حضرت فاضل کبیر محمد حسن سنبھلی
حضرت فاضل کبیر محمد حسن سنبھلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سیدنا عبد السلام صحابی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھے، ۱۲۶۴ھ میں سنبھلی ضلع مراد آباد میں پیداہوئے، والد کا نام شیخ ظہور حسن بن شمس علی تھا۔
پہلے حفظ قرآن پاک کیا، پھر مفتی عبد السلام سنبھلی، مولانا عبدالکریم خاں دہلوی، مولانا سدید الدین خاں دہلوی، مولانا شاہ عبدالقادر بد ایونی سے تحصیل وتکمیل علوم کی، کچھ دنوں بدایوں میں مولوی سید یونس علی بد ایونی المتوفی ۱۹۴۰ء کی تعلیم پر مامور رہے، اس کے بعد نوں کثور پریس سے وابستہ ہوگئے، شاہ ولدار علی مذاق بد ایونی المتوفی ۱۳۱۲ھ خلیفہ حضرت اچھے میاں مارہروی سے مرید تھے، اور اُنہیں سے سلاسل طریقت کی اجازت بھی پائی، آپ اپنے زمانہ کے مشہور صاحب تصنیف عالم تھے، ذیل کی کتابیں آپ کی تصانیف میں مشہور و مطبوعہ ہیں، ‘‘شرح خلاصہ کیدانی، اجوبۂ راضیہ سوالات امام رازی، حاشیہ ہدایہ مطبوعہ مطبع اودھ اخبار لکھنؤ، ھاشیہ اصول الشاشی، شرح مسند امام اعظم، حاشیہ ہدایہ، حاشیہ شرح عقائد نسفی، صرح الحمایہ علی شرح الوقایہ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربی کے شاعر بھی تھے، مادۂ تاریخ کہنے میں کمال تھا، حضرت مولانا شاہ فضل رسول قدس سرہٗ بد ایونی کے وصال کا عربی قطعۂ تاریخ ‘‘اکمل التاریخ’’ جلد دوم میں شامل ہے، ۱۳۰۵ھ سال رحلت ہے۔
مشہور ادیب و عالم مولانا عبد العلی مدراسی نے آپ کا پُر درد مرثیہ لکھا، جو مند امام اعظم کے آخر میں شامل ہے (مسند امام اعظم) (تذکرہ علمائے ہند، تذکرۂ نوری)