قدوۃ المحققین علامہ مولانا غلام محمود قدس سرہ  (محشی تکلمہ عبد الغفور)

 

          امام معقولات و منقولات ، فاضل ریاضیات ، ادب عربی کے بلند پایہ ادیب، فقہ حنفی کے متجر فاضل ،سیبویہ زمانہ مولانا غلام مھمود ابن نورنگ بن محمد باقر ، بمقام قصبہ وانڈہ محمد خاں ضلع میانوالی میں ۱۲۸۲ھ؍۱۸۲۵ء میں پیدا ہوئے ،اسی جگہ حافؓ محمد مرزا سے قرآن مجید حفظ کیا۔فارسی اور صرف کی کتابیں اور نحو ، عروض اور قوانی کی عض کتابیںم ولانا سلطان محمود بندیالوی (بندیال،ضلع سرگودھا) سے پڑھیں ۔کتب نحو کی تکمیل مولانا فیض محمد شاہ جمالی (قصبہ شاہ جماہ ،ملتان )سے کی ،فنون کی کتابیں جامعہ نعمانیہ ،لاہور میں مولانا گلام احمد حافظ آبادی سے پڑھیں ،کتب ریاضی میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے استفادہ کیا ، درس حدیث مولانا محمود حسن شیخ الحدیث دیوبند سے لیا ، ۱۹۰۲ء کو فارغ التحصیل ہو کر پیلاں (لیاقت آباد ،ضلع میانوالی ) میں تدریس کا کام شروع کیا ، ۱۹۰۷ء میں مکھڈ شریف ضلع کیمبلپور تشریف لے گئے ، اسی دور میں حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔ تین سال وہاں قیام کیا، اس کے بعد تین سال چکی شیخ (ضلع کیمبلپور ) اور تین سال وطن قیام پذیر رہے اور تینسال نڑھاں ضلع ملتان میںکام کیا پھر واپس آکر پیلاں میں دار العلوم محمودیہ یہ قائم کیا اور تمام عمر دینیہ کی خدمت میں صر ف کردی۔

          آپ کو تمام علوم دینیہ میں زبردست عبور ھاصل تھا ، خاص طور پرصرف ونحو ، فقہ واصول ، ادب عربی ، ہیئت ، ربع المجیب ، ربع المقضطرہ اور زیج وغیرہ میںکمال دسترس رکھتے تھے۔ آپ کے تلامذہ اکثر و بیشتر علم و عرفان کے ماہتاب بن کر چمکے ، ملک المدرسین مولانا عطا محمد چشتی گولڑوی مدظلہ العالی زیب مسند تدریس دار العلوم مظہر یہ امدادیہ ، بندیال ضلع سرگودھا اور حضرت مولانا پیر سید محمد کرم شاہ بھیروی فاضل جامعہ ازہر ،مدیر اعلیٰ ماہنامہ ضیائے حرم آپ ہی کے فیض یافتہ ہیں۔

آپ کی تصنیفات تحقیق و تدقیق کے اعلیٰ شاہکار ہیں ، چند ایک کے نام یہ ہیں:۔

۱۔       نجم الرحمن : علم غیب کے موضوع پر فاضلانہ تالیف ۔

۲۔      ارمغان شاداں: گرائمر فارسی ، (نحو اور ریاضی میں بھی رسائل لکھے ہیں)

۳۔      تحفۂ سلیمانیہ : آفتاب پنجاب مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی کے تکملہ عبد الغفور کا حاشیہ ،

          تکلمہ عبد الغفور نحو کی نہایت ادق کتاب ہے ، اس سے پہلے اس پر کوئی مستقل حاشیہ نہ تھا ، یہ پہلا مستقل حاشیہ ہے جس میں سلیس اور شگفتہ عربی عبارت میں اس کے مطالب کی تشریح اس خوبی سے کی ہے کہ بے ساختہ علامہ تفتازانی کی وقت نظراور تحریر کی فصاحت کا نقشہ سامنے آجات ہے۔

          ۲۳؍رمضان المبارک ،یکم اگست ( ۱۳۶۷ھ؍۱۹۴۸ئ) کو آپ کا وصال ہوا، آپ کے صاحبزادے مولانا علامہ محمد حسین شوق،دار العلوم محمودیہ میں تدریس علوم وفنون میں مصرف ہیں[1]

 

 

 

[1] غلاممہر علی ، مولانا : الیواقیت المہریہ ص ۳۰۔۲۱

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء