حضرت علامہ سید دیدار علی شاہ الوری

حضرت علامہ سید دیدار علی شاہ الوری(خلیفۂ اعلیٰ حضرت) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مرجع الفقہا ء والمحدثین مولانا ابو محمد سید محمد دیدار علی شاہ ابن سید نجف علی ۱۲۷۳ھ/۱۸۵۲ء بروز پیر محلہ نواب پورہ ، الور میں پیدا ہوئے[1] ،

آپ کے عم مکرم ،با خدا بزرگ مولانا سید نثار علی شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت سے قبل آپ کی والدہ ماجدہ کو بشارت عیتے ہوئے فرمایا:۔

’’ بیٹی ! تیرے ہاں ایک لرکا پیدا ہوگا جو دین مصطفوی کو روشن کریگا اس کا نام دیدار علی رکھنا ‘‘[2]

آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتاہے ۔ آپ کے آباء اجداد مشہد سے ہندوستان آئے اور الور میں قیام پذیر ہوئے ۔

آپ نے سرف نحو کی ابتدائی کتابیں ، الور میں مولانا قمر الدین سے پڑ ھیں ، مولاناکرامت اللہ خاں سے دہلی میں درسی کتابوں اور دورئہ حدیث کی تکمیل کی ، فقہ و منطق کی تحصیل مولانا ارشاد حسین رام پوری سے کی ، سند حدیث مولانا احمد علی محدث سہارنپوری اور حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی سے حاصل کی ، حضرت شیخ الاسلام پیر سید مہر علی شاہ گولروی اور مولانا وصی احمد محدث سورتی آپ کے ہم درس تھے۔

آپ سلسلۂ نقشبندیہ میں حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی کے مرید اور خلیفہ تھے ، سلسلۂ چشتیہ میں حضرت مولانا سید علی حسین کچھو چھوی اور سلسلۂ قادریہ میں اعلیٰ حضر امام احمد رضا بریلوی کے خلیفہ ماز ہوئے [3]

حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ اور صدر الا فاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے درمیان بڑے گہرے دستانہ مراسم تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت صدر الافاضل نے اعلیٰ حضرت احمد رضا بریلوی کا ذکر کیا اور ملاقات کی رغبت دلائی ، حضرت سید المحدثین نے فرمایا :

’’ بھائی مجھے ان سے کچھ حجاب سا آتا ہے ، وہ پٹھان خاندان سے تعلق رکتھے ہیں اور سنا ہے ، طبیعت سخت ہے

لیکن حضرت صدرع الا فاضل دوستانہ روابط کی بناء پر بریلی لے ہی گئے ، ملاقات ہوئی تو حضرت مولانا نے عرض کی حضور مزاج کیسے ہیں ؟! علیٰ حضرت نے فرمایا:

’’بھائی کیا پوچھتے ہو پٹھان ذات ہوں طبیعت کا سخت ہوں ۔‘‘

کشف کی یہ کیفیت دیکھ کر مولانا کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ، سرعقیدت ناز مندی سے جھکا دیا اس طرح بارگاہ رضوی سے نہ ٹوٹنے والا تعلق قائم ہو گیا[4]

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے حضرت مولانا سیدد یدار علی شاہ قدس سرہ اور آپ کے قابل صد فخر فرزند مفتیٔ اعظم پاکستان مولانا سید ابو البرکات مدظلہپ ، العالی کو تمام کتب فقہ حنفی کی روایت کی اجازت فرمائی[5]

اور اجازت وخلافت عطا فرماتے ہوئے تمام اور ادو وظائف کی اجازت فرمائی تکمیل علوم کے بعد ایک سال مدرسہ اشاعت العولم ، رامپورمیں رہے ۔۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء میں الور میں قوت الاسلام کے نام سے ایک دار العلوم قائم کیا پھر لاہور تشریف لاکر جامعہ نعیمیہ میں فرائض تدریس انجام دیتے رہے ۔ ۱۳۳۵ھ/۱۹۲۲ء دوبارہ لاہور تشریف لائے[6]اور مسجد وزیر خاں میں خطابت کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔ ۱۳۴۳ھ/۱۹۲۵ء میں مرکزی انجمن خرب الاحناف قائم کی اور دارالعلوم حزب الاحناف کی بنیاد رکھی جہاں سے سینکڑوں علماء فضلاء اور مدرسین پیدا ہوئے ۔آج پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر یاد یہات ہوگا جہاں حزب الاحناف کے فارغ التحصیل علماء دینی خدمات دے رہے ہوں[7]

حضرت کی ذات ستودہ صفات محتاج تعار ف نہیں ، بے باکی اور حق ، بے باکی اور حق گوئی آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی ، مخالفوں کے طوفان آپ کے پائے ثبات کو جنبش نہ دے سکے، دنیا کی کوئی طاقت انہیں مرعوب نہ کر سکتی تھی ، علم و فضل کے تو گو یا سمندرتھے ، کسی مسئلے پر گفتگو شروع کرتے تو گنٹوں بیان جاری رہتا ۔ سورئہ فاتحہ کا درس ایک سال میں ختم ہوا،آپ کے خلوص و ایثار ، زہد و تقویٰ ، سادگی اور اخلاق عالیہ کے مخالف و موافق سبھی معترف تھے، سنیت اور حنفیت کے تحفظ اور فروغ کے لئے آپ نے نہایت اہم خدمات انجام دیں ، غازی کشمری مولانا سید ابو الحسنا ت قادری صدر جمیعت علماء پاکستان( رحمہ اللہ تعالیٰ) اور مفتی ٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا ابو البرکات سید احمد ، شیخ الحدیث دارالعلوم حزب الاحناف لاہور دامت بر کاتہم العالیہ آپ ہی کے فضل و کمال کے عکس جمیل ہیں ، آپ عربی ، اردو اور فارسی میں شعر بھی کہتے تھے ، آپ کے دیوان پختگی ٔ کلام شاہد ہیں ۔

ہندو پاک میں آپ کی انتھک تدریسی کا دشوں کی دولت بے شمار تلامذہ نے آپ سے علوم دینبیہ کی تعلیم پائی، آپ کے صاحبزاے گان کے علاوہ چند تلامذہ کے نام یہ ہیں:۔

۱۔ مولانا ارشاد علی الوری مرحوم

۲۔ مولانا رکن الدین الوری نقشبندی

۳۔ مولانا محمد اسلم جلال آبادی

۴۔مولانا عبد الحق ولایتی

۵۔ مولانا عبد الرحمن ولایتی

۶۔ مولانا سید فضل شاہ (پنجابی)

۷۔ مولانا فیض اللہ خاں ہوتی مردان

۸۔ مولانا محی الاسلام بہاولپوری

۹۔ مولانا عبد القیوم ہزاروی

۱۰۔ مولاناسید منور علی شاہ

۱۱۔ مولانا محمد رمضان بلودچشتانی

۱۲۔ مولانا غلام محی الدین کاغانی

۱۳۔ مولانا محمد رمضان لسبیلہ ، سندھ

۱۴۔ مولانا شفیق الرحمن پشاور

۱۵۔ مولانا فضل حسین ، معین الدین پور، گجرات

۱۶۔ مولانا عبد العزیز، الگو

۱۷۔ مولانا زین الدین الوری

۱۸۔ مولانا عبد القیوم الوری

۱۹ ۔ مولانا عبد الرحیم الوری

۲۰۔ مولانا عبد الجلیل جالندھری

۲۱۔ مولانا محمد غوث ملتانی ۔

۲۲۔ مولانا محمد مہر الدین مدظہ العالی شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور۔

۲۳۔ مولانا ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی مد ظلہ العالی

بانی و مہتمم دار العلوم حنفیہ فرید بصیر پور۔

۲۴۔ مولانا عبد العزیز ، بورے والا۔

آپ نے محققان تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے ، بعض تصانیف کے نام یہ ہیں :۔

۱۔ تفسیر میزان الادیان ( مقدمہ و تفسری سورئہ فاتحہ)

۲۔ ہدایۃ الغوی درد دروافض

۳۔ رسول الکلام

۴۔ تحقیق المسائل [8](۱)

۵۔ ہدایۃ الطریق  

۶۔ سلوک قادریہ

۷۔ علامات وہابیہ

۸۔ فضائل رمضان

۹۔ فضائل شعبان

۱۰۔ الاستغاثۃ من اولیاء اللہ عین استغاثہ من اللہ

۱۱۔ دیوان دیدار علی فارسی

۱۲۔ اردو

۲۲ رجب المرجب ، ۲۰ اکتوبر ۱۳۵۴ھ/۱۹۳۵ء کو اپنے رب کریم کے دربار میں حاضر ہوئے اور جامع مسجد اندرون دہلی دروازہ لاہور میں دفن ہوئے ، مولانا ابو الحسنات رحمہ اللہ تعالیٰ نے قطعۂ تاریخ وصال کہا جس کا تاریخی شعر یہ ہے ؎

حافظ پس سر کوئی اعداء شریعت

’’ دیدار علی یافتہ دعدار علی را ‘‘

 

 

[1] غلام مہر علی مولانا : الیواقیت المہریہ ص ، ۱۱۷

[2] عبد النبی کوکب ، قاضی ، اخبار جمیعت لاہور ( ۷فروری ۱۹۵۸ئ)ص ۳

[3] اقبال احمد فاروقی ، پیرزادہ : تذکرہ علمائے اہل سنت و جماعت لاہور ،ص ۲۶۸۔۶۲۹

[4] اقبال احمد فاروقی ، پیرزادہ : تذکرہ علمائے اہل سنت و جماعت لاہور ،ص ۲۶۸۔۶۲۹

[5] دیدار علی شاہ ۔ امام المحدثین : مقدمہ میزان الا ویان بتفسیر القرآن ،ص ۸

[6] نقوش ، لاہور نمبر : ص ۹۲۹

[7] غلام مہر علی مولانا: الیواقیت المہر یہ ، ص ۱۱۹

[8] یہ کتاب مولوی رشید احمد گنگو ہی سے بعض فقہی مسائل کے سلسلے میں خط و کتابت کا مجموعہ ہے جن میں گنگو ہی صاحب عاجز آگئے تھے۔

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء