مولانا محمد رضا خاں

خانوادۂ امام احمد رضا محدث بریلوی کئی صدیوں سے علم وکمال کی حقیقی خدمات انجام دیتا چلا آرہا ہے۔ اس گھرانے کی علمی وفکری فتوحات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ آباوجداد سے لے کر اولاد واَحفاد تک مسلسل علم وفکرکی آبیاری ہوتی دکھائی دیتی ہے، اور معتقدات ونظریاتِ اہلِ سنّت کو مہر ِنیم روز کی طرح واضح وشفاف کردکھانے میں اس خاندان کے نوابغِ رجال نے جو سعیِ مسلسل اور جہادِ پیہم کیے ہیں، وہ بلاشبہہ بہت وقیع اور آبِ زرّیں سے رقم کرنے کے لائق ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے جدِّامجدامام العلماء مولانا رضا علی  خاں ، والدِ ماجدرئیس الاتقیاء مولانا نقی علی  خاں ،اورعظیم بیٹوں کے ساتھ آپ کے گمنام بھائی مولانا شاہ محمد رضا فاضل بریلوی بھی کشتِ علم وکمال کی آبیاری میں اپنا قائدانہ کردار اَدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح اس خانوادے کی ساری شاخیں ہمیں پھل دار اور رشکِ باغ وبہار دکھائی دیتی ہیں۔

        حضرت مولانا نقی علی خاں (سمبل) کی شخصیت علم واَدب کے حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ اپنے عہد کے ایک ممتاز عالمِ ربانی، بالغ نظر مفتی، خدارسیدہ ولی، دور اندیش مفکر، اور صاحبِ طرز ادیب تھے۔ جس طرح آپ نے اپنے والدِگرامی کے موروثی علمی خصائص وکمالات کے دائرے کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے وسیع سے وسیع ترکیا، اسی طرح آپ کے تینوں صاحب زادگان (اعلی حضرت مولانا احمدرضا، استاذِ زمن علامہ حسن رضااور مولانا محمدرضا بریلوی) نے بھی آپ کی وراثتِ علمی کو آگے بڑھانے میں اپنا سعادت مندانہ کردار اَدا کیا، اس طرح آج ہندوپاک ہی نہیں، بلکہ دنیا جہان میں اس علمی خاندان کے ہونہار سپوتوں کی وقیع خدمات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ سرِدست آپ کے فرزندِاصغر مولاناشاہ محمدرضابریلوی کی شخصیت کے حوالے سے یہاں چندباتیں سپردِ قرطاس کی جاتی ہیں۔

        آپ مولانا نقی علی خاں کے سب سے چھوٹے فرزندِارجمند تھے۔ بریلی کے ایک ایسے علمی خانوادےمیں آنکھ کھولی، جہاں کشتِ علم وفن سینچی جاتی تھی، اور جہاں فضل وکمال کے سکے ڈھالے جاتے تھے۔ اِبتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ کم سِنی کے عالم میں والدِ ماجد داغِ مفارقت دے گئے اور آپ فیض وکرمِ پدری سے محروم، حالتِ یتیمی میں پروان چڑھے۔[1] جب شعور کی آنکھیں کھلیں تو برادرِ بزرگ کی فیض بخش درس گاہ اورشخصیت سازتربیت گاہ سے وابستہ ہوگئے اور وہاں سے فردِ فرید اور جوہرِِ کامل بن کر اُٹھے۔

        مشفق بھائی کی بہترین تعلیم وتربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ایک بالغ نظر فاضل اور پختہ فکرعالم بن کر منصۂ شہود پر جلوہ گرہوئے۔ بلندیِ فکر اورگرمیِ طبع میں آپ اپنی نظیرتھے۔ علومِ معقول ومنقول خصوصاً علم الفرائض میں آپ مہارتِ تامہ اوریدِطولیٰ رکھتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ دارالافتاء  بریلی کا جب دیارواَمصار میں شہرہ ہوا، اور کثرت سے اِستفتا آنے شروع ہوگئے تو فرائض ومیراث سے متعلق مسائل کے فتاوٰی مولانا محمد رضا خاں ہی لکھاکرتے تھے۔[2]

        غلام علی خاں ساکن خواجہ قطب بریلی کی صاحب زادی سکینہ بیگم کے ساتھ آپ کا عقدِ مناکحت ہوا۔ شادی خانہ آبادی کے پُرکیف موقع پر اُستاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی (سمبل)نے فرحت واِنبساط میں ڈوب کر بڑے پیار سے اپنے برادرِعزیز کا سہرا لکھا، اور خوب لکھا، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے اَشعار کی رگوں میں محاسن بلاغت کے ذریعے برادرانہ محبت واُلفت، اور اِعتقادی رموز ونکات کا شفاف خون دوڑا دیاہو، اور پھر مقطع میں مولانا نے بڑے فخریہ انداز میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ‘ ایک بھائی کے لیے یہ بڑے اعزاز وشرف کی بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہی بھائی کا سہرالکھے’۔ آپ کے شاہ کارمجموعہ ‘ثمرِ فصاحت’ میں یہ موجود ہے۔ اس سہرے کے بعض اَشعار یہاں نمونتاً پیش کیے جاتے ہیں    ؎

(یہ سہرا شادی کتخدائی برادر بجان برابر مولوی محمد رضا خاں سَلَّمَہُ اللہُ تَعَالیٰ

کی تقریب میں کہا  گیا)

ہے مجھے تارِ رگِ جاں کے برابر سہرا
دیکھیں پھولوں کا جو نوشاہ کے سر پر سہرا 
بلبلیں گاتی ہوئی آئیں نہ کیوں کر سہرا
گندھنے سے پہلے ہی سب پھول ہنسے دیتے ہیں
آج پھولا نہ سمائے گا مقرر سہرا
چاند سے مکھڑے نے چمکائی ہے اس کی تقدیر 
عقدِ پرویں کو خجل کر دے نہ کیوں کر سہرا
تیرے دیدار کی مشتاق ہے چشمِ اختر  
دیکھ لے سوئے فلک منہ سے ہٹا کر سہرا
جلوہ گر سامنے آئینۂ رُخ ہے ہر دم  
آج ہے اپنے نصیبے کا سکندر سہرا
ہے اسے عارضِ رنگیں کی نچھاور لینی
فصلِ گل لائی ہے پھولوں کا سجا کر سہرا
بارشِ نور برابر ہے ترے چہرے پر
 یعنی اک اور بھی ہے سہرے کے اوپر سہرا
سانپ دشمن کے کلیجے پہ نہ کیوں کر لوٹیں
  دیکھ کر باندھے ہوئے نوشہ کے سر پر سہرا
رشتۂعمر ہو یا رب مِرے نوشہ کا دراز
عرض کرتا ہے یہی سر کو جھکا کر سہرا
تیرے اَعدا کو رہے ذلّت و زحمت حاصل
فتح و نصرت کا ہمیشہ ہو ترے سر سہرا
تیرے دشمن کو ہو شادی میں بھی جلنا حاصل
چھوڑیں بارود کا بد خواہ کے منہ پر سہرا
اے حسنؔ خوبیِ قسمت سے یہ دن ملتا ہے
کہ  کہے  اپنے برادر  کا  برادر  سہرا [3]

        یہ رشتۂ اِزدواج بڑا بابرکت ثابت ہوا اور مولانا موصوف کو بڑی خوش گوار اور دینی زندگی فیضِ اَزل سے ارزانی ہوئی۔ عینِ شباب کے عالم میں وفات کرجانے کے باعث صرف ایک صاحب زادی فاطمہ بیگم آپ نے اپنے پیچھے یادگار چھوڑیں جو آپ کے چہیتے بھتیجے اور اعلیٰ حضرت کے نورِ دیدہ مولانا محمدمصطفیٰ رضا خاں سے منسوب ہوئیں۔ اس طرح آپ مفتیِ اعظمِ ہند (سمبل) کے عمِ محترم بھی تھے اور خسرِ معظّم بھی۔

ملک العلماء مولانا محمد ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں:

        حضرت مفتیِ اعظم مولانا مصطفیٰ رضا خاں صاحب کی شادی چھوٹے چچا جناب مولانا محمد رضا خاں صاحب کی اکلوتی صاحب زادی سے ہوئی؛ اسی لیے مولانا محمد رضا خاں صاحب عرف ننھے میاں نے ان کو اپنی اولاد کی طرح رکھا اور شادی کے بعد ان کا رہنا سہنا سب چچا جان کے مکان پر رہا،اور اِس وقت تک وہیں قیام فرما ہیں۔[4]

        آپ کی اس یادگار بیٹی سے سات بیٹیاں، اور ایک صاحب زادے انواررضا خاں ۶؍جمادی الاولیٰ ۱۳۵۰ھ میں تولّد ہوئے؛ مگر ابھی زندگی کی دو بہاریں بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ قاصدِ اجل آپہنچا، اور ۹؍محرم الحرام ۱۳۵۲ھ کوراہیِ ملکِ بقاہوگئے، اپنے پردادا مولانا نقی علی خاں کے پائنتی میں مدفون ہیں۔

        آپ علم وفضل میں ممتازہونے کے ساتھ خانگی معاملات اور حسنِ انتظامات میں بھی یکتاے دہر تھے۔ جب برادرِ بزرگ اعلیٰ حضرت کو آپ نے علمی مشاغل میں سرتاپاغرق اور فقہ وفتاوٰی میں ہمہ تن مصروف دیکھا توان کی خانگی اورجاگیری ذمّے داریوں کو اپنے ذمّۂ کرم پرلے لیا۔ اس طرح آپ قوتِ بازوئے اعلیٰ حضرت بن کر اپنی جاگیر کے علاوہ امام احمد رضاکی جاگیر کا انتظام وانصرام بھی کرنے لگے اور اعلیٰ حضرت کو بس خدمتِ دین اور فروغِ علمِ مبین کے لیے آزاد کردیا۔ اعلیٰ حضرت بھی جملہ امور میں آپ پر کلی اعتماد فرماتے تھے۔

        خانگی معاملات سے نبردآزما ہونے کے ساتھ آپ کی دینی دل چسپیاں بھی برقرار رہیں اور آپ نے اپنے علمی وتحقیقی کاموں میں کبھی کوئی کمی نہ آنے دی۔ ترکہ ووراثت کے پُرپیچ فتاوٰی تحریر کرنے کے علاوہ آپ برادرِ معظّم اعلیٰ حضرت کے مسوّدات پر نظر ثانی کرتے، ان کی تصنیفات کو ژرف نگاہی سے ملاحظہ کرکے پریس کے حوالے کرتے،اور پھر حسبِ ضرورت ان کی تصدیق وتائید بھی کردیتے تھے۔ چناں چہ امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے کثیررسائل وکتب پرآپ کی تائیدی وتصدیقی مہریں اس کا بیّن ثبوت ہیں۔

        آپ کو بہت قریب سے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ مصروف ترین زندگی گزارنے کے باوجود کبھی آپ سے کوئی نماز ترک نہ ہوئی، اور سنِ شعور سے لے کر عمر بھر آپ نے نماز جماعت سے اَدافرمائی، نتیجتاً اس دنیاکو خیرباد کہتے وقت آپ پر کوئی نماز روزہ قضا نہیں تھا۔ اہلِ علم کے لیے اس میں بھرپور عبرت اور بڑاسبق پوشیدہ ہے۔

        افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی،اور حیاتِ مستعار نے آپ کو بہت زیادہ مہلت نہ دی؛ ورنہ آپ اپنے علم وکمال کے عہدِ شباب میں یقیناً کسی رومی و رازیِ زمانہ سے کم نہ ہوتے۔ عینِ عالمِ شباب میں آپ کا پیمانۂ عمر لب ریز ہوگیا،اور جمعرات۲۱؍شعبان المعظّم ۱۳۵۸ھ، مطابق۵؍اکتوبر ۱۹۳۹ءکو آپ کی روح کالبدِعنصری سے پرواز کرگئی۔ آپ اپنے آبائی قبرستان میں جانبِ شرق لبِ سڑک دفن کیے گئے، جس پر مفتیِ اعظمِ ہند مصطفیٰ رضا خاں سے مقبرہ تعمیرکرایاتھا۔[5]

        جناب مولانا شاہ امجد رضا صاحب قادری نوری بریلوی نے آپ کے سانحۂ اِرتحالِ پُرملال کی روداد کو مایۂ ناز اخبار ‘‘الفقیہ’’امرتسر میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے، جسے یہاں من وعن نقل کردینا خالی از فائدہ نہ ہوگا  :

مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَم

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

        برادرِ عزیز! سلامِ مسنون!

 نہایت افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دیتا ہوں کہ میرے برادرِ معظم حضرت جناب مولانا مولوی شاہ محمد رضاخاں صاحب قبلہ قادری برادرِ خرد اعلیٰ حضرت مجدد مِاَۃِ حاضرہ مولانا مولوی مفتی حاجی حافظ قاری شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ قادری برکاتی بریلوی (سمبل)اور چھوٹے حقیقی چچا اور خسر حضرت جناب مولانا مولوی شاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں صاحب قادری فرزندِ دومِ اعلیٰ حضرت قبلہ (سمبل)نے تقریباً ایک سال علیل رہ کر ۲۱؍ شعبان المعظم ۱۳۵۸ھ یومِ پنج شنبہ کو رات کے دس بجے بعدِ نمازِ عشا نماز اَدا کرکے اِنتقال کیا۔ اِنَّالِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

        رات ہی رات میں حضرت مرحوم کے حادثۂ الیمہ کی خبر سارے شہرمیں پھیل گئی۔ صبح سے جوق در جوق مسلمانوں کی آمد شروع ہوگئی۔ تین بجے حضرت مرحوم کے مستقر سے جنازہ کمالِ احترام سے اٹھایاگیا، مسلمانوں کا اس قدر ازدحام تھا کہ کاندھا دینے والوں کو پلنگ تک پہنچنا دشوار تھا۔ جنازےکے آگے آگے مشہور نعت خواں حضرات اعلیٰ حضرت قبلہ (سمبل)کی مشہور نعت‘کروروں درود’ اور مقبول غزل ‘وہ سوے لالہ زار پھرتے ہیں’ اپنے مؤثِّر ودل کش لحن سے پڑھتے ہوئے چلتے تھے۔ حضرت مرحوم کے خاندانی قبرستان تک جہاں اپنے والدین کریمین کے پاس آپ کی تدفین عمل میں آئی۔

        نمازِ جنازہ حضرت مولانا مولوی محمد عبدالعزیز خاں صاحب محدث نے پڑھائی۔ حضرت صدر الافاضل جناب مولانا الحاج حکیم سیّد شاہ محمد نعیم الدین قادری مراد آبادی، حضرت جناب مولانا امجدعلی صاحب قادری رضوی، حضرت جناب مولانا عبدالعزیز خاں صاحب محدث، حضرت جناب مولانا محمد احسان الحق صاحب نعیمی بہرائچی، حضرت جناب مولاناسردار احمد صاحب قادری، حضرت جناب مولانااحمد یار خاں صاحب ایسے فضلاے عظام وعلماے کرام نے اذانیں پڑھیں۔ مجمع میں ہر درجے کے مسلمان موجود تھے۔ حضرت جناب مولاناابرار حسن صاحب اورحضرت جناب مولانامولوی مفتی نواب مرزا صاحب قادری رضوی غرضیکہ حضرات علماے اعلام کا بڑا شان دار مجمع تھا۔

        حضرت موصوف کے تقدس وفضائل کے اندازے کے لیے غالباً اتنا لکھنا کافی ہوگا کہ سنِ شعور سے عمر بھر نماز جماعت سے اَدافرمائی،اور اس دنیاکو خیرباد کہتے وقت آپ پر کوئی نماز روزہ قضا نہیں۔ حضرت مولانا مرحوم کے انتقال کا جو صدمہ سارے خاندان کو ہوا ہے وہ لابیان ہے۔ اب بزرگوں میں کوئی باقی نہیں رہا۔ مولا (سمبل)حضرت مرحوم کے ورثا اور تمام اعزاے عظام کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، جن سے مجھے پوری دلی ہمدردی ہے۔

        اس وفاتِ حسرت آیات کی خبرکودرجِ اخبار کرنے کے بعد ایڈیٹرحکیم معراج الدین نے اس پر خصوصی تعزیتی نوٹ یوں تحریر کیا:

        الفقیہ:  ہمیں جناب قبلہ مولانا صاحب (سمبل) کی وفاتِ حسرت آیات سے جو رنج والم ہوا ہے وہ تحریر سے باہر ہے۔ افسوس ہے کہ دنیا ذواتِ قدسیہ سے خالی ہورہی ہے۔ میں حضرت مولانا صاحب (سمبل) کے فاضل ویکتاے روزگار عالمِ باعمل داماد وبھتیجے حضرت مولانا مولوی شاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں قبلہ قادری (سمبل) سے اس ناقابلِ تلافی صدمۂ عظیم میں دلی ہم دردی کا اظہار کرتے ہوئے دعاے مغفرت پڑھتا ہوں اور اپنے غفورٌرحیم خدا سے ملتجی ہوں کہ وہ آپ کو حادثۂ الیمہ میں صبر وشکر کی توفیق عطا فرمائے، اورحضرت مرحوم کوجنَّاتِ عالیات کرامت فرمائے۔[6]

 

 

 

[1]               ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری (سمبل)نے حیاتِ اعلیٰ حضرت میں مولانانقی علی خاں کے تلامذہ ومستفیدین کی جوفہرست دی ہے اس میں مولانا محمدرضا خاں کوبھی شمار کیا ہے،حالاں کہ والدِ ماجدکے وصال کے وقت آپ مشکل سے کوئی چار سال کے رہے ہوں گے۔ ہاں! یہ ہوسکتا ہے کہ مولانا نقی علی خاں نے آپ کی رسمِ بسم اللہ کرائی ہو تو اس اِعتبار سے آپ کو ان کےتلامذہ میں شامل مان لیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔

[2]               مولانا نقی علی خاں حیات اور علمی واَدبی کارنامے، ازڈاکٹرمحمد حسن:ص۵۹۔

[3]               ثمرِفصاحت،ازمولاناحسن رضا بریلوی:ص۱۷۱،مطبعِ اہلِ سنّت وجماعت، بریلی۔

[4]               حیاتِ اعلیٰ حضرت:۱؍۱۸مطبوعہ:مکتبۂ رضویہ، فیروزشاہ اسٹریٹ، آرام باغ، کراچی۔

[5]               مولانا نقی علی خاں حیات اور علمی واَدبی کارنامے:ص۵۹۔

[6]               اخبارالفقیہ، امرتسر: ص:۴۔کالم:۱-۳،بابت ۱۴؍اکتوبر۱۹۳۹ء،بحوالہ ُوفیات الفقیہ معروف بہ تذکرۂ مشاہیر الفقیہ’،  مرتّبۂ محمد افروز قادری چریاکوٹی۔

(حضرت علامہ مولانا محمد رضا خان بریلوی،انجمن ضیاء الدین)

 

تجویزوآراء