خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی

 

خطیب پاکستان ، مقرر شیریں زبان حضرت مولانا حافظ محمد شفیع اوکاڑوی بن حاجی کرم الہی شیخ ( جو کہ پنجاب کی معزز شیخ برادری سے تعلق رکھتے تھے ) ۱۹۲۹ء کو کھیم کرن مشرقی پنجاب ( بھارت ) میں تولد ہوئے ۔

تعلیم و تربیت:

آپ نے اسکول میں مڈل تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد اپنے خاندان سے کھیم کرن سے اوکاڑا( پنجاب پاکستان ) منتقل ہو گئے تو یہاں دارالعلوم اشرف المدارس میں شیخ القرآن حضرت علامہ غلام علی اوکاڑوی ؒ سے اور بعد میں مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان میں غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی ؒ سے علوم دینیہ اور حدیث کی تکمیل کر کے سند حاصل کی ۔

بیعت :

چونکہ آپ کے والد گرامی آستانہ شرق پور شریف ( ضلع شیخوپورہ ) شیخ طریقت ، ولی کامل حضرت میاں شیر محمد صاحب سے شرف بیعت رکھتے تھے اس لئے وہ آپ کو بھی کچھ بڑے ہونے پر اپنے مرشد خانہ لے گئے اور وہاں کے اس وقت کے سجادہ نشین حضرت میاں غلام اللہ صاحب ( المعروف حضرت ثانی صاحب ) کی خدمت میں پیش کیا اور بیعت کرنے کی درخواست کی جس کو آپ نے قبول فرماتے ہوئے آپ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت فرما لیا۔

امامت وخطابت :

۱۹۴۷ء میں آ پ اپنے والد کے ہمراہ کھیم کرن سے اوکاڑا آکر آباد ہو گئے یہاں آنے کے بعد جامع مسجد مہاجرین منٹگمر ( ساہیوال ) میں آپ نے نماز جمعہ کی خطابت شروع کر دی اور ساتھ ہی ساتھ برلد ہائی اسکول اوکاڑہ میں دینیات کے معلم کی حیثیت سے تدریس کا کام بھی شروع کر دیا۔ ۱۹۵۵ء میں کراچی کے مذہبی حلقوں کے اصرار پر آپ کراچی تشریف لے آئے اور یہاں کی سب سے بڑی مرکزی مسجد نیو میمن ( بولٹن مارکیٹ) میں ایک عرصہ تک بحیثیت خطیب و امام کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ اس کے بعد تقریبا تین سال جامع مسجد عید گاہ میدان ( جامع کلاتھ ) میں ، سوادو سال جامع مسجد آرام باغ میں ، اور بارہ سال جامع مسجد نور ( نزد جوبلی سینما) میں آپ نے اپنی خطابت سے مخلوق خدا کو فیضیاب کیا۔

قیام مدارس :

آپ نے علوم مصطفی ﷺ کی نشر و اشاعت کیلئے کراچی میں مختلف مقامات پر مدارس دینیہ اور مساجد اہل سنت قائم فرمائی ۔ جس میں ۱۹۶۴ء میں پی ای سی ایچ سوسائٹی میں مسجد غوثیہ ( ٹرسٹ ) سے ملحق دارالعلوم حنفیہ غوثیہ کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم فرمایا۔ اس کے علاوہ ۱۹۷۲ء میں ڈولی کھاتہ ( سولجر بازار ) جواب گلستان اوکاڑوی کے نام سے موسوم ہے یہاں ایک قطعہ زمین پر جو گذ شتہ سوبرس سے مسجد کیلئے وقف تھا آپ نے اس پر تعمیر مسجد کا آغاز فرمایا اور اسی مقام پر ہر جمعہ خطاب فرمانا شروع کر دیا۔ آپ نے وہاں ایک ٹرسٹ قائم فرمایاجس کا نام گلزار حبیب ٹرسٹ رکھا جس کے آپ بانی اور سر براہ تھے اس ٹرسٹ کے زیر اہتمام آپ نے جامع مسجد گلزار حبیب اور اس سے متصل مدرسہ جامعہ اسلامیہ گلزار حبیب کے نام سے بنانے کاآغاز فرمایا۔

جامع مسجد بہار مدینہ ( لیاقت مارکیٹ ملیر ) کا سنگ بنیاد بھی آپ نے اپنے ہاتھ سے رکھا تھا۔

تبلیغی دورے :

پاکستان کا کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جو آپ کی خطابت کی سحر انگیزیوں سے مسحور نہ ہوا ہوحتیٰ کے مشرق اوسط اور خلیج کی ریاستوں ، بھارت ، فلسطین ، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں جلسہ عام میں خطاب کیا۔ لاڑکانہ میں مدینہ مسجد جیلس بازار اور ٹانگہ اسٹینڈ پر جلسوں میں خطاب کیا ، عمر کے آخری حصہ میں لاڑکانہ کی سب سے بڑی مسجد جامع مسجد قاسمیہ قدیم عید گاہ میں کنز الایمان کی اہمیت و انفرادیت کے موضوع پر خطاب فرمایا۔

بے مثال خطیب :

آپ کی آواز صاف فصیح و بلیغ، انداز منفر د ہوا کرتا تھا جس موضوع پر بات کرتے عقلی و نقلی دلائل سے بات کو واضح کرنے کا خوب فن جانتے تھے اور بات سمجھانے کا طریقہ اثر انگیز دلپذیر ہوا کرتا تھا ۔ میلاد شریف ، رجب شریف ، گیارہویں شریف ، اعراس بزرگان دین اور دیگر مذہبی جلسوں کے علاوہ ماہ محرم میں مجالس ذکر شہادت بالخصوص شب عاشورہ سمیت مذہبی اجتماع میں آپ نے چالیس سال کے عرصہ میں تقریبا اٹھارہ ہزار سے زائد اجتماعات سے خطاب کیا جو کہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

یہی خوبیا ں ہیں جن کے پیش نظر عوام الناس میں مقبول تھے۔ آج بھی اسی عقیدت و احترام سے ان کی و ڈیوو آڈیو کیسٹ سنی جاتی ہیں ۔

تحریک ختم نبوت:

۵۳۔ ۱۹۵۲ء میں ملک پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ علماء اہل سنت کی زیر قیادت چلی ۔ آپ نے بھی محض حضور سید عالم ختمی مرتبت ﷺ کی عزت و ناموس کیلئے بھر پور حصہ لیا۔ حکومت نے گرفتار کر کے قید کر دیا۔ دس ماہ منٹگمری ( ساہیوال) جیل میں رہے ۔ اسیری کے ایام میں حضرت مولانا کے دو بیٹے تنویر احمد اور منور احمد جن کی عمر بالترتیب تین سال اور ایک سال تھی انتقال کر گئے۔ یہ دونوں مولانا کے پہلے بیٹے تھے۔ ان کی وفات کے سبب گھریلو حالات پریشان کن تھے۔ کچھ با اثر لوگوں نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال سے مل کر سفارش کی ۔ ڈپٹی کمشنر نے جیل کا دورہ کیا۔ گرفتار شدگان سے ملاقات کی اور مولانا اوکاڑی کو بالخصوص الگ بلا کر کہا کہ بچوں کی وفات کی وجہ سے آپ کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ میرے پاس آپ کے لئے بہت سی سفارشیں ہیں ۔ آپ معافی نامے پر دستخط کردیں ۔ آپ کا معافی نامہ عوام سے پوشیدہ رکھا جائے گا اور آ ج ہی آپ کو رہا کر دیا جائے ’’مولانا نے جوابا کہا کہ ‘‘ میں نے عزت و ناموس مصطفی ﷺ کیلئے کام کیا ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ آخری نبی ہیں ۔ لہذا معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بچے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، میری جان بھی چلی جائے تب بھی اپنے عقیدے پر قائم رہوں گا اور معافی نہیں مانگوں گا۔ ’’ اس جواب پر انتظامیہ برہم ہوئی اور مزید سختی کی گئی دفعہ ۳ میں نظر بند کر دیا گیا ۔ اور ملاقات وغیرہ پر بھی سختی سے پابندی لگا دی۔ مولانا نے جیل میں صبر و استقلال سے تمام صعوبتیں برداشت کیں ۔

قاتلانہ حملہ :

مخالف آپ کی تقریروں سے بو کھلانے لگے کیوں کہ ہزاروں بھٹکے ہووٗں کی اصلاح عقائد ہو رہی تھی اس لئے ۱۶، اکتوبر  ۱۹۶۲ء میں کراچی کے علاقہ کھڈہ مارکیٹ ( لیاری ) میں ایک سازش کے تحت اختلاف عقائد کی بنا پر وہابیوں کے کچھ درندوں نے محض تعصب کا شکار ہو کر دوران تقریر مولانا اوکاڑوی پرچھریوں اور چاقوں سے شدید قاتلانہ حملہ کیا جس سے آپ کی گردن ، کندھے ، سر اور پشت پر پانچ نہایت گہرے زخم آئے۔

انگریزی روزنامہ ’’ ڈیلی نیوز‘‘ کا پہلا شمارہ ان ہی دنوں جاری ہواجس کی بڑی سرخی مولانا پر قاتلانہ حملے سے متعلق تھی۔ مولانا ڈھائی مہینے سول ہسپتال کراچی میں زیر علاج رہے اور ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی پھر تبلیغ دین میں مصروف ہو گئے ۔ اس قاتلانہ حملے کے خلاف ملک بھر بالخصوص کراچی میں شدید احتجاج ہوا۔

سفر حرمین شریفین :

مولانا نے سولہ مرتبہ سفر حج و زیارت روضہ رسول ﷺ اور عمرہ کی سعادت سے مشرف ہوئے۔

تصنیف و تالیف :

آپ کی مندرجہ ذیل محققانہ تصانیف ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو کر قبولیت عام پا چکی ہیں :

٭     الزکر الجمیل فی حلیلۃ الحبیب الخلیل ( مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی و ضیاء القرآن پبلشرز لاہور )

٭     ذکر الحسین فی سیرۃ النبی الامین ﷺ ( مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی و ضیاء القرآن پبلشرز لاہور)

٭     برکات میلاد شریف ( مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی و ضیاء القرآن پبلشرز لاہور) 

٭     شام کر بلا ( مطبوعہ نورانی کتب خانہ کراچی و ضیاء القرآن پبلشرز لاہور )

٭     ا مام پاک اور یزید پلید

٭     ثواب العبادات الی ارواح الاموات

٭     تعارف علمائے دیوبند ۔ درس توحید ۔ راہ عقیدت ( سفر نامہ ) ۔ نماز مترجم ۔ سفینہ نوح ۲ حصے

٭     انگوٹھے چومنے کا ثبوت ۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ ۔ نغمہ حبیب (منتخب کلام ) نجوم الہدایت ۔ مسئلہ بیس تراویح ۔ مقالات اوکاڑوی اور راہ حق ( ندائے یا رسول اللہ ) وغیرہ

اولاد:

آپ نے ایک شادی کی اس میں سے تین بیٹے تولد ہوئے۔

۱۔      خطیب اسلام مولانا کو کب نورانی اوکاڑوی :سب سے بڑے صاحبزادے ہیں جو ماشاء اللہ والد صاحب کے بعد تقریر و تحریر میں اپنے والد کے صحیح جانشین اور شب و روز مسلک حقہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔

۲۔     ڈاکٹر محمد سبحانی   

بلجئیم سے ڈاکٹر یٹ کی اعلیٰ سند حاصل کی ہے۔

۳۔     حامد ربانی               

قلم و ادب سے گہری دلچپسی رکھتے ہیں ۔

وصال:

۱۹۷۴ء میں پہلی مرتبہ عارضہ قلب کی شکایت ہوئی مگر تبلیغی اور تنظیمی سر گرمیوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ ۱۹۷۵ء میں دوران سفر دوسری بار دل کا دورہ پڑا اسی حالت میں کراچی آئے اور تقریبا چھ ہفتے ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ ۲۰، اپریل ۱۹۸۴ء کو آخری خطاب جامع مسجد گلزار حبیب میں نماز جمعہ کے اجتماع سے کیا۔ اسی شب تیسری بار دل کا شدید دورہ پڑا اور قومی ادارہ برائے امراض قلب میں داخل ہوئے۔ تین دن بعد بروز منگل ۲۱، رجب المرجب ۱۴۰۴ھ بمطابق ۲۴، اپریل ۱۹۸۴ء کی صبح ۵۵ برس کی عمر میں اذان فجر کے بعد با آواز بلند درود شریف پڑھتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے ۔

۲۵، اپریل کو نشتر پارک کراچی میں شیخ الحدیث حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کی امامت میں ظہر کی نماز کے بعد بے شمار افراد نے خطیب پاکستان کی نماز جنازہ ادا کی۔ اسی سہ پہر مولانا مرحوم مسجد گلزار حبیب کے احاطے میں مدفون ہوئے اور اس ک ے بعد مزار کے اوپر ایک عالیشان گنبد بنایا گیا جو کہ مسجد گلزار حبیب ( ہولی فیملی ہسپتال سولجر بازار کراچی ) کے متصل مرجع عوام و خواص ہے۔ (ماخوذ: شام کر بلا مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء )

محترم ابو الطاہر فدا حسین فدا ( لاہور ) نے قطعہ تاریخ وصال کہا:

اے مبلغ!اے نقیب دیں!خطیب بے بدل!

مفتخر تجھ پر نہ ہوں کیوں اہل دیں بے قیل وقال

تابع فرمان حق تھا اور مطیع شرع و دیں

قاطع باطل رہا تیرا سدا فضل و کمال

لرز براندام تھا تجھ سے ہر اک باطل پرست

اے  کہ تیری ہر رگ وپے میں تھا جذب لازوال

ہو شفیع حق نوا پرنگہ فیضان و کرم

یا شفیع المذنبین! محبوب رب ذوالجلال

’’داد‘‘ سے لکھ اے ’’فدا‘‘ توان کا سال الوداع

’’خادم ختم رسل‘‘ فرما گئی روح بلال

۹۔۱۹۸۴ء

(انوار علماءِ اہلسنتِ سندھ)

تجویزوآراء