حضرت علامہ مصلح الدین قاری صدیقی

حضرت علامہ مصلح الدین قاری صدیقی  علیہ الرحمۃ

          حضرت قاری مصلح الدین صدیقی جید عالم دین ، عظیم المرتبت  صوفی اور سالکان راہ طریقت کے پیر ہدی تھے۔ آپ کی ذات  اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کا مجموعہ تھی۔ آپ اپنی گفتار و کردار سے قرون اولی کے مسلمانوں  کی تصویر معلوم ہوتے تھے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عشق آپ کی رگ و بے میں جاری و ساری تھی۔  آپ آیات ربانی اور سنت نبوی کی تصویر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے عملی کی اس گرد آلود میں آپ کا وجود مسعود باران رحمت سے کم نہ تھا۔چالیس برس بڑی خاموشی  کے ساتھ دنیاوی  طمع اور ستائش کی تمنا  کے بغیر دین کی خدمت کرتے رہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

          آپ ۱۱/ ربیع الاول/ ۱۳۳۶ھ، ۱۹۱۷ء کو قندھاری شریف ضلع ناندیڑ حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔اپنے والد ماجد مولانا غلام جیلانی سے قرآن حکیم حفظ کیا۔ اور مقامی اسکول میں ساتویں جماعت تک پڑھا۔ سترہ  برس کی عمر میں مدسہ مصباح العلوم مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں علوم اسلامیہ  کا آغاز کیا۔ آٹھ برس میں تکمیل کی۔ اور حافظ ملت حضرت مولانا عبدالعزیز  مبارک پوری  سے دورہ حدیث پڑھا ۔ تقسیم  ہند کے بعد پاکستان  تشریف لائے۔ مرکزی جامع مسجد واہ کینٹ راولپنڈی میں خطیب رہے۔ بھر کراچی تشریف لائے اور اخوند مسجد کھارا در اور میمن مسجد کھوڑی گارڈن میں خطابت کرتے رہے۔ آپ کی تقریر میں بلا کاسوز اثر تھا۔ آپ کی تقریر علم و فضل اور حقیقت و معرفت میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھی۔ عوام الناس دور دراز سے آپ کی تقریر سننے آتے تھے ۔ حضرت خواجہ  غلام محی الدین گولڑوی آپ کی ‘‘انسان ساز تقریر’’ کو بڑا پسند کرتے تھے مثنوی مولانا روم بڑے پر درد لہجے میں پڑھتے تھے۔

(عرفان منزل کراچی مصلح الدین نمبر ص ۱۰۰)

          آپ امامت و خطابت  کے ساتھ ساتھ دارالعلوم امجدیہ میں تقریباً پندرہ برس تک بطور معلم و مدرس بڑی مہارت کے ساتھ تعلیم وتربیت  کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آپ کو بزرگان دین سے قلبی تعلق تھا۔ اس لیے ان کے مزارات پر حاضری آپ کا معمول تھا۔ حضرت صدرالشریعہ علامہ مولانا امجد علی اعظمی، حضرت مولانا مصطفیٰ رضاخان بریلوی اور حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی سے آپ کو اجازت بیعت اور خلعت  و خلافت حاصل تھی۔ یہ حضرات آپ کی روحانی عظمتوں  کے معترف تھے ۔ آپ کو بھی بزرگان دین سے قلبی  لگاو تھا۔ اپنے اکابر و اسلاف کے ذکر سے محفل کو نورانیت  بخشے اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے وت والہانہ عشق تھا۔ ان ہی کی امانتوں کے سفیر  اور امین تھے۔ حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کے توسط سے بے شمار افراد اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے سلسلہ عالیہ میں داخل ہوئے۔ آپ کے مرید وں کی کثیر تعداد عالم اسلام میں پھیلی ہوئی ہے۔

          حضرت مولانا شاہ تراب الحق قادری کی روحانی رفعتوں  کے جانشین  ہیں۔ انتقال سے تھوڑا عرصہ پہلے علماء و عوام کے ایک عظیم اجتماع میں آپ کو سلسلہ قادریہ  رضویہ میں خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔

          حضرت شیخ الحدیث استاذ العلماء علامہ عبدالمصطفٰے ازہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آپ کے متعلق یہ تاثرات تھے۔

          ‘‘وہ ایک سچے  عاشق رسول تھے، تقوی، عبادت اور ریاضت یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ ایک کامل پیر تھے اور سلسلہ بیعت بھی کامل تھا اور ان کی شخصیت کامل پیر کے اوصاف کی حامل تھی۔ اور شریعت پر عمل کے سختی سے پابند تھے۔

(عرفان منزل کراچی مصلح الدین ص ۴۵۴)

          آپ کے وصال کی خبر۲۳/مارچ/۱۹۸۳ء۔۷/جمادی الثانی/۱۴۰۳ھ بعمر ۶۷سال کو آپ کے مریدین خلفائے کرام متوسلین اور محبین میں بڑے  دکھ کے ساتھ سنی گئے کہ ‘‘قاری مصلح الدین صدیقی کراچی میں حرکت قلب بند ہونے سے اپنے معبود حقیقی  سے جاملے’’ پاکستان کی ہر دینی ،مذہبی اور روحانی تنظیموں نے آپ کی روحانی خدمات کو بڑا خراج تحسین پیش کیا۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت علامہ مولانا اختر رضا خان بریلوی  ازہری سجادہ نشین بریلوی شریف انڈیا ، نے پڑھائی۔ ہزاروں لوگوں نے اشکبار آنکھوں سے آپ کا دیدار کیا۔ مدینہ منورہ میں آپ کے وصال  کی اطلاع بذریعہ ٹیلیکس حضرت مولانا فضل الرحمٰن انصاری مدنی(خسر حضرت مولانا شاہ احمد نوارنی صدیقی)کو دی گئی۔ نامور مشائخین و علماء کرام  نے آپ کی رحلت کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے آپ کے درجات کی مزید سر بلندی کے لیے دعائیں مانگیں۔اس دینی و روحانی اجتماع سے مولانا مفتی اختر رضا خان بریلوی نے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ہر نفس کو مو ت کا ذائقہ چکھنا ہے، اور جب حکم خداوندی آجائے تو کبھی ٹل نہیں سکتا۔ لیکن بندگان خدا کو یہ خصوصی اعزاز حاصل ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ آپ کا جسد خاکی کھوڑی گارڈن کراچی میں محواستراحت ہے۔ اور مرجع خلائق ہے۔ آپ کا مزار پر یہ شعر کندہ ہے۔

ظاہر و باطن کی کر اصلاح دے فوزو صلاح
مصلح الدین مظہر غوث و رضا کے واسطے

(عرفان منزل کراچی، مصلح الدین نمبر،ص۹۴)

(تذکرہ اولیاءِ سندھ )

تجویزوآراء