امیر المؤمنین حضرت امیرِ معاویہ

امیر المؤمنین حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بن صخربن حرب بن اُمیّہ بن عبدشمس بن عبد مناف قرشی اموی: یہ معاویہ بن ابی سفیان ہیں۔ ان کی ماں ہندہ بنت عتبہ بن ربیعہ بن شمس تھی۔ اس طرح ماں اور باپ کے سلسلہ ہائے نسب بنو شمس میں جمع ہوگئے تھے۔ ان کی کنیت ابو عبد الرحمان تھی۔ ان کا سارا خاندان فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا تھا۔ معاویہ کے بقول وہ عام القضیہ میں ایمان لائے تھے مگر انہوں نے اپنا اسلام چھپائے رکھا۔ غزوۂ حنین میں وہ شریک تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت سے اُنہیں ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی دی تھی۔ باپ بیٹا دونوں کا شمار مولفۃ القلوب میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کتابت کی خدمت بھی لی۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا لشکر شام پر چڑھائی کے لیے بھیجا، تو معاویہ اور یزید بن سفیان دونوں شریکِ مہم تھے۔ جب یزید شہید ہوگئے تو خلیفہ عمر نے معاویہ بن سفیان کو شام میں ان کا جانشین مقرر کردیا۔ جب خلیفہ کو خبر شہادت موصول ہوئی تو انہوں نے ابو سفیان سے یزید کی تعزیت کی۔ ابو سفیان نے پوچھا کہ آپ نے اس کا جانشین کسے مقرر کیا ہے، جب خلیفہ نے معاویہ کا نام سُنا تو ابو سفیان نے اس صلۂ رحمی کو سراہا۔

ابراہیم بن محمد و غیر ہم نے باسناد ہم تا ابو عیسیٰ، انہوں نے محمد بن یحییٰ سے انہوں نے ابو مسہر سے، انہوں نے سعید بن عبد العزیز سے اُنہوں نے ربیعہ بن یزید سے، انہوں نے عبد الرحمٰن بن ابو عمیرہ سے جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ کے لیے دُعا فرمائی۔ اے اللہ تو اسے ہادی اور مہدی بنا کہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں۔

ابو عیسیٰ نے سوید بن نصر سے اُنہوں نے عبد اللہ بن مبارک سے، انہوں نے یونس سے، انہوں نےزہری سے انہوں نے عبید بن عبد الرحمٰن سے روایت کی کہ انہوں نے معاویہ کو مدینے میں خطبہ دیتے ہوئے سُنا۔ وہ کہہ رہے تھے اے اہلِ مدینہ! تمہارے علما کدھر گئے ہیں۔ مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قصّے سے منع فرما رہے تھے، چنانچہ حضور نے فرمایا، کہ بنی اسرائیل اس لیے ہلاک ہوئے، کہ ان کی عورتوں نے اسے اپنا لیا تھا۔

ابن عباس کا قول ہے کہ معاویہ فقیہہ تھے، ابنِ عمر کی رائے ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ جیسا ذی سواد اور کوئی نہ تھا۔ پوچھا گیا۔ خلفائے راشدہ کے بارے میں کیا رائے ہے۔ ابن عمر نے کہا، بلاشبہ وہ معاویہ سے افضل تھے، لیکن معاویہ ان سب سے اسود تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سفر شام میں معاویہ سے ملاقات کی۔ تو انہوں نے کہا کہ معاویہ عربوں کا کسریٰ ہے۔

یحییٰ بن محمود نے مسلم سے، انہوں نے محمد بن مشنی اور محمد بن بشار سے اور انہوں نے امیّہ بن خالد سے، انہوں نے شعبہ سے، انہوں نے ابو حمزہ القصاب سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مَیں دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ آپ نے مجھے تھپتھپایا اور فرمایا کہ جاؤ اور معاویہ کو بلا لاؤ۔ مَیں نے واپس آکر عرض کیا، کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر فرمایا، جاؤ، اور معاویہ کو بلا لاؤ۔ مَیں نے واپس آکر بتایا کہ وہ ابھی کھانا ہی کھا رہے ہیں۔ فرمایا: خدا کرے کہ اس کا پیٹ کبھی نہ پھرے۔ مسلم نے یہ حدیث بعینہ اسی طرح دربارۂ معاویہ بیان کی ہے، پھر اس کے بعد یہ جملے بھی بڑھائے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’مَیں نے باری تعالیٰ کے سامنے اس امر کا التزام کیا ہے۔ مَیں بھی انسان ہوں اور عام انسانوں کی طرح خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔ مَیں اپنی امّت میں سے جس کسی کے خلاف نامناسب الفاظ میں بد دُعا کروں۔ تو اسے اپنے فضل و کرم سے پاک صاف کردے اور اسے اپنے قرب سے نواز۔‘‘

معاویہ! حضرت عمر کی خلافت کے دوران میں شام کے حاکم رہے۔ جب حضرتِ عثمان خلیفہ ہوئے تو سارا شام ان کی تحویل میں دے دیا گیا۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد وہ شام کے خود مختار حاکم بن گئے اور حضرت علی کی بیعت سے انکار کر دیا اور حضرت عثمان کے خون کے مدعی بن گئے۔ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افواج سے ان کا مقابلہ ہوا جس کی تفصیل ہم نے الکامل فی التاریخ میں لکھ دی ہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے اور امام حسن ان کے جانشین ہُوئے، تو معاویہ نے عراق پر چڑھائی کی اور امام حسن ان کے مقابلے کو نکلے۔ لیکن جب امام حسن نے حالات کا اندازہ لگایا اور دیکھا کہ زبر دست خوں ریزی کا خطرہ ہے تو خلافت سے دست بردار ہوگئے اور واپس لوٹ آئے۔

عراق پر معاویہ نے قبضہ کرلیا اور کوفے میں آکر لوگوں سے بیعت لی۔ اور چونکہ حضرت عثمان کی شہادت سے مسلمانوں میں سخت اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔ اس بیعت سے اس افتراق کا خاتمہ ہوگیا اور اس کا نام سالِ اتفاق رکھا گیا۔

امیر معاویہ بیس سال تک خلیفہ رہے، پیشتر ازیں بیس سال امیر شام رہ چکے تھے۔ امیر معاویہ نے ۶۰ ہجری کو۔ جب کے مہینے میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر ۷۸ برس تھی۔ ایک روایت میں ان کی عمر ۸۶ برس بیان کی گئی ہے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ ان کی وفات جمعرات کے دن، رجب ۵۹ھ میں واقع ہوئی۔ اور اس روایت کے مطابق اس وقت ان کی عمر ۸۲ برس تھی، لیکن صحیح روایت وہ ہے جس میں ان کی وفات ۶۰ ہجری میں مذکور ہے۔

جب امیر معاویہ مرض موت میں مبتلا ہوئ، تو یزید موجود نہیں تھا۔ جب وہ آیا، تو وصیت کی، کہ انہیں اس قمیص میں دفن کیا جائے، جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مرحمت فرمائی تھی اور امیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تراشیدہ ناخن اپنے پاس رکھے ہوئے تھے۔ حکم دیا کہ انہیں پیس کر مرنے کے بعد ان کے منہ اور آنکھوں میں ڈال کر ان کا معاملہ ارحم الرٰحمین کے سپرد کر دیا جائے۔ جب مَیں نے ہاتھ ڈالا۔ کہنے لگے۔ کاش، میں وادی ذی طوی میں قریش کا ایک عام آدمی ہوتا، اور حکومت کے جھنجھٹ سے آزاد ہوتا۔ (افسوس ہے، کہ امیر معاویہ کو یہ احساس بہت بے وقت ہوا۔ مترجم)

جب امیر معاویہ فوت ہوگئے، تو ضحاک بن قیس امیر کا کفن ہاتھ میں لے کر منبر پر چڑھا اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوا: ’’امیر معاویہ عرب کی تلوار کی دھار، اور اس چمن کی خوشبو تھے۔ اللہ نے ان کی طفیل فتنہ و فساد کا خاتمہ کردیا۔ اور اپنے بندوں پر انہیں حکومت عطا کی اور ان کی افواج قاہرہ، خشکی و تری پر چھپا گئیں۔ امیر اللہ کا ایک بندہ تھا: جس نے خدا کو مدد کے لیے بُلایا۔ اور ادھر سے مناسب جواب دیا گیا۔ یہ امیر کا کفن ہے ہم انہیں اس کفن میں لپیٹ کر قبر میں دفن کردیں گے۔ اس کے بعد امیر جانے اور اس کا خدا جانے، چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو سزادے۔‘‘ضحاک نے امیر کی نماز جنازہ پڑھائی۔ یزید اس موقعہ پر جوارین میں تھا۔ امیر کو بتایا گیا، تو ضحاک نے اسے بلا بھیجا، لیکن وہ اس وقت آیا جب امیر فوت ہوچکے تھے۔ یزید نے کہا۔

جَادَ البَریْدُ بقْرِ طاسٍ یُحَث بِہِ
فَاَؤجَسَ الْقَلْبُ مِنْ قرْطَاسِہِ فَزَعاً

ترجمہ: قاصد ایک ایسا کاغذ لے کر آیا، جس نے مجھے پریشان کردیا۔ اور اس کاغذ سے دل میں خطرے کا کھٹکا پیدا ہوگیا۔

قُلْنَا لَکَ الْوَیْلُ مَا ذافی صحِیفَتِکُمْ
قَالوا الْخَلِیفَۃُ اَمَسیٰ مُثْبَتَا وجَعَا

ترجمہ: ہم نے کہا، تیرا بھلا نہ ہو۔ تمہارے خط میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ درد کی وجہ سے صاحبِ فراش ہوگیا ہے۔

امیر معاویہ کا رنگ سفید تھا اور وہ حسین و جمیل آدمی تھے۔ جب ہنستے تو ان کا اوپر کا ہونٹ الٹ جاتا وہ ڈاڑھی کو وسمہ لگاتے تھے۔ صحابہ کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی۔ مثلاً ابن عباس۔ ابو سعید خدری ابو الدرداء، جریر، نعمان بن بشیر، عبد اللہ بن عمر، ابن زبیر وغیرہ تابعین میں سے ابو سلمہ اور حمید عبد الرحمان کے بیٹے، عروہ، سالم علقمہ بن وقاص، ابنِ سیرین اور قاسم بن محمد وغیرہ نے۔

امیر معاویہ سے مروی ہے کہ جب سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر تو کبھی خلیفہ بن جائے تو لوگوں کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آنا۔ اس وقت سے میرے دل میں لالچ پیدا ہوگیا تھا۔

عبد الرحمٰن بن اینری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم اصحابِ بدر اور اصحاب اُحد وغیرہ کے بارے میں ہے یعنی جب تک ان میں سے کوئی آدمی زندہ ہو، لیکن اس میں آزاد کردہ غلاموں ان کی اولاد اور فتح مکہ کے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔

تجویزوآراء