حضرت امام ابو سعید مخزومی

حضرت امام ابو سعید مخزومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اوصاف جمیلہ
آپ سراج العالمین، فخر السّالکین، قطب الاقطاب، مظہر رب الارباب، ممہّدِ قواعدِ اسلام، مُبین الحلال و الحرام، سلطان الاولیاء، بُرھان الاتقیاء، قدوۂ عارفان، قبلۂ سالکان، پیرِ طریقت، واقفِ حقیقت، جامع علوم ظاہر و باطن تھے، حضرت شیخ ابو الحسن ہکاری رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے خلیفوں سے تھے۔

نام و نسب
آپ کا اسمِ گرامی مبارک، محمد، کنیت ابو سعید، القابِ بزرگ مصلح الدین، قاضی القضاۃ۔

والد بزرگوار کا نام شیخ علی بن حسین بن بندار المخرّمی البغدادی تھا۔

مخزم بکسر رائے مہملہ مشدّدہ بغداد شریف کے ایک محلہ کا نام ہے، اس محلہ میں بعض اولاد یزید بن مخرم کے اترے تھے، اسی وجہ سے اس محلّہ کا یہ نام ہوا، اِس کو ذکر کیا ہے منذری رحمۃ اللہ علیہ نے، اور ایسا ہی لکھا ہے حافظ زین الدین ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب طبقات میں۔

اور جو لوگ مخدومی یا مخرومی کہتے ہیں وہ محض غلط ہے۔ واللہ اعلم۔

بیعت و خلافت
آپ کی بیعتِ طریقت حضرت شیخ ابو الحسن شرف الدین علی القرشی الہکاری رحمۃ اللہ علیہ سے تھی، اٹھارہ سال ان کی خدمت میں رہ کر ریاضتِ شاقہ کیں، اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔

بیعتِ روحی
آپ کو روحی بیعت حضرت سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحابِ شبعہ رضی اللہ عنہ اور ائمہ اثنا عشر علیہ السلام سے تھی۔

مشائخ صحبت
آپ نے سیّد یونس رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ صمد ابدال رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو الفضل سرخسی رحمۃ اللہ کی صحبت سے بھی فیضِ کامِل پایا۔

مذہب
آپ حنبلی المذہب تھے، اور جماعتِ حنابلہ کے اصول و فروع میں شیخ و امام تسلیم کیے جاتے تھے، خلیفہ وقت کی طرف سے قاضی القضاۃ کا منصب آپ کو ملا ہوا تھا۔

بنائے مدرسہ
آپ نے مدرسہ باب الازج بغداد کی بنیاد رکھی، اور علومِ شرعیہ کی تعلیم و تدریس شروع کی، اکثر فضلائے زمانہ آپ کے تلامذہ میں سے تھے، آپ نے اپنی زندگی میں ہی یہ مدرسہ حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کو سپرد کر دیا۔

مصاحبتِ خضر علیہ السلام
آپ کو حضرت خضر علیہ السلام کی مصاحبت حاصل تھی، اُن سے بہت فوائد علم ظاہری و باطنی اخذ کیے۔

کرامات
کتاب آئینہ تصوّف میں ہے کہ آپ سے سات سو خوارق ظہور میں آئے۔

مکاشفہ
حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے ابتدائے حال میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ میں کچھ نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے نہ کھلائیں گے، اور نہ ہی کچھ پیوں گا جب تک مجھے نہ پلائیں گے، چنانچہ اسی طرح بُرج عجمی میں مجھے فاقہ سے چالیس دن گذر گئے، بعد اس کے ایک شخص آیا، اور کچھ کھانا پانی میرے سامنے رکھ کر چلا گیا، شدّت بھوک سے قریب تھا کہ میرا نفس طعام پر جا پڑے لیکن میں نے کہا واللہ جو عہد میں نے خدا سے کیا ہے وہ کبھی نہ توڑوں گا، آخر میرا نفس الجوع الجوع کی فریاد کرنے لگا، مگر میں نے کچھ لحاظ نہ کیا، اسی اثناء میں حضرت قاضی القضاۃ شیخ ابو سعید مبارک مخرمی رحمۃ اللہ علیہ میرے پاس سے گذرے، اور وہ آواز گوش باطِن سے سُن کر فرمایا اے عبد القادِر! کیا حال ہے؟ میں نے کہا یہ اضطراب و بیتابی نفس کی ہے، لیکن روح ابھی اپنی وعدہ پر قائم ہے، اور اپنے خدا وند کے مشاہدۂ انور میں ہے، آپ نے فرمایا ہمارے گھر چلو، میں نے دل میں کہا کہ مجھے جب تک کوئی ساتھ نہ لے جائے گا میں نہ جاؤں گا، نا گاہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے، اور مجھے اپنے ساتھ حضرت شیخ بو سعید رحمۃ اللہ علیہ کے گھر لے گئے، دیکھا کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ میرے انتظار میں دروازہ پر کھڑے ہوئے ہیں، دیکھ کر فرمایا اے عبد القادر تم نے میرے کہنے پر اکتفا نہ کی کہ حضرت خضر علیہ السلام کو آنا پڑا، پھر مجھ کو گھر کے اندر لے گئے، اور اپنی مسندِ خاص پر بٹھایا، اور اپنے ہاتھ سے مجھے کھانا کھلایا اور پانی پلایا، تا آنکہ میں سیر ہوگیا، پھر مجھے خرقۂ فقر پہنایا، اور میں نے آپ کی صحبت کو لازم پکڑا۔

علمیات برائے حصولِ حوائج
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ اسم جلالی نماز فجر کے بعد سو بار پڑھے اس کے تمام کام دینی دنیوی حاصل ہوں گے، اسم جلالی یہ ہے۔ یا بدّوح اجب یا جبرائیل یا رفتمائیل بحق یا بدّوح۔

برائے رُشد
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ اُنیسواں (۱۹) اسم بدھوار کے روز ستر (۷۰) مرتبہ پڑھے اللہ تعالیٰ اُس کو مرشدِ کامل ملادیوے گا، جو اس کو ہر بات میں ارشاد کرے گا، انیسواں اسم یہ ہے یا رشید انت الذی ترزق لا ھل معرفتہٖ قربہٗ ووصالہٗ۔

تصنیفات
تحفہ مرسلہ
علم الحقائق میں یہ ایک عربی رسالہ ہے جو آپ کی طرف منسوب ہے حضرت سید محمد صالح شاہ صاحب نوشاہی نے مجموعہ وظائف قادری نوشاہی میں اس کو چھپوایا ہے، اور مولوی عبد العزیز صاحب قادری منشی فاضل جالندہری نے اس کی شرح بھی بہت عمدہ لکھی ہے۔

لیکن فقیر شرافت عفا اللہ عنہ کہتا ہے کہ یہ حضور کا کلام نہیں، بلکہ یہ شیخ محمد بن فضل اللہ صدیقی چشتی برہانپوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شبِ دوشنبہ ماہِ رمضان ۱۰۲۹ھ) کی تصنیف ہے۔ جیسا کہ ۱۳۰۴ھ کے ایک مطبوعہ نسخہ سے ظاہر ہے جو حافظ محمد انور علی رہتکی اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بہادر ضلع جالندہر نے ترجمہ کیا ہوا ہے، اور مطبع صدیقی فیروز پور میں طبع ہوا ہے۔

نیز دیباجہ سے بھی ظاہر ہے کہ مصنف رسالہ کا نام شیخ محمد مبارک ابو سعید بن علی فضل اللہ بن رضی الدین ابی خالد بن مہران الطوسی ہے۔ حالانکہ آپ کا نسب اس سے علیٰحدہ ہے جیسا کہ ذکر ہذا کے شروع میں لکھا جا چکا ہے۔

خلفائے کرام
صاحب آئینہ تصوّف نے لکھا ہے کہ خلیفہ اکبر آپ کےا س سلسلہ خاص میں صِرف ایک محبوب سبحانی قطب ربّانی غوث الثقلین حضرت شیخ ابو محمد محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ ہوئے ہیں، ان کا ذکر آگے آئے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اور خلیفہ اصغر پینتالیس (۴۵)، اور صاحبِ مجاز ستائیس تھے۔

تاریخ وفات
حضرت شیخ ابو سعید مخرّمی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقولِ صاحبِ سفینۃ الاولیا و تحفۃ الابرار بتاریخ یکشنبہ ہفتم محرم الحرام ۵۱۳ھ پانسو تیرہ ہجری مطابق ۲۰؍ اپریل ۱۱۱۹ء ایک ہزار ایک سو انیس عیسوی میں بعہدِ خلافت المستر شد باللہ ابو المنصور الفضل بن المستظہر خلیفہ بست نہم (۲۹) عباسی کے ہوئی۔

مدفنِ پاک
آپ کا مزار پر انوار بغداد شریف باب الازج میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ

قطعہ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفےٰ صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ

شیخ ما بو سعید از دنیا
از خرد جست سال نوشاہی
رفت در خلد طالبِ مولیٰ
نیک فرمود سرورِ (۵۱۳) اولٰے

منہ

بو سعید از جہاں چو کر دگریز
رحلتِ پیر جست نو شاہی
درجناں رفت باخر دصائب
از دل آمد کہ اہلِ (۵۱۳) دیں تائب

منہ

بو سعید از عالمِ دنیا برفت
گفت نوشاہی ز وصلِ مردِرب
گشت درجنت خراماں سروقد
شمسِ (۵۱۳) اقطاب و دگر مستِ ۵۱۳ احد

منہ

سالِ فوتِ امیر و پیرِ زماں
صاحبِ سکر (۵۱۳) و صحو حبیب نجواں

منہ

وصالِ جنابِ معظم عیاں
ز طیّب محقق مدقق بخواں

منہ

بفردوس پیر زماں کرد رو
وصالش منعم مکرم بہو (۵۱۳)

منہ

ز دنیا رفت چوں شیخ مدبر
وصالش گفت ہاتف نورِ انور (۵۱۳)

دیگر
از اسماء الحسنیٰ
احد متین (۵۱۳)
تواب عدل (۵۱۳)
معبود شافی (۵۱۳)
صدق شہید (۵۱۳)
نافع قریب (۵۱۳)
نافع رقیب (۵۱۳)
صانع بصیر (۵۱۳)
صبور اطہر (۵۱۳)
صبور طاھر (۵۱۳)
رحمٰن اطہر (۵۱۳)
رحمٰن طاھر (۵۱۳)
صابر طہور (۵۱۳)

 (شریف التواریخ)

تجویزوآراء