مفتی زمن حضرت علامہ مولانا مفتی سید ریاض الحسن جیلانی

مفتیٔ زمن حضرت علامہ مولانا مفتی سید ریاض الحسن جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت مفتی سید راح تعلی جیلانی کی اولاد میں صرف ایک لڑکا حکیم مولانا سید محمد اصغر علی جیلانی تھے اور چار لڑکیاں تھیں، ان چار میں سے ایک کا نکاح اجمیر شریف کے مشہور شاعر و جاگیر دار سید محمد ایوب ’’منش‘‘ اجمیری سے ہوا جن سے نامور شاعر حضرت مولانا سید محمد مرغوب احمد اختر الحامدی (حیدرآباد سندھ) پیدا ہوئے، دوسری کا نکاح سلطان الواعظین مفتی سید عنایت علی جیلانی سے ہوا جن سے تقریبا ً شوال المکرم ۱۳۴۰ھ بمطابق ۱۹۱۴ء جودھپور (انڈیا) میں مفتی سید ریاض الحسن جیلانی پیدا ہوئے۔

آپ کا سلسلہ نسب چونتیس ویں پشت میں نبوی اکرم ﷺ سے اور ۲۱ ویں پشت میں سیدنا غوث اعظم شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی  سرہ الاقدس سے اور ۸ ویں پشت میں حضرت سید خلیل اللہ ناگوری رحمۃ اللہ علیہ ( جو کہ ہندوستان کے بادشاہ شیر شاہ سوری کے پیر و مرشد تھے) سے جا ملتا ہے۔

تعلیم و تربیت:

ابتدائی تعلیم اپنے نانا جان مفتی سید راحت علی جیلانی ارو ماموں حکیم سید اصغر علی اصغر جیلانی سے حاصل کی۔ آپ کی تربیت میں آپ کی خالہ المعروفآپا جی (جو کہ حضرت مولانا سید حسن علی شاہ جیلانی سجادہ نشین درگاہ ناگور شریف کی اہلیہ صاحبہ تھیں) کا بڑا دخل رہا ہے۔

آپ نے اردو، فارسی کی تعلیم مولانا بیدل بدایونی سے حاصل کی ۔ علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی (مصنف جنتی زیور و حقانی تقریریں) مفتی اعجاز ولی خان رضوی، مولانا محمد ابراہیم رضا خان بریلوی، مولانا محمد اسماعیل بلند شہری، علامہ عبدالرئوف بہاری، حضرت مولانا غلام یزدانی اعظمی (تلمیذ ارشد حضرت صدر الشریعہ مصنف بہار شریعت) شیخ الحدیث جامعہ منظر الاسلام بریلی شریف سے استفادہ کیا اور ۱۳۶۰ھ میں جامعہ رضویہ منظر الاسلام سے فارغ التحصیل ہوئے

بیعت و خلافت:

علوم ظاہری سے فارغ ہونے کے بعد علوم باطنی کے حصول کیلئے حجۃ الاسلام علاہ حامد رضا خان صاحب بریلوی قدس اللہ سرہ العزیز کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور حجۃ الاسلام نے آپ کو ۱۳۶۱ھ میں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے علاوہ چاروں سلاسل میں خلافت عطا فرمائی۔ اس کے علاوہ خاندانی فیوض و برکات سے بھی مستفید ہوئے۔

تصنیف و تالیف:

آپ نے بہت سی علمی تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

٭     ریاض الفتاویٰ ۳ جلد ، مطبوعہ انجمن انوار القادریہ کراچی ، شوال ۱۴۲۱ھ

٭     الفیوضات الحامدیہ التعمیر المساجد بجلود الاضحیہ

٭     صلوٰۃ الوسطیٰ عند غروب الزکاء

٭     کشف الستور عن کراھیۃ الاجمار علی القبور

٭     تفہیم الزکی فی الطلاق الرجعی

٭     عنایت الرب فی تحقیق المہر عند الطلب

٭     القول الواثق فی کراھیۃ امام الفاسق

٭     نعت نیر (مجموعہ کلام)

پاکستان میں قیام:

۱۹۴۷ء کے انقلاب کے بعد اپنے ماموں حکیم سید اصغر علی جیلانی اور برادر نسبتی اختر الحامدی و دیگر عزیزوں کے ہمراہ پاکستان وار د ہوئے اور مختلف شہروں مٰں قیام پزیر رہے کچھ عرصہ کراچی قیام کے بعد فرسٹ مہاجر کیمپ امریکن کوارٹرز حیدرآباد سندھ کو جائے مسکن بنایا ارو یہاں مرکزی جامع مسجد کی بنیاد رکھی ار دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مشغول ہوگئے۔

کچھ عرصہ آپ نے جامشورو میکنیکل کالونی کی مسجد میں امامت فرمائی۔ ایک سال سے زائد عرصہ سلطانی ہری مسجد تلک چاڑھی حیدرآباد میں امامت فرمائی۔ ایک سال کا عرصہ حاجی ملنگ مسجد نواب شاہ مٰں گزارا وہاں بعد فجر و عشاء آدھا آدھا گھنٹہ درس قرآن دیا کرتے تھے اور ایک سال تک صرف الحمد اللہ رب العالمین کی تفسیر کی، الرحمن تک آپ نہیں پہنچتے تھے ۔ یہ آپ کی علمی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تلامذہ:

آپ کے تلامذہ میں سے بعض کے نام معلوم ہو سکے ہیں:

٭     مولانا بہادر حسن حامدی امام رحمانی مسجد ریلوے مال دگودام حیدرآباد

٭     مولانا حافط محمس مستقیم قادری

٭     مولانا مقصود بیگ وارثی

٭     مولانا حبیب الرحمن وارثی

قیام مسجد:

ریلوے اسٹیشن حیدرآباد، ریلوے ریست ہائوس کے برابر محمدی جامع مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ رحمان یمسجد ریلوے مال گودام حیدرآباد کا سنگ بنیاد رکھا۔ ار امریکن کوارٹرز جامع مسجد کی بنیاد رکھی جہاں وصال تک خطابت و ومامت اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔

عادات و خصائل:

آپ نہایت متاضع اور خلیق تھے۔ مسکراہٹ اور ملنساری آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ دین کی تبلیغ و اشاعت کیلئے آپ کو کسی بھی وقت کوئی بھی لے کر جانا چاہتا تو آپ کشادہ دلی سے بطیب خاطر تیار ہو جائے اور اگر کسی شخص کو خلاف شرع کام کرتے دیکھتے تو اسے فوراً ٹوک دیتے تھے چاہے وہ ان کا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

شادی و اولاد:

آپ کی پہلی شادی جودھپو رمیں خاندان میں ہوئی جو کہ کچھ عرصہ کے بعد ہی انتقال فرما گئیں، مزار جودھپور میں ہے۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسرے سال آپ کی دوسری شادی اجمیر شریف کے مشہور شاعر و فرسٹ کلاس جاگیردار محمد ایوب منش اجمیری کی بیٹی اور حضرت مولانا اختر الحامدی کی حقیقی بہن شاعرہ و ادیبہ سیدہ صادقہ بیگم سے ہوئی۔ کراچی مٰں ان کا لا ولد انتقال ہوا۔ تیسری شادی شہر جیسلمیر کے قاضی مولانا ہدایت اللہ صدیقی جیسلمیری کی پوتی اور پیر طریقت حضرت قاضی عبدالغفور صدیقی نقشبندی جیسلمیری رحمۃ اللہ علیہ بانی جامع مسجد سلاوٹ حیدرآباد کی بڑی صاحبزادی آمنہ خاتون سے  ۱۹۵۶ء میں ہوئی۔

تیسری بیوی کے بطن سے ۳ بیٹے اور ۲ بیٹیاں تولد ہوئیں۔

٭     صاحبزادہ سید ضیاء الحسن جیلانی شکیل سجادہ نشین و مرتبہ ریاض الفتاویٰ

٭     سید رضا الحسن جیلانی عقیل 

٭     سید نور الحسن جیلانی حسن

وصال:

مولانا مفتی سید ریاض الحسن جیلانی ۲۸، رمضان المبارک ۱۳۸۸ھ بمطابق ۱۹ دسمبر ۱۹۶۸ء بروز جمعرات شب گیارہ بجے ذکر و اذکار کرتے ہوئے بحالت سجدہ وصال فرماگئے۔ مفتی صاحب نے زندگی میں دعا فرمائی تھی جو کہ اللہ تعالیٰ نے پوری فرمادی۔

رہوں دنیا میں جب ہر طرح امن و اماں پائوں

بسوئے آخرت پڑھا ہوا کلمہ چلا جائوں

(نعت نیر، ص: ۲۶۱)

مرکزی جامع مسجد کے صدر دروازہ (امریکن کوارٹرز حیدرآباد ، سندھ) پر جنازہ رکھا گیا ارو نماز جنازہ ہوئی۔ اس کے بعد قبرستان میں مفتی صٓحب کے سستر حضرت قاضی عبدالغفور صاحب کے مزار کے احاطہ میں تدفین ہوئی۔

مومن کا جسم بعد وصال بھی صحیح و سالم:

گیارہ سال بعد ۲۹ مارچ ۱۹۷۹ء کو آپ کی قبر مبارک شق ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ کا کفن و لاش صحیح سلامت ہے اور آپ قبر میں بدستور آرام فرما ہیں، زیارت کا سلسلہ تقریباً ایک ہفتہ جاری رہا۔ اس کے بعد دوبارہ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی۔

(ماخوذ: ریاض الفتاویٰ، جلد اول مطبوعہ ۲۰۰۱ئ)

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء