حضرت بی بی رابعہ رحمۃ اللہ علیہا
آپ امت محمدیہ کی عارفات میں سر فہرست ہیں، مقتدین میں آپ کا مقام بہت بلند ہے، صاحب کرامات و درجات تھیں، آپ کے اوصاف حمیدہ تحریر و تقریر سے کہیں زیادہ ہیں، پیران عظام اور مشائخ کرام باطنی مسائل کے حل کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔
حضرت سفیان ثوری جیسے بلند پایہ علماء کرام و ائمہ عظام آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے حضرت رابعہ ساری رات نماز میں کھڑی رہتیں، بسا اوقات سحر تک ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر نماز ادا کرتیں تھیں، عام حالات میں ایک رات کے اندر ہزار ہزار رکعت نماز پڑھتیں۔
تذکرہ الاولیاء کے مصنف نے لکھا ہے کہ ایک بار حضرت رابعہ رحمۃ اللہ علیہا حج بیت اللہ کے ارادے سے نکلیں، ایک صحرا میں سے گزر رہی تھیں گدھے پر سامان لدا ہوا تھا، صحرا کے درمیان پہنچیں تو گدھا مرگیا، قافلہ والوں نے کہا آپ کا سامان ہم اٹھالیے ہیں آپ ہمارا ساتھ دیں فرمانے لگیں میں تمہارے بھروسہ سفر نہیں کر رہی مجھے تو اپنے اللہ پر بھروسہ اور توکل ہے قافلہ چلا گیا اور اکیلی رہ گئیں، سجدہ میں سر رکھ کر دعا کی، اے اللہ! کیا بادشاہ ایک مسافر عورت سے یہی سلوک کیا کرتے ہیں؟ پہلے تو مجھے اپنے گھر کی زیارت کے لیے سفر اختیار کرنے کی ہمت دی، پھر راستہ میں لاکر میرا گدھا چھین لیا اور مجھے تن تنہا صحرا میں لا کھڑا کیا، ابھی دعا پوری نہیں ہوئی تھی کہ گدھا کان جھاڑتا ہوا اٹھا، حضرت بی بی نے رختِ سفر دوبارہ لادا اور مکہ مکرمہ پہنچیں، راوی کہتا ہے کہ ایک عرصہ کے بعد میں نے وہی گدھا دیکھا کہ حضرات رابعہ نے فروخت کردیا۔
سکینۃ العارفین میں آپ کا یہ واقعہ نقل کیاگیا ہے کہ آپ چار بہنیں تھیں آپ سب سے چھوٹی چوتھی بہن تھیں، اسی وجہ سے آپ کا نام رابعہ رکھا گیا تھا جس رات آپ پیدا ہوئی تھیںِ آپ کے باپ کے گھر میں اتنا کپڑا بھی نہ تھا کہ آپ کے بدن کو لپیٹ اجاتا دیے میں اتنا تیل نہ تھا کہ روشنی رہتی، آپ کی والدہ نے آپ کے والد کو کہا کہ فلان ہمسائے کے پاس جاؤ، اور تیل لے آؤ، رابعہ کے والد نے اپنے دل میں عہد کیا تھا کہ اللہ کے بغیر کسی سے کچھ نہیں مانگیں گے لیکن مجبوراً ہمسائے کے دروازے پر آئے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کوئی جواب نہ آیا گھر والے سوئے ہوئے تھے دل تنگ ہوکر واپس آگئے اور مایوس ہوکر سو گئے خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، آپ نے فرمایا: تنگ دل نہ ہو، اور غم نہ کرو یہ بچی جو آج پیدا ہوئی ہے یہ سیدہ ہے، شفیفہ ہے، اس کی روحانی روشنی دنیا کو روشن کرے گی اور میری امت کے ستر ہزار لوگ اسی کی شفاعت سے بخشے جائیں گے اگر تم غربت کی وجہ سے غم زدہ ہو تو صبح اُٹھ کر امیر بصرہ کے پاس جانا اور میری طرف ایک رقعہ لکھ لینا اور کہنا کہ تم ہر رات ایک سو بار درود پاک پڑھا کرتے تھے، اور جمعرات کو چار سو بار درود پڑھتے تھے، اس جمعرات کو درود پڑھنا بھول گئے ہو، اس کا کفارہ چار سو دینار بنتا ہے، حامل رقعہ کو دے دو، امیر بصرہ سے چار سو دینار لے کر خرچ کرلینا۔
حضرت رابعہ کے والد نیند سے اٹھے، روئے خط لکھا اور صبح امیر بصرہ کے پاس جا پہنچے، امیر بصرہ کے حاجب کو خط دیا تاکہ وہ امیر بصرہ کی خدمت میں پیش کرے، امیر بصرہ خط پڑھ کر بڑا خوش ہوا چار سو دینار پیش کیے، دس ہزار دینار بطور شکرانہ عام غریبوں میں تقسیم کیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یاد فرمایا ہے دوسرے دن خود بپائے چشم حضرت رابعہ کے والد کے گھر حاضری دی، قدموں میں سر رکھ دیا اور بڑی عزت و تکریم سے جدا ہوئے۔
جس دن حضرات رابعہ حج کو روانہ ہوئیں تو ابھی راہ میں ہی تھیں کہ دیکھا کہ کعبۃ اللہ استقبال کو آ رہا ہے، حضرت رابعہ نے کعبۃ اللہ کو آتے دیکھ کر فرمایا مجھے بیت اللہ نہیں چاہیے، مجھے رب کعبہ چاہیے اسی سال سلطان ابراہیم اوہم رحمۃ اللہ علیہ حج بیت اللہ کو گئے ہوئے تھے، انہوں نے دیکھا کہ کعبۃ اللہ اپنے مقام پر نظر نہیں آ رہا، حالانکہ آپ گھر سے چلے تو ہر قدم پر دو دو نفل نماز ادا کرتے گئے اور اس طرح چودہ سال لگے پھر جاکر بلخ سے مکہ مکرمہ پہنچے تھے، فرمانے لگے کیا میری بینائی میں کمی آگئی ہے کہ بیت اللہ نظر نہیں آ رہا ہاتف نے آواز دی، آپ کی نظر کی کوتاہی نہیں دراصل کعبۃ اللہ ایک نیک بی بی کے استقبال کو گیا ہوا ہے ، حضرت ادھم نے دیکھا کہ حضرت رابعہ بصریہ آ رہی ہیں، اب کعبہ اپنی جگہ قائم ہے حضرت ابراہیم نے فرمایا رابعہ یہ کیا شور کرامت ہے جو تم نے دنیا میں برپا کر رکھا ہے کہ کعبۃ اللہ کو اپنے استقبال کے لیے بلا رہی ہو، حضرت رابعہ فرمانے لگیں ابراہیم شور تو تم نے برپا کر رکھا ہے کہ چودہ سال سے ایک ایک قدم پر نفل ادا کرتے آ رہے ہو اور چودہ سال دیر کرکے اللہ کے گھر میں حاضر ہوئے ہو، ابراہیم نے کہا رابعہ مجھے چودہ سال اللہ کی نماز پڑھتے صحرا میں گزرے، آپ نے فرمایا: تم چودہ سال اللہ کی نماز میں رہے ہیں عمر بھر اللہ کے نیاز میں رہی، اس کا نتیجہ یہ ہوا تم اللہ کے گھر پہنچے تو وہ اپنی جگہ پر نہ تھا، میں نیاز مندانہ حاضر ہوئی تو وہ مجھے لینے آگے بڑھا۔
لوگوں نے حضرت رابعہ سے پوچھا تم اللہ سے محبت رکھتی ہو، آپ نے فرمایا: ہاں، لوگوں نے پھر پوچھا تم شیطان سے دشمنی کرتی ہو، کہنے لگیں مجھے دوست کی دوستی سے فرصت ہی نہیں کہ کسی سے دشمنی کروں۔
مشائخ کرام میں دو حضرات حضرت رابعہ بصریہ کی زیارت کو گئے، دونوں بھوکے تھے، اور تھکے ہوئے تھے، وہ دل میں کھانے کی آرزو لیے پہنچے حضرت رابعہ نے دو روٹیاں جو رات کی پڑی ہوئی تھیں، پیش کیں، مگر اسی وقت دروازے پر ایک سائل نے آواز دی کہ اسے روٹی دی جائے، حضرت رابعہ نے دونوں روٹیاں اٹھائیں اور سائل کو دے دیں، دونوں مہمان بڑے حیران ہوئے اور مایوس بھی مگر تھوڑی دیر کے بعد ایک کنیز دروازے میں داخل ہوئی اُس کے سر پر ایک دستر خوان تھا اور کہنے لگی میری مالکہ مخدومہ نے یہ روٹیاں آپ کے لیے بھیجی ہیں، حضرت رابعہ نے روٹیاں گنیں تو اٹھارہ تھیں، حضرت رابعہ نے کہا یہ روٹیان واپس لے جاؤ، یہ میرے لیے نہیں ہیں کسی اور کی ہوں گی تمہاری مخدومہ کو غلطی لگی ہے، واپس گئی تو واقعی مالکہ نے کہا میں تو بیس روٹیان بھیجنا چاہتی تھی، بیس روٹیاں دیں تو وہ کنیز دوبارہ لے حاضر ہوئی حضرت رابعہ نے بیس روٹیاں لیں اور مہمانوں کی خدمت میں پیش کرے ہوئے کہا دو کے بدلے تو اللہ تعالیٰ نے بیس روٹیاں مقدر کی ہوئی تھیں مہمان حضرت رابعہ کے اس انداز مہمان نوازی کو دیکھ کر حیران ہوتے رہے، حضرت رابعہ نے فرمایا جب تم میرے پاس آئے تو مجھے احساس تھا کہ تم بھوکے ہو مگر میرے پاس صرف دو روٹیاں تھیں، ان دو روٹیوں سے تمہارا پیٹ نہیں بھرسکتا تھا، سائل آیا، میں نے اللہ سے تجارت کی، وہ دو کے بدلے بیس دیتا ہے میں نے روٹیاں اس کے راہ میں دے دیں مجھے یقین تھا اللہ تعالیٰ ضرور بیس روٹیاں دے گا کنیز آئی میں نے گنیں اٹھارہ تھیں، یہ کمی نہیں ہوسکتی تھی، میں نے واپس کردیں یہ حساب میں غلطی کی وجہ سے تھیں، بیس آئیں تو تمہارے لیے حاضر کردیں۔
ایک بار بصرے کے چند مسخرے ازرہ مذاق حضرت رابعہ کے پاس آئے اور کہنے لگے رابعہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے تین ایسی فضیلتیں دی ہیں، جن سے عورتیں محروم ہیں۔
۱۔ مرد کامل العقل ہوتے ہیں، جب کہ عورتوں کو ناقص العقل قرار دیا گیا ہے، اس لیے دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔
۲۔ عورتیں ناقص الدین ہوتی ہیں، ہر ماہ انہیں چند دن نماز سے محروم رہنا پڑتا ہے۔
۳۔ آج تک کوئی عورت پیغمبری کے منصب پر فائز نہیں ہوئی۔
حضرت رابعہ بصریہ نے ان لوگوں کی باتوں کو سنا اور فرمایا عورتوں کو تین ایسی فضیلتیں عطا کی ہیں جن سے مرد محروم ہیں۔
۱۔ آج تک کسی عورت نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا۔
۲۔ عورتوں کے ہاں مخنث نہیں ہے، یہ خاصہ صرف مردوں کے لیے ہے۔
۳۔ مردوں میں جتنے انبیاء، اولیاء، صدیق اور شہداء ہوئے ہیں عورتوں نے جنے ہیں اور انہوں نے ہی انہیں پرورش کیا ہے۔
حضرت رابعہ ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچی تھیں کہ آپ کے والدین انتقال کرگئے ان دنوں ملک میں قحط پڑا ہوا تھا، آپ کی دوسری بہنیں تلاش رزق کے لیے اِدھر اُدھر چلی گئیں، حضرت رابعہ بھی بصرہ سے نکلیں کسی سفاک آدمی نے آپ کو پکڑا اور فروخت کردیا، رابعہ نئے مالک کے پاس خدمت گزاری میں مصروف رہتیں رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتیں ایک رات حضرت رابعہ سجدہ میں سر رکھے اللہ کی بارگاہ میں رو رو کر التجا کر رہی تھیں اے اللہ تو جانتا ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا اور آزاد ہوتی تو تیری اطاعت و عبادت میں ذرہ بھر بھی کوتا ہی نہ کرتی لیکن مجھے ایسے شخص کی خدمت گزاری کے لیے بھی وقت دینا پڑتا ہے جو تیرے مقام سے ناواقف ہے دعا کے دوران آپ کے سر پر ایک چراغ معلق ہوتا اور خود بخود روشنی پھیلا رہا تھا حضرت رابعہ کے مالک نے حضرت رابعہ کو اس حالت میں دیکھا نیند سے اٹھ بیٹھا بڑا متفکر تھا اور دل میں سوچنے لگا میں ایسی نیک بی بی کو اپنی خدمت میں مصروف رکھتا ہوں یہ کسی طرح مناسب نہیں، مجھے تو ان کی خدمت کرنا چاہیے دوسرے دن صبح کے وقت حضرت رابعہ کو بلایا، آزادی کا پروانہ دیا، حضرت رابعہ ایک صحرا میں چلی گئیں اور ہمہ وقت یاد خداوندی میں بسر کرنے لگیں حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مجالس میں کبھی کبھی حاضر ہوتیں، حضرت خواجہ بھی آپ سے نہایت شفقت فرماتے۔
ایک دن آپ اپنے حجرے میں مشغول بعبادت تھیں، بڑی تھکی ہوئی تھیں، بے خوابی اور تھکاوٹ نے اثر کیا سوگئیں رات کو چور آیا آپ کی چادر پر ہاھ ڈالا اور باہر بھاگنے لگا مگر اسے راستہ نہ ملا چادر چھوڑ دی، دروازہ نظر آگیا، مگر پھر لالچ نے مجبور کیا، چادر کھینچی، مگر راستہ نہ ملا، وہ بار بار ایسا کرتا رہا، آخر کار حجرے کے ایک کونے سے آواز آئی کہ حیران ہونے کی کوئی بات نہیں اس نے اپنے آپ کو ہمارے سپرد کیا ہے ہم اس کی چادر کی خود حفاظت کریں گے تم تو چور ہو یہاں ابلیس جیسی طاقت کو ہمت نہیں ہوتی کہ نقصان پہنچا سکے یاد رکھو اگر ایک سوتا ہے تو دوسرا دوست کی نگرانی میں جاگتا ہے۔
ایک دفعہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اپنے چند دوستوں کو لے کر حضرت رابعہ بصری کے گھر گئے، اس وقت حضرت رابعہ کے گھر چراغ نہیں تھا، مہمانوں کی سہولت کے لیے آپ نے اپنی انگشت شہادت کو اپنے لبوں سے چھویا اور چراغ کی طرح روشن کردیا اور اس طرح صبح تک چراغ جلتا رہا۔
ایک دن خواجہ حسن بصری نے رابعہ بصریہ کو مشورہ دیا کہ نکاح کرلو، رابعہ نے کہا نکاح کی ضرورت تو جسم کو ہوتی ہے میں تو اپنے جسم کو فنا فی اللہ کرچکی ہوں۔
جب حضرت رابعہ کی موت کا وقت قریب آیا، آپ صاحب فراموش تھیں، اکابران وقت آپ کی عیادت کے لیے پہنچے، کہنے لگی، اٹھو! میرے پاس اللہ کے رسول (فرشتے) آ رہے ہیں انہیں بیٹھنے کی جگہ دو، لوگ اٹھے آواز آئی یا ایھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ المرضیہ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی اس کے بعد کوئی آواز نہ آئی، لوگ پھر آپ کے پاس آئے، دیکھا کہ آپ کا روح قفس عنصری سے پرواز کرچکا ہے۔
حضرت رابعہ کی وفات ۱۸۵ھ میں ہوئی، آپ کا مزار آج تک بصرہ میں زیارت گاہ خلائق ہے۔
رابعہ چوں زین جہاں چار و بو |
|
رفت در دبار جنت یافت بار |
(حدائق الاصفیاء)