امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی
امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام و نسب:
امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبداللہ بن موسیٰ النیشابوری، الخسروجردی، البیہقي رحمۃ اللہ علیہ ۔ :
حالات زندگی:
شعبان ۳۸۴ ھ میں بیہقی کے علاقہ خسرو جرد میں پیدا ہوئے ۔ علم و فضل سے معمور ماحول میں پرورش پائی ۔ ابتدائی لکھنا پڑھنا وہیں کے مکاتب میں سیکھا، تقریباً پندرہ برس کی عمر میں باقاعدہ علمی مجالس میں شرکت شروع کر دی اور ہمہ تن ہوش حصول علم میں مشغول ہوگئے۔
تعلیم:
امامِ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے حالات کے حوالے سے اگرچہ تاریخ کے اوراق خالی ہیں لیکن بچپن میں آپ کی علم کی طرف بے پناہ رغبت اور اپنے آپ کو علم کی تحصیل کے لیے وقف کر دینا اس بات کی دلیل ہے کہ خاندان میں علمی ذوق شوق موجود تھا اور اس سے معاشی اعتبار سے خاندان کی اطمینان بخش کیفیت کا بھی احساس ہوتا ہے کہ جس میں ایک نوجوان کو ضروریات زندگی کے فراہم کرنے سے قطعی الگ کرکے فقط تعلیم و تعلم کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حصولِ علم کا آغاز کس چیز سے کیا اس بارے میں کچھ صراحت موجود نہیں لیکن مسلمانوں کے عمومی معمولات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بہر حال ممکن ہے کہ آپ نے ابتداء حفظِ قرآن سے ہی کی ہوگی اور پھر مجالسِ حدیث و فقہ میں شرکت اختیار کی ہوگی۔
محدثین کے طریقہ کے موافق آپ نے سب سے اول اپنے علاقے کے اہلِ علم سے کسبِ فیض کیا اور پھر باقی بلادِعلم کی طرف رختِ سفر باندھا۔ گویا کہ آپ کی پہلی علمی جولان گاہ بلادِخراسان ہی تھے اور اس کے بعد تقریباً تمام دنیا کے علمی مراکز میں جا جا کر وقت کے اساطینِ علم سے علمی سیرابی کا سامان کیا۔
خراسان اور خراسان سے باہر جس شہروں کی طرف آپ نے علمی پیاس بجھانے کے لیے سفر کیا، ان میں توقان، اسفرآئین، طوس، مھرجان، أسد آباد، ھمدان، دامغان، اَجھان، رے، طابران، نیشاپور، روذبار، بغداد، کوفہ اور مکہ مکرمہ شامل ہیں۔ گویا کہ حضرتِ امام نے خراسان کے تمام شہروں میں جو کچھ علمی سرمایہ تھا وہ سب جمع کر لیا اور پھر عراق اور حجاز کے بڑے علمی مراکز کا رُخ کیا، ان مراکز میں آپ نے جن جن شیوخ سے استفادہ فرمایا اور خزانۂ علمیہ کے گوہر ہائے گراں مایہ کو جمع کیا ان کی تعداد کے بارے میں امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے طبقات الشافعیۃ میں لکھا ہے:
بلغ شیوخہ أکثر من مائۃ شیخ ولم یقع للترمذی، ولانسائی ولابن ماجہ۔
’’ان کے شیوخ ایک سوسے بھی اوپر ہیں اور شیوخ کی یہ فراوانی امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔‘‘
ڈاکٹر ضیاء الرحمن الاعظمیٰ نے المدخل الی السنن الکبرٰی کی تحقیق میں ذکر کیا ہے !کہ میں جب سنن کبرٰی کا ابتداء سے آخر تک پورے اہتمام سے جائزہ لیا تو صرف سنن کبرٰی میں آپ کے اساتذہ کی تعداد کو ایک سو سے زیادہ پایا۔ جس میں نواسی حضرات کے حالات بھی انھیں مل گئے جنھیں کتاب میں درج کر دیا ہے اور بیالیس ایسے اساتذہ ہیں جن کے تفصیلی حالات تک آگاہی حاصل نہیں ہو سکی۔ یعنی ڈاکٹر اعظمیٰ کی تحقیق کے موافق صرف سنن کبرٰی میں آپ کے اساتذہ کی تعداد ایک سواکتیس تک جاپہنچتی ہے۔
ان تمام اساتذہ کرام میں انتہائی شہرت کے حامل یہ حضرات ہیں:
ابو الحسن محمد بن حسین العلوی، امام ابو عبداللہ الحاکم، ابو اسحاق اسفرائینی، عبداللہ بن یوسف اصبھانی، ابو علی الروزباری، امام بزاز، ابو بکر ابن فورک رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب معرفۃ السنن والآثارمیں اپنے اندازِ تعلیم کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
جب سے میں نے ہوش سنبھالا اور کوچۂ علم میں قدم رکھا ہے تو میں جناب نبی مصطفیٰ ﷺکے اخبار کو قلمبند کیاکرتا تھا، ایسے ہی میں نے آثارِ صحابہ جو دین میں مینارۂ نور تھے؛ کے اقوال بھی جمع کرنے شروع کردیے۔ پھر رواۃ اور حفاظِ حدیث کے احوال تک رسائی حاصل کی اور صحیح، ضعیف، مرفوع، موقوف، موصول اور مرسل سے واقفیت پیدا کی۔
حدیث کی تمام اصناف کو جاننے کے بعد پھر میں ان ائمہ اعلام کی کتب کی طرف متوجہ ہوا جنھوں نے علومِ شریعت کو اپنا مقصد زندگی قرار دے رکھا تھا۔ ان میں ہر ایک نے اپنے طریق کار کی بنیاد کتاب و سنت کے اس علم پر رکھی جو انھیں باری تعالیٰ کی خصوصی عنایتوں سے حاصل ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے حق تک پہنچنے کی غرض، اجتہاد و استباط کی تکلیف اُٹھائی اور نبی گرامیﷺ کی اس حدیث کے مصداق ٹھہرے کہ جس نے دین کے فہم کی خاطر اجتہاد کیا اور واقعی حق تک رسائی حاصل کرلی؛ اُسے دوگنا اجر اور جس نے محنت و کاوش تو کی لیکن حق تک نہ پہنچ سکا؛ اُسے اس کی کوشش کا اجر ملے گا لیکن خطا اجتہادی کا اجر نہیں ہے، البتہ اُس اجتہادی خطا پر کسی قسم کا گناہ نہ ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنے علم اور جو اسے ظاہراً سمجھا اس کے مطابق رائے قائم کی اور حقیقت حال کا کامل علم تو اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ غیب کے خزانوں کا وہی مالک ہے۔
ہم اس ائمہ کبار کے بارے میں بارگاہ الٰہی سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ان سے اس سلسلہ میں کچھ مواخذہ نہ ہوگا کہ اُنھوں نے قرآنی نص، سنت صحیحہ، اہل سنت والجماعت کے منہج اور قیاسِ صحیح کی جان بوجھ کر مخالفت کی ہے بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اس سنت نبوی ﷺکا علم نہ ہو سکا تھا جس کی وجہ سے ان کا قول اس کے خلاف چلاگیا، نہ کہ اُنھوں نے العیاذ باللہ عملاً ایسا کچھ کیا ہوگا۔
مزید فرماتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان مجتہدین کے کچھ اقوال سنت کے مخالف ہیں لیکن دوسری طرف بہت سے اقوال سنت صحیحہ کے موافق بھی ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جن مسائل میں ان سے سنت کی مخالفت ہوئی ہے ان میں اس سنت سے ان کی نظر چوک گئی تھی اور اگر انھیں اس کا علم ہوتا تویقینا اس کے مطابق رائے اختیار کرتے۔
ملخصًا معرفۃ السنن والآثار:۱؍۱۴۰
اخلاق و آداب:
سلف و صالحین کا خصوصی امتیاز یہ تھا کہ جس قدر ان کے پاس دولت علم ہوتی تھی اسی قدر ان کی زندگی عمل صالح سے بھی معمور ہوتی تھی اور عالم باعمل کی حقیقی تصویر ہوا کرتے تھے۔ بالکل ایسا ہی کچھ جناب امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا طرزِ زندگی تھا کہ آپ بڑے زاہد عن الدنیا، انتہائی قانع، بہت بڑے متقی اور پارسا شخص تھے۔ آپ کے ان اوصاف کی گواہی اہل تاریخ نے دی ہے، امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں:
’’مجھے شیخ ابو الحسن الفارسی نے جنابِ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا کہ آپ سیرتِ علماء کا عملی نمونہ تھے، انتہائی تھوڑے پر قناعت فرمانے والے اور زہد و ورع کے اعلیٰ اوصاف سے مزین تھے اور حدیہ ہے کہ تادمِ زیست اسی طرزِ حیات پر کاربند رہے۔‘‘
تبیین کذب المفتری:۲۶۶
امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے ایسے ہی اعلیٰ اخلاق کی گواہی دی ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ زاہد عن الدنیا، بہت تھوڑے پر راضی ہونے والے اور عبادت و ورع میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔‘‘
علمی مقام و مرتبہ:
آپ کو خدائے تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں ہی بہت زیادہ علمی شان و شوکت سے بہرہ مند فرما دیا تھا۔ امام ابنِ عساکر رحمۃ اللہ علیہ ابو الحسن الفارسی سے نقل کرتے ہیں:
ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی تمام اصنافِ علم کے امام، حدیث کے حافظ، بہت بڑے فقیہ اور اُصولی تھے۔ پھر متدین اور خدا سے ڈرنے والے بھی تھے۔ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظِ حدیث، اور معاصرین میں ضبط و اتقان میں انفرادیت کے حامل تھے۔ امام ابو عبداللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ سے کثرت سے روایت کرنے والے کبار اصحاب میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور پھر اس پر اُنھوں نے اپنی محنت و کاوش سے دیگر علوم میں بھی مہارت پیدا کی۔ کتابت اور حفظِ حدیث بچپن سے شروع کیا اور اسی میں ہی پلے بڑھے اور تفقہ فی الدین کی منازل طے کرتے ہوئے ان میں نکھار پیدا کیا اور اُصولِ دین میں مہارت حاصل کی۔
تبیین کذب المفتری:۲۶۶
ابن ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ حضرتِ امام کے مناقب میں یوں رقم طراز ہیں:
آپ حفظ و اتقان میں اپنے زمانہ کے نادرہ روز گار تھے۔ ثقہ اور بااعتماد امام تھے اور پورے خراسان کے بالاتفاق شیخ تھے۔ آپ کے رشحاتِ قلم کا زمانہ بہی خواہ ہے، جن میں السنن الکبری، السنن الصغریٰ، المعارف، الأسماء والصفات، دلائل النبوۃ، الآداب، الدعوات الکبیر، الترغیب والترھیب اور کتاب الزھد شامل ہیں۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بلند علمی پایہ پر عجب انداز میں روشنی ڈالتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
اگر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ چاہتے تو اپنی علمی وسعت اور اختلافِ ائمہ پر حاوی ہونے کی بنا پر اس پر قادر تھے کہ ایک الگ اپنا مکتب فکر قائم کرتے اور اجتھادات سے علیحدہ طور پر دنیا کو مستفید کرتے۔
المدخل الی السنن الکبری:۱۶
عبدالغافر فارسی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی عظمت کایوں اعتراف کرتے ہیں:
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث، علم فقہ اور علم علل الحدیث کے جامع تھے۔ خود آپ کے معاصر اور متاخرین علماء نے آپ کی قدر و منزلت کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ دیگر تمام علماء سے آگے نکل گئے تھے۔ پھر آپ کا خصوصی امتیاز یہ تھا کہ سنت نبوی کی محبت میں فنا تھے۔آپ نے سنن کو جس خوب صورتی سے جمع و ترتیب دیا ہے اس کی اس سے پہلے نظیر ملنا ممکن نہیں۔
شوافع پر آپ کے احسانات:
آپ چونکہ خود بھی مجتہد تھے اور تمام مذاہبِ فقہ کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا تھا؛ اس لیے تمام فقہاء کی آراء اور ان کے اُصول نہ صرف آپ کے سامنے عیاں تھے بلکہ آپ نے تمام کا ناقدانہ تجزیہ بھی کر رکھا تھا، اس لیے آپ نے سنت سے قریب تر ہونے کی وجہ سے اپنے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا انتخاب کیا اور پھر اس کی وہ خدمت کی کہ علماء یہاں تک کہنے پر مجبور ہو گئے کہ دنیا میں کوئی بھی شافعی المسلک شخص ایسا نہیں کہ جس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے احسانات نہ ہوں سوائے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے، کہ جن کے مذہبِ شافعی کی نصرت میں لکھی گئی کتب کا احسان امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر ہے۔
تذکرۃ الحفاظ:۲؍۱۱۳۲
اسی لیے بعض حضرات نے خواب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف کرتے سنا۔
مذہبِ شافعی کے لیے خدمات کے حوالے سے ابن خلکان رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی نصوص کو دس مجلدات میں جمع کیا اور کرۂ ارض پر ان سے زیادہ مذہب شافعی کی نصرت کرنے والا کوئی نہیں۔
ارشد تلامذہ:
کسی بھی عالم کے علمی مقام کا جہاں ان کی کتب سے اندازہ ہوتا ہے وہاں اس سے بھی بڑھ کر اس کا تعارف اس کے وہ ارشد تلامذہ ہوتے ہیں جنھیں وہ انتہائی محنت اور جانفشانی سے تیار کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اگر اپنی گراں قدر تصانیف نہ بھی عالمِ وجود میں چھوڑ کر جاتے تو ان کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے تلامذہ ہی کافی تھے۔ جنھوں نے آپ کی کتب کو آئندہ نسلوں کی طرف منتقل کیا اور ہمیشہ آپ کی ملازمت اختیار کی ہے۔ان میں ابو عبداللہ محمد بن الفضل الفرادی، ابو عبداللہ محمد عبدالجبار بن محمد بن احمد البیہقي الخواری، ابو نصر علی بن مسعود بن محمد الشجاعی، ابو عبداللہ بن ابو مسعود الصاعدی، فرزندِ حضرت ِامام اسماعیل بن احمد البیہقي اور آپ کے پوتے ابو الحسن عبید اللہ بن محمد بن احمدj شامل ہیں۔
وفات
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے سلسلے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آخر عمر میں وہ نیشاپور اُٹھ گئے تھے اور وہاں اپنی کتب کے درس میں مشغول ہو گئے، لیکن جلد ہی وقتِ رحلت آن پہنچا اور ۱۰ جمادی الاولیٰ ۴۵۸ھ میں نیشاپور میں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور بیہقی میں لاکر آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ رحمہ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ
امام ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی علیہ الرحمہ
نام و نسب:
امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبداللہ بن موسیٰ النیشابوری، الخسروجردی، البیہقي رحمۃ اللہ علیہ ۔ :
حالات زندگی:
شعبان ۳۸۴ ھ میں بیہقی کے علاقہ خسرو جرد میں پیدا ہوئے ۔ علم و فضل سے معمور ماحول میں پرورش پائی ۔ ابتدائی لکھنا پڑھنا وہیں کے مکاتب میں سیکھا، تقریباً پندرہ برس کی عمر میں باقاعدہ علمی مجالس میں شرکت شروع کر دی اور ہمہ تن ہوش حصول علم میں مشغول ہوگئے۔
تعلیم:
امامِ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے حالات کے حوالے سے اگرچہ تاریخ کے اوراق خالی ہیں لیکن بچپن میں آپ کی علم کی طرف بے پناہ رغبت اور اپنے آپ کو علم کی تحصیل کے لیے وقف کر دینا اس بات کی دلیل ہے کہ خاندان میں علمی ذوق شوق موجود تھا اور اس سے معاشی اعتبار سے خاندان کی اطمینان بخش کیفیت کا بھی احساس ہوتا ہے کہ جس میں ایک نوجوان کو ضروریات زندگی کے فراہم کرنے سے قطعی الگ کرکے فقط تعلیم و تعلم کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حصولِ علم کا آغاز کس چیز سے کیا اس بارے میں کچھ صراحت موجود نہیں لیکن مسلمانوں کے عمومی معمولات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بہر حال ممکن ہے کہ آپ نے ابتداء حفظِ قرآن سے ہی کی ہوگی اور پھر مجالسِ حدیث و فقہ میں شرکت اختیار کی ہوگی۔
محدثین کے طریقہ کے موافق آپ نے سب سے اول اپنے علاقے کے اہلِ علم سے کسبِ فیض کیا اور پھر باقی بلادِعلم کی طرف رختِ سفر باندھا۔ گویا کہ آپ کی پہلی علمی جولان گاہ بلادِخراسان ہی تھے اور اس کے بعد تقریباً تمام دنیا کے علمی مراکز میں جا جا کر وقت کے اساطینِ علم سے علمی سیرابی کا سامان کیا۔
خراسان اور خراسان سے باہر جس شہروں کی طرف آپ نے علمی پیاس بجھانے کے لیے سفر کیا، ان میں توقان، اسفرآئین، طوس، مھرجان، أسد آباد، ھمدان، دامغان، اَجھان، رے، طابران، نیشاپور، روذبار، بغداد، کوفہ اور مکہ مکرمہ شامل ہیں۔ گویا کہ حضرتِ امام نے خراسان کے تمام شہروں میں جو کچھ علمی سرمایہ تھا وہ سب جمع کر لیا اور پھر عراق اور حجاز کے بڑے علمی مراکز کا رُخ کیا، ان مراکز میں آپ نے جن جن شیوخ سے استفادہ فرمایا اور خزانۂ علمیہ کے گوہر ہائے گراں مایہ کو جمع کیا ان کی تعداد کے بارے میں امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے طبقات الشافعیۃ میں لکھا ہے:
بلغ شیوخہ أکثر من مائۃ شیخ ولم یقع للترمذی، ولانسائی ولابن ماجہ۔
’’ان کے شیوخ ایک سوسے بھی اوپر ہیں اور شیوخ کی یہ فراوانی امام ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں سے کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔‘‘
ڈاکٹر ضیاء الرحمن الاعظمیٰ نے المدخل الی السنن الکبرٰی کی تحقیق میں ذکر کیا ہے !کہ میں جب سنن کبرٰی کا ابتداء سے آخر تک پورے اہتمام سے جائزہ لیا تو صرف سنن کبرٰی میں آپ کے اساتذہ کی تعداد کو ایک سو سے زیادہ پایا۔ جس میں نواسی حضرات کے حالات بھی انھیں مل گئے جنھیں کتاب میں درج کر دیا ہے اور بیالیس ایسے اساتذہ ہیں جن کے تفصیلی حالات تک آگاہی حاصل نہیں ہو سکی۔ یعنی ڈاکٹر اعظمیٰ کی تحقیق کے موافق صرف سنن کبرٰی میں آپ کے اساتذہ کی تعداد ایک سواکتیس تک جاپہنچتی ہے۔
ان تمام اساتذہ کرام میں انتہائی شہرت کے حامل یہ حضرات ہیں:
ابو الحسن محمد بن حسین العلوی، امام ابو عبداللہ الحاکم، ابو اسحاق اسفرائینی، عبداللہ بن یوسف اصبھانی، ابو علی الروزباری، امام بزاز، ابو بکر ابن فورک رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب معرفۃ السنن والآثارمیں اپنے اندازِ تعلیم کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
جب سے میں نے ہوش سنبھالا اور کوچۂ علم میں قدم رکھا ہے تو میں جناب نبی مصطفیٰ ﷺکے اخبار کو قلمبند کیاکرتا تھا، ایسے ہی میں نے آثارِ صحابہ جو دین میں مینارۂ نور تھے؛ کے اقوال بھی جمع کرنے شروع کردیے۔ پھر رواۃ اور حفاظِ حدیث کے احوال تک رسائی حاصل کی اور صحیح، ضعیف، مرفوع، موقوف، موصول اور مرسل سے واقفیت پیدا کی۔
حدیث کی تمام اصناف کو جاننے کے بعد پھر میں ان ائمہ اعلام کی کتب کی طرف متوجہ ہوا جنھوں نے علومِ شریعت کو اپنا مقصد زندگی قرار دے رکھا تھا۔ ان میں ہر ایک نے اپنے طریق کار کی بنیاد کتاب و سنت کے اس علم پر رکھی جو انھیں باری تعالیٰ کی خصوصی عنایتوں سے حاصل ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے حق تک پہنچنے کی غرض، اجتہاد و استباط کی تکلیف اُٹھائی اور نبی گرامیﷺ کی اس حدیث کے مصداق ٹھہرے کہ جس نے دین کے فہم کی خاطر اجتہاد کیا اور واقعی حق تک رسائی حاصل کرلی؛ اُسے دوگنا اجر اور جس نے محنت و کاوش تو کی لیکن حق تک نہ پہنچ سکا؛ اُسے اس کی کوشش کا اجر ملے گا لیکن خطا اجتہادی کا اجر نہیں ہے، البتہ اُس اجتہادی خطا پر کسی قسم کا گناہ نہ ہوگا۔ کیونکہ اس نے اپنے علم اور جو اسے ظاہراً سمجھا اس کے مطابق رائے قائم کی اور حقیقت حال کا کامل علم تو اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ غیب کے خزانوں کا وہی مالک ہے۔
ہم اس ائمہ کبار کے بارے میں بارگاہ الٰہی سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ان سے اس سلسلہ میں کچھ مواخذہ نہ ہوگا کہ اُنھوں نے قرآنی نص، سنت صحیحہ، اہل سنت والجماعت کے منہج اور قیاسِ صحیح کی جان بوجھ کر مخالفت کی ہے بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اس سنت نبوی ﷺکا علم نہ ہو سکا تھا جس کی وجہ سے ان کا قول اس کے خلاف چلاگیا، نہ کہ اُنھوں نے العیاذ باللہ عملاً ایسا کچھ کیا ہوگا۔
مزید فرماتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان مجتہدین کے کچھ اقوال سنت کے مخالف ہیں لیکن دوسری طرف بہت سے اقوال سنت صحیحہ کے موافق بھی ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جن مسائل میں ان سے سنت کی مخالفت ہوئی ہے ان میں اس سنت سے ان کی نظر چوک گئی تھی اور اگر انھیں اس کا علم ہوتا تویقینا اس کے مطابق رائے اختیار کرتے۔
ملخصًا معرفۃ السنن والآثار:۱؍۱۴۰
اخلاق و آداب:
سلف و صالحین کا خصوصی امتیاز یہ تھا کہ جس قدر ان کے پاس دولت علم ہوتی تھی اسی قدر ان کی زندگی عمل صالح سے بھی معمور ہوتی تھی اور عالم باعمل کی حقیقی تصویر ہوا کرتے تھے۔ بالکل ایسا ہی کچھ جناب امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا طرزِ زندگی تھا کہ آپ بڑے زاہد عن الدنیا، انتہائی قانع، بہت بڑے متقی اور پارسا شخص تھے۔ آپ کے ان اوصاف کی گواہی اہل تاریخ نے دی ہے، امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں:
’’مجھے شیخ ابو الحسن الفارسی نے جنابِ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا کہ آپ سیرتِ علماء کا عملی نمونہ تھے، انتہائی تھوڑے پر قناعت فرمانے والے اور زہد و ورع کے اعلیٰ اوصاف سے مزین تھے اور حدیہ ہے کہ تادمِ زیست اسی طرزِ حیات پر کاربند رہے۔‘‘
تبیین کذب المفتری:۲۶۶
امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے ایسے ہی اعلیٰ اخلاق کی گواہی دی ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ زاہد عن الدنیا، بہت تھوڑے پر راضی ہونے والے اور عبادت و ورع میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔‘‘
علمی مقام و مرتبہ:
آپ کو خدائے تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں ہی بہت زیادہ علمی شان و شوکت سے بہرہ مند فرما دیا تھا۔ امام ابنِ عساکر رحمۃ اللہ علیہ ابو الحسن الفارسی سے نقل کرتے ہیں:
ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی تمام اصنافِ علم کے امام، حدیث کے حافظ، بہت بڑے فقیہ اور اُصولی تھے۔ پھر متدین اور خدا سے ڈرنے والے بھی تھے۔ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظِ حدیث، اور معاصرین میں ضبط و اتقان میں انفرادیت کے حامل تھے۔ امام ابو عبداللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ سے کثرت سے روایت کرنے والے کبار اصحاب میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور پھر اس پر اُنھوں نے اپنی محنت و کاوش سے دیگر علوم میں بھی مہارت پیدا کی۔ کتابت اور حفظِ حدیث بچپن سے شروع کیا اور اسی میں ہی پلے بڑھے اور تفقہ فی الدین کی منازل طے کرتے ہوئے ان میں نکھار پیدا کیا اور اُصولِ دین میں مہارت حاصل کی۔
تبیین کذب المفتری:۲۶۶
ابن ناصر الدین رحمۃ اللہ علیہ حضرتِ امام کے مناقب میں یوں رقم طراز ہیں:
آپ حفظ و اتقان میں اپنے زمانہ کے نادرہ روز گار تھے۔ ثقہ اور بااعتماد امام تھے اور پورے خراسان کے بالاتفاق شیخ تھے۔ آپ کے رشحاتِ قلم کا زمانہ بہی خواہ ہے، جن میں السنن الکبری، السنن الصغریٰ، المعارف، الأسماء والصفات، دلائل النبوۃ، الآداب، الدعوات الکبیر، الترغیب والترھیب اور کتاب الزھد شامل ہیں۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بلند علمی پایہ پر عجب انداز میں روشنی ڈالتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
اگر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ چاہتے تو اپنی علمی وسعت اور اختلافِ ائمہ پر حاوی ہونے کی بنا پر اس پر قادر تھے کہ ایک الگ اپنا مکتب فکر قائم کرتے اور اجتھادات سے علیحدہ طور پر دنیا کو مستفید کرتے۔
المدخل الی السنن الکبری:۱۶
عبدالغافر فارسی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی عظمت کایوں اعتراف کرتے ہیں:
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث، علم فقہ اور علم علل الحدیث کے جامع تھے۔ خود آپ کے معاصر اور متاخرین علماء نے آپ کی قدر و منزلت کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ دیگر تمام علماء سے آگے نکل گئے تھے۔ پھر آپ کا خصوصی امتیاز یہ تھا کہ سنت نبوی کی محبت میں فنا تھے۔آپ نے سنن کو جس خوب صورتی سے جمع و ترتیب دیا ہے اس کی اس سے پہلے نظیر ملنا ممکن نہیں۔
شوافع پر آپ کے احسانات:
آپ چونکہ خود بھی مجتہد تھے اور تمام مذاہبِ فقہ کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا تھا؛ اس لیے تمام فقہاء کی آراء اور ان کے اُصول نہ صرف آپ کے سامنے عیاں تھے بلکہ آپ نے تمام کا ناقدانہ تجزیہ بھی کر رکھا تھا، اس لیے آپ نے سنت سے قریب تر ہونے کی وجہ سے اپنے لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر کا انتخاب کیا اور پھر اس کی وہ خدمت کی کہ علماء یہاں تک کہنے پر مجبور ہو گئے کہ دنیا میں کوئی بھی شافعی المسلک شخص ایسا نہیں کہ جس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے احسانات نہ ہوں سوائے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے، کہ جن کے مذہبِ شافعی کی نصرت میں لکھی گئی کتب کا احسان امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر ہے۔
تذکرۃ الحفاظ:۲؍۱۱۳۲
اسی لیے بعض حضرات نے خواب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف کرتے سنا۔
مذہبِ شافعی کے لیے خدمات کے حوالے سے ابن خلکان رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی نصوص کو دس مجلدات میں جمع کیا اور کرۂ ارض پر ان سے زیادہ مذہب شافعی کی نصرت کرنے والا کوئی نہیں۔
ارشد تلامذہ:
کسی بھی عالم کے علمی مقام کا جہاں ان کی کتب سے اندازہ ہوتا ہے وہاں اس سے بھی بڑھ کر اس کا تعارف اس کے وہ ارشد تلامذہ ہوتے ہیں جنھیں وہ انتہائی محنت اور جانفشانی سے تیار کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اگر اپنی گراں قدر تصانیف نہ بھی عالمِ وجود میں چھوڑ کر جاتے تو ان کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے تلامذہ ہی کافی تھے۔ جنھوں نے آپ کی کتب کو آئندہ نسلوں کی طرف منتقل کیا اور ہمیشہ آپ کی ملازمت اختیار کی ہے۔ان میں ابو عبداللہ محمد بن الفضل الفرادی، ابو عبداللہ محمد عبدالجبار بن محمد بن احمد البیہقي الخواری، ابو نصر علی بن مسعود بن محمد الشجاعی، ابو عبداللہ بن ابو مسعود الصاعدی، فرزندِ حضرت ِامام اسماعیل بن احمد البیہقي اور آپ کے پوتے ابو الحسن عبید اللہ بن محمد بن احمدj شامل ہیں۔
وفات
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے سلسلے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آخر عمر میں وہ نیشاپور اُٹھ گئے تھے اور وہاں اپنی کتب کے درس میں مشغول ہو گئے، لیکن جلد ہی وقتِ رحلت آن پہنچا اور ۱۰ جمادی الاولیٰ ۴۵۸ھ میں نیشاپور میں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور بیہقی میں لاکر آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ رحمہ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ
(محدثین عظام حیات الخدمۃ)