حضرت مولانا مفتی علی بخش قاسمی
حضرت مولانا مفتی علی بخش قاسمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا مفتی علی بخش قاسمی بن حاجی امید علی چانڈیو ۔ نام علی بخش ، قوم چانڈیو بلوچ ، کنیت ابوالمختار ، تخلص بخش ، نسبت قاسمی اور مشرب قادری ۔ آبائی گوٹھ پیر تر ہو (تحصیل و ضلع دادو سندھ ) ۱۳۶۴ھ یا ۱۳۶۵ھ ؍ ۱۹۴۳ء یا ۱۹۴۴ء کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
قرآن مجید ناظرہ اور سندھی پرائمری کی تعلیم اپنے آبائی گوٹھ میں حاصل کی۔ ۱۸، ۱۹سال کی عمر میں ۱۳، ربیع الاول ۱۳۸۳ھ بروز اتوار سندھ کی عطیم دینی درسگاہ جامعہ عربیہ قاسم العلوم درگاہ مشوری شریف (ضلع لاڑکانہ ) میں داخلہ لیا اور بدھ کے روز پہلا سبق لیا ۔ ابتدائی کتابیں دیگر اساتذہ سے پڑھیں ۔ متوسط اور آخری کتابیں تاج العارفین ، فقیہ الاعظم ، استاد الاساتذہ شیخ الحدیث ، بحر العلوم علامہ الحاج مفتی پیر محمد قاسم المثوری قدس سرہ سے پڑھ کر درس نظامی کی تکمیل کی۔ ۱۴،شوال المعظم ۱۳۸۹ھ بمطابق ۲۵، دسمبر ۱۹۶۹ء کو درگاہ مشوری شریف پر دستار فضیلت سے مشرف ہوئے ۔
بعد فراغت اپنے استاد محترم کے حضور میں کئی برس رہ کر تدریس میں ملکہ اور فتاویٰ نویسی میں کمال حاصل کیا۔
بیعت و خلافت:
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں حضور فیض گنجور سر کار مشوری قدس سرہ الاقدس کے دست اقدس پر بیعت ہو کر سلوک کی منازل طئے کیں اور اس کے بعد خلافت سے نوا زے گئے ۔ آپ بچپن سے صوم و صلوۃ کے پابند تھے اور بعد بیعت طریقت پاک کے ذکر اذکار کے پابند رہے ۔ آپ کی صحبت سے کئی نوجوان متاثر ہو کر حضرت قبلہ عالم کے دست بیعت و نیک و صالح انسان بن گئے ۔
درس و تدریس :
اپنے استا دگرامی قدر کی زیر نگرانی مادر علمی سے تدریس کا آغاز کیا۔ اس کے بعد مختلف مقامات پر درس و تدریس کے ذریعہ علم کی روشنی پھیلاتے رہے ۔ ڈھائی سال مشوری شریف میں ، اس کے بعد اپنے آبائی گوٹھ میں درس دیا۔ مدرسہ سردارالعلوم باندھی (ضلع نواب شاہ ) میں دو سال درس دینے کے بعد دادو شہر مین مستقل رہائش اختیار کی ۔ جامع مسجد نورانی میں امامت و خطابت ککے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے ۔ جامع مسجد نورانی کے متصل ایک پلاٹ پر مدرسہ قائم تھا جس پر مخالفین قابض تھے آپ نے بڑی دلیری و جوان مردی سے وہ مدرسہ مخالفین کے قبضہ سے آزاد کرایا ۔ اس کے بعد پرانی بوسیدہ عمارت کو گرا کر ایک عالیشان ’’نورانی شاپنگ سینٹر ‘‘ بنوایا جو کہ انیس ۱۹ دکانوں پر مشتمل ہے۔ دکانوں کے اوپر چھت پر ’’دارالعلوم انوار الاسلام قاسمیہ ‘‘تعمیر کروایا ۔ جہاں زندگی بھر درس و تدریس ، فتاویٰ نویسی ، و دیگر تنظیمی و دینی معاملات طئے کرتے رہے ۔ دادو و مضافات کے ائمہ مساجد و علماء خطباء نے آپ سے بھر پور استفادہ کیا۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی طویل فہرست میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں :
۱۔ مولانا مفتی علی نواز قاسمی (صاحب تفسیر قاسمی ) دادو
۲۔ مولانا صاحبزادہ مختار احمد قاسمی خطیب جامع مسجد نورانی دادو
۳۔ مولانا ولی محمد قاسمی خطیب جامع مسجد ربانی دادو
۴۔ مولانا عبدالمجید قاسمی کراچی
۵۔ مولانا عبدالواحد قاسمی مہتمم دارالعلوم قاسمیہ
۶۔ مولانا محمد صادق
۷۔ مولانا امام الدین
۸۔ مولانا احمد خان قاسمی
تصنیف و تالیف :
تدریسی و تنظیمی ہمہ تن مصروفیات کی بناء پر باقائدہ تصنیف و تالیف کی جانب توجہ نہیں دے سکے ۔ البتہ ،
۱۔ مجموعہ فتاویٰ
۲۔ بیاض قاسمی ، آپ کی یاد گار ہیں ۔
عادا ت و خصائل :
مولانا ضلع دادو میں اہل سنت و جماعت کے شیر تھے۔ آپ نے جو اہل سنت و جماعت کے لئے خدمات انجام دی ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ آپ نے بعض مدارس و مساجد تعمیر و رجسٹرڈ کروائیں ۔ جماعت اہل سنت پاکستان صوبہ سندھ کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے تو تنظیم سازی کے لئے سندھ بھر میں طوفانی دورے کئے ۔ باطل کے خلاف شمشیر بے نیام تھے ، صلح کلیت کوزہر قاتل سمجھتے تھے ۔ ضلع دادو میں مرجع علماء و مشائخ تھے ۔ خوش طبع ، سراپا مہر و محبت ، عالم باطل، مہمان نواز ، سخی ، حق گو ، معاملہ فہم ، نفاست پسند ، سادگی پسند ، محب اہل بیت ، سادات کرام کے بچوں کے بھی ہاتھ چومنے میں سعادت اور ان کی محبت دنیا و آخرت کی عظمت کے مترادف سمجھتے تھے۔ شریعت و طریقت کے پاسدار، مسلک کے دردو جذبہ سے سرشار ، مسند تدریس کی زینت ، صاحب فتاویٰ و تقویٰ ، اور فنافی الشیخ تھے۔
سماجی خدمات:
حکومت کی جانب سے ضلع دادو کے زکوۃ و عشر کے چیئرمین بنائے گئے۔ آپ نے غریب ، بیوہ ، معذور ، یتیم وغیرہ کی خوب خدمت کی۔ آپ خدمت خلق کا جذبہ رکھتے تھے، غریبوں پر مہربان تھے ہمیشہ ان کے حق میں آواز بلند کی۔
مدارس اہل سنت کو رجسٹرڈ کروا کے ان کو گورنمنٹ سے گرانٹ منظور کروا کے دی ، اس طرح مدارس میں سیکڑوں زیر تعلیم غریب بچوں کا مستقبل روشن ہوا ۔
شادی و اولاد :
اپنے خاندان میں اپنے آبائی گوٹھ میں ۱۹۷۲ء کو شادی کی۔ جس سے ۷ بیٹے اور ۴ بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ سب سے بڑے بیٹے مولانا مختار احمدقاسمی صاحب جو کہ اپنے والد کے مسند نشین ہیں شب و روز درس و تدریس امامت خطابت و کتب بنیی میں مصروف ہیں ۔
وصال :
مولانا مفتی علی بخش قاسمی پر ۱۹۸۸ء میں فالج کا معمولی اٹیک ہوا ۔ علاج کروایا اس کے بعد طبیعت کافی بہتر ہوگئی ۔ فقیر راقم الحروف راشدی عیادت کے لئے دادو حاضر ہوا، طبیعت پہلے سے کافی بہتر تھی ، آمد پر نے انتہا خوشی کا اظہار کیا، محبت و خلوص سے پیش آئے ۔ دیر تک عشق و محبت کی محفل کو گرم رکھا بات بات پر رقت طاری ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسو کی نہ رکنے والی بارش تھی ۔ یہ بات لکھتے وقت آج بھی وہ منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔
علالت کے باوجود صوم و صلوۃ دیگر معمولات جاری رکھے ، چہرہ روشن و چمکدار تھا ۔
یکم ذوالقعدہ ۱۴۱۶ھ بمطابق ۲، مارچ ۱۹۹۶ء بروز بدھ علم و عرفان کا درخشندہ آفتاب غروب ہو گیا۔
آپ کی نماز جنازہ بس اسٹینڈدادو پر پیر طریقت ، غواص معرفت حضرت مولانا میاں علی محمد صاحب مشوری ؒ سجادہ نشین درگاہ مشوری شریف کی امامت میں ادا کی گئی ۔
آپ کی آخری آرام گاہ ، آپ کے آبائی گوٹھ پیر تر ہو میں واقع ہے۔
[مولانا فقیر مختار احمد صاحب قاسمی نے مواد بھجوایا جس سے سوانح مرتب کی گئی ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)