غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی
غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اصل نام نامی محمد سعید، مگر آپ نے احمد سعید اختیار کیا، حضرت مولانا مختار احمد بیتے (از احقد سید نا امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ۱۹۱۳ء میں اپنے وطن امروہہ ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے، اوّل سے آخر تک تعلیم اپنے برادر بزرگ محدث شہیر، عالم کبیر، استاذ العلماء الراسخین حضرت مولانا سید محمد خلیل چشتی صابری مدظلہٗ سے مدرسہ محمدیہ امروہہ میں پائی، ۱۹۲۶ء میں سندِ فراغت حاصل کی، بعدہٗ اسی مدرسہ میں فنون کی تدریس پر مامور ہوئے، لاہوری احباب سے ملاقات کے لیے لاہور کا سفر کیا، دار العلوم نعمانیہ کے خلیفہ تاج الدین مرحوم نے آپ کے دفور علمی کی خبر سُن کر ملاقات کی، اور دار العلوم میں مدرسی کی پیش کش کی، یہاں بہت جلد آپ کےکمال علمی کا شہرہ ہوگیا، سولہ ماہ قیام کےبعد اوکاڑہ کے مخلصین کی دعوت پر بہر تدریس وہاں تشریف لے گئے، دو برس چھ ماہ وہاں پر علم و فضل کے دریا بہائے،
خواجہ خواجگان اجمیری رضی اللہ عنہٗ کی تقریب عرس میں وعظ کے لیے ملتان پہونچے، اہل ملتان آپ کی تقریری سے بے حد متأثر ہوئے، شیخ نقین عالم نے قیام کی دعوت پیش کی، جسے آپ نے قبول کیا، نومبر ۱۹۳۵ء میں ملتان آکر مسجد فتح شیر خاں لوہاری دروزہ گلی امام الدین میں درس تفسیر شروع کیا، یہاں دیوبندی دین کےپیر و افراد نے کثیر تعداد میں آپ کی تبلیغ سے دین اسلام قبول کیا، یہاں پہلے سے م ولانا عبد العزیز گوجرانوالوی سرگردہ دیوبندیہ کا اثر تھا، اور ان سےبکثرت لوگ مرید تھے، اُن کے مُریدین نے اُن کو آپ سے مناظرہ پر تیار کیا مسئلہ علم غیب النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مناظرہ ہوا، آپ کےدلائل قاہرہ سے مولان تھانوی کے اس مرجع و معتمد فی العلم کو سخت ذلت ہوئی، اور نوماہ سےقبل ہی وہ عذاب الٰہی کے آغؤش غضب میں جا پہونچے اس واقعہ سے دیوبندیون کے دلوں میں آتش غض و انتقام بھڑک اٹھی، اورانہوں نے شازش کر کے بہ مقام بلھا جھلن مضافات بہاول پور میں تقریری کی دعوت دی اور سرگردہ دیوبندیہ کے شاگرد مولوی لقمان نے دوران تقریری میں اپنے تین ہم عقیدہ لوگوں کے ساتھ بلم بھالا چاقو لے کر آپ پر ٹوٹ پڑے، اور اپنے خیال م یں آل رسول کو شہید کر کے مفرد ہوگئے، لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک کے صدقہ میں آپ کو بچالیا۔
اسی سفر واپسی میں آپ نے مدرسہ قائم کرنے کا ارادہ کیا، حاجی اللہ بخش مرحوم نے دس ہزار روپے پیش کیے جس سے مدرسہ کے لیے زمین خریدی گئی، ھاجی صاحب مرحوم کی اہلیہ نے بھی ایک معقول رقم پیش کی، ۱۳۶۶ھ مطابق ۱۹۴۴ء میںمدرسہ کا قیام عمل میں آگیا یہاں کثیر تعداد میں تشنگان علوم نے آپ سے کسبِ فیض کیا، ۱۳۸۳ھ مطابق ۱۹۶۳ء میں حکومت پاکستان نے جامعہ اسلامیہ بہاول پور کا آپ کو شیخ الحدیث مقرر کیا۔
زہدوورع، ذہانت و فطانت واستخصار جیسی دولتوں سے آپ کو حصہ وافر عطا ہوا ہے، حضرت شیخ الحدیث مولانا سردار احمد محدث علیہ الرحمۃ جیسے جلیل القدر عالم آپ کو ‘‘غزائی عصر’’ فرمایا کرتےتھے، آپ پاکستان کے کبار علمائے اہل سنت میں ممتاز مقام پر فائز ہیں۔