے، تاہم آپ نے وقت نکال کر بعض کتب کا ترجمہ اور بعض درسی کتب پر گرانقدر حواشی تحریر فرمائے جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ ترجمہ جواہر البحار شریف (مطبوعہ) ۲۔ جامع کرامات اولیاء

۳۔ حاشیہ مسلم الثبوت (مطبوعہ) ۴۔ حاشیہ کنز الدقائق (غیر مطبوعہ)

۵۔ حاشیہ سلم العلوم (غیر مطبوعہ) ۶۔ تفہیم البخاری (مطبوعہ)

علاوہ ازیں اور بھی کئی کتب پر حواشی تحریر فرمائے جو غیر مطبوعہ ہیں۔

بیعت وخلافت

حضرت مولانا غلام رسول نے بریلی شریف قیام کے دوران حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کے دستِ حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا [1]۔ اور حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے جمیع سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی [2]۔ مزید براں حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ سے بھی اجازت بیعت حاصل ہے۔

چند تلامذہ

مولانا غلام رسول سے کثیر تعداد میں تشنگان علوم اسلامیہ نے فیض حاصل کیا۔ جن میں سے چند مشہور علماء کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:

۱۔ مولانا حافظ احسان الحق، فیصل آباد

۲۔ مولانا مفتی امین فیصل آباد

۳۔ مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی لاہور

۴۔ مولانا انوار الاسلام (مکتبۃ حامدیہ) لاہور

۵۔ مولانا معین الدین شافعی، فیصل آباد

۶۔ مولانا عبدالقادر رحمۃ اللہ،فیصل آباد

۷۔ مولانا سید مزمل حسین شاہ، لاہور

۸۔ علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری لاہور

۹۔ مولانا گل احمد عتیقی، فیصل آباد

۱۰۔ مولانا الحاج محمد علی، لاہور

اولاد امجاد

مولانا غلام رسول کے چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں۔ صاحبزدوں کے نام یہ ہیں۔ صاحبزادہ محمد فضل حق، صاحبزادہ فضل الرحمان، صاحبزادہ فضل امام۔

۱۹۷۸ء میں جماعت اہل سنت کی تنظیم کے موقع پر جماعت کی صوبائی شاخ صوبائی پنجاب کے صدر مقرر ہوئے [3]۔


[1] ۔ محمد صدیق ہزاروی، مولانا: تعارف علمائے اہلسنت ص ۲۳۳تا۲۳۴

[2] ۔ محمد جلال الدین قادری، مولانا: محدث اعظم پاکستان ص ۵۵

[3] ۔ محمد صدیق ہزاروی، مولانا: تعارف علمائے اہلسنت ص ۲۳۵
 
نوٹ: حضرت شیخ المحدثین علامہ مولانا غلام رسول رضوی صاحب کا وصال ۲۷ شعبان المعظم ۱۴۲۲ہجری بمطابق۱۴ نومبر ۲۰۰۱ء صبح تقریباً سوا آٹھ بجے بروز بدھ کو ہوا۔

تجویزوآراء