شیخ الادب حضرت مولانا تاج محمد آریجوی
شیخ الادب حضرت مولانا تاج محمد آریجوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا تاج محمد بن میر خان کھوکھر گوٹھ خیرمحمد آریجہ(تحصیل ڈوکری ضلع لاڑکانہ) میں۱۳۲۳ھ بمطابق ۱۹۰۴ء کو تولد ہوئے
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم خلیفہ اللہ رکھیہ میر بحر اور خلیفہ خدا بخش میر بحر سے حاصل کی۔ تحصیل قمبر (ضلع لاڑکانہ) کے گوٹھ ٹھوڑھو میں مولانا کریم داد چانڈیو کے پاس فارسی کا اغاز کیا۔ اس کے بعد سندھ کی عطیم دینی درسگاہ ’’دارالفیض‘‘ گوٹھ سونہ جتوئی (ضلع لاڑکانہ) میں باقاعدہ داخلہ لے کر تعلیم کا آغاز کیا۔ وہیں درس نظامی کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔
علم منطق کبریٰ، فلسفہ، حکمت اور علم ادب کے حصول کیلئے لاہور کی نامور دینی و قدیم درسگاہ دارالعلوم نعمانیہ میں داخلہ لیا۔ بعد ازاں دیگر وزیر آباد (گجرات) اور ضلع گجرات (پنجاب) کے گوٹھ کٹھالہ شیحان، ضلع شاہ پو رکے گوٹھ بکھربار میں نامور حکیم مولانا عبدالرسول کے پاس میزان طب، طب اکبر، قانونچہ، جوجز نفیسی اور شرح اسباب جیسی طبی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد گھر واپس لوٹے۔
مدرسہ کا قیام:
بعد فراغت اپنے گوٹھ خیر محمد آریجہ میں ۱۴ ، شوال المعظم ۱۳۴۷ھ بمطابق۱۹۳۰ء کو ’’مدرسہ شمس العلوم‘‘ کی بنیاد رکھی، ایک استاد کو مدرس مقرر کرکے خود حصول علم کیلئے پنجاب کا رخ کیا، وہیں سے بعد فراغت مدرسہ میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔
حرمین شریفین کا سفر:
مولانا تاج محدم نے حج بیت اللہ اور روضہ رسول مقبول ﷺ کی حاضری کی نیت سے حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔ حج و زیارت کے بعد مدینہ منورہ میں علامہ عبدالرئوف مدنی ازہری، علامہ عبدالعزیز جرمونی اور علامہ عمر حمدان (صدر مدرس صولتیہ مکہ) سے صحاح ستہ کا درس لیا۔ اور علامہ عبدالباقی لکھنوی مہاجر مدنی سے علمی سندیں حاصل کیں۔ شیخ القراء قاری حسن شاعر مدنی سے علم تجوید حاصل کیا اور مکہ مکرمہ میں بھی قاری اسحاق (مدیر مدرسہ عثمانیہ) قاری امین کتبی (مدیر مدرسہ الفلاح) اور قاری احمد حجازی سے بھی تجوید کی تعلیم حاصل کی۔
بیعت و خلافت:
عامہ تاج محمد نے دوران حج مسجد الحرام کے صحن میں حضرت مولانا رحمت اللہ صدیقی قریشی خانقاہ اتمانزئی شریف تحصیل چار سدہ ضلع پشاور) کی زیارتے سے باریاب ہوئے۔ مولانا پیر صاحب سیبہت متاثر ہو کر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مین دست بیعت ہوئے۔ پیر صاحب نے مولانا کو خلافت اور اوراد و وظائف کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔
عقیدت:
مولانا کو حضور قبلہ عالم ، امام العارفین ، تیرہویں صدی کے مجدد حضرت پیر سائیں روضے دھنی قدس سرہٗ الاقدس (درگاہ شریف راشدیہ کنگری) سے دلی عقیدت و محبت تھی۔ اسی عقیدت نے رنگ دکھایا کہ مولانا نے ایک کتاب مسمیٰ ’’فیض پیر سائیں روضے دھنی‘‘ مرتب فرمائی۔
اس کتاب میں مولانا نے کامل مرشد کیلئے سات شرائط کا بیان کیا ہے اور ہر ایک شرط کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کیا ہے اور آخر میں بتایا ہے کہ سات شرائط حضرت پیر سائیں امام العافرین روضے دھنی بادشاہ علیہ الرحمۃ اور دیگر سجادہ نشین پیران پگارہ تا امام انقلاب ، بانی حر تحریک حضرت پیر سید محمد صبغت اللہ شاہ راشدی شہید قدس سرہٗ تک تمام میں پائے جاتے ہیں۔
جامعہ ازہر مصر کا علمی دورہ:
مولانا تاج محمد نے علمی دورہ کیلئے مصر کا سفر اختیار کیا اور قاہرہ کی بین الاقوامی درسگاہ ’’جامعۃ الازہر‘‘ میں چھ ماہ علمی دورہ کیا۔ وہاں بھی اپنی اعلیٰ ذہانت کے نقش چھوڑے ہیں، جامعہ کے منتظمین آپ سے بہت متاثر ہوئے اور معلم کی حیثیت سے خدمات حاصل کرنا چاہیں لیکن آپ نے معذرت کرلی اور وطن واپس آگئے۔
سیاسی بصیرت:
علامہ تاج محمد نے عملی سیاست میں حصہ تو نہیں لیا لیکن وقت بوقت پاکستان کے حکمرانوں تک اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔ مولانا نے ’’جماعت نور الاسلام‘‘ کے نام سے ایک تنظی مبنا رکھی تھی جس کے وہ صدر تھے۔ جس کے تحت ۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ایک خط تحریر کیا جس مین بانی پاکستان نظام مصطفی کے نفاذ کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری کی جانب سے مولانا کو جواب موصول ہوا جس میں اطمینان دلایا گیا، اسی طرح گونرجرل ناظم الدین کے نام بھی مولانا نے تفصیلی خط تحریر کیا جس میں ملک میں نظام مصطفی ﷺ کے نفاظ کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس تفصیلی خط میں ارکان اسلام کے قیام کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی پباندی، چوری کی سزا، قصاص کو جاری کرنا ، بے حیائی و عریانیت کا سد باب اور شراب ، جوا ، رشوت کے مکمل خاتمہ کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
اس خط کے آخر میں مولانا تاج محمد رضائی رقمطراز ہیں:
’’جب تک مذکورہ باتوں پر عمل نہ ہوگا تب تک پاکستان اسم بامسمٰی نہ ہوگا یعنی اس کے قیام کا اصل مقصد حاصل نہ ہوسکے گا۔‘‘
یہ خط خوشخطی اور ڈیزائن کا بھی اعلیٰ نمونہ ہے ، مولانا نے اپنے قلم سے خوشخط بنایا (کتابت کی) اور ۶ صفر المظفر ۱۳۶۸ھ/۱۹۴۸ء کو چھپوا کر عام کیا۔
اس طرح قیام پاکستان کے بعد مولانا تاج محمد پہلے سنی عالم ہیں جنہوں نے پاکستان سے نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کا سب سے پہلے مطالبہ کیا۔
شاعری:
مولانا کو شاعری سے بھی دلچسپی تھی۔ عربی، فارسی، سندھی اور اردو مٰں آپ کا نعتیہ کلام دستیاب ہے۔ آپ نے ’’رضائی‘‘ تخلص استعمال کیا ہے ۔ آپ کی نعتیہ شاعری کی جمع و ترتیب کا کام باقی ہے۔
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں کی فہرست میں نامور علماء کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱۔ مولانا مفتی محمد صالح نعیمی بھٹو مرحوم بانی مدرسہ نعیمیہ لارکانہ
۲۔ مولانا عبدالصمد میتلو مرحوم سابق مدرس جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ
۳۔ مولانا عبدالرحمن شہڑ مرحوم (تحصیل ڈوکری) سابق مدرس درگاہ ہمایوں شریف
۴۔ مولانا محمد قاسم کلہوڑو (تحصیل قمبر) صدر مدس مدسہ عطائیہ نصیر آباد ضلع لاڑکانہ
۵۔ مولانا مفتی الھہ ڈنہ جمارانی سابق مدرس جیلانیہ لاڑکانہ
۶۔ مولانا محمد اسحاق چنہ مرحوم سابق خطیب جامعی مسجد پولیس ہیڈ کوارٹر لاڑکانہ
تصنیف و تالیف:
مولانا تاج محمد آریجوی کو تصنیف و تالیف سے بھی دلچسپی تھی اسلئے درج ذیل کتابیں تحریر کیں، لیکن اکثر کتابیں ابھی تک قلمی صورت میں ان کے ورثا کے پاس ہیں:
۱۔ تحفہ حسینی اس وقت کے کلیکٹر (آج کے ڈی سی ) سید الطاف ترمذی کے استفسار پر سندھ کے اہم موضوع کاروکاری پر تحریر کیا۔ طباعت کی تاریخ ۲۲ جمادی الاول ۱۳۷۶ھ/۱۹۵۶ء ہے
۲۔ کواکب دریۃ در نظم فارسی رسالہ جزریہ (قلمی) تجوید و قرأت پر ۱۳۷۱ھ میں تحریر کیا
۳۔ سیف الرسول (عربی، قلمی)
۴۔ نور البصر (سندھی قلمی) استمداد کے موضوع پر وہابیت کا رد بلیغ
۵۔ فیض پیر سائیں روضے دھنی قدس سرہ الاقدس (سندھی قلمی)
۶۔ برحاشیہ تفسیر جلالین (سندھی، قلمی)
۷۔ شربت حسین (اردو، قلمی) اکابر وہابیہ مولوی احتشام الحق تھانوی اور مفتی شفیع دیوبندی (کراچی ) کے فتویٰ کا مدلل رد تحریر کیا۔ ارو یہی کتاب بعد میں ’’شہید صداقت‘‘ کے نام سے شائع کی گئی۔
۸ رنہما عربی (قلمی) ۹۔ رہبر فارسی (سندھی، قلمی)
۱۰) تحریر القوال فی تردید الطلاق المھوال (موضوع طلاق، قلمی)
۱۱) سبب ایجاب اربع رکعات بعد فرض الجمعۃ مرۃ بعد مرۃ (عربی ، قلمی ۱۳۵۸ھ کو مدینہ منورہ میں رسالہ تحریر کیا۔)
۱۲۔ تاج الفتاویٰ (تقریباً ۲ جلد قلمی) جس کی ترتیب و تدوین ابھی باقی ہے۔
اولاد:
مولانا کو ایک بیٹی اور تین بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ میاں نور اللہ کھوکھر
۲۔ نصر اللہ
۳۔ مولوی کرم اللہ
وصال:
علامہ تاج محمد آریجوی نے ۱۳ ، ذوالقعدہ ۱۳۸۲ھ بمطابق ۱۹۶۳ء میں معمولی بیماری کے سبب ساٹھ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آخری آرامگاہ گوٹھ خیر محمد آریجہ (ضلع لاڑکانہ) کی جامع مسجد کے زیر سایہ کامل ولی اللہ حضرت مخدوم شہاب الدین منگریو علیہ الرحمۃ کے گنبد میں واقع ہے۔
[محترم مولانا غلام مجتبیٰ سندیلو صاحب نے فقیر راشدی کے اصرار پر مولانا آریجوی پر ایک تفصیلی مقالہ تیار کیا۔ یہ مضمون اکثر اسی قلمی سندھی مقالہ سے ماخوذ ہے۔]
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)