حضرت ابراہیم بن رسول اللہ

حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

مدینہ منورہ میں حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے ماہ  ذی الحجہ ۸ھ مطابق  چہار  شنبہ ہفدہم ۱۷ مارچ ۶۳۰ء میں تولد ہوئے۔ اُسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نام  ابراہیم رکھا، ساتویں (۷) روز دو (۲) گو سپند عقیقہ میں ذبح فرمائے، اور سر منڈوا کر بالوں کے ہموزن چاندی مسکینوں کو صدقہ کی،  اور بال زمین میں دفن کروائے[مدراج النبوۃ جلد دوم ۱۲] دایہ گری کی خدمت سلمیٰ زوجہ ابو رافع رضی اللہ عنہ نے انجام دی، ابو رافع رضی اللہ عنہ کو ولادت کا مژدہ سنانے کے صلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غلام دیا، دودھ پلانے کی خدمت ام بردہ خولہ بنت منذر بن زید الانصاری کو سپرد ہوئی، اس کے معاوضہ میں حضور علیہ السلام نے چند  کھجور کے درخت بھی ان کو دئیے،[۔سیرۃ النبی جلد دوم ۱۲ شرافت] ان کی عمر صحیح روایت کے موافق ایک سال دس ماہ چھ روز ہوئی،۱۰ھ میں انتقال کیا، اُس روز سورج کو گہن لگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود جنازہ پڑھایا اور حضرت عثمان بن مظعون صحابی رضی اللہ عنہ کی قبر کے متصل دفن کیے گئے۔

اگرچہ سیرۃ النبی جلدِ دوم میں اِن کی عمر کے متعلق نہایت مختلف روایتیں مذکور ہیں لیکن بحساب اہلِ ریاضی یہی روایت پایہ  ثبوت کو پہنچتی ہے، کیونکہ کتاب النجوم میں اِن کی ولادت ۱۷؍ مارچ ۶۳۰ء لکھی ہے۔ اور سیرۃ النبی جلد اوّل میں ایک جگہ حاشیہ پر لکھا ہے کہ ۱۰ھ کو جو سورج گہن لگا تھا وہ ۷ جنوری ۶۳۲ء کو آٹھ بجکر تیس منٹ پر لگا تھا اور یہ امر یقینی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا  انتقال اُسی دن ہَوا تھا تو بحسابِ شمسی ان کی عمر ایک سال نو (۹) ماہ بیس (۲۰) دن تھی، جو بحسابِ قمری ایک سال دس (۱۰) ماہ چھ (۶) روز ہوتی ہے۔

(شریف التواریخ)

ان کی والدہ حضرت ماریہ قبطیہ ہیں جنھیں مقوقس بادشاہ اسکندریہ نے رسول خدا ﷺ کے لئے ہدیۃ بھیجا تھا یہ اور ان کی بہن سیرین (دونوں ہدیہ میں آئی تھیں) سیرین کو رسول خدا ﷺ نے حسان ابن ثابت کے حوالے کر دیا تھا ان سے عبدالرحمن بن حسان پیدا ہوئے پس یہ عبدالرحمن ور حضرت ابراہیم فرزند نبی ﷺ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔

حضرت ابراہیم کی ولادت ذالحجہ سن۸ ہجری میں ہوئی ان کی ولادت ے نبی ﷺ بہت خوش ہوئے تھے۔ یہ عالیہ (٭مدینہ کی آبادی کچھ تو بلندی ر تھی سی کو عالیہ کہتے ہیں اور کچھ نشیب میں تھی) میں پیدا ہوئے تھے ان کی قابلہ (٭قابلہ اس عورت کو کہتے ہیں جو بچہ جنانے کا کام کرتی ہو) حضرت سلمی زوجہ ابو رافع تھیں جو نبیﷺ کی آزاد کی ہوئی لونڈی تھیں (اس خدمت کے صلے میں)آپ نے انھیں ایک غلام دے دیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عقیقہ (٭عقیقیہ ساتویں روز کر دینا مسنون ہے اگر ستویں روز کسی وجہس ے نوبت نہ آئے تو پھر جب چاہے کر دے) آپ نے ان کی پیدائش کے ساتویں دن کیا تھا اور ان کا نام (بھی ساتویں دن) رکھا تھا ان کے بالوں کے ہم وزن چاندی آپنے خیرات کی تھی اور لوگوںنے ان کے بال دفن کر دئے تھے زبیر نے (جو علم نسب کے بڑے عالم تھے۹ ایسا ہی کہا ہے۔

پھر حضرت ابراہیم علیہ السلامکو دودھ پلانے کے لئے آپ نے ام سیف کے حوالہ کر دیا جو مدینہ کے ایک لوہار کی بی بی تھیں جن کا نام ابو سیف تھا۔ ہمیں ابو الفضل منصور بن ابی الحسن بن ابی عبداللہ طری مخزومی معروف بہ دینی نے اپنی اسناد سے ابو یعلی تک خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم سے احمد بن علی نے بیان کی وہ کہتے تھے مس ے شیبان نے ور ہدبہ بن خالد نے بیان کیا تھا یہد ونوں کہتے تھے ہمس ے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کر کے خبر دی کہ رسول خدا ﷺ نے (صبح کو اپنے صحابہ سے۹ فرمایا کہ آج شبکو میرے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے اس کا نام میں نے اپنے باپ ابراہیم ۰پیغمبر) علیہ السلام کے نام پر رکھا ہے پھر آپ نے حضرت ابراہیم کو ام سیف کے حوالہ کر دیا وہ مدینہ کے ایک لوہار کی بی بی تھیں اور شیبان کی حدیث میں ہے کہ رسول خدا ﷺ اپنے صاحبزدے کو دیکھنے چلے اور ابو سیف کے پاس پنچے میں بھی آپکے ہرماہ تھا وہ اپنی بھٹی میں آگ دہکا رہے تھے ان کا مکان دہویں سے بھرا ہوا تھا لہذا میں رسول خدا ﷺ سے آگے آگے چلا گیا (اور میں نے حضرت کے تشریف آوری کی اطلاع کی۹ تو وہ اپنے کامسے رک گئے پھر رسول خدا ﷺ نے صاحبزادے کو بلوایا اور انھیں لپٹا لیا اور جو کچھ اللہ نے چاہا وہ آپنے فرمایا شیبانی کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد میں ایک مرتبہ اور حضرت کے ساتھ ابو سیف کے یہاں گیا تو میں نے حضرت ابراہیم کو دیکھا کہ رسول خدا ﷺ کے آگے قبض روح کی حالت میں تھے۔ ہڈبہ کی حدیث میں ہے کہ رسول خدا ﷺ کی آنکھ آنسو بہا رہی تھی اور شیبان کی حدیث میں ہے کہ رسول خدا ﷺ کی دونوں آنکھیں انسو بہا رہی تھیں پھر رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ آنکھ سے آنسو بہہ رہے ہیں اور دل رنجدیہ ہے مگر ہم زبان سے وہی باتیں کہتے ہیں جنس ے ہمارا پروردگار راضی ہے۔ اور شیبان کی حدیث میں (یہ بھی) جو کہ (رسول خدا ﷺ نے فرمایا) اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے رنجیدہ ہیں اور زبیر نے کہا ہے کہ انصر میں باہم یہ جھگڑا ہوا تھا کہ حضرت ابراہیم کو دودھ کون پلائے وہ چاہتے تھے کہ حضرت ماریہ کو رسول خدا ﷺ کی خدمت کے لئے رہنے دیں (ان سے دودھ پلانے کا کام نہ لیں) بوجہ اس کے کہ حضرت کو انس ے محبت تھی پھر ام بردہ آئیں جن کا نام خولہ بنت منذر بن زید بن لبید بن خداشبن عامر بن غنم بن عدی بن بخار تھا جو زوجہ تھیں براء بن اوس بن خالد ابن جحد بن عوف بن مبذول بن عمرو بن غنم بن مازن بن بخار کی تو انھوں نے رسول خدا ﷺ سے ان کے دودھ پلانے کے لئے کہا چنانچہ وہ حضرت ابراہیم کو دودھ پلایا کین اپنے ایک بیٹے کے دودھ سے (دودھ پلانیکے لئے قبیلہ) بنی مازن بن بخار میں (لے جاتی تھیں۹ اور پھر ان کو انکی والدہکے پاس یعنی حضرت ماریہ۹ کے پاس واپس کر جاتی تھیں اور رسول خدا ﷺ نے ام بردہ کو ۰اس کے صلے میں۹ کچھ درخت چھوہارے کے دیے تھے۔

حضرت ابراہیم کی وفات جس وقت ہوئی وہ اٹھارہ مہینے کے تھے یہقول واقدی کا ہے اور محمد بن مومل مخزومی کہتے ہیں کہ وہ اس وقت سولہ مہینے اور آٹھ دن کے تھے رسول خدا ﷺ نے ان کی نماز ڑھی اور فرمایا کہ ہم ان کو اپنے فرط (٭فرط اس جماعتکو کہتے ہیں جو قافلے سے پہلے منزل پر پہنچ کر قافلے کی آسائش کا سامان کر رکھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون مہاجرین میں سے تھے جب ان کی وفات ہوئی تو حضرت نے ان کو دفن کر کے فرمایا کہ ہمارا جو عند مرے گا اس کو ہم انھیں کے قریب دفن کریں گے) عثمان بن مظعون کے پاس دفن کریں گے اور یہ (کہہ کے) آپ نے ان کو بقیع میں دفن کیا۔

حضرت جابر روایت کرتیہیں کہ نبی ﷺ نے (ایک دن۹ عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ لی اور ان کو باغ میں لے گئے تو حضرت ابراہیم اپنی والدہ کی گود میں نزع کی حالت میں تھے پھر آپ نے فرمایا کہ اے ابراہیم ہم تمہیں خدا کی کسی بات سے نہیں بچا سکتے بعد س کے آپ کی دونوں آنکھیں بھر آئیں اور آپنے فرمایا کہ اے ابراہیم اگر یہ سچی بات نہ ہوتی اور یہ سچا وعدہ نہ ہوتا کہ ہمارے پچھلے ہمرے اگلوںسے مل جائیں گے (یعنی جو پہلے مرا اور جو یچھے مرا سب ایک دن مل جائیں گے) تو ہم اس سے بھی زیادہ تمہارا غم کرتے اور اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے بہت رنجدیہ ہیں آنکھ رو رہی ہے اور دل رنجیدہ ہے مگر ہم زبان سے کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے پروردگار ناخوش ہو۔

ہمیں عبداللہ بن احمد بن عبدالقادر طوسی نے اپنی اسناد سے ابودائود طیالسی سے انھوں نے شعبہ سے انھوں نے عدی بن ثابت سے روایت کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا جب فرمایا ابراہیم کی وفات ہوئی کہ ان کے لئے جنت یں ایک دودھ پلانے والی (مقرر کی گئی) ہے اور جب حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو اتفاق سے اسی دن آفتاب میں گرہن لگ گیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ آفتاب میں انھیں کی وفات کی وجہ سے گرہن لگا ہے لہذا رسول خدا ﷺ نے خطبہ (٭یہ تھی خیر کواہی امت اور یہ تھی احکام الہی کی اطاعت ایسے نازک وقت میں بھی جب آپ کو معلوم ہوا کہ امت میں ایک غلط خیال پیھل رہا ہے فورا اس کی اصلاح کی فکر میں مصروف ہوگئے ﷺ) پڑھا اور فرمایا کہ آفتاب اور ماہتاب دونوں خدا کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں نہ کسی کی موت سے ان یں گرہن لگتا ہے نہ کسی کی زندگی سے لہذا جب تم ایسا دیکھو تو خدا کے ذکر کی طرف اور نماز کی طرف متوجہ ہو جائو۔

حضرت براء روایت کرتیہیں کہ نبی ﷺ نے حضرت ابراہیم کی نماز میں چار تکبیریں کہیں یہی قول جمہور (٭حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں چار ہی تکبیریں ہیں) علماء کا ہے اور یہی صحیح ہے۔

ہمیں ابو احمد یعنی عبدالوہاب بن علی بن عبید اللہ امیں نے اپنی اسناد سے ابودائود بحتانی تک خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم سے ہناد بن سری نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن عبید نے وائل بن دائود سے روایت کر کے خبر دی وہ کہتے تھے میں نے بھی سنا وہ کہتے تھے جب حضرت ابراہیم فرزند نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو رسول خدا ﷺ نے لوگوں کے بیٹھنے کے مقامات میں ان کی نماز پڑھی اور سی اسناد سے ابودائود سے روایت ہے کہ میں نے سعید بن یعقوب طالقانی سے کہا کہ تم سے ابن مبارک نے یعقوب بن قعقاع سے انھوں نے اطاء سے نقل کر کے بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت ابراہیم کے جنازے کی نماز پڑھی اور ابن اسحق عبداللہ بن ابی بکر سے وہ عمرہ سے وہ حضرت عائشہ سے راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے حضرت ابراہیم کے جنازے کی نماز نہیں پڑھی ابو عمر (ابن عبدالبر) کہتے ہیں کہ ی ہ صحیح نہیں ہے واللہ اعلم کیوں کہ اکر علما نے بچوں کے جنازے کی نماز پڑھنے پر اجماع کیا ہے بشرط یہ کہ (کم از کم) وہ رومیں (مقصود یہ ہے کہ جو بچہ زندہ پیدا ہو کے مر جائے س کی نماز ضرور پڑھی جائے گی اب زندہ پیدا ہونے کی علامت یہ رکھی گئی ہے کہ پیدا ہونے کے بعد وہ روتے جس طرح سب بچے روتے ہیں بغیر روئے صرف ہاتھ پیر کی حرکت سے اس کی زندگی کا حکم نہ دیا جائے گا۔ اسی پر عمل جاری ہے سلف اور خلف کا۔

بیان کیا گیا ہے کہ فضل بن عباس نے حضرت ابراہیم کو غسل دیا اور وہ اسامہ بن زید ان کی قبر میں اترے اور رسول خدا ﷺ قبر کے کنارے بیٹھے رہے۔

زبیر کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کی قبر پر (بعد دفن کرنے کے) پانی چھڑکا گیا اور ان کی قبر پر (پہچان کے لئے) علامت بنائی گئی اور یہ سب سے پہلی قبر ہے جس پر پانی چھڑکا گیا۔

نبی ﷺ سے مروی ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے تو میں ان کے ماموں کو آزاد کر دیتا اور تمام قبطیون سے جزیہ معاف کر دیتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا اگر حضرت ابراہیم زندہ رہتے تو یقینا وہ صدیق اور نبی ہوتے۔

ابو عمر (ابن عبدالبر) کہتے ہیں میں نہیں جانتا کہ یہ کیسی بات ہے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے بعضے نبی نہیں ہوئے اور اگر یہ کلیہ ہوتا (٭بے شک یہ کلیہ تو نہیں ہے مگر یہ کیے معلوم ہوا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اس کلیہ کی بنا پر کہا تھا ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم کے آثار حرکات سکنات سے ایسا قیاس کیا ہو یا نبی ﷺ سے کوئی ایسی بات سنی ہو جس سے یہ وجہ) کہ نبی کی اولاد بھی نبی ہو تو یقینا ہر شخص نبی ہوتا کیوں کہ سب حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں۔

حضرت ابراہیم کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔

(اسدالغابۃ، جلد نمبر۱)

تجویزوآراء