حضرت سیدغوث علی شاہ

 

حضرت سید غوث علی شاہ قدوۃ السالکین ہیں۔

خاندانی حالات:

آپ کا سلسلہ نسب بتیس واسطوں سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر منتہی ہوتاہے، آپ حسنی وحسین ہیں۔۱؎

والدماجد:

آپ کے والد بزرگوارکانام سید احمدعلی ہے،ان کو درجہ ولایت حاصل تھا۔

والدہ ماجدہ:

آپ کی والدہ ماجدہ صاحبہ جذب وسکرتھیں۔

ولادت:

آپ جمعہ کے دن رمضان کے مہینے میں ۱۲۱۹ھ میں موضع استہاون میں پیداہوئے۔۲؎

نام نامی:

آپ کانام غوث علی ہے۔

تعلیم وتربیت:

آپ کے والد ماجد نےآپ کو دہلی بلایااورآپ کی تعلیم دہلی میں ہوئی۔آپ نے حدیث و فقہ کی کتب حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی اورحضرت مولاناشاہ محمد اسحاق سے پڑھیں۔منطق ودینیات کی تعلیم آپ نے مولوی فضل امام صاحب خیرآبادی سے حاصل کی۔مثنوی مولاناروم رحمتہ اللہ علیہ آپ نے مولوی قلندرعلی جلال آبادی سے پڑھی،آپ نے علم ہیٔت ودیگرعلوم ظاہری و باطنی میں 

دستگاہ حاصل کی۔

بیعت و خلافت:

آپ کئی سلسلوں میں بیعت ہوئے،حضرت لعل شاہ کے روحانی فیوض سے مستفیدہوئے۔خاندان سہروردیہ میں آپ مریدوخلیفہ حضرت سید فداحسین رسول شاہی کے ہیں۔۳؎

خاندان قادریہ میں آپ مریدوخلیفہ حضرت سید اعظم علی شاہ کے ہیں،۴؎نقش بندی سلسلہ میں آپ مریدوخلیفہ حضرت حبیب اللہ شاہ کے ہیں،۵؎خاندان چشتیہ میں آپ مریدوخلیفہ حضرت امیرالدین کے ہیں۔۶؎

سیروسیاحت:

آپ نے ہندوستان کی سیروسیاحت فرمائی۔مکہ معظمہ،مدینہ منورہ،بغداد،نجف اشرف،بیت المقدس بھی حاضرہوئے اور روحانی فیوض و برکات سے مستفیدہوئے۔مصر،روم و شام کی سیر و سیاحت فرمائی۔بہت سے درویشوں سے ملاقات ہوئی۔آپ نواسی بزرگوں سے ملے اور ان کے باطنی فیض سے مستفید ہوئے۔ان کے علاوہ آپ بہت سے جوگیوں،سناسیوں اوردیگرمذاہب کی بزرگ ہستیوں سے ملے اوران سے استفادہ کیا۔

پانی پت میں سکونت:

آپ نے زندگی کے آخری ایام پانی پت میں گزارے۔قلندرصاحب کے مزارکے ایک حجرے میں رہتے تھے۔

وفات شریف:

آپ نے ۲۶ربیع الاول ۱۲۹۷ھ کواس دارفانی سے کوچ فرمایا۔۷؎بوقت وفات آپ کی عمراٹھہتر سال کی تھی۔مزارپرانوارپانی پت میں واقع ہے۔

خلفاء:

آپ کے وصال کے بعدآپ کے خلیفہ محمد یوسف آپ کے سجادہ نشین ہوئے۔آپ کے ممتاز خلفاء حسب ذیل ہیں۔

محمد یوسف،مولوی گل حسن۔

سیرت پاک:

آپ قطب ارشاد تھے۔آپ کو مرتبہ غوثیت بھی حاصل تھا۔آپ کمالات باطنی میں یکتااورتوحید میں لاثانی تھے۔آپ کونسبت جذب حاصل تھی۔ترک و تجرید،قناعت و توکل،ریاضت و مجاہدہ میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی سخاوت کایہ حال تھاکہ جو کچھ آتا،اسی وقت محتاجوں،بیواؤں اورمسکینوں کوتقسیم کردیتے تھے۔سائل آپ کے پاس سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا۔

خوراک آپ کی بہت کم تھی۔کھاناسادہ پسند فرماتے تھے۔لباس آپ کا سفیداورسادہ ہوتاتھا۔رنگین کپڑے نہیں پہنتے تھے۔آپ کو علم ظاہر اورعلم باطن میں کمال حاصل تھا۔آپ منبع شریعت و طریقت تھے۔فصاحت،بلاغت اور متانت میں بے نظیرتھے۔

تعلیمات:

آپ کی تعلیمات اہل ذوق و شوق اہل تصوف اوراہل عرفان ہی کے لئے مفید نہیں ہیں،بلکہ ہرشخص آپ کی تعلیمات سے خاطرخواہ فائدہ اٹھاسکتاہے۔

اسلام  کی زندگی:

آپ فرماتے ہیں:۸؎

"اسلام کی ترقی کادارومداراتفاق،اولوالعزمی اورغیرت پر ہے"۔

غیراللہ سےبے پرواہی:

آپ طالب حق کویہ ہدایت فرماتےتھے۔۹؎

"غیراللہ سے کبھی ملتجی نہ ہونا۔کسی حاجت کے واسطے سوال نہ کرنا۔کیونکہ سوال کرنااصول طریقت کے بالکل خلاف ہے۔اس لئے کہ حصول مقصد اصلی اسی پر منحصرہےکہ طالب ماسوا اللہ سے بے سروکارہواورموجودات عالم سے قطع تعلق کرے۔سوال کرنافقرکی شان عظمت کے منافی ہےاورسبب تذلیل ہے۔یہ رکیک فعل اعزازفقراءکے پاک وشفاف دامن پر بدنمادھبہ لگاتاہے"۔

توحید:

آپ فرماتے ہیں کہ:۱۰؎

"توحید تین قسم کی ہے۔

ایک  توحید عامہ جس کو توحید شریعت کہتے ہیں۔

دوسری توحید خاص وتوحید طریقت۔

تیسری خاص الخاص توحیدمعرفت و حقیقت۔توحیدعالی بھی اس کا نام ہے۔

توحیدعام میں جمہورخلائق شریک ہیں۔اس توحیدکااصول احکام شرعی کی اتباع پر منحصرہے اور توحید خاص وخاص الخاص ازروئے فیوضات باطنی حاصل ہوتی ہے۔یہ توحیدانبیاء علیہم  السلام اور اولیائے کرام کا حصہ خاص ہے۔

زبان سے لاالٰہ الااللہ کہنااوردل سے یکتائی حق پراعتقاد رکھناتوحید عام ہے"۔

"اورتجلیات ذات مطلق کا قلب سالک  پرمتجلی ہونااورذرہ آفتاب میں بے امتیاز کمی و بیشی نورحق نظر آنا اور نورذات کے سامنےذرات وجودعالم کو معدوم ہونااور ایک ذات کا نور پیش نظررہناتوحید خاص ہے"۔

"موحد کا بحرناپیداکرناتوحید میں شناوری کرتے کرتےقعردریائے ذات اقدس میں غوطہ مارنااور محو

درمحواورفنادرفناہوجانااورکل کائنات کو مع اپنی ہستی خاص کا محو کرناتوحید خاص الخاص ہے"۔

سلوک:

آپ فرماتے ہیں کہ۔۱۱؎

"سلوک کے معنی لغت عربی میں چلناہے۔خواہ سفرظاہراورخواہ باطن۔مگراہل تصوف کے نزدیک سیرفی اللہ سے مراد ہے۔سیرفی اللہ میں منازل بہت ہیں اور اپنی ہستی سے گزرکرخداکی ہستی کی طرف ہمہ تن مائل ہونابھی سلوک میں شامل ہے۔جس وقت تزکیہ نفس ہوگیا،اس وقت تزکیہ دل کرناچاہیے۔تصفیہ دل بے"پاس انفاس" کے ہونہیں سکتا"۔

اقوال:

۔        جب خداکے ساتھ ہوگیاتو کسی دوسرے مددگار کی چنداں ضرورت نہیں۔

۔        صبراگرچہ کڑواہے،لیکن پھل اس کا میٹھاہے،الصبرمفتاح الفرحکی تصدیق بڑے بڑے تجربوں سے ہوچکی ہے،صبرکے بعد خوشی ضرورہوتی ہے۔

۔        مال و دولت،حسن وجمال پرغرورکرنالاحاصل ہے،ایک نہ ایک دن ان کوضرورزوال ہوگا۔

۔        استقامت اوراستقلال انسان کےواسطےبڑی بیش بہانعمت ہے۔

۔        ہرشخص نےاپنی خواہشات کے موافق جداگانہ قبلہ بنارکھاہےاوراسی خیال میں مستغرق اور منہمک ہے۔

۔        دنیامردارہےاوراس کے طلب کرنے والے کتوں کی خاصیت رکھتے ہیں،اولوالعزمی اور بلند ہمتی کی بدولت مشکل سے مشکل کام آسان ہوجاتاہے۔طمع سے ذلت اور قناعت سے عزت ہوتی ہے۔

۔        جس وقت تجلی ذات ہوتی ہے۔ہرطرح سے اسرارتوحیدویکتائی منکشف ہوتے ہیں۔

۔        عشق سے انسان کوحیات ابدی حاصل ہوتی ہے۔

۔        صفائی بغیرمجاہدہ کے حاصل نہیں ہوتی اورجمال لایزال بغیرصفائی کے نہیں دکھائی دیتا۔

اورادو وظائف:

ذیل میں آپ کے چند اورادووظائف پیش کئے جاتے ہیں۔

اولادکے واسطے:

آپ فرماتے ہیں کہ اگرکسی شخص کے اولاد نہ ہوتی ہوتواس کو چاہیے کہ صبح کی نماز کے بعد اکیس بار درودشریف پڑھےاورایک سو اکیس (۱۲۱)باررب لاتذرنی فرداوانت خیرالوارثین پڑھے۔پھراکیس باردرود شریف پڑھےاوراپنے اوپر دم کرے اورپانی پر دم کرے خود بھی پئے اور اپنی بیوی کو بھی پلائے۔۱۲؎

بخار سےاچھاہونے کے واسطے:

آپ فرماتے ہیں کہ اگرکسی کو بخارآتاہوتومریض کو چاہیے کہ صبح کی نماز کے بعد سات مرتبہ درود شریف پڑھے،پھرایک سو اکیاون بار۔۱۲؎

قلنایانارکونی برداوسلام علی ابراھیم

پڑھ کراپنے اوپردم کرے اورپانی پریادوائی پردم کرکے پئے۔۱۳؎

مصیبت سے نجات کے واسطے:

آپ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص مصیبت میں گرفتارہوتواس کو چاہیے کہ بعد نمازعشاء گیارہ مرتبہ درودشریف پڑھے اور اکیاون بار۔

لاالہٰ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین

پڑھے اورپھرگیارباردرودشریف پڑھ کردعامانگے،مصیبت سے نجات پائے۔۱۴؎

کشف و کرامات:

ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضرہوا۔وہ عسرت اورتنگی معاش سے پریشان تھا۔آپ سے دعا کا خواستگارہوا،آپ نے اس کو ایک چٹکی خاص دی اورتاکید فرمائی کہ اس کوسرہانے رکھنااورفجرکی نماز کے بعد اکیس مرتبہ پڑھاکرنا،

اےکریمےکہ ازخزانہ غیب

گبروترساوظیفہ خورداری

دوستاں راکجاکنی محروم

توکہ بادشمناں نظر داری

اس شخص نے ایساہی کیا،اس کو پانچ روپے روزانہ سرہانے سے ملنے لگے،کچھ دنوں کے بعداس شخص نے آپ کی ہدایت کے خلاف اس بات کاذکرلوگوں سےکیا،اسی روزسے روپے ملنابندہوگئے۔۱۵؎

عطاءمحمد کودولت توملی تھی۔لیکن اولاد کی دولت سے محروم تھے۔ضعیف ہوگئے تھے،لیکن اولاد کی آرزوباقی تھی۔عطاء محمدنےآپ سے عرض کیا،آپ نے فرمایاکہ خدانے چاہاتوبیٹاپیداہوگا۔آپ کی دعاسے عطامحمدکاگھرروشن ہوا۔۱۶؎عطامحمداپنے بچےکوآپ کے پاس لائے،آپ نے بچےکے سرپر اپناایک ہاتھ پھیرااوردوسراعطاء محمدکے سرپر رکھ کر فرمایا  ؎

پیرے کہ دم زعشق زندبس غنیمت است

ازشاخ کہنہ میوہ نورس غنیمت است

ایک شخص جوپانی پت میں نائب تحصیل دارتھا،آپ سے عقیدت رکھتاتھا،اس نے کوئی امتحان دیاتھا، ایک دن وہ آپ کےپاس آیااورعرض کیاکہ امتحان دیاہے،کامیابی کے لئےدعافرمائیے،اگرمستقل ہوجائےتوکیااچھاہو،آپ مسکرائےاورپھراس شخص سے مخاطب ہوکرفرمایا:

"ایسی خوش خبری اول باپ دیاکرتاہے"۔

وہ شخص جب واپس اپنے مکان پرگیا،اس کو اپنے والد کا خط ملا،اس وقت وہی خوش خبری اس کے والدنے اس کو تحریرکی تھی۔۱۷؎

پنڈت شومدت دہلی میں کمشنرکے رشتہ دارتھےکمشنران سے کسی بات پرخفاہوگیا۔اس نے ان کو برخاست کرنے کی دھمکی دی۔پنڈت جی کوآپ سے بہت عقیدت تھی۔وہ دہلی سے پانی پت آئے اور آپ کی خدمت میں آئے،پنڈت جی نے ایک مرتبان جس میں مربہ بھراہواتھا،آپ کو پیش کیا۔ آپ کے پنڈت جی سے دریافت فرمایاکہ مرتبان میں کیاہے،پنڈت جی نے عرض کیاکہ"حضور کے لئےمربہ لایاہوں"۔

یہ سن کر آپ نے فرمایاکہ بہت خوب"مربی بیارومربہ بخور"پھرپنڈت جی سے مخاطب ہوئے،"کہو صاحب،اب تو کمشنرصاحب تم پر بہت مہربان ہیں"پنڈت جی نے سارا قصہ آپ کے گوش گزارکیا۔ آپ نے فرمایاکہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔سب ٹھیک ہوجائے گااور"میاں!تم کوتواس نے ڈپٹی کردیاہے۔تم نے پریشان نہ ہو۔خدافضل کرے گا،وہ بھی مہربان ہوگا۔

بعدازاں پنڈت جی کو معلوم ہواکہ واقعی کمشنرنے ان کے ایکسٹرااسسٹنٹ کمشنربنانے کی پرزور سفارش کی ہےکچھ ہی  دنوں کے بعد پنڈت جی ایکسٹرااسسٹنٹ کمشنرہوگئے۔۱۸؎

حواشی

۱؎سیرت غوثیہ  ص۱۲،۱۱

۲؎سیرت غوثیہ ص۱۲،۱۱

۳؎سیرت غوثیہ ص۹

۴؎سیرت غوثیہ ص۱۱

۵؎سیرت غوثیہ ص۱۲

۶؎سیرت غوثیہ ص۱۶،۱۵،۱۳

۷؎سیرت غوثیہ۷۵،۱۸

۸؎سیرت غوثیہ۳۱،۲۸،۲۷

۹؎سیرت غوثیہ۳۱،۲۸،۲۷

۱۰؎سیرت غوثیہ ص۳۷

۱۱؎سیرت غوثیہ ص۴۱

۱۲؎سیرت غوثیہ ص۶۵،۶۴

۱۳؎سیرت غوثیہ ص۶۷،۶۶

۱۴؎سیرت غوثیہ ص۶۶

۱۵؎سیرت غوثیہ ص۵۳،۵۲

۱۶؎سیرت غوثیہ ص۵۳،۵۲

۱۷؎سیرت غوثیہ ص۵۶،۵۵،۵۳

۱۸؎سیرت غوثیہ ۵۶،۵۵،۵۳

(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)

تجویزوآراء