حضرت امام ابو القاسم محمد مہدی

حضرت امام ابو القاسم محمد مہدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

کنیت ابوالقاسم۔ لقب مہدی، حجۃ اللہ، قائم و منتظر، صاحب الزماں اور خاتم الائمہ اثنا عشر تھے۔ علمائے اہلِ سنت و جماعت اور محقق تذکرہ نگاروں کے نزدیک آپ کی ولادت سرمن رائے میں بتاریخ ۱۳؍ماہ رمضان ۲۵۸ھ ہُوئی۔ دوسری روایت میں ۱۱؍شعبان بوقت صبح ۲۵۵ھ میں ہُوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام صقل، مومن، نرجس تھا۔ حضرت حسن عسکری کی پھوپھی نے یہ روایت کی ہے کہ ایک دن میں حضرت حسن عسکری کے پاس بیٹھی تھی۔ آپ نے کہا: عمہ محترمہ آج رات میرے پاس ہی ٹھہریے اللہ تعالیٰ آج ہمیں ایک لڑکا دے گا۔ میں نے کہا: بیٹا! لڑکا کس سے ہونا ہے۔ نرجس کے تو حمل کے آثار نہیں ہیں۔ حضرت عسکری نے فرمایا: نرجس بھی حضرت موسیٰ کی والدہ کی طرح ہے، وُہ ولادت تک ظاہر نہیں ہوگا۔ چنانچہ میں حسب الارشاد رات ٹھہری۔ رات کا کافی حصّہ گزرا تو میں اُٹھی اور نمازِ تہجد ادا کرنے لگی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ صبح ہونے کو ہے مگر امام کی بات سچّی نہیں ہوئی۔ اتنے میں حضرت امام کی آواز آئی: عمہ محترمہ! جلدی نہ کرو۔ میں اٹھی اور نرجس کے کمرے کی طرف بڑھی تو انہیں اپنی طرف آتے دیکھا اور وہ کانپ رہی تھی۔ میں نے انہیں سہارا دیا اور قل ہو اللہ، اِنّا انزلنا اور ایۃ الکرسی پڑھ کر دم کیا۔ اس کے بعد میں نے سنا کہ جو کچھ میں نے پڑھا تھا وُہ بچّہ بھی وہی الفاظ پڑھ رہا تھا۔ میرے دیکھتے ہی سارا کمرہ روشن ہوگیا اور  یہ خوش بخت بچّہ پیدا ہوا اور آتے ہی سجدہ ریز ہوگیا۔ میں نے اسے اٹھالیا۔ حضرت امام عسکری نے اپنے حجرے سے آواز دی کہ میرے بچّے کو میرے پاس لے آؤ میں لے گئی۔ آپ نے اسے بغل میں لے لیا اور اپنی زبان بچّے کے منہ میں ڈال دی اور فرمایا: اے بیٹا! اللہ کے حکم سے گفتگو کرو۔ چنانچہ بچّے نے برملا کہا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّةً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ۔

پھر میں نے دیکھا کہ آسمان سے پرندے نیچے اتر رہے ہیں۔ حضرت امام نے ایک پرندے کو بلایا اور کہا: خذہ واحفظیہ حتّٰی باٖذن اللہ منہ فان اللہ بالغ امرہ۔ امام نے پوچھا کہ ایک پرندہ سبز تھا اور دوسری مرغیاں ہیں۔ یہ سبز پرندہ حضرت جبرائیل﷤ تھے اور دوسرے رحمت کے فرشتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: اے پھوپھی! اس بچّے کو اس کی والدہ کے حوالے کردو۔ تقر عینھا ولا تحزن ولتعلم ان وعد اللہ حقٌّ ولٰکن اکثرھم لایعلمون۔ میں نے بچّے کو اس کی والدہ کو دے دیا۔

حضرت مہدی پیدائش کے وقت ہی ناف زدہ تھے اور ختنہ شدہ تھے اور ان کے دائیں بازو پر یہ آیت کریمہ لکھی جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ولادت کے بعد آپ دو زانو ہوکر بیٹھ گئے اور انگشتِ شہادت اٹھائی اور ایک چھینک ماری اور کہا اَلحمدُ للہ ربّ العٰلمین۔

شواہد النبوّت کے مصنف نے ایک روایت لکھی ہے کہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اے خلیفہ رسول اللہ! آپ کے بعد کون جانشین ہوگا اور امام و خلیفہ کون ہوگا۔ آپ اندر  گئے اور  ایک بچّے کو اٹھا لائے جو حسن و خوبی میں چودھویں کا چاند تھا اور اس کی عمر ابھی تک تین سال تھی اور آپ نے کہا اگر تم خدا وند تعالیٰ کی نگاہ میں عزیز نہ ہوتے تو یہ بچّہ میں تمہیں کبھی نہ دکھاتا۔ اس کا نام رسولِ اکرم ﷺ کے نام پر ہے اور اس  کی کنیت بھی وہی ہے۔

ایک اور شخص کی روایت ہے: میں امام عسکری ﷜ کی خلافت میں حاضر ہوا۔ مجھے آپ کے دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا کمرہ دکھائی دیا جس کے دروازے پر پردہ لٹک رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یا حضرت! آپ کے بعد صاحبِ امر کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اس کمرے میں ہے۔ اتنے میں ایک روشن چہرہ اور خوب  صورت بچّہ پردے کے پیچھے سے نمودار ہُوا۔ اس کے گورے چہرے پر ایک خالِ سیاہ تھا اور دونوں طرف کالی زلفیں لٹک رہی تھیں۔ وُہ آتے ہی حضرت امام کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: یہ ہے وُہ سیّد جو میرے بعد تمہارا امام ہوگا۔ چند لمحوں کے بعد وہ بچّہ  اٹھا اور پیچھے چلا گیا۔ آپ نے فرمایا: یانبی ادخل علی الوقت المعلوم۔ اور پھر آپ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ جاؤ اور جاکر دیکھو پردے کے پیچھے کون ہے۔ میں پردہ اٹھا کر کمرے میں داخل ہوا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔

ایک شخص کی روایت ہے کہ جس دن حضرت حسن عسکری نے وفات پائی۔ فرمانروائے بغداد خلیفہ معتضد نے مجھے دوسرے دوشخص کے ساتھ اپنے پاس بلایا اور کہا: حسن عسکری سرمن رائے میں وفات پاگئے ہیں۔ جلدی جاؤ اور اس کے گھر کی تلاشی لو۔ جو بھی اس کے گھر میں موجود ہے میرے پاس لے آؤ۔ ہم اٹھ کر اُن کے گھر گئے۔ ہم نے دیکھا کہ اندر ایک دریا پر ازآب ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ پانی پر ایک کشتی ہے اور  اس  پر ایک حسین و جمیل آدمی نماز ادا کر رہا ہے۔ اس نے ہماری طرف کوئی توجہ نہ دی۔ میرے پاس جو آدمی بیٹھے تھے انہوں نے چاہا کہ ان کے پاس جائیں وہ پانی میں کود پڑے اور پانی میں غوطے کھانے لگے۔ وُہ ڈوبنے ہی والے تھے میں نے ہاتھ پکڑا اور پانی سے باہر نکال لیا۔ اس کے بعد ایک دوسرے آدمی نے پانی میں پاؤں رکھا اور چاہتا  تھا کہ اس کے پاس پہنچے مگر وہ بھی ڈوبنے لگا۔ وُہ قریب المرگ تھا کہ میں نے ہاتھ پکڑ کر باہر کھینچ لیا۔ میں حیران تھا اور پکار کر کہا کہ اسے صاحبِ خانہ! میں آپ  سے اور خدا سے معافی کا خوستگار ہُوں ہم نہیں جانتے تھے کہ کیا حال ہے۔ جو کچھ ہم نے کیا اس سے واپس آتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں۔ اگرچہ میں نے اس قسم کی باتیں کیں مگر وہ متوجہ نہ ہوئے۔ ہم ناچارا واپس  آگئے اور معتضد خلیفہ بغداد کے پاس پہنچ گئے اور اس واقعہ کو بیان کیا۔ اس نے کہا: اس راز کو پوشیدہ رکھنا ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔

واضح ہوکہ حضرت امام مہدی کے غائب ہونے اور وفات پانے کے معاملے میں اہلسنت و جماعت کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ ان کی تفصیل مولانا جامی نے اپنی کتاب شواہدالنبوت میں دی ہے۔ جامع الاصول میں بھی ایسا ہی مفصّل بیان ہے۔ مختصر یہ کہ علمائے اہلِ سنّت امام مہدی کو مہدی آخرالزماں نہیں مانتے۔ وُہ آپ کی وفات جو ۲۶۶ھ میں واقع ہوئی اس کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں مہدی آخرالزماں موسوم بہ اسم محمد بن عبداللہ حضرت عیسیٰ کے نزورلِ آسمان سے پہلے خانۂ سادات میں پیدا ہوں گے مگر شیعوں کا فرقہ امامیہ حضرت مہدی کو مہدی آخرالزماں تصّور کرتا ہے اور ان کے غائب ہوجانے کے معتقد ہیں۔ وُہ کہتے ہیں: حضرت امام محمّد بن حسن کو خضر ﷤ کی طرح عمر جاوید ملی ہے اور لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں یہ شیعوں کی جہالت ہے ۔

یہ جاننا بڑا ضروری ہے کہ فضیلت و کمال ولایت اور  کرامت حضرات اہلبیت کو صرف انہی بارہ حضرات تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ ان حضرات کے فضائل و کمالات کی بڑی شہرت ہے کیونکہ اہلبیت کی فضیلت، طبقات ائمہ اور ان کے ممدوحین میں پائی جاتی ہے۔ متاخرین نے بھی ان حضرات کے فضائل و کمالات کا اعتراف کیا ہے حضور ﷺ کی احادیث ان کے فضائل سے پُر ہیں لیکن ایسے کملات دوسرے بزرگانِ ملّت جناب غوث الاعظم اور حضرت ابراہیم علوی و غیرہما میں بھی پائے جاتے ہیں۔

آپ کا سنِ وفات مختلف اقوال کی روشنی میں دو سو چونسٹھ ۲۶۴ھ ہے۔ بعض نے ۲۶۵ھ بھی لکھا ہے اور بعض تذکروں میں ۲۶۶ھ بھی آیا ہے۔ ہمارے نزدیک آخرین قول ہی زیادہ صحیح اور مستند ہے۔

گر تو تاریخ غیبتش جوئی!!
باز تاریخ آں ولی والی!!

 

یوسف حق چرانہ می گوئی
گفت سرور ولی حق عالی

تجویزوآراء