حضرت علامہ سید محمد بن علوی مالکی مکی
حضرت علامہ سید محمد بن علوی مالکی مکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
پندرھویں صدی کے مجدد ، اُستاذ الحدیث مسجد حرام شریف مکہ معظمہ
ولادت:
مکہ مکرمہ کی پر نور ار م قدس سرزمین کے ایک روشن چراغ اور گوہر شب تاب، فضیلت الشیخ علامہ سید محمد بن علوی مالکی رضوی دامت برکاتہم العالیہ ہیں اور اسی مبارک سر زمین پر ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ مسلکاً مالکی اور مشرباً قادری رضوی ہیں۔
حسب ونسب:
حضرت علامہ سید محمد علی سلسلۂ سادات سے تعلق رکھتے ہیں، سلسلۂ نسب اٹھائیس واسطوں سے حضرت فاطمۃ زہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تک اس طرح پہنچتا ہے۔
۱۔ محمد الحسن بن ۲۔ علوی بن ۳۔ عباس بن
۴۔ عبدالعزیز بن ۵۔ عباس بن ۶۔ عبدالعزیز بن
۷۔ محمد بن ۸۔ قاسم بن ۹۔ علی بن
۱۰۔ عربی بن ۱۱۔ ابراہیم بن ۱۲۔ عمر بن
۱۳۔ عبدالرحیم بن ۱۴۔ عبدالعزیز بن ۱۵۔ ہارون بن
۱۶۔ علوشی بن ۱۷۔ مندیل بن ۱۸۔ علی بن
۱۹۔ عبدالرحمٰن بن ۲۰۔ عیسیٰ بن ۲۱۔ احمد بن
۲۲۔ محمد بن ۲۳۔ عیسیٰ بن ۲۴۔ ادریس بن
۲۵۔ عبداللہ الکامل بن ۲۶۔ الحسن المثنی بن ۲۷۔ الحسن سبط بن
۲۸۔ علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۲۹۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہٖ اجمعین [1]
تعلیم وتربیت:
حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی نے اس مقدس سر زمین مکہ مکرمہ میں تعلیم وتربیت پائی مسجد حرام کے تعلیمی حلقوں سے استفادہ کیا۔ مدرسۂ الفلاح، مدرسہ تحفیظ القرآن (مکہ مکرمہ) میں بھی تعلیم حاصل کی [2] علامہ سید محمد علوی نے تعلمی سلسلہ میں مغرب مصر اور ہندو پاک کا سفر کیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والد بزرگوار کے حکم سے تدریس کا آغاز کیا علامہ سید محمد علوی مالکی کے والد گرامی حضرت الشیخ علامہ مولانا سید علوی بن عباس مالکی علیہ الرحمۃ کی ولادت ۱۳۲۸ھ کو مکہ مکرمہ میں ہوئی اور وفات ۱۳۹۱ھ میں ہوئی۔ حضرت علامہ سید علوی بن عباس مالکی مسجد حرام کے اُستاذ اور متعدد اہم کتابوں کے مصنف تھے۔ مندرجہ ذیل کتب ان کی علمی صلاحیت پر دال ہیں:۔
۱۔ ابانۃ الحکام شرح بلوغ المرام
۲۔ نیل المرام شرح عمدۃ الاحکام
۳۔ فیض الخبیر فی اصول التفسیر
۴۔ المواعظ الدا
وغیرہ کتب قابل ذکر ہیں [3]
اساتذۂ کرام:
حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی کے مشہور اساتذہ اور شیوخ عظام یہ ہیں:
۱۔ حضرت مولانا السید علی بن عباس المالکی علیہ الرحمۃ، المتوفی ۱۳۹۱ھ
۲۔ حضرت المولانا محمد محمد یحیٰ بن الشیخ امان، المتوفی ۱۳۸۷ھ
۳۔ حضر مولانا محمد العربی بن التبافی، المتوفی ۱۳۹۰ھ
۴۔ حضرت المولانا حسن بن سعید الیمانی، المتوفی ۱۳۹۱ھ
۵۔ حضرت المولانا محمد الحافظ التیجاجی المصری، شیخ الحدیث بمصر، المتوفی ۱۳۹۸ھ
۶۔ حضرت الشیخ حسن بن محمد المشاط، المتوفی شہر شوال من سنۃ ۱۳۹۹ھ
۷۔ حضرت المولانا محمد ابراہیم بن ابو العین شیخ الطریقۃ الخلویۃ
۸۔ حضرت الشیخ مولانا عبداللہ بن سعید الحجمی
۹۔ حضرت الشیخ مولانا محمد نور سیف بن حلال [4]
۱۰۔ حضرت الشیخ مولانا عمر حمدان
۱۱۔ حضرت الشیخ مولانا حبیب اللہ سنفیطی
۱۲۔ حضرت الشیخ مولانا محمد المالکی
۱۳۔ حضرت الشیخ مولانا عبدالقادر شبلی المدنی
۱۴۔ حضرت الشیخ مولانامحمد ابو الباقی لکھنوی ثم المدنی [5]
تدریسی زندگی کا آغاز:
علامہ سید محمد علوی مالکی کے ولاد ماجد نے جب ۱۳۹۱ھ میں رحلت فرمائی تو علماء مکہ معظمہ جمع ہوئے اور والد ماجد کی ساری ذمہ داریاں آپ کو سونپ دیں۔اپنی تصنیف الطالع السعید المنتخب کے مقدمہ میں اپنے آغاز تدریس اور اعزاز منصب مسجد حرام شریف سےباریابی کا حال لکھتے ہیں:
میں نے اللہ کے فضل سے قبل بلوغ میں اپنے والد ماجد سید علوی بن عباس مالکی کے حکم سے پڑھانا شروع کردیا تھا جس وقت میں کوئی کتاب ختم کرتا اُسی وقت میرے والد کتاب کو پڑھانے کا حکم دیتے۔ اس طرح میں نے تدریس کی ابتداء کی۔ میرے والد علیہ الرحمۃ کی وفات کے تین دن بعد علماء مکہ مکرمہ میرے گھر پر اکٹھا ہوئےاور مجھے میرے والد ماجد کی جگہ مسجد حرام کا مدرس مقرر کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اسکی توفیق و تائید سے آج بھی میں اسی سعادت سے بہرہ ور ہوں [6] ۔
غیر ملکی سفر اور علمی اجلاس میں شرکت:
حضرت سید محمد علوی مالکی نے دنیا کے بہت سے اہم شہروں اور م لکوں کا علمی سفر کیا۔ اور وہاں کے کتب خانوں اور شخصیتوں سے استفاد بھی کیا۔ آپ اپنی کتاب فضل المؤطا وغایۃ الامۃ الاسلامیہ کی تصنیف کے دوران مصر، شام، تیونس، مغرب، مدینۂ طیبہ اور طائف پہنچے اور حسب ضرورت قیام فرماکر تحقیقی کام کیے۔ بہت سے عالمی اجلاس اور کانفرنسوں کی علامہ سید محمد علوی مالکی کو دعوت دی اور بہتوں میں شرکت بھی فرمائی۔ مندرجہ ذیل کانفرنسوں میں خاص طور سے تشریف لے گئے۔
۱۔ الملتقی الاسلامیہ الجزائر
۲۔ المرکز الاسلامی جاکرتا
۳۔ مرکز الجمعیۃ الاسلامیۃ کینڈا
۴۔ ندوۃ الامام مالک فاس مغرب
۵۔ مؤتمر علماء الالمالکیۃ لندن ۔ برطانیہ
۶۔ مؤتمر علمائ المسلمین مالیبار۔ سعودیہ عربیہ [7]
سعودیہ عربیہ میں منعقد ہونے والے مقابلے قران کے تین سال تک صدر رہے، پھر خود ہی معذرت کردی۔ ان کے علاوہ اور بھی تاریخی اجلاس میں خطاب فرمایا، رامپور میں عارف باللہ حضرت سیدنا ھافظ شاہ جمال اللہ نور اللہمرقدہٗ کے دوسو صد سالہ جشن منعقدہ (۱۴۰۹ھ؍۱۹۸۸ء) میں بھی دعوت پیش کی گئی مگر کسی مجبوری کے تحت تشریف نہ لاسکے، اور تحریک صلوٰۃ کانفرنس کانپور (۱۴۰۹ھ؍۱۹۸۸ء) میں بھی شرکت نہ ہوسکی اور ہم لوگ دیدار سے محروم رہ گئے۔
علم وفضل:
محنت، جدوجہد، ذکاوت وفطانت اور علمی استعداد وصلاحیت کے لحاظ سے زمانۂ تحصیل علم کے دوران ہی تمام درسی طلبہ پر علامہ سید محمد علوی مالکی کو فوقیت اور برتری حاصل تھی، اسی لیے اپنے والد ماجد کے حکم پر ختم ہونے والی ہر درسی کتاب کا دوسرے طلبہ کو درس بھی دیا کرتے تے۔ مشق مَمَا رَسَتْ علم سے فطری مناسبت اور خدا داد لیاقت وصلاحیت ہی کا فیضان تھا کہ علامہ سید محمد علوی مالکی آگے چل کر حضرت مولانا السید علوی بن عباس مالکی علیہ الرحمہ کے سچے جانشین ثابت ہوئے۔ خود قمطراز ہیں۔
وقد تعنیت مدرسًارسیمًا فی کلیۃ الشریعۃ سنۃ۔ ۱۳۹۰ھ وبعد وفات الوالد بثلاثۃ ایام اجتمع علماء مکۃ فی دارنا وَکلفوفی بالتدریس فی مقام الوالد فی المسجد الحرام ولادت مستھداً بفضل اللہ وعونہ [8]
حرمین طیبین اور عالم اسلام میں علامہ سید محمد علوی مالکی کو بے پناہ قدر و منزلت حاصل ہے۔ علماء ومشائخ مؤثر حیثیت اور صلاحیت، جلالت شان کے قائم ومعرف ہیں، جامعہ ازہر قاہرہ، مصر کے ایک مشہور اُستاذ حدیث مولانا الشیخ محمد ابو زھو علامہ سید محمد علوی مالکی کی دینی وعلمی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
فان مؤلف ھذ السفر الجلیل ھو العلامۃ الفاضل الشیخ محمد علوی مالکی، احد العلماء المنابھین والشیوخ الاجلۃ، الذین لھم شغف نجد مۃ السنۃ النبویۃ وعنایۃ کبری باحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [9]
عشق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:
علم وفضل کے ساتھ ساتھ علامہ سید محمد علوی مالکی عشق و محبت نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم کے وارث وامین، عطمت انبیاء مرسلین کے علمبردار، اولیاء صلحاء امت کی جلالت شان کے قدر شناس اور ان کی تعظیم وتکریم کے داعی وملبغ بھی ہیں۔
اجازت وخلافت:
اسلاف کرام کی شان میں انگشت نمائی اور زبان اورازی کرنے والوں سے سخت نفرت رکھتے ہیں اور انہیں ان کی غلط حرکتوں سے باز رکھنے کی کوشش بھی فرماتے ہیں۔ اعلیٰحضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ کے علم وفضل کے بڑے مداح ہیں۔ بیعت غالباً اپنے والد بزرگوار سے ہیں اور حضور مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ تیسری بار جب حج وزیارت کے لیے تشریف لے گئے وہاں بہت سے اجلۂ علماء ومشائخ کو خلافت واجازت سے نوازا۔ وہیں علامہ سید محمد علوی مالکی کو بھی جمیع سلاسل کی اجازت عطا فرمائی [10] ۔
امام احمد رضافاضل بریلوی سے عقیدت:
مولانا غلام مصطفیٰ مدرس شرف العلوم (مشرقی پاکستان) حج وزیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں حضرت مولانا مفتی سعداللہ مکی سے ملاقات کی، مفتی سعداللہ مکی کی ایماء پر ان کا وفد علامہ سید محمد علوی مالکی سے ملاقات کے لیے گیا۔ دورانِ ملاقات مولانا غلام مصطفیٰ نے کہا کہ نحن تلامیذ تلامیذ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
اتنا کہتے ہی علامہ سید محمد علوی مالکی سروقدم اُٹھ کھڑے ہوئے اور فرداً افراد سبھی لوگوں سے مصافحہ و معانقہ فرمایا، اور بے حد تعظیم کی۔ شریعت وقہوہ پیش ہوا اور انہوں نے اپنی پوری توجہ مولانا غلام مصطفیٰ اور ان کے ہمرا ہوں کی جانب فرمادی اور ایک آہ سرد بھر کرفرمایا:
سیدی علامہ مولانا احمد رضا خاں صاحب فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نحن نعرفہٗ بتضیفانہٖ وتالیفاتہٖ حبہٗ عَلَامۃ السّنّۃِ وبغجہ علامہ البدعۃ
اس مجلس میں بڑے بڑے رؤساء مکہ معظمہ جلوہ افروز تھے اور علامہ سید محمد علوی مالکی کی اس خصوصی شفقت والتفات کو دیکھ کر دم بخود تھے۔ تمام لوگوں سے آپ ن ے وفد کاتعارف کرایا اور بار بار اعلیٰحضرت امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی کا ذکر فرمایا [11]
جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ (۱۴۰۷ھ؍۱۹۸۸ء) میں جب حج وزیارت کے لیے تشریف لے گئے تو علامہ سید محمد علوی مالکی نے اپنی تصنیف کردہ کتابیں فرمائیں اور بہت ہی قدرو منزلت کی نظر سے دیکھا۔ امام احمد رضا قادری بریلوی کے پوتے ہونے کی حیثیت سے اور حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے جانشین کی وجہ سے بہت عزت افزائی فرمائی اور دعائیہ کلمات سے نوازا [12] ۔
معمولات:
۱۳۹۰ھ میں علامہ سید محمد علوی مالکی کلیۃ الشریعۃ (مکہ معظمہ) کے مدرس مقرر ہوئے۔ ابھی زیادہ عرصہ گذار تھا کہ آپ کے والد ماجد کا وصال ہوگیا اور آپ مسجد حرام کے اُستاذ مقرر ہوئے۔ اس وقت علامہ سید محمد علوی مالکی کی زندگی نہایت مصروف اور اسلامی خدمات سے مملو ہے۔ مدرسہ عتیبہ (مکہ معظمہ) کے صرف اُستاذ ہی نہیں بلکہ اس ادارہ کی تمام تر ذمہ داریاں علامہ سید محمد علوی مالکی ہی پر ہیں۔ بیرون ممالک کے تقریباً ۸۵طلبہ کی کفالت بھی فرماتے ہیں۔ بعد مغرب تا عشاء مسجد حرام کے اندر درس حدیث وقرآن میں مشغول رہتے ہیں، اور بعد نماز عشاء اپنے مکان پر محفل منعقد کرتے ہیں، جس میں تلاوتِ قرآن کریم، ذکر ونعت، اور سلام پڑھے جاتے ہیں۔ بعد محفل عام حالات میں تصنیفی کاموں میں مشغول ہوتےہیں۔ اس طرح وہ اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں۔ علامہ سید محمد علوی مالکی اپنی جواں سال ہی میں اس قدر دینی خدمات انجام دے چکے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
محتاط قلم:
حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو بڑے محتاط انداز میں پوری محنت جستجو کے ساتھ اس کا پورا حق ادا کرنے کی کوشش فرماتے ہیں، اور رب تعالیٰ انہیں کامیابیوں سے نوازتا بھی ہے۔ اپنی ایک تصنیف فضل المؤطا کی تکمیل کے لیے جس ریاضت اور لگن سے مواد کی فراہمی کا کام کیا اس کے بارے میں خود رقم طراز ہیں:
ثم تماتم العزم شمرن عن ساق الجد موشرعت فی ذالک بدوف توقف لا یقطعنی عن الکتابۃ والمراجعۃ والمبحث حضر ولا سفر للکثرۃ اسفاری، فکتب فصو لا بمصر ومکۃ المکرمۃ، والمدینۃ المنورۃ والطائف والمغرب، وتونس والشام [13] ۔
تعارف تصانیف:
مصروفیات کے باوجود علامہ سید محمد علوی مالکی تصنیف و تالیف کے کام سے بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور اب تک پچیسوں کتابیں قلم سےنکل کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ جنہیں وانشور اور تعلیم یافتہ طبقوں میں خاص مقبولیت حاصل ہے، اور اپنے اپنے موضوع پر ا ُنہیں بیش قیمت اضافہ تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا افتخار احمد قادری نےعلامہ سید محمد علوی مالکی کی ایک کتاب کا ترجمہ کیا، اور اس کے مقدمے میں چند تصانیف پر تبصرہ قلم بند فرمایا۔ اس کا اجمالی خاکہ پیش ہے۔
۱۔ الانسان الکامل:
یہ کتاب اصلاحی، دعوتی بھی ہےاور بعض خالص علمی وتاریخی بھی، شمائل نبوی کے موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔ اس کے اندر علامہ سید محمد علوی مالکی ایک ہمدرد مصلح ایک عظیم مفکر ایک جلیل القدر محقق کی شکل میں صاف طور سے دیکھے جا سکتے ہیں۔؎
۲۔ ادب الاسلام فی نظام الاسرۃ:
(مطبوعہ ۱۴۰۱ھ) نظام خاندان میں تعلیمات اسلام کے نام سے ہی مضامین کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک صحیح خاندان کس طرح تشکیل پاتا ہے، کیسے اس کا آغاز ہوتا ہے، کیسے وہ بڑھتا اور پھلتا ہے۔ اور یہ خاندان کس طرح ایک اچھےمعاشرہ کا حصہ بن سکتا ہے، اس قسم کے موضوعات پر اس کتاب میں گفتگو کی گئی ہے اور قرآن وحدیث کی عبارتوں سے بحثوں کو مدلل و مزین کیا گیا ہے۔
۳۔ الطالع السعید المنتخب من المسلسلات والاسانید:
(مطبوعہ مطابع سحرجدہ) اس کتاب میں علامہ سید محمد علوی مالکی نے اپنی علمی اسناد کا ذکر کیا ہے۔ حدیث مسلسل بالاؤ لیت، حدیث مسلسل بالمجیب اور حدیث مسلسل بیوم عاشورہ وغیرہ کی سندوں کے ساتھ جلالین، مؤطا امام مالک، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابو داؤد، حرزب البحر، قصیدہ بردہ وغیرہ کی اسانید کا ذکر کیا ہے۔ علامہ سید محمد علوی مالکی جس کو حدیث وغیرہ کی اجازت دیتے ہیں، اسے یہ کتاب دے کر اپنا دستخط ثبت کرتے ہیں۔
۴۔ حول الاحتفال بالمولد النبوی الشریف:
(مطبوعہ ۱۴۰۲ھ) جشن میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جواز پر اس کتاب میں بحث کی گئی ہے۔ اس کا ترجمہ مولانا اختر اعظمی نے بڑے سلیس انداز میں کیا ہے۔
۵۔ زبدۃ الاتفان فی علوم القرآن:
(مطبوعہ دارانسان قاہرہ مصر ۱۴۰۹ھ ۱۳۸۱ء) اصول تفسیر پر یہ کتاب عمدہ اور جامع کتاب ہے۔ حضرت علامہ امام جلال الدین سیوطی قدس سرہٗ کی الاتقان فی علوم القران کی یہ کتاب تلخیص ہے کچھ ضروری اضافے بھی کیے گئے ہیں جیسا کہ مقدمۂ کتاب میں علامہ سید محمد علوی مالکی نے تحریر فرمایا ہے۔ تفسیری مطالعہ کے لیے یہ کتاب بڑی مفید ہے۔
۶۔ قل ھٰذہ سبیلی:
(مطبوعہ دارالمدینۃ المنورہ النشر والنوزیع المدینۃ المنورہ ۱۴۰۲ھ) اس کتاب میں اسلامیات اور ایمانیات کا اجمالی تذکرہ ہے۔ اس کے بعض عنوانات یہ ہیں۔ کلمہ طیبہ، ایمان باللہ، ایمان بالملئکہ، ایمان بالکتب، حوض کوثر، جنت و دوزخ، شفاعت ایمان وغیرہ ایک مومن کی اصلاح وتربیت کے لیے یہ کتاب بڑی ہی نفع بخش ہے۔
۷۔ الدعوۃ الاصلاحیہ:
(مطبوعہ مکتبہ الغزالی دمشق موستہ مناہل العرفان بیروت ۱۴۰۱ھ) اصلاحی موضوعات پر ریڈیو سعودیہ عربیہ سے نشر ہونے والے مضامین کا یہ مجموعہ ہے۔ مختلف موضوعات پر چھوٹے چھوٹے مضامین ہیں۔ مگر افادیت و مقصدیت کے لحاظ سے یہ چھوٹے نہیں بلکہ بڑے ہیں۔ ان کے بارے میں علامہ سید محمد علوی مالکی خود تحریر فرماتے ہیں:
عقیدہ اخلاق اور معاملات سے متعلق مختلف موضوعات پر میری دس سالہ جانفشا نیوں کو نچوڑ ہے۔
علامہ سید محمد علوی مالکی کے والد ماجد ہر جمہع کی صبح کو اصلاحی موضوعات پر ریڈیو سعودیہ عربیہ سے خطاب فرماتے تھے۔ ان کے بعد یہ شرف علامہ سید محمد علوی مالکی کو حاصل ہوا۔ انہیں خطابات کو مقالات کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ تقریباً ساٹھ مقالات اس مجموعہ میں شامل ہیں۔
۸۔ فی سبیل الھدی والرشاد:
(مطبوعہ مطابع سحر جدہ ۱۴۰۱ھ) یہ کتاب بھی ریڈیوں سعودیہ سے نشر ہونے والے خطبات کا مجموعہ ہے۔ علامہ سید محمد علوی مالکی کے بعض احباب ان خطبات کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی تجویز رکھ دی۔ آپ نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُنہیں شائع کیا۔ اس کتاب میں تقریباً پچاس مقالات ہیں۔
۹۔ المنھل اللطیف فی اصول الحدیث الشھیف:
(مطبوعہ ۱۴۰۲ھ) مقدمہ کتاب میں علامہ سید محمد علوی مالکی رقمطراز ہیں:
یہ اصول حدیث کے وہ مباحث ہیں جنکی ضرورت طلبہ کو بھی ہے اور علماء کو بھی۔ اس سے بےنیاز نہیں ہوسکتے۔ اس میں اصول حدیث، تاریخ حدیث، اور ادیان حدیث کے ساتھ اہل اسلام کی حدیث سے دلچسپی اور لگن کا ذکر بھی ہے۔ اس میں چھ فصلیں ہیں۔
(۱)اس میں سنت کی تعریف اس کے حجت ہونے کا بیان بعد قرآن اس کا ماخذا صلی، تاریخ تدوین وغیرہ کا ذکر ہے (۲)اس فصل میں علم حدیث، علم اصول حدیث، علم حدیث کی فضیلت وعظمت، حدیث، سنت، حدیث نبوی حدیث قدسی اور قران کے درمیان کیا فرق ہے۔
۱۰۔ القواعد الاساسیہ فی علم مصطلح الحدیث:
(مطبوعہ سحر جلد ۱۴۰۲ھ)
یہ کتا ب بھی اصول حدیث کی مختصر اور جامع کتاب ہے۔ خاص طور سے طلبۂ علم حدیث کے لیے مرتب کی گئی ہے۔
۱۱۔ فضل المؤطا وعنایۃ الامۃ الاسلامیۃ:
(مطبوعہ السعادۃ میدان ساھرہ ۱۳۹۸ھ)
مؤطا امام مالک کے بارے میں اکثر مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ ح دیث کی سب سے پہلی اور اپنی صحت وجامعیت کے لحاظ سے ممتاز کتاب ہے۔ اس کتاب کی عچمت و اہمیت اور خصوصیت پر علامہ سید محمد علوی مالکی نے اس کتاب میں تحقیقی نظر ڈالی ہے۔ یہ کتاب مختلف شہروں میں رہ کر مکمل کی گئی ہے۔ اس کتاب میں مؤطا امام مالک نام ہونے کی وجہ تسمیہ سیب تالیف، احادیث اور اویان کی تعداد، ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس اہمیت اور مؤطا سے متعلق علماء کے تاثرات وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔
۱۲حاشیہ المختصر فی السیرۃ النبویۃ:
(مطبوعہ مطابع سحر جدہ)
یہ کتاب مختصر فی السیرۃ النبویہ (مصنفہ حضرت امام عبدالرحمٰن بن ربیع الثیباخی قدس سرہٗ) میں میلاد النبی کا تزکرہ ہے۔ لیکن اس کتاب میں احادیث کے حوالے مذکور نہ تھے، میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے دلچسپی رکھنے والے بعض حضرات نے علامہ سید محمد علوی ماکی سے اس کتاب کی روایتوں کے مراجع دریافت کیے۔ علامہ سید محمد علوی مالکی نے مراجع کی نشاندہی کی پھر سوچا کہ کیوں نہ روایتوں کے مراجع لکھ دیئے جائیں۔ چنانچہ اس کے لیے انشراح سدر حاصل ہوگیا۔ اور اس طرح پوری کتاب کی حاشیہ آرائی فرمادی اور ایک وقیع مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔
۱۳۔ حول خصائص القرآن:
(مطبوعہ دارالفکر بیروت وسحر سجدہ ۱۴۰۱ھ) اس کتاب میں خصوصیات قران سے بحث کی گئی ہے۔ پہلے حصہ میں علمی نہج کی خصوصیات اور دوسرے میں اسلوب قرآن کریم کی خصوصیات اور تیسرے میں فضائل قرآن کی خصوصیات، اور چوتھے میں قران کریم کی عام خصوصیات کا تذکرہ ہے۔
۱۴۔ زکریات ومناسبات:
(مطبوعہ مکتبہ الغزالی دمشق وموسۃ مناھل العرفان بیروت) اس میں سال کے مختلف یادگاری دنوں اور مہینوں اور بعض تاریخی واقعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں نئی صدی ہجری کا استقبال بھی ہے اور ماہ محرم کے فضائل بھی، واقعہ ہجرت کے اسباق و درس بھی ہیں، میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی ہے۔ فضائل رمضان، شعبان، رجب بھی ہیں، فضائل حج، مناقب صحابہ کا بیان بھی ہے۔
۱۵۔ فی رجاب البیت الحرام:
(مطبوعہ سحر جدہ ۱۳۹۹ھ؍۱۹۷۹ء) مکہ معظمہ اور اس مقدس سر زمین کے مقدس مقامات کی تاریخ و فضائل، مناسک حج ومسائل، زیارت مدینہ طیبہ کے موضوع پر یہ نہایت جامع، مفید اور تفصیلی کتاب ہے۔ اس کے مقدمہ میں علامہ سید محمد علوی مالکی اس کا اجمالی تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں۔
یہ ایک دینی اور تاریخی کتاب دو حصوں میں ہے۔ پہلے حصے میں حج کے فضائل، سنن وحکم اور آداب وغیرہ کا بیان ہے، اور دوسرے حصہ میں کعبۂ مقدسمہ ومسجد حرام، مکہ مکرمہ اور اس کے گردو نواح کے تواریخی مقامات اور ان کے ثابت شدہ فضائل ومناقب کا تذکرہ ہے۔ بہت سے تاریخی آثار کی میں نے اس وقت نشاندہی کی اور ان کے حالات بیان کیے۔
۱۶۔ المولد النبوی:
(مطبوعہ سحر جدہ) از حافظ ابن بدیع اور المولد النبوی از حضرت مُلا علی قاری قدس اللہ اسرارہما پر علامہ سید سید محمد علوی مالکی نے حواشی لکھتے ہیں۔ یہ کتابیں مکہ معظمہ کے قبرستان بنت المعلیٰ کے موضوع پر ہیں۔
۱۷۔ المشترقون بین الانصاف والعصبیہ:
(مطبوعہ سحر جدہ عرب ۱۴۰۲ھ) اس کتاب میں علامہ سید محمد علوی مالکی نے بڑے اختصار کے ساتھ اسلام میں مشترقین کے خیالات ونظریات کیے ہیں، اس کا اردو ترجمہ مبارکپور سے شائع ہوچکا ہے [14] ۔
۱۸۔ کشف النعمہ فی اصطناع المعروف ورحمۃ الامۃ:
(مطبوعہ مطابع سحر جدہ ۱۴۰۱ھ [15] ) علامہ سید محمد مالکی کی تصنیفی وتحریری خدمات اور بھی ہیں جو ہمیں اس وقت دستیاب نہو سکیں۔ علامہ سید محمد علوی مالکی بہت کامل تحقیق سے قلم اُٹھاتے ہیں۔
خلفاء:
علامہ سید محمد علوی کے خلفاء، تلامذہ کی تعداد واسماء راقم کو نہیں مل سکے۔ مگر ظاہراً خلفاء، تلامذہ کی فہرست بہت وسیع ہے۔ خلفاء وتلامذہ پوری دنیا کے گوشے گوشے میں پائےجاتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں علامہ سید محمد علوی مالکی کے خلیفہ حضرت مولانا یٰسین اختر اعظمی، حضرت مولانا افتخار احمد قادری ہیں جنہوں نے علم وادب عربی میں بہترین مہارت حاصل کی ہے، دونوں حضرات ایک عظیم مفکر، مترجم اور صحافی کی حیثیت سے جاتے پہچانے جاتے ہیں۔
راقم کی یہی دعاہے کہ رب کریم رؤف ورحیم حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی رضوی مفتی سعودیہ عرب مدظلہٗ کا سایہ عاطفت اہلسنت والجماعت کے سروں پر تادیر قائم ودائم رکھے، آمین اے اللہ راقم کو بھی علامہ سید محمد علوی ملکی مدظلہٗ کی زیارت سے سر فراز فرمادے۔ اور ان سے اہم سے اہم زیادہ سے اسلامی دینی خدمات لے، اور زیر نظر کتاب کی افادیت کو زیادہ سے زیادہ عام و تام فرمائے۔ اللھم آمین، ثم آمین۔
[1] ۔ محمد علی مالکی، سید، علامہ: الطالع اسعید ص ۳ (مطبوعہ سحر جد)
[2] ۔ یٰسین اختر اعظمی، مولانا: جشن میلادن النبی ص ۵
[3] ۔ افتخار احمد قادری، مولانا متشرقین کا انصاف وتعصب ص۷،۸
[4] ۔ محمد علوی مالکی، سید،علامہ: الطالع السعید المنتخب ص۶
[5] ۔ یٰسین اختر اعظمی، مولانا: جشم میلاد النبی ص۱۰
(نوٹ) حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی کےجملہ اساتذہ کی فہرست الطالع السعید میں دیکھی جاسکتی ہے جنکی خود علامہ مالکی نےفہرست تیار فرمائی ہے۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ
[6] ۔ محمد علوی مالکی، سید، علامہ: الطالع السعید المنتخب : ص ۴۷۳
[7] ۔ افتخار احمد قادری، مولانا، متشرقین کا انصاف وتعصب س ۸، ۹
[8] ۔ محمد علوی مالکی، سیدعلامہ: المطانع السعید المنتخب ص۴
[9] ۔ محمد علوی مالکی، سید، علامہ: المطانع السعید المنتخب ص ۱۱۴
[10] ۔ (الف) محمد امانت رسول نوری، قاری: پندرہویں صدی ہجری کے مجدد اعظم، ص ۱۶
(ب) قلمی یاد داشت مولانا نور علی رضوی بہرائچی استاذ دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف
(ج) محمد مسعود احمد پروفیسر ڈاکٹر: مولانا احمد رضا بریلوی ص ۲۱۳
(د) محمد مسعود احمد پروفیسر، ڈاکٹر: فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں ص۸۲
[11] ۔ (الف) بدر الدین احمد رضوی، مولانا: سوانح اعلیٰحضرت (ص ۳۲۸) بحوالہ سفر نامہ حرمین طیبین (ص ۶۶) از مولانا غلام مصطفیٰ کراچی
(ب) عبدالقیوم ہزاروی، مفتی: تاریخ نجدو حجاز ص
[12] ۔ جانشین مفتی اعظم مدظلہٗ کی راقم السطور سے گفتگو (۱۴۰۱ھ؍ ۱۹۹۰ء) ۱۲رضوی غفرلہٗ
[13] ۔ محمد علوی مالکی، سید علامہ: فضل المؤطا ص ۱۳
[14] ۔ افتخار احمد قادری، مولانا: مشترقین کا انصاف وتعصب ص ۱۰تا ۱۷ملخصاً۔
[15] ۔ یٰسین اختر اعظمی، مولانا : میلاد النبی ص ۷