حضرت علامہ سید عبدالصمد حسینی سہسوانی

حضرت علامہ سید عبدالصمد حسینی سہسوانی (حافظ القرآن و حافظ البخاری) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۴؍شعبان امعظم بروز جمعہ ۱۲۶۹؁ھ موافق جنوری ۱۸۵۳؁ھ میں اپنے آبائی مکان محلہ محی الدین پور سہسوان میں پیدا ہوئے، نسبی علاقہ حضرت قطب المشائخ خواجہ ابو یوسف مودود چشتی سے ہے، اپنے خالہ زاد بھائی حضرت مولانا حکیم سخاوت حسین انصاری سے تعلیم شروع کی، ساتھ برس کی عمر میں حفظ قرآن سے فراغت پائی، گیارہ برس کی عمر میں صرف ونحو اور علوم شرعیہ کی تعلیم متوسطات تک پانے کے بعد حضرت تاج الفحول مولانا شاہ عبد القادر قدس سرہٗ کے حقلۂ درس میں شریک ہوئے،اور علوم و فنون کی تکمیل کی، حضرت سیف اللہ المسلول اور حضرت مولانا شاہ نور احمد قدس سرہما سے بھی استفادہ کیا، فراغت کے بعد تدریس کا آغاز بھی مدرسہ قادریہ میں کیا، اسی دوران میں بغیر کسی علم واطلاع کے حرمین طیبین حاضر ہوئے اور مدینہ طیبہ میں حضرت شیخ سید مبارک کی خدمت میں نو ماہ قیام کرکے بخاری ومسلم سنائی، اور کتب تصوف کا درس لیا، حضرت سید مبارک نے طریقۂ عالیہ اور چشتیہ کی ۷؍شوال ۱۲۸۵؁ھ کو سند اجازت عطا کی، مدینہ طیبہ سےو اپسی میں مدرسۂ قادریہ میں قیام کرکے درس و تدریس میں مصروف رہے۔۔۔۔ اسی زمانہ میںمشہور غیر مقلد عالم مولیو امیر حسن سہسوانی نے طبقۂ ارض کے ہر حصہ میں سرور کائنات کے مثیل کا فتنہ پیدا کیا، اور امکان کذب اور امکان کذب کی صحت وجواز میں ‘‘افادات ترابیہ’’ لکھ کر شائع کی، آپ نےاس جواب ورد میں مدلل کتاب ‘‘افادات صمدیہ’’ لکھی، جو ۱۲۸۵؁ھ میں چھپ کر شائع ہوئی، اور ۱۲۸۶؁ھ میں عید کے دن ‘‘افادات صمدیہ’’ کے مندرجات پر آپ نے مولوی امیر حسن سے مباحثہ کیا اور ہزار ہا افراد کےمجمع میں مولوی امیر حسن کو ذلت شکست دی، اس وقت حضرت مولانا شاہ عبد الصمد کی عمر ۱۷برس تھی، مسئلہ مذکورہ پر ۱۲۸۸؁ھ میں شیخو پور ضلع بد ایوں میں حضرت تاج الفحول مولانا شاہ عبد القادر بد ایونی اور مولوی امیر حسن سہسوانی کے درمیان مناظرہ ہوا، مؤخر الذکر کو شرمناک شکست فاش ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ ایک بارگونڈہ کےعلاقہ میں تشریف لے گئے، یہیں پر میر فاروق علی پھپھوندوی سے ملاقات ہوئی، میر صاحب آپ کے تورع وتقویٰ سے متأثر ہوکر مرید ہوگئے اور انہیں کی درخواست پر اُن کے وط پھپھوند تشریف لائے، میر فاروق صاحب محلہ سید داڑہ میں رہتے تھے، جس کی اکثر آبادی شاہان اودھ کےزیر اثر شیعہ ہوچکی تھی (ابالیان سید واڑہ شاہ جعفر علی کی اولاد سے تھے) میر فاروق علی صاحب گیارہ ماہ بعد بسلسلۂ ملازمت حیدر آباد کن چلےگئے، اُن کےج انے کے بعد آپ کچہری کے قریب قاضی ایزد بخش کے یہاں قیام پذیر ہوگئے، آپ یہاں اپنی تقریروں میں رد شیعت کی طرف خاص توجہ فرماتے جس سے شیعت کو نقصان پہونچنا شروع ہوا، اور لوگ ان کے فاسد عقائد سے آگاہ ہونے لگے، شیعوں نے باہم مشورہ کیا اور اپنے سر گردہ لطافت علی کی قیادت میں آپ کے پاس پہونچے، پہلے تو آپ ان کی باتیں نتے رہے، مگر کچھ دنوں ایسے مدلل اور مسکت جواب دینے شروع کیے کہ شیعوں کو بجز خاموشی کوئی راہ نظر نہ آئی اور؟؟؟؟؟ شیعی عالم مولوی عمار علی بھرت پوری نے آپ کی تحریر کا جسے آپ نے میر یعقوب علی سے املا کرایا تھا اور متعہ کے حرام ہونےپر قاہر دلیلیں قائم کی تھیں ‘‘اثبات المتمعہ’’ کے نام سے جواب لکھ کر شائع کرایا، اس کے جواب میں آپ کےخامۂ حقیقت رقم سےساڑھے سوا جزو کی ضخیم کتاب ‘‘ارغام الشیاطین فی تفدید متعۃ الشیعین’’ تکلی، یہ کتاب اگر چہ بظاہر متورکی حرمت میں ہے م گر ضمنی طور پر اصول سائل شیعہ کی تردیدمیں شاہکار تصنیف ہے۔

مجلس ندوۃ العلماء کی اصلاح ندوہ کے لیے آپ کی مولوی محمد علی مونگیری سے طویل مراسلت رہی گیارہ برس کی عمر میں اپنے خالہ زاد بھائی حکیم سخاوت حسین انصاری کی رہنمائی میں حضرت مولانا شاہ محمد اسلم خیر آبادی سے سلسلہ عالیہ چشتیہ میں مرید ہوگئے تھے اور جب آپ کر خلافت ملی تو آپ ۱۹؍برس کے تھے، آپ کے ہزار ہا مریدین تھے۔۔۔۔۔ جمادی الاخریٰ ۳۲۳۱؁ھ کے پہلے ہفتہ میں بد ایوں کی تاریخی شاہی جامع مسجد شمسی میں وعظ فرمایا ور ندوہ کے لفظ ہی سے اس کی شقاوت ظاہر کی، یہ آپ کا آخری وعظ میں انداز و بیان واستدلال حضرت مولانا تاج الفحول کی طرح تھا حضِ وقت اجنبی دھوکا کھاجاتے کہ حضرت تاج الفحول بیان فرمارہے ہیں، بد ایوں سے واپس ہوکر پھپھوند آئے، ۱۸؍جمادی الثانیہ کو اٹاوہ میں محفل میلاد شریف تھی، شرکت کے لیےجارہے حکیم مومن سجاد ہمرکاب تھے، پھپھوند اسٹیشن پر اچانک حکیم صاحب سے آپ نے فرمایا، سیدھا پاؤں بھاری ہوگیا ہے تھوڑی دیر میں لکنت بھی پیدا ہوگئی، حکیم صاحب فوراً بذریعہ یکہ پھپھوند واپس ہوئے اچانک علالت کی خبر سے قصبہ میں کہرام مچ گیا، ۱۷؍جمادی الثانیہ شنبہ کا دن گزار کر گیارہ بجے شب میں واصل بھق ہوئے، ۱۸؍کو تجہیز و تکفین ہوئی، مولانا حکیم حبیب علی کاکوروی المتوفی ۱۳۳۰؁ھ نے جنازہ کی امامت کی، مولوی محمد یعقوب حسن ضیاء القادری بد ایونی نے تاریخ وفات کہی۔

بلبلِ باغ شریعت مولوی عبدالصمد

 

وائے حسرت، عازم گلزار رضواں ہوگیا

نور باطن سے ضیا لکھی یہ تاریخ وصال

 

گوہر دُرج طریقت، ہائے پنہا ہوگیا

حق الیقین فی مبحث مولد اعلیٰ النبیین(۲)نصر السنیین علی احزاب المبتدعین افادات صمدیہ، طوارق صمدیہ، ارغام الشیاطین وغیرہ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کو بخاری شریف م کمل مع رواۃ زبانی یاد تھی اور حص حصین بھی، اور قرآن مجید ڈھائی گھنٹہ میں تراویح میں ختم کرتےتھے۔ (اکمل التاریخ حصہ دوم، تحفۂ حنفیہ پٹنہ، دربار عرس قادری ۲۷؁ھ ملفوظ مصابیح القلوب)

تجویزوآراء