حضرت بلھےشاہ
حضرت بلھےشاہ(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت بلھےشاہ قدواۂ کاملاں تھے۔
والد ماجد:
آپ کےوالدماجدسیدسخی درویش محمداُچ میں رہتےتھے۔اچ سے سکونت ترک کرکےملکوال میں تشریف لائے،پھرملکوال سےپانڈومیں جاکراقامت گزیں ہوئے۔
نام:
آپ کانام عبداللہ شاہ ہے۔
کنیت:
آپ کی کنیت بلھےشاہ اورآپ کنیت سے مشہورہیں۔
تعلیم وتربیت:
آپ کےوالد ماجداپنےزمانےکےایک عالم تھے۔عربی فارسی میں ان کو دستگاہ حاصل تھی۔چنانچہ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کےوالد کی نگرانی میں ہوئی۔پھرقصورپہنچ کرحافظ غلام مرتضٰی کی خدمت میں حاضرہوئے۔ان سے مزیدتعلیم حاصل کی۔تحصیل علوم ظاہری سےجلدفارغ ہوئے۔
تلاش حق:
تحصیل علوم ظاہری سےفارغ ہونےکےبعدآپ کوعلوم باطنی حاصل کرنےکاشوق ہوا۔تحصیل علوم باطنی بغیرمرشدکامل کےممکن نہیں،آپ اسی تگ ودومیں رہتےتھے۔
جدامجدکی زیارت:
ایک دن ایک درخت کےنیچے بیٹھےتھےکہ آپ کونیندآگئی۔خواب میں کیادیکھتےہیں کہ سید عبدالحکیم جوپانچویں پشت کےآپ جدامجدہیں،ایک تخت پربیٹھےہوئے ہوا میں اڑرہےہیں۔ان کا تخت نیچےاترا،انہوں نےآپ کودیکھ کرآپ سے دریافت فرمایاکہ"تم کون ہو؟"آپ نےجواب دیا کہ میں"سیدہوں"انہوں نےآپکاسب نسب دریافت فرمایا،آپ نےاپنااوراپنےوالدکانام ان کو بتایا۔
انہوں نےآپ سےکہاکہ"ہمیں پیاس لگی ہے"آپ نےان کودودھ پیش کیا،انہوں نے وہ دودھ سے بھراپیالہ لےتھوڑاخودنوش فرمایااورباقی آپ کو دےدیا۔
آپ نےوہ دودھ پی لیا۔دودھ پیتے ہی آپ ازخود رفتہ ہوگئے۔آپ کاسینہ روشن ہوگیا۔
رخصت ہوتے وقت حضرت سیدعبدالحکیم نےآپ سے فرمایاکہ:
"ہمارےپاس تمہاری امانت تھی،جوآج ہم نےتمہارےسپردکردی۔آج سے تم کو دس روپیہ روز ملا کریں گے،اب یہ ضروری ہے کہ تم مرشدکامل کی تلاش کرو،تاکہ اس کی وساطت سےتم جلد ہی معرفت اورسلوک کےمقامات طےکرسکو"۔
والدکامشورہ:
گھرآکراپنے خواب اپنےوالدسےبیان کیا۔آپ کے والدنےان سے کہاکہ انہی بزرگ سے کہنا چاہیے تھاکہ وہ بیعت کرلیں۔آپ نےاپنےوالد سے دریافت کیاکہ اب ان کو کہاں تلاش کیاجائے، آپ کےوالدنےمراقبہ کرکےآپ کو بتایاکہ وہ بزرگ موضع ساندہ میں رونق افروزہیں۔
ساندہ کو روانگی:
آپ اسی وقت ساندہ روانہ ہوئے۔ساندہ پہنچ کرحضرت سید عبدالحکیم کی زیارت سےمشرف ہوئے اوران سے اپنی خواہش کااظہارکیا۔انہوں نےآپ سے فرمایاکہ "جوتمہاری امانت ہمارے پاس تھی، ہم نےتم کودے دی،تمہاراحصہ حضرت شاہ عنایت اللہ قادری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ہے،ان
کے پاس جاؤاوراپناحصہ لو"۔
لاہورمیں آمد:
آپ گھرواپس آئےاوراپنےوالد کو سب حال سنایااورحضرت عنایت اللہ قادری رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت کی اجازت چاہی۔
آپ کےوالدنےبخوشی اجازت دی۔کچھ روپےاوردستارآپ کودی۔حضرت عنایت اللہ قادری کی خدمت میں پیش کریں۔
لاہورپہنچ کرآپ حضرت عنایت اللہ قادری کی خدمت میں حاضرہوئےاوربیعت سےمشرف ہونےکی خواہش ظاہر کی۔
شرط:
حضرت عنایت اللہ قادری رحمتہ اللہ علیہ نےآپ سے فرمایاکہ اس شرط پر بیعت کریں گےکہ پہلے وہ پانسو روپے نقد،پانسوروپےکاایک گھوڑا،پانسوروپےکےطلائی کنگنوں کی ایک جوڑی اورپانسوروپے کی ایک پوشاک لےکرآئیں۔
غیبی امداد:
یہ شرط سن کر آپ کی امیدوں پر پانی پڑگیا۔آپ نےسوچاکہ شرط کاپوراکرناان کےبس کی بات نہیں۔ناامیدہوکردریاکی راہ لی۔راوی کنارےبیٹھےہوئےاسی سوچ بچار میں تھے۔آخرکارعالم ناامیدی میں دریامیں ڈوب کرمرجاناطےکیا۔
ابھی آپ نےیہ طےکیاہی تھاکہ ایک شخص نقاب ڈالےگھوڑےپرسواروہاں پہنچا۔اس سوارنے آپ سے کہاکہ"میاں صاحب ایک کام کروگے،میں دریامیں نہاناچاہتاہوں،تمہیں تکلیف توہوگی، جب تک نہاؤں تم میراگھوڑاتھامواورمیرےسامان کی حفاظت کرو"۔
آپ نےایساکرنےمیں آمادگی ظاہرکی۔اس شخص نےایک تھیلی جس میں پانچ سوروپےتھے، طلائی کنگنوں کی جوڑی،پوشاک اورگھوڑاآپ کےسپردکیااورخود دریامیں نہانےچلاگیا۔
آپ اس شخص کےانتظارمیں بہت دیروہاں بیٹھےرہے،جب وہ دریاسے باہر نہیں آیاتوآپ یہ سوچ کر کہ وہ شخص دریامیں ڈوب گیا،وہاں سے شہرروانہ ہوئے۔
شہرمیں جب داخل ہوئےتولوگ پوشاک اورگھوڑےکودیکھ کربےاختیارکہہ اٹھےکہ یہ پوشاک اورگھوڑاتوحضرت شاہ عنایت اللہ کاہے۔
بیعت وخلافت:
آپ خوشی خوشی وہ ساراسامان لےکرحضرت شاہ عنایت اللہ قادری کی خدمت میں حاضرہوئے۔
حضرت شاہ عنایت اللہ آپ کودیکھ کرمسکرائے۔آپ کوبیعت سےمشرف فرمایااوربعدہ خرقہ خلافت عطاکیا۔کچھ عرصہ اپنےپیرومرشدکی خدمت میں رہ کر اوران کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوکرچناب کےکنارےرہنےلگےاورعبادت ومجاہدہ میں مشغول ہوئے۔
قصور میں سکونت:
آپ نےپھرقصورمیں سکونت اختیارکی۔تعلیم و تلقین وتبلیغ میں مصروف ہوئے۔رشدوہدایت فرماتے اورلوگوں کوراہ حق دکھاتے۔
گوالیارمیں آمد:
آپ کےپیرومرشدآپ سے کسی بات پر خفاءہوگئے۔انہوں نے آپ کی ولایت سلب کرلی۔آپ گوالیار پہنچے۔حضرت شاہ محمد غوث گوالیارکےمزارپرحاضر ہوئےاورفیوض حاصل کئے۔فن موسیقی میں کمال حاصل کیا۔کچھ دنوں کےبعدآپ کے پیرومرشدآپ سے خوش ہوگئےاور ولایت آپ کوعطاکی۔
وفات:
آپ کاوصال ۱۱۷۱ھ میں ہوا،مزارقصورمیں واقع ہے۔
سیرت:
آپ کوسماع کاشوق تھا۔فن موسیقی سےبخوبی واقف تھے۔آپ شاعربھی تھے۔آپ کاتخلص بھی بلھےشاہ تھا۔اپنےپیرومرشدسےوالہانہ عشق تھا۔
کرامت:
آپ اپنےمویشیوں کوچرانےکےلئےجنگل لےجایاکرتےتھے۔ایک دن کاواقعہ ہے کہ آپ حسب دستوراپنےمویشیوں کوچرانےلےگئے۔آپ ایک پیڑکےنیچےبیٹھ گئے۔بیٹھے بیٹھےآپ کو نیندآگئی۔ مویشی چرتےچرتےایک شخص کےکھیت میں چلےگئے۔اتنےمیں کھیت کامالک وہاں آپہنچا۔اس نے جب مویشیوں کواپنےکھیت میں دیکھاتوبےچین ہوکرآپ کوتلاش کرنےلگا۔پیڑکےپاس آکردیکھا کہ آپ محوخواب ہیں اورایک ناگ سانپ اپنےپھن کاسایہ کئےہوئےآپ کےپاس کھڑاہے۔
کھیت کامالک جیوں خاں یہ دیکھ کرمتعجب ہوااورپریشان بھی۔وہ بھاگاہواآپ کے والد کےپاس آیا اور کہاکہ:
"ان کےمویشیوں نےاس کاکھیت اجاڑدیاہے،ان کالڑکاپیڑکےنیچےمردہ پڑاہےاورسانپ ان کے برابرکھڑاہے"۔
آپ کےوالد کو جب یہ معلوم ہواتووہ کچھ آدمیوں کولےکرفوراًوہاں پہنچے۔سانپ غائب ہوگیا۔ آپ اٹھ بیٹھےآپ کےوالدنے آپ سے کہاکہ لوگ شاکی ہیں کہ تمہارے مویشیوں نےکھیت اجاڑ دیاہے۔
یہ سن کرآپ نےاپنےوالد سے کہاکہ ایساتونہیں ہے۔آپ خود دیکھ کررائےقائم کیجئےکہ کھیت اجڑا
ہے یانہیں۔
واقعی کھیت پہلےسےزیادہ شاداب تھا۔جیوں خاں نےوہ ساراکھیت آپ کے والد کو نذرکردیا۔
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)