حضرت علامہ مفتی غلام محمد قاسمی لغاری
حضرت مفتی غلام محمد بن الحاج رسول بخش خان لغاری گوٹھ احمد خان لغاری
( تحصیل خیر پور ناتھن شاہ ، ضلع دادو سندھ ) میں ۱۹۲۴ء کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے گوٹھ میں حاصل کی۔ قرآن پاک ناظرہ اپنے نانا جان حافظ دوست محمد لغاری سے پڑھا۔ فارسی مکمل اور عر بی کی ابتدائی کتب مولانا حاجی محمد چھٹل لغاری کے گوٹھ میں مولانا ولی محمد لغاری سے پڑھیں ۔ درس نظامی کی بقیہ کتب مولانا عبدالحق ربانی کے پاس نصر پور ( ضلع حیدرآباد ) میں پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔ ۱۸ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہو کر پا پیادہ حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری سے سرور پایا اس کے بعد مکہ مکرمہ میں حدیث کا درس لیا۔
علم طب کا شوق دامنگیر ہوا جس کی تکمیل کے لئے نامعلوم استاد کے پاس قانونہ ( عربی ) موجز القانون ( عربی ) شرح اسبا ب والعلامات ، میزان الطب ( فارسی ) مفرح القلوب طب اکبر ( فارسی ) وغیرہ کتب کا درس لیا۔
حضرت فقیہ اعظم علامہ سرکار مشوری نور اللہ مرقدہ کی صحبت میں تفقہ فی الدین سے وافر حصہ پایا اور فتاویٰ نویسی سیکھی ۔
بیعت :
سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں حضرت فقیہ اعظم ، غوث الزمان ، عارف باللہ ، تاج العارفین علامہ مفتی الحاج محمد قاسم المثوری نور اللہ مرقدہ کے دست بیعت ہوئے۔
د رس و تدریس:
بعد فراغت درس و تدریس اور فتاویٰ نویسی کے عظیم مشغلہ سے وابستہ ہو گئے ۔ مدرسہ خیر العلوم ( خیر پور ناتھن شاہ ) کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ بانی مدرسہ مولانا سید محمد چھٹل شاہ لکیاری قاسمی آپ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے ۔
مدرسہ خیر العلوم میں عرصہ دراز تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائزرہے۔ اس کے بعد اپنے شیخ کامل کے حکم گرامی پر لاڑکانہ شہر کی مرکزی جامع مسجد قاسمیہ ( قدیم عید گاہ ) میں امام و خطیب اور صدر مدرس مقرر ہوئے۔ اس کے بعد حضرت الحاج اللہ آندل شیخ کے اصرار پر خیر پور میرس شہر میں مدرسہ انوار مجتبی میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے جہاں زندگی کے آخری تین سال درس و تدریس اور فتاویٰ نویسی میں بسر کئے ۔
سفر حرمین شریفین :
آپ نے اپنی زندگی میں سولہ بار حج بیت اللہ ادا کئے اور سولہ بار در بار رسالت ماب ﷺ میں حاضری دی اور درود و سلام کے گجرے پیش کئے ۔ سولہ بار کاسفر پیدل ، بحری اور ہوائی راستے ہوا۔
عادات و خصائل :
آپ کا چہرہ گلابی ، سر پر ہمیشہ عمامہ ، لباس شرعی ، شریعت مطہرہ کے پابند ، عالم با عمل ، شیرین کلام ، بااخلاق ، خندہ پیشانی ، عالمانہ وقار اور سماجی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ طلباء کو اولاد کا درجہ دیتے تھے۔ غریب پرور ، یتیم بے سہارا پر مہربان تھے ۔
سماجی خدمات :
جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کے دور حکومت میں بلدیاتی الیکشن میں کامیاب ہو کر مولانا یونین کونسل خیر پورناتھن شاہ کے چیئر مین منتخب ہوئے، اس دوران بیوہ ، معذور ، مجبور، غریب ، یتیم ، بے سہارا اور طلباء کی مالی و اخلاقی امداد فرمائی ۔ اور سب کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے۔ لغاری اور دیگر بلوچ قوموں کے آپس میں جھگڑوں کو اس طرح سلجھاتے کہ پرانے دشمن بھی آپس میں شیر و شکر ہو جاتے ۔ اس طرح وہ اپنے پیچیدہ مسائل میں آپ کو امین مقرر کرکے اپنے لئے ا ٓسانیاں پیدا کرتے۔
مکتوب :
فقیر راشدی غفرلہ نے حضرت علامہ الحاج مفتی غلام محمد لغاری قاسمی ؒ کو ایک خط میں توجہ دلائی کہ آپ حضرت مرشد کریم کے ابتدائی شاگردوں اور مریدین میں سے ہیں ، لہذا آپ حضرت قبلہ کی حیات مبارکہ پر کتاب ترتیب دیں اور ’’جمعتیعلما ء قاسمیہ ‘‘ کی تنظیم سازی کرکے ایک تنظیم بنائیں تا کہ منظم بریقے پر اہل سنت و جماعت کی تبلیغ و اشاعت کا کام کیا جاسکے نیز درگاہ شریف سے ’’ماہنامہ القاسم ‘‘ کا بھی اجراء کیا جائے ۔ اس کے جواب میں حضرت علامہ نے راقم کے نام ایک مکتوب تحریر فرمایا یہ خط مدرسہ انوار مجتبی کی پیڈ پر لکھا گیا تھایعنی ان دنوں آپ خیر پور میرس میں مسند تدریس پر رونق افروز تھے:
’’بخدمت والا عظمت ، عظیم البرکات ، جامع الاحسانات ، مصدر خیرات ، مجمع الفیوضات ، منبع البرکات ، محسن دوران ، فیاض الزمان ، جوادجھاں ، عالی قدر ، قدر دان علماء شرفاء ، جناب قبلہ ، فیض گنجور ، لامع النور ، مجمع السرور، ماحی البدعۃ ، منبع الشریعۃ ، صاحب ولایت جناب سید محمد زین العابدین شاہ راشدی مدظلہ العالی
بعد السلام علیکم خیریت طرفین مطبوب الغرض من الارقام
اینکہ آپ کا ارسال کردہ خط بوقت سعید رسید، زہے احسان والمنہ
آپ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ حق ہے ۔ یہ سب کچھ ہماری سستی و غفلت کی وجہ سے ہوا ، بلکہ عظیم غلطی ہوئی ۔ آپ کے حکم کے مطابق جلد ایک مجلس شوریٰ بلائی جائے گی اور آپ خود بھی مجلس مین ضرور بضرور شرکت فرمائیں گے ۔
اس عاجز فقیر کے پاس حضور قبلہ مرشد کریم کے متعلق کچھ مواد ہے، امید ہے جلد عمل کیا جائے گا۔
نظر کرم کی ضرورت ہے۔ تمام جماعت کو سلام ۔
بقلم عاجز
مولوی غلام محمد لغاری القاسمی
سگ دربان درگاہ عالیہ مشوری شریف
اس سلسلہ میں حضرت مفتی صاحب کوئی پیش رفت نہیں کرسکے، جس کا بہت افسوس ہے۔
تلامذہ:
آپ کے بعض تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ مولانا نور احمد قاسمی ملاح خیر پور ناتھن شاہ
۲۔ مولانا محمد یوسف لغاری خیر پور ناتھن شاہ
۳۔ مولانا نور احمد لاشاری خیر پور ناتھن شاہ
۴۔ مفتی غلام رسول ڈیپر گوٹھ احمد آباد تحصیل ناتھن شاہ
اولاد:
آپ نے دو شادیاں کی جس میں سے دس بیٹیاں اور چھ بیٹے تولد ہوئے ۔
۱۔ حاجی عبدالقادر
۲۔ حافظ عبدالحمید
۳۔ حاجی اسد اللہ
۴۔ مولوی عبدالرسول
۵۔ رسول بخش
۶۔ عبدالخالق لغاری
وصال :
شب وصال اذان کہی اس کے بعد نماز عشاء کی امامت فرمائی ۔ اس کے بعد دعائے یوسفی استغفار اور کثرت سے درود شریف کا ورد کیا۔ بعد فراغت اولاد کو بلوا کر انہیں وصیت کی اس کے بعد محواستر احت ہوئے اور تقریبا تین بجے شب کلمہ طیبہ پڑھ کر انتقال کیا۔
۲۳، رجب المرجب ۱۴۱۱ھ ؍ ۱۹۹۰ء بروز ہفتہ دوسرے روز نماز جنازہ حضرت مولانا سید محمد چھٹل شاہ لکیاری قاسمی کی اقتدا میں ادا ہوئی ۔ آخری آرامگاہ آبائی گوٹھ احمد خان لغاری میں مسجد شریف کے احاطہ میں واقع ہے۔
[سکندر علی چانڈیو ( میھڑ ) اور حافظ عبدالستار ( لاڑکانہ ) کے ارسال کردہ مواد سے مضمون ترتیب دیا گیا دونوں حضرات نے مرحوم کے گوٹھ جاکر ان کے بیٹوں سے مواد حاصل کیا تھا، جس پر فقیر راشدی ان کاممنون ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت )