غزالی زماں رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی
غزالیٔ زماں رازیٔ دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ الحدیث دارالعلوم انوار العلوم ملتان(پاکستان)
غزالی زماں، رازی دوراں علامہ ابو النجم سید احمد سعید کاظمی رضوی ولد سید محمد مختار کاظمی رحمۃ اللہ علیہ بمقام امروہہ مضافات مرادآباد ۱۳۲۲ھ/ ۱۹۱۳ء میں سادات کے ایک عظیم روحانی وعلمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
علامہ کاظمی کا سلسلۂ نسب سیدنا امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ اسی نسبت سے آپ کاظمی کہلاتے ہیں۔
تعلیم وتربیت
حضرت علامہ کاظمی ابھی اپنی عمر کی ابتدائی منازل طے کر رہے تھے کہ والدِ ماجد وصال فرماگئے، چنانچہ تربیت علامہ کاظمی کے برادر معظم حضرت علامہ سید محمد خلیل کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں ہوئی۔
حضرت علامہ سید محمد خلیل کاظمی رحمۃ اللہ علیہ (محدث امروہی) اس وقت شاہجہانپور کے مدرسہ بحر العلوم میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے تھے، چنانچہ علامہ سید احمد سعید کاظمی نے مولانا سید محمد خلیل کاظمی سے ہی علوم دینیہ کا درس لینا شروع کردیا اور سولہ سال کی عمر میں تمام علوم و فنون کی تکمیل کے بعد سند فراغت حاصل کی۔
دستار بندی کے موقع پر ایک پُر انوار اجتماع تھا۔ حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی، صدر الافاضل مولانا نعیم الدین رضوی مراد آبادی اور مولانا شاہ احمد کانپوری رحمہم اللہ علیہ کے علاوہ دیگر کئی علماء ومشائخ اہل سنت موجود تھے۔
حضرت شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ کاظمی کے سر پر دستار باندھی۔
تدریس کا آغاز
فراغت کے بعد علامہ کاظمی لاہور تشریف لائے۔ حضرت علامہ دیدار علی رضوی الوری رحمۃ اللہ علیہ (م۱۳؍رجب ۱۳۵۴ھ/۲، اکتوبر ۱۹۳۵ء) علامہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ (م۳؍شعبان المعظم ۱۳۰۸ء) علامہ سید احمد سعید رضوی اور دیگر علماءاہل سنت سے ملاقات کی۔ دریں اثناء ایک دن علامہ کاظمی جامعہ نعمانیہ تشریف لے گئے۔ اس وقت حافظ محمد جمال مسلم الثبوت پڑھارہے تھے۔ علامہ کاظمی بھی سماع کی خاطر بیٹھ گئے جب ماہیت مجروہ کی بحث شروع ہوئی تو علامہ کاظمی نے بھی اس میں حصہ لیا۔ چنانچہ علامہ کاظمی کو دتِ طبع اور استحضاءِ مسائل کے ملکہ سے متاثر ہوکر مولانا حاظ محمد جمال رحمۃ اللہ علیہ نے وبیر انجمن خلیفہ تاج الدین کو مشورہ دیا کہ علامہ کاظمی کو جامعہ میں مدرس مقرر کرلیا جائے۔
حضرت علامہ کاظمی کا جامعہ مسند تدریس پر متمکن ہونا تھا کہ علوم اسلامیہ کے شیدائی جوق در جوق آنا شروع ہوگئے، یہاں تک کہ اٹھائیس اسباق کی تدریس آپ سے متعلق ہوگئی۔ ۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ء میں آپ اپنے وطن مالوف امروہہ تشریف لے گئے، اور چار سال تک مدرسہ محمدیہ حنفیہ میں پڑھاتے رہے۔۔۔۔ اس کے بعد علامہ کاظمی حکیم جان عالمکی دعوت پر اوکاڑہ تشریف لائے اور ایک سال مسلسل، تبلیغ دین فرماکر بد عقیدگی اور تنقصِ رسالت کی وجہ سے مکدر ہونے والی فضا کو صاف فرمایا۔
ملتان میں آمد
حضرت نصیر عالم رحمۃ اللہ علیہ (ایک درویش صفت بزرگ) ہر سال ملتان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا عرس پاک منعقد کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت علامہ کاظمی کو دعوت تقریر دی۔ وہ آپ کی تقریر سے اس قدعر متاثر ہوئے کہ انہوں نے علامہ کاظمی کو مستقل طور پر لانے کی کوششیں شروع کردیں۔ آخر ان کے مسلسل اصرار نے علامہ کاظمی کو مستقل طور پر لانے کی کوششیں شروع کردیں۔ آخر ان کے مسلسل اصرار نے علامہ کاظمی مستقل طور پر ملتان آنے کے لیے مجبور کردیا۔
ملتان میں علامہ کاظمی نے درس کا آغاز اپنے رہائشی مکان سے کیا۔ آپ کی شہرت سن کر دور دور سے علمی ذوق رکھنے والے لوگ فیض یاب ہوتے رہے۔ اسی دوران علامہ کاظمی نے مسجد حافظ شیر بیرون لوہاری دروازہ (ملتان) میں قرآن مجید کا درس دینا شروع کیا۔ اور مختلف دشمن عناصر کی سازشوں کے باوجود اٹھارہ سال میں درس قرآن مکمل کیا۔ اس کے علاوہ مسجد چپ شاہ میں درسِ حدیث شروع کیا اور مشکوٰۃ شریف وصحیح بخاری شریف کا درس مکمل کیا۔
مناظرہ
گوجرانوالہ کے ایک غیر مقلد مولوی عبدالعزیز نے جب اپنے ایک مُرید کو حضرت علامہ کاظمی کے درس میں شریک ہوتے دیکھا، تو وہ جل بھُن گیا اور آپ سے مناظرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مناظرہ میں علامہ کاظمی کے ذریعے اہل سنت وجماعت کو کامیابی نصیب فرمائی اور غیر مقلد نے آپ سے بری طرح شکست کھائی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور لوگ غلط عقائد سے تائب ہوکر جوق در جوق مسلکِ اہل سنت سے وابستہ اور حضرت علامہ کاظمی کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونےلگے۔
قاتلانہ حملہ
عملی سطح پر وہابیوں کے لیے حضرت علامہ کاظمی سے مقابلہ کرنا بڑا مشکل تھا اور اس سے قبل بھی وہ اس شکست کا سامنا کرچکے تھے، جبکہ علامہ کاظمی نے ان کے مشہور و معروف مناظرہ مولوی مرتضیٰ حسین در بھنگی کو ہندوستان میں قیام کے دوران درپے شکست سے دو چار کیا۔
چنانچہ وہابیوں نے اپنی خفت مٹانے کےلیے علامہ کاظمی کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ آپ کو ایک گاؤں (بلھا جھلن، جو اسٹیشن سے کافی دور تھا) میں تقریر کی دعوت دی اور پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مخالفین نے آپ پر کلہاڑیوں سے حملہ کردیا۔ علامہ کاظمی زخمی ہوگئے اور تین دن تک ایک ہندو عورت نے علامہ کاظمی کو اس خیال کےپیش نظر اپنے گھر میں رکھاکہ علامہ کا تعلق سادات سے ہے۔ پھر آپ کو ملتان لایا گیا اور چھ ماہ تک آپ ہسپتال میں زیر علاج رہے۔
انوار العلوم کا قیام
بیماری کے دوران حضرت علامہ کاظمی نے دینی ادارہ قائم نہ کر سکتے پر افسوس کا اظہار کیا، تو منشی اللہ بخش نے دس ہزار روپے اور ان کی اہلیہ محترمہ نے سونے کے کڑے اور خود حضرت علامہ کاظمی کی زوجہ محترمہ نے اپنا پورا زیور اتار کر دار العلوم کے قیام کے لیے دے دیا۔ چنانچہ شہر (ملتان) میں ایک قطعہ زمین خرید کر اس پر انوار العلوم کے نام سے ایک عظیم الشان دارالعلوم کی بنیاد رکھی گئی جو اہل سنت وجماعت کی مرکزی درس گاہ کی حیثیت سے مشہور ہے۔ علامہ کاظمی مدت تک اسی دار العلوم میں درسِ حدیث دیتے رہے اور جامعہ اسلامیہ بہاول پور سے انقطاع کے بعد تادم زیست انوار العلوم میں مسند درسِ حدیث سے مزین کرتے رہے [1] ۔
تحریکوں میں سرگرمیاں اور اس میں علامہ کا کردار
۲۸؍نومبر ۱۹۷۸ء کو تنظیم المدارس اہل سنت وجماعت پاکستان کے اجلاس میں علامہ کاظی کو جماعت کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ آپ کی قیادت میں کل پاکستان سنی کانفرنس ۱۶؍۱۷؍اکتوبر ۱۹۷۸ء کو ملتان میں منعقد ہوئی۔ اس تاریخی کانفرنس میں لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اطراف واکناف سے سوادِ اعظم اہل سنت شریک ہوئے۔
سابق صدر پاکستان فیلڈر مارشل محمد ایوب خان (مرحوم) کے دورِ حکومت میں جب محکمہ اوقاف نے جامعہ اسلامیہ بہاول پور کا انتظام سنبھالا، تو درسِ حدیث کے لیے کسی ماہر شیخ الحدیث کی ضرورت پڑی، چنانچہ حضرت علامہ کاظمی کی علمی تحقیق کے پیش نظر علامہ کاظمی کا اس عظیم منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس طرح علامہ کاظمی ۱۹۶۳ء سے ۱۹۷۴ء تک جامعہ اسلامی (اسلامی یونیورسٹی) بہاول پور میں شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز رہے۔ یونیورسٹی سے واپسی پر آپ کو تغمۂ خدمت پیش کیا گیا۔
تحریک پاکستان میں علماء اہلِ سنت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، چنانچہ دیگر اکابر اہل سنت سے پاکستان کے حق میں جلسے کرتے رہے اور ۱۹۴۶ء میں قرار دادِ پاکستان کی توثیق کے لیے بنارس کی آل انڈیا سنیکانفرنس میں شرکت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب مگریسی اور احراری علماء سر دھڑ کی بازی لگاکر پاکستان کی مخالفت کر رہے تھے [2] ۔
قیام پاکستان کے بعد آپ کی تحریک پر مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان میں ۲۶، ۲۷، ۲۸؍مارچ ۱۹۴۷ء کو ملک بھر کے علماء ومشائخ کا اجتماع ہوا اور جمعیۃ علماء پاکستان کی تشکیل کے بعد حضرت علامہ ابو الحسنات کو صدر اور حضرت علامہ کاظمی کو ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا [3] ۔
بیعت وخلافت
حضرت علامہ کاظمی نے اپنے برارِ معطم واستاد محترم حضرت علامہ سید محمد خلیل کاظمی قدس سرہٗ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف پایا اور خلافت حاصل کی [4] ۔ اور علامہ سے بھی اجازت وخلافت کا شرف حاصل ہے [5] ۔
مفتیٔ اعظم کے متعلق علامہ کا فرمان
حضرت علامہ کاظمی علیہ الرحمۃ اپنے مرشد برحق حضور مفتیٔ اعظم قدس سرہٗ کے متعلق فرماتے ہیں۔
‘‘حضور مفتئ اعظم ہند تو مفتی اعظم عالم ہیں۔ اس زمانے میں ان جیسا فقیہ و متقی میں نے دوسرا نہیں دیکھا، قرآن پاک میں خدائے قدیر جل مجدہٗ خود ارشاد فرماتا ہے ‘‘ان اولیاء الا المتقون’’
تصانیف
1. تسبیح الرحمن عن الکذ ب والنقصان ( یہ رسالہ آپ نے دورانِ تعلیم تحریر فرمایا) علامہ مولانا مفتی محمد غلام سرور قادری نے اس کی بہترین شرح ‘‘تنزیہ الغفار عن تکذیب الاشرار’’ کے نام سے لکھی ہے
2. مزیلۃ النزاع عن مسئلۃ السماع
3. تسکین الخواطر
4. معراج النبی
5. حیات لانبی
6. تقریر منیر
7. حجیّت حدیث
8. مکالمہ کاظمی ومودودی
9. تحقیقِ قربانی
10. نفی الظل وایفی
11. کتاب التروایح
12. الحق المبین
13. التحریر اور اس کی شرح التقریر
14. اسلام اور سو شلزم
15. اسلامی معاشرے میں طلباء کا کردار
16. التبشیر برد التحذیر
17. میلاد النبی
18. اسلام اور عیسائیت
19. فتویٰ حنفی
20. آئینہ مودودیت
چند مشہور تلامذہ
حضرت علامہ کاظمی علیہ الرحمۃکے تلامذہ نہ صرف یہ کہ کثیر التعداد ہیں، بلکہ وفضل میں نادر روزگار ہیں۔ چند شاگرد علماء کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
1. مولانا حسن الدین ہاشم، شیخ الفقہ اسلامی یونیورسٹی بہاول پور
2. مولانا مفتی شجاعت علی قادری ایم اے شیخ الحدیث دارالعلوم نعیمیہ ولیکچرر لیاقت کالج کراچی
3. مولانا محمد حسن حقانی، سابق ایم پی اے (سندھ) کراچی
4. خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی (سابق ایم این اے) کراچی
5. مولانا خورشید احمد ظاہر پیر
6. مولانا عبدالقادر، زونل خطیب اوقاف ملتان زون
7. مولانا مشتاق احمد چشتی، نائب شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان
8. مفتی غلام سرور قادری شیخ الادب العربی واستاذ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
9. مولانا پیر محمد چشتی ناظم اعلیٰ جامعہ غوثیہ معینیہ پشاور
10. مولانا محمد فرید ا ہزاروی، مدرس جامعہ فاروقیہ رضویہ گوجرانوالہ
11. مولانا محمد شریف ہزاروی، مدرس دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ، ہری پوور ہزارہ
12. مولانا غلام رسول سعیدی، مدرس دار العلوم نعیمیہ کراچی [6]
وصال
حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ۲۵؍رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ/ ۴؍جون ۱۹۸۶ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اور زندگی بھر کے لیے آخری نیند سوگئے، تلامذہ کی کثیر جماعت استاذِ کامل سے محروم ہوگئی [7] ۔
نوٹ:
مقالات کاظمی۔ حضرت علامہ کاظمی کی مندرجہ بالاتصانیف اور دیگر مقالات جو مختلف رسائل وجرائد میں نکلے تھے سبھی کو اس میں شامل کردیا ہے۔ مقالاتِ کاظمی تین جلدوں پر مشتمل ہے،پاکستان وہندوستان سے طبع ہوچکی ہے۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[1] ۔ محمد صدیق ہزاروی، مولانا: تعارف علماء اہل سنت ص ۲۶ تا ۲۹
[2] ۔ محمد صادق قصوری، مولانا: اکابر تحریک پاکستان ص ۵۱
[3] ۔ محمد عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابر اہل سنت پاکستان ص ۴۳۲
[4] ۔ محمد صدیق ہزاروی، مولانا: تعارف علماءِ اہلِ سنت ص ۳۰
[5] ۔ مکتوبِ گرامی حضرت علامہ احمد سعید کاظمی رضوی علیہ الرحمۃ بنام علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری لاہور۔
[6] ۔ (الف) محمد صدیق ہزاروی مولانا: تعارف علماءِ اہلِ سنت ص ۳۱، ۳۲
(ب) ماہنامہ ضیاءِ حرم لاہور ص ۴۹ بابت جون ۱۹۷۵ء
[7] ۔ مکتوبِ گرامی علامہ مولانا عبدالحکیم شرف قادری لاہوری بنام راقم ۱۲
نوٹ:۔ علامہ کاظمی علیہ الرحمۃ کے تفصیلی حالات دیکھنے کےل یے رجوع کریں مقالات کاظمی ج اوّل مطبوعہ ساہیوال۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ