حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش

حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

علی مخدوم جلابی غزنوی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش لاہوری: آپ کا شجرہ نسب امام حسن بن حضرت علی تک منتہی ہوتا ہے۔آپ اولیائے متقدمین میں سےجامع علوم ظاہری و باطنی،عابد زاہد متقی مظہر خوراق و کرامت اور حنفی المزہب تھے۔آپ نے اپنے مرشد شیخ ابو الفضل بن حسن ختلی جنیدی کے سوا بڑے بڑےمشائخ مثل شیخ ابو القاسم گورگافی وابو سعید ابو الخیر اور ابو القاسم قشیری محدث سے صحبت کر کے فوائد کثیر حاصل کیے،اخیر کو اپنے مرشد کے اشارت سے غزنی سے ہندوستا ن میں آکر لاہر میں فضیلت و مشیخت کا ہنگامہ گرم کیا،دن کو تدریس و تعلیم اور رات کو تلقین میں مصروف رہ کر ہزار ہا جہلاء کو عالم فاضل اور صد ہاگم کرد گان راہ حق کو راہ راست بتائی اور دور دور سے علماء و فضلاء نے آپ کی خدمت میں اگر سعادت دارین حاصل کی۔

سفینۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ جب آپ نے لاہور میں قیام کیا تو آپ نے رہنے کا مکان اور مسجد تعمیر کی لیکن اس وقت محراب مسجد کا بہ نسبت دیگر مساجد کے کچ تھوڑا ساٹیڑھا مائل بہ سمت جنوب معلوم ہوتا تھا،علماء وقت نے اس پر اعتراض کرنا شروع کیا،آپ خاموش رہے،جب مسجد تیار ہو گئی تو آپ نے کل علماء و فضلائے شہر کی دعوت کی اور خود امام ہوکر نماز کے سب کو روبقلبہ استادہ کر کے فرمایا کہ دیکھو قبلہ کس طرف ہے یہ کہنا ہی تھا کہ خدا کے حکم سے فوراً تمام حجاب اٹھ گئے اور کعبہ سامنے سو نمودار ہوا اور سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور اپنے اعتراض سے نہایت نادم ہوئے۔

آپ کی تصنیفات تو بہت ہیں لیکن اس میں سے کشف المحبوب نہایت مشہور و مقبول عالم ہے جس میں آپ نے امام ابو حنیفہ کی نسبت لکھا ہے کہ میں ایک دفعہ ملک شام میں حضرت بلال مؤذن کی قبر کے سر ہانے سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو مکہ معظمہ میں دیکھا،اتنے میں پیغمبر خداﷺباب بنی شیبہ سے تشریف لائے اور آپ نے ایک بوڑھے شخص کو مثل اطفال کے گود میں لیا ہوا ہے اور نہایت شفقت اس پر فرما رہے ہیں،میں نے سلام کر کے آپ کے پائے مبارک پر بوسہ دیا اور تعجب سے اپنے دل میں خیال کیا کہ آیا یہ پیرروشن بخت کون ہے جس پر حضرت اس قدر مہربانی مبذدل فرمارہے ہیں،حضرت نے معجزے سے میرے راز دل کو معلوم کر کے فرمایا کہ یہ امام ابو حنیفہ ہیں جو مسلمانان اہل سنت کے امام ہیں، انتہیٰ۔وفات آپ کی ۴۶۵؁ھ میں ہوئی اور اپنی تعمیر کردہ خانقاہ میں مدفون ہوئے۔ لاہور میں جس قدر آپ کے مزار پر امل حاجات وغیرہ کا رجوع ہے اس قدر اور کہیں نہیں ہے۔جلاب وہجویر،غزنی میں دو محلوں کا نام ہے جہاں آپ ابتداء میں رہا کرتے تھے۔سال وفات آپ کا ’’جلوۂ نور الصمد‘‘ ہے۔

تجویزوآراء