علامہ شہاب الدین احمد
علامہ شہاب الدین احمد
کویا شالیاتی ملیباری
یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ خاکِ ہند کا خمیر علم و فضل، زہد و تقویٰ اور حکمت و دانائی سے گندھا ہوا ہے۔ افقِ ہند پر ہر زمانے میں علم و حکمت کے نیر پیکر ابھرے۔ اس کے وسیع دامن میں ہمیشہ علوم و فنون کے بیل بوٹے جھلملاتے رہے۔ اس کی قسمت کا ستارہ برابر اوجِ ثریا پر جگمگاتا رہا، اس کی آغوش میں یگانہ روزگار اور بے تاج سلاطین پرورش و پرداخت پاتے رہے۔ اس کے سایۂ عاطفت و شفقت کے تلے چوٹی کے علما و اولیا پروان چڑھتے رہے۔ اس کے افق پر ہمہ وقت فہم و فراست کے درخشاں آفتاب و تابندہ ماہتاب اپنی ضیاؤں اور تپش آمیز کرنوں سے گم راہ قلوب و بھٹکے اذہان کو گرماتے اور دمکاتے رہے۔
مگر اس کے روشن خورشیدوں میں کبھی اضمحلالی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے۔ اس حکمت و آگہی کے خمیر سے کبھی حضرت ملّا جیون تیار ہوئے، کبھی بحرالعلوم عبدالعلی فرنگی محلّی، کبھی خواجۂ معقولات علامہ محبّ اللہ بہاری، کبھی فاضلِ نبیل امان اللہ بنارسی، کبھی محدّثِ دہلوی، کبھی محقّقِِ دہلوی، کبھی استاذِ مطلق حضرت علامہ فضلِ حق خیر آبادی، کبھی سیف اللہ المسلول علی اعداء الرسول علامہ فضلِ رسول بدایونی تیار ہوئے؛ مگر تیرھویں صدی ہجری کے نصفِ آخر میں جو آفتابِ عالم تاب افقِ علم پر طلوع ہوا اس کی ضوفشانی و ضیا پاشی کا حال عجیب و غریب تھا، جو آسمانِ علم و فن کا سلطان تھا، جو کشورِ علم وادب کا بادشاہ تھا، جو شعور و آگہی کا تاباں جوہر تھا، جو معقولات و منقولات کا بحرِ بیکراں تھا، جو زہد و تقویٰ کا لا ساحل سمندر تھا؛ الغرض وہ عظیم الشان شخصیت، رنگا رنگ اور گوناگوں خصلتوں کا مجمع البحرین تھی۔ وہ کوئی اور نہیں تھا بلکہ ہم اور آپ اور پوری دنیائے سنّیت انہیں اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت، رفیع الدرجت، مجدّدِ دین و ملّت، پاسبانِ ناموسِ رسالت، محافظِ عقیدۂ ختمِ نبوّت، امامِ عشق و محبت مولانا و سیّدنا و مرشدنا الشاہ محمد احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے نام نامی سے یاد کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ع
جو جل رہے ہیں ان کو جلائیں گے بار بار
بے پناہ شکر ہے اس خدائے جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہٗ کا کہ جس کی رحمتِ بے پایاں کے سائے میں امام احمد رضا نے آرزوؤں کا ٹوٹا ہو آبگینہ پھر جوڑ دیا، پھر خوابیدہ حسرتیں جاگ اٹھیں، ناکامیوں کی خاکستر سے دہکتا ہوا لالہ زار پھوٹا اور کئی صدیوں کی گم شدگی کے بعد ہمتوں کا بچھڑا ہوا سیلِ رواں اپنی منزلِ مقصود کی اصل رہ گزر پر پلٹ آیا۔ امام احمد رضا نے گیسوئے تحریکِ تحفّظِ ناموسِ رسالت کو سنوارنے اور اس کی عظمتوں کا پھریرا بلند کرنے میں جو تاریخی کردار (Roll) ادا کیا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ کیا خوب کہا ع
ہر رزم گاہ میں تیری تیغ آزمائی کی شہرت ہے
آپ ہمہ جہت اور سیماب صفت شخصیت کے مالک و بے مثال رہ نما تھے۔ فاضلِ بریلوی کا اسلوبِ نگارش شگفتہ اور مزاج محقّقانہ تھا۔ علم رواں دواں اور شستہ تھا۔ اس تاریخ ساز شخصیت نے اپنے دور میں ابھرنے والے غدارانِ مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کی جس طرح سرکوبی کی اور گستاخانِ رسول ﷺ کی جس طرح بیخ کنی کی اس کی نظیر و مثال پیش کرنے سے تاریخ عاجز و قاصر ہے۔
دشمنانِ رسالت مآب ﷺ جس مسئلے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا کر سمجھنے لگے کہ یہ ایک ایسا مضبوط و استوار قلعہ ہے جس کو آسانی سے کوئی بھی مسمار نہ کرسکے گا، لیکن فاضلِ بریلوی اور ان کے جاں نثار شاگردوں اور ہم نواؤں نے اپنے سیال قلم سے اس کی ایسی دھجیاں بکھیریں کہ گستاخوں کا وہ مضبوط ایوان ریت کی طرح بہہ گیا اور ریزہ ریزہ ہو کر زمیں بوس ہوگیا۔ فاضلِ بریلوی کے دسترخوانِ علم سے بہتوں نے اپنی علمی تشنگی بجھائی، عرب و عجم کے تلامذہ آپ کے فیضِ بیکراں سے فیض یاب ہونے کے لیے دور دور سے سفر طے کرکے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے۔ بریلی سے علمی ہتھیار سے لیس ہو کر اپنے اپنے وطنِ مالوف کو لوٹ کر دین و سنّیت کی نشر و اشاعت اور بدعت و ضلالت کا قلع قمع کرنے میں کوشاں و سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ سات سمندر پار بھی آپ کا علمی شہرہ موجِ تلاطم سے ٹکرا کر سرزمینِ کیرالا میں بھی پہنچا۔ آخر یہ علمی دبدبہ سن کر سر زمینِ ملیبار سے ایک ہونہار انتہائی ذہین و فطین علم دوست طالبِ علم آپ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کر نے کے لیے حاضرِ خدمت ہوا اور فاضلِ بریلوی کے اس وسیع دسترخوانِ علم سے خوشہ چینی کرتے کرتے اپنی ذات میں وہ طالب انجمن بن گیا۔ وہ ایک فردِ واحد تو تھا، مگر پوری ملّتِ اسلامیہ کے عقائد کا پاسبان، غوثِ اعظم کا علم بردار، امام شافعی کے مسلکِ فقہی کا پاس دار، امام غزالی کے تدبّر کا افتخار، امام رازی کی گرہ کشائیوں کا امانت دار، مجدّدِ الف ثانی کی شانِ تجدید کا آئینہ دار اور فاضلِ بریلوی کے عشقِ رسولﷺ کا درِّ شاہ سوار تھا۔ جس نے بریلی سے اپنے وطنِ مالوف کو لوٹ کر شجرِاسلام کے برگ و بار کو زمانے کی بلا خیز یوں سے محفوظ کیا۔
وہ اور کوئی نہیں تھا بلکہ فاضلِ بریلوی کےسچے جانشین و قائم مقام جس کو شیخ المشائخ یا استاذ الاساتذہ یا مرجع الخلائق ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کے علم و حکمت کے چشمے سے سارا ملیبار سیراب ہوا جن کو اہلِ ملیبار اور بعض ذوی العلم حضرات الشیخ ابوالسعادات شہاب الدین احمد کویا الشالیاتی الملیباری کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اب ہم بلا تمہید و تاخیر آپ کی روشن زندگی کےکچھ اہم گوشوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں، کیوں کہ آپ کی حیاتِ بابرکات کے مطالعے کے بعد بے انتہا ندا مت و حسرت کے ساتھ یہ احساس دامن گیر ہوا کہ اہلِ سنّت و جماعت نے شعوری یا غیر شعوری طور پر نہ جانے کتنے ان جیسے کاملینِ وقت کو نظر انداز کرکے گم نام ماضی کا حصّہ بنادیا جن کی سیرت و صورت جدید نسل کے لیے مشعلِ راہ بن سکتی تھی۔ ربِِّ قدیر سے دعا گو ہوں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔
ولادتِ بابرکت:
علامہ شہاب الدین احمد کویا شالیاتی حضرت علامہ کنجی علی کٹی مسلیار کے صاحب زادے تھے۔ آپ کی ولادت قریہ چالیم میں ۲۳؍جمادی الاخریٰ ۱۳۰۲ھ/ ۱۸۸۴ ء کو ہوئی۔ آپ کی والدۂ محترمہ فریدہ بی بی بہت بڑی عابدہ اور تہجد گزار عورت تھیں۔ آپ نے اپنی تاریخِ ولادت نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ سے نکالی۔ آپ کے والد نے آپ کا نام احمد کویا رکھا شہاب الدین آپ کا پیارا لقب ہے اور کنیت ابوسعادات ہے آپ بسا اوقات اشعار بھی کہتے تھےاس مناسبت سے، ازہر یہ سے معروف و مقبولِ عام و خاص تھے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد صاحب سے حاصل کی مگر درسِ فخری کی بڑی کتابیں آپ نے فقیہِ عصر علامہ چالل اگت کنجی احمد حاجی مسلیار اور یگانہ روزگار صوفیِ باصفا مردِ مجاہد علی مسلیار سے پڑھیں۔ درسِ فخری وہ نصابِ تعلیم ہے جس کو قاضی فخر الدین ابو بکر الشالیاتی نے مرتّب کیاتھا۔ اس زمانے میں ملیبار میں وہی رائج و عام تھا کیرالا کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جامعہ لطیفیہ ویلور شریف میں داخلہ لیا۔ آپ انتہائی ذہانت کے مالک تھے ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشذہ
آپ کے علم و حکمت کی گہرائی و گیرائی سے آپ کے اساتذہ و شیوخ حیران و ششدر رہ جاتے تھے۔ آپ پر آپ کے اساتذہ ناز و افتخار کرتے تھے۔ اسی مہارت اور درکِ کامل کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے نبیرۂ قطبِ ویلور پیرِ طریقت رہبرِ شریعت قدوۃ الصالحین بقیۃ السلف حضرت علامہ الحاج السیّد شاہ محمد رکن الدین قادری ویلوری نے دورانِ تعلیم ہی آپ کو معاون مدرّس مقرر کیا۔ کیا خوب کہا ہے ؎
بالائے سرش ز ہوش مندی
می تافت ستارۂ بلندی
رجب ۱۳۲۹ھ/ ۱۹۰۹ء میں جامعہ لطیفیہ ویلور شریف سے اکابرِ اہلِ سنّت کے دستِ اقدس سے آپ کی دستار بندی ہوئی۔ دورانِ تعلیم ہی دارالافتا کے بھی رکن تھے، ہندوستا ن کی مختلف ریاستوں میں دین کی خدمت میں سرگرمِ عمل رہے، کرناٹک، تامل ناڈو، کیرالا، آندھرا وغیرہ میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔
فاضلِ بریلوی کی بارگاہِ عالی میں:
جامعہ لطیفیہ سے فراغت کے بعد ہندوستان کی متعدد ریاستوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ چند سال کے بعد بہ اشارۂ نبیرۂ قطبِ ویلور آپ تحصیلِ علمِ فقہِ حنفی کے لیے یوپی بریلی شریف روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے سرکار اعلیٰ حضرت بریلوی سے تمام علوم و فنون کی اجازت حاصل کی، خصوصاً حنفی فتویٰ نویسی کی اجازت آپ نے سرکار اعلیٰ حضرت ہی سے حاصل کی۔ علامہ خود رقم طراز ہیں:
ومن اجلھا فی فقہ السادۃ الحنفیۃ ماارویہ عن علامۃ المؤید والفھامۃ المسدد الفقیہ المحدث المسند مولانا الشیخ الحاج المفتی احمد رضا خان عن مفتی الحنفیۃ بمکۃ المحمیۃ مولانا الشیخ عبد الرحمٰن السراج ابن المفتی الاجل مولانا عبداللہ السراج. الخ
اس کے علاوہ ملیالم اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں بھی اس کی صراحت ملتی ہے۔ آپ کو بہ یک وقت سات فقہوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔
بیعت و خلافت:
علامہ شالیاتی کی ذاتِ والاصفات کے خورشیدِ نصف النہار کی ضیا پاشیوں سے علم و عرفان کا گوشہ گوشہ اس قدر بقعۂ نور بنا کہ ذرّے ذرّے سے پھوٹنے والی ایک ایک شعاع آسمان علم و حکمت اور فلکِ قلب و نظر کےمہرِ عالم تاب کےلیے باعثِ رشک بنی ہوئی ہے۔ شریعت میں کامل دسترس و درک حاصل کرنے کے بعد آپ طریقت کی دہلیز میں قدم رکھتے ہیں۔ مکۂ مکرمہ میں حضرت علامہ مفتیِ مکہ محمد حزب الدین سلیمان اعسکی کے ہاتھ سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوتے ہیں، جیسا کہ پہلے مذکور ہوا کہ آپ نے فاضل بریلوی سے سلسلۂ رضویہ برکاتیہ میں بھی بیعت حاصل کی تھی۔
تصنیفی خدمات:
آ پ نے اپنے قلم سیال سے ایسی ایسی کتابیں تصنیف فرمائیں جن کا مطالعہ قلوب کو منور و معطّر بنا دیتا ہے۔ آپ نے اپنی تصانیف میں عشقِ رسالت مآب ﷺ کے وہ دل آویز انوار پیش کیے جو اذہان کو پاکیزگی اور گلستانِِ حیات کو پھبن عطا کرتے ہیں آپ ہی کی تصانیفِ مبارکہ نے سر زمینِ ملیبار سے کفر و ضلالت، بدعت و گم راہی کا قلع قمع کیا۔ آپ کی تحریروں میں سرکار اعلی حضرت فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ہی رنگ و بو ملتی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں، آ پ لکھتے ہیں:
ولا ح من القرائن ان الالحاق من جانب المولوی اسماعیل الدھلوی فانہ اول من مال الی النزعۃ التیمیۃ والنزعۃ النجدیۃ فی الھند واقتفٰی اثرہ من اضلہ اللہ علی علم.
تقویۃ الایمان (تفویۃ الایمان) کے متعلق آپ رقم طراز ہیں:
ھذا کتاب راس الوھابیۃ فی الھند واساس الفرقۃ المحدثۃ فی دیوبند وقد ردّ علیہ اعلام علماء اھل السنّۃ من المضامین فان فیہ کلمات حق ارید بھا بواطل فتدبر ولا تخسر واللہ الموفق۔ یہ وہ عبارت ہے جس کی وجہ سے یہاں کے سنّی، تبلیغی جماعت کے دامِ فریب و مکر کو خوب سمجھے۔ اہلِ ملیبار کو آپ نے ہی تبلیغی جماعت کی قلابازیوں سے آگاہ کیا تھا۔ آپ کی تصانیفِ مبارکہ کی فہرست بہت طویل ہے، مگر چند اہم تصانیف یہ ہیں:
(۱) دفع الشر الاثیر عن الخیر الکثیر
(۲) شرح الارشادات الجفریۃ فی الردّ علی الضلالات النجدیۃ
(۳) تحقیق المقال فی بحث الاستقبال
(۴) منائح النیل فی مدائح جمل اللیل
(۵) تفتیح المغلق شرح تصریح المنطق
(۶) الفتاوی الازھریۃ فی الاحکام الشرعیۃ
(۷) الموعد فی المولد
(۸) مورد الازھریۃ لسلاک الطریقۃ
(۹) دفع الاوھام فی تنزیل ذوی الارحام
(۱۰) الکلام الحاوی فی ردّ الفتاوٰی والدعاوی
آپ شعری ذوق بھی رکھا کرتے تھے۔ نحس الایام یعنی عوام میں مشہور منحوس دنوں سے متعلق آپ کے عربی زبان میں تفصیلی اشعار موجود ہیں، جن میں سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اذا اردت النحس من ایام |
|
و سنۃ و جمعا علی التمام |
|
||
|
||
|
آپ چند سال سلطنتِ نظامیہ حیدرآباد کے صدارت العالیہ کے مفتی بھی رہ چکے ہیں۔ اس فقیر نے آ پ کے بعض فتاوٰی کے خطوط بھی دیکھے ہیں۔ آپ بعض سلاطینِ سلطنتِ نظامیہ کے اتالیق بھی تھے۔ سلاطینِ نظامیہ کو آپ سےبے انتہا عقیدت تھی، اسی وجہ سے آپ کو ہر ماہ تصنیف و تالیف کی مہم کےلیے سلطنتِ نظامیہ کے بیت المال سے سو روپیہ ملتے تھے۔ آپ کے لیے خاص ایک لائبریری بھی تھی، جس میں آپ نادر نادر کتابیں دنیا کےگوشے گوشے سے منگوا کر محفوظ کرتے تھے۔ یہ آ پ کی علم دوستی کی روشن دلیل ہے۔ آج بھی وہ نادر کتابیں الماریوں میں محفوظ ہیں۔ جب علمائے حرمین کیرالا تشریف لاتے ہیں تو کمپیوٹر اسکین (Computer Scan)یا فوٹو اسٹیٹ (Photostat) سے نقل کرکے لے جاتے ہیں۔
وفات:
آخر وہ افسوس ناک گھڑی بھی آگئی جس میں لاکھوں معتقدین و مریدین کا خونِ جگر اشکوں سے بھر آیا۔ آخر یہ چمکتا چراغ قدرت کی زوردار ہوا کی وجہ سے گل ہوگیا۔ یعنی ۱۳۷۴ھ ۲۷؍محرم بروز یک شنبہ آ پ نے اس دارِ فانی کو خیر باد کہہ کر عالمِ بقا کا سفر اختیار کیا اور اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔
نماز جنازہ:
آ پ کی وفات کی خبرِ ناگہانی اطراف و نواح میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی؛ لوگ دور دور سے آپ کی آخری زیارت و دیدار و نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے عالیم میں جمع ہوئے۔ بعض مؤرخین کا بیان ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد لوگو ں نے آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ آپ کی مسجد کے احاطے میں آ پ کے جسدِ خاکی کو سپرد ِ خاک کیا گیا؛ اس طرح آپ دنیائے سنّیت کو المِ فراق دے گئے۔
فنا کے بعد بھی شانِ رہبری تیری
خدا کی رحمت ہو اے امیرِ کارواں تجھ پر
(شہاب الدین احمد کولیا شالیاتی ملیباری ،انجمن ضیاء طیبہ)