حضرت مفتی اعظم سرحد حضرت مولانا شائستہ گل، مردان
حضرت مفتی اعظم سرحد حضرت مولانا شائستہ گل، مردان علیہ الرحمۃ
مفتی اعظم سرحد حضرت مولانا شائستہ گل المعروف متہ ملا صاحب بن مولانا محمد علی بن ملک العلماء مولانا عمر دراز ۱۳۰۳ھ/ ۱۸۸۶ء میں بمقام لنڈی شاہ متّہ (مردان) میں پیدا ہوئے۔
آپ ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد اور جدِّ امجد جیّد علماء میں سے تھے اور خود آپ علمی تفوق و تفضل کی بناء پر شیخ العلماء اور مفتیٔ اعظم سرحد کے القابات سے ملقب ہیں۔[۱]
[۱۔ مفتیٔ اعظم سرحد کا لقب آپ کو حضرت مفتی اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سیّد احمد نے دیا (تذکرہ علماء مشائخ سرحد)]
علومِ اسلامیہ کی تحصیل:
آپ نے ایک علمی گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں، اس لیے تعلیم کی ابتدا گھر سے ہوئی۔ ابتدائی کتب اپنے والد مکرم حضرت مولانا محمد علی (متوفی ۱۳۴۳ھ) سے پڑھیں اور دیگر مختلف علماء سے تکمیل کی۔ ایلیٔ مولانا صاحب جو امام نحو تھے، سے نحو پڑھی (ابلی، بینر میں ایک گاؤں ہے، اسی مناسبت سے ایلیٔ مولانا کہلاتے تھے، ان کے درس میں چھ سات سو طلبہ ہوتے تھے) لالہ کالا مولانا صاحب (لالہ کالا بھی ایک گاؤں کا نام ہے) سے صرف پڑھی۔ حضرت قاضی صاحب بڑھنی سے معقول و منقول کی کتب پڑھیں۔ مولانا ڈاگئی یار حسین سے تفسیر اور حدیث کا درس لیا اور سند مولانا عبد العلی دہلوی سے حاصل کی۔ جون پور کے دارالعلوم حنفیہ میں مولانا حامد علی سے بھی دورہ حدیث کی تکمیل کرکے سندِ فراغت حاصل کی۔
تجوید و قرأت مولانا قاری عبدالسلام بن قاری عبدالرحمٰن پانی پتی سے پڑھی اور اس طرح تقریباً تیس برس کی عمر میں تمام مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔
تدریس:
آپ نے تحصیلِ علوم سے فراغت کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا، جو آج تک بفضلہٖ تعالیٰ جاری ہے۔ اپنے آبائی گاؤں لنڈی شاہ متہ میں ایک ’’دارالعلوم حنفیہ سنیہ‘‘ قائم فرمایا۔ اس دارالعلوم میں آپ کے علاوہ دیگر مدرسین بھی درس دیتے ہیں۔
تحریکِ پاکستان میں آپ کا حصّہ:
عقائد حقہ کی نشر و اشاعت کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی خطّہ (پاکستان) جہاں مکمل طور پر اسلام نافذ ہو، کی خاطر تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ پہلے پہل تحریک خدائی خدمت گار میں شامل ہوکر خان عبدالغفار خان کے ساتھ کام کیا، لیکن بعد میں جب خان موصوف نے اس تحریک کو انڈین نیشنل کانگرس میں مدغم کردیا تو آپ نے اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کی۔
مسلم لیگ نے پاکستان کا مطالبہ کیا، تو آپ نے نہایت جرأت و ہمت کے ساتھ اس مطالبہ کی حمایت کی، آپ کے مشورہ سے حضرت پیر صاحب مانکی شریف (پیر محمد امین الحسنات کی صدارت میں مشائخ و علماء کی ایک جمعیت تشکیل دی گئی جس کا نام ’’جمعیۃ الاصفیاء‘‘ رکھا گیا اور آپ اس جماعت کے ناظم مقرر ہوئے۔
آپ نے پیر صاحب کی معیت میں تمام ہندوستان کا دور ہ کیا اور پھر پیر صاحب چورہ شریف کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا اور اس میں ایک قرارداد کے ذریعے یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت ہو، چنانچہ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور شہید ملت لیاقت علی خان نے اس مطالبہ کو تحریری طور پر تسلیم کیا پاکستان بن جانے کے بعد برسرِ اقتدار طبقہ نے ایفائے عہد نہ کیا تو آپ نے یاد دہانی کرائی، لیکن اس کی پاداش میں آپ کو تین دن تک حوالات میں رکھا گیا اور پھر گیارہ ماہ کے لیے پاکستان سے خارج کردیا گیا۔
حج بیت اللہ شریف:
۱۳۷۰ھ میں آپ نے حج کیا اور امیر الحاج کی حیثیت سے تشریف لے گئے، نیز آپ کو قاضی حجاج بھی مقرر کیا گیا، اثناء سفر میں آپ سے جتنے سولاات پوچھے گئے، ان سب کے تحریری جوابات آپ نے استفتاء الحج کے نام سے مرتب کیے۔
تحریرات:
تصنیف و تالیف کے سلسلے میں آپ نے کافی کام کیا ہے۔ بدمذہبوں اور بے دینوں کے رد میں رسائل تحریر کیے اور علمی و تحقیقی کتب بھی تحریر فرمائیں۔ آپ کی تصانیف کچھ مطبوعہ ہیں اور بعض ابھی تک زیوِ طبع سے آراستہ نہیں ہوسکیں۔ چند کتب یہ ہیں:
۱۔ مضامین القرآن
۲۔ مطالب القرآن
۳۔ قرأت القرآن
۴۔ حاشیہ مدارک التنزیل
۵۔ حاشیہ جلالین
۶۔ مرادی شرح زرادی
۷۔ شرح جزری
۸۔ الاستفتأت المیراث وغیرہا۔ [۱]
[۱۔ تفصیل کے لیے دیکھیے علماء اہلِ سنت کی تصانیف، مرتبہ مولانا عبدالستار نظامی]
صاحبزادگان:
آپ کے چار صاحبزادے ہیں جو بفضلہٖ تعالیٰ اپنے والد ماجد کے صحیح جانشین ہیں۔ تمام صاحبزادگان طبقۂ علماء سے تعلق رکھتے ہیں:
۱۔ مولانا عبدالحنان، آپ نے اجمیر شریف و اوکاڑہ سے سندِ فراغت حاصل کی۔
۲۔ مولانا عبدالسبحان، آپ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور سے فارغ ہیں۔
۳۔ مولانا عبدالدیان، آپ نے علوم کی تکمیل اشرف المدارس اوکاڑہ سے کی۔
۴۔ مولانا فضل سبحان، جامعہ امجدیہ کراچی اور جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے مستند ہیں، اور جامعہ قادریہ، بغدادہ (مردان) کے مہتمم و شیخ الحدیث ہیں۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی تعداد کافی ہے، جن میں سے چند علماء حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ مولانا محمد ابوداؤد قریشی، پشاور
۲۔ مولانا گل رحیم، اسماوی
۳۔ مولانا غلام نبی، ٹل کوہاٹ، وغیرہم
[محمد امیر شاہ قادری، مولانا: تذکرہ علماء مشائخ سرحد]
(تعارف علماءِ اہلسنت)