حضرت مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی قدس سرہٗ
شہر الہ آباد ، محلہ بہادر گنج کے ساکن، محمد حسین نام نامی، ۱۸۵۳ء میں پیدا ہوئے، مولانا نعمت اللہ فرنگی محلی،مولانا ابو الحسنات عبدالحئی فرنگی محلی اور قاری عبدالرحمٰن پانی پتی سے تعلیم پائی، تکمیل درسیات کے بعد حج کے لیے گئے، شیخ الاسلام سید احمد وحلا مکی سے سند حدیث حاصل کی، اور حاجی شاہ محمد امداد اللہ مکی کے مرید وخلیفہ ہوئے،
آپ نامور عالم، اور صوفی وبزرگ، عربی کے زبردست ادیب، طبیب جسمانی اور روحانی تھے، اصلاح نصاب درس نظامی کےمجلس ندوۃ العلماء کے بانیوں میں سرگرم بانی تھے، مولوی شبلی نعمانی کی آزادردی اور مجلس میں نیچریت دید عقیدگی کےاثرو نفوذ کو بڑھتا دیکھ علیحدگی اختیار کرلی، پہلے اسماع کے شدید مخالفوں میں تھے، پھر اتنا ذوق و شوق ہوا، کہ حج کے لیے گئے تو قوال مع ساز کےہماہ گیا، ۹؍رجب المرجب ۱۳۲۲ھ کو بتقریب دعوت نواب سرور جنگ کےہاں مجلس سماع میں مدعو تھے، اجمری شریف کے قوال حضرت شیخ عبدالقدوس گنگنوہی کی غزل ‘‘آستیں بررو کشیدہ ہمچومکار آمدی’’ گارہے تھے، م حفل پر ایک کیفیت طاری تھی، شاہ صاحب ہر مصرعے کی شرح فرماتے جاتے تھے، جب قوال مقطع پر پہونچے ؎
گفت قدوسی فقیرے درفناء ودربقاء |
خود نجود آزادبودی خود گرفتار آمدی |
‘‘خود بخود آزاد’’ کی تکرار فرمائی اور نفس نفیس کی طرف اشارہ فرمایا، تیسری مرتبہ ادا کرنا چاہتےتھے کہ کیفیت بڑھ گئی، سر بسجدہ ہوگئے اور مقصود کو پہونچے۔۔۔ حضرت صوفی جان صاحب میرٹھی جو پاس بیٹے ہوئے تھے سب سے پہلے وہنوں نے فرمایا، ‘‘مولانا نے وصال فرمایا ہے’’ پھر بھی لوگوں کو شبہہ رہا، ڈاکٹر بلائےگئے، فصدلی گئی لیکن کچھ نہ ہوا، آپن ےچار حج کیے،آخری حج کے موقع پر دربار نبوی میں دعاء کی تھی، کہ میری موت مدینہ منورہ میں آئے، یا اجمیر شریف میں۔
(تذکرہ علمائےہند، نزہۃ الخواطر، اردوئے معلی علی گڑھ)