حضرت امام ابو القاسم محمد مہدی
حضرت امام ابو القاسم محمد مہدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آں مطلع انوار سرمدی، خاتم ولایت محمدی، مجد دین پاک احمدی امام برحق ابو القاسم محمد بن حسن مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ائمہ اہل بیت کے بارہویں امام ہیں۔ آپ کی ولادت شب جمعہ ۱۱؍شعبان ۲۵۵ھ اور شواہد النبوت کی روایت کے مطابق ۲۳؍رمضان ۲۵۸ھ کو بمقام سرمن سرائے واقعہ ہوئی۔ آپکی والدہ کا اسم گرامی نر جس تھا۔ بعض کے نزدیک سو سن اور بعض کے نزدیک صفیل تھا بارہویں امام کا اسم شریف اور کنیت حضرت رسالت پناہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مطابق ہے آپ کے القاب مہدی، حجۃ، قائم، منتظر، صاحب زمان، ور خاتم ائمہ اشنےٰ عشرہ ہیں۔ آپ کی عمر اپنے والد ماجد امام عسکری کے وصال کے وقت پانچ سال تھی کہ مسند امامت پر متمکن ہوئے جس طرح حق تعالیٰ حضرت یحییٰ بن زکریا کو حالت طفولیت میں حکمت عطا فرمائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بچپن ہی میں بلند مرتبہ عطا فرمایا تھا آپ کو بھی صغیر سنی مین منصب امامت سے نوازا۔ آپ کے کرامات اور کمالات اس قدر ہیں کہ اس مختصر سی کتاب میں ان کی گنجائش نہیں۔
شاندار ولادت
شواہد النبوت میں مولانا عبدالرحمٰن جامی حضرت امام علی نقی کی ہمشیرہ حضرت بی بی حلیمہ سے جو حضرت امام عسکری کی پھوپھی تھیں روایت نقل کرتے ہیں کہ حسن عسکری نے مجھ سے کہا آج رات ہمارے گھر قیام کریں ہمیں حق تعالیٰ فرزند عطا فرمائیں گے۔ میں نے کہا بیٹے بچہ کیسے پیدا ہوگا آپ کی اہلیہ نرجس میں تو حمل کی علامت نظر نہیں آتی انہوں نے کہا پھوپھی جان نرجس میں موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرح حمل کی کوئی علامت ظاہر نہہوگی۔ چنانچہ اس رات میں وہاں رہی۔ آدھی رات کے بعد میں نے اٹھ کر نماز تہجد ادا ی، نرجس نے بھی تہجد پڑھی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو صبح ہونے والی ہے جو کچھ حسن عسکری نے کہا تھا پورا نہ ہوا۔ یہ خیال آیا ہی تھا کہ حسن عسکری نے دور سے آواز دے کر کہا کہ پھوپھی جان جلدی نہ کریں اور نرجس کے پاس بیٹھی رہیں۔ چنانچہ میں ان کے پاس گئی کیا دیکھتی ہوں کے ان کے جسم پر لزرہ طاری ہے۔ میں نے ان کو اپنے سینے سے لگایا اور قل ھواللہ احد۔ انا انزلنا اور آیۃ الکرسی پڑھ کر ان پردم کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو کچھ پڑھتی رہی وہی کچھ ان کے پیٹ کے اندر بچہ پڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد پورا گھر روشن ہوگیا۔ بچہ پیدا ہوا میں نے خدا تعالیٰ کو سجدہ کیا اور بچے کو اٹھالیا۔ حسن عسکری نے آوازدی۔ کہ پھوپھی جان بچے کو میرے پاس لاؤ۔ جب میں بچے کو ان کے پاس لے گئی تو انہوں نے اسے گود میں لے لیا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دینے کے بعد فرمایا کہ اے میرے بیٹے اللہ کے حکم سے میرے ساتھ بات کرو۔ بچے نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر قرآن مجید سے دو تین آیات پڑھیں۔
شواہد النبوت میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب امام مہدی پید اہوئے تو دوزانوں ہوکر انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا الحمدللہ رب العٰلمین اس کتاب میں بی بی حلیمہ سے یہ روایت بھ نقل کی گئی ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد سبز رنگ کے پرندوں نے ہمیں گھیر لیا۔ میں نے حسن عسکری سے پوچھا کہ یہ پرندے کیا ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ جبرائیل اور دیگر ملائکہ رحمت ہیں۔ اس کے بعدا نہوں نے کہا کہ بچے کو اس کی والدہ کے پاس لے جاؤ۔ وہاں جاکر میں نے دیکھا کہ بچہ ناف زدہ اور ختنہ شدہ تھا اورا س کے دائیں پہلو پر یہ لکھا تھا۔ جاء الحق وذھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ (حق آیا اور باطل رخصت ہوا بے شک باطل بھاگ جانے والا ہے)
شواہد النبوت میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے ابن رسول اللہﷺ آپ کے بعد خلیفہ اور امام کون ہوگا۔ آپ اندر چلے گئے اور بچے کو کندھے پر بٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے بچہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا چودہویں کا چاند ہے۔ اس وقت ان کی عمر تین برس تھی۔ امام حسن عسکری نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم نہ ہوتے تو میں تجھے یہ بچہ نہ دکھاتا اس کا نام رسول اللہﷺ کا نام اور اس کی کنیت آنحضرت کی کنیت ہے۔یہ بچہ دنیا میں اس وقت عدل قائم کرے گا جب ظلم و ستم کا دور دورہ ہوگا۔
امام مووف کے قتل سے خلیفہ معتمد عاجز آگیا
کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت امام حسن عسکری کا وصال ہوا تو خلیفہ معتمد بن عباس نے دو آدمیوں کو حکم دیا کہ سامرہ کی طرف جاؤ اور امام کے گھر میں جو کچھ ہو لے آؤ اور ان کے گھر کا جو فرد ملے اس کا سر کاٹ کرلے آؤ چنانچہ وہ آدمی ان کے گھر آئے وہاں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا۔ پردہ اٹھاکر دیکھا کہ ایک تیز دریا بہہ رہا ہے اور سطح آب پر مصلے بچھائے ایک نہایت ہی خوبصورت جوان کھڑا نماز پڑھ رہا ہے اور ان دو آدمیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا ان میں سے ایک نے چھلانگ لگائی تاکہ وہاں تک پہنچ جائے لیکن غوطے کھانے لگا اور آہ وفریاد کی۔ دوسرے آدمی نے اس کا ہاتھ پکڑلیا۔ اب وہ حیران تھے کہ کیا کریں۔ انہوں نے امام صاح کے سامنے معذرت کی کہ ہم اپنی کوشی سے نہیں آئے بلکہ خلیفہ کے حکم سے آئے۔ لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ کی۔ آخر انہوں نے معتمد کے پاس جاکر ماجرا بیانکیا۔ یہ سن کر معتمد بھی حیران ہوا لیکن ان کو حکم دیا کہ یہ راز کسی کے سامنے فاش نہ کرنا۔
کیا امام مہدی موعود وہی امام محمد بن امام حسن عسکری ہوں گے؟
مراۃ الاسرار میں کتاب حبیب السیرت سے روایت نقل کی گئی ہے کہ امت محمدیہ کے تمام فرقوں کے علماء بزرگوار اور فضلائے عالی مقدار کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ظہور امام مہدی ضرور ہوگا اور امام علی مقام کے حسن اہتمام اور اجتہاد سےدنیا عدل وانصاف سےپُر ہوجائے گی۔ لیکناس بات پر اختلاف ہےکہ آیا امام مہدی موعود وہی امام حسن عسکری کے فرزند ہوں گے کہ بنی فاطمہ میں کوئی اور شخص ہوگا۔ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ یہ ہےکہ وہ شخص آل رسول یعنی اولاد فاطمہ میں سے ہوگا جو آخر زمان میں پیدا ہوگا۔ اماممحمد بن حسن عسکری امام مہدی نہ ہوں گے چنانچہ شیخ علاؤ الدولہ سمنانی قدس سرہٗ اپنی کتاب عروۃ الوثقیٰ میں لکھتے ہیں کہ جس وقت امام محمد بن حسن عسکری لوگوں کی نظر سے غائب ہوئے تو پہلے وہ حلقہ ابدال میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد مدراج میں ترقی ہوئی تو آپ قطب اعلی کے مقام پر پہنچ گئے اور اسی مقام پر وصال فرمایا اور مدینہ منوہر میں آپ کا وصال ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔ لیکن مذہب امامیہ اثنے عشرہ یہ ہے کہ امام مہدی موعود وہی امام محمد تھے۔ جب مشیت ایزدی ہوگی ان کا ظہور ہوگا۔
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ فرقہ امامیہ کے نزدیک امام محمد بن حسن عسکری کے مرتبہ غیب ہوئے۔ ایک غیبت قصریٰ یعنی مختصر غائب ہونا۔ یعنی آپ کے سامرہ میں مخفی ہوجانے سے انقطاع سفارت تک۔ دوسری غیبت طویل یعنی طویل عرصہ کے لیے غیب ہونا جو انقطاع سفارت سے لے کر آخر زمان تک جب آپ اللہ کے حکم سے آپ کا دوبارہ ظہور ہوگا۔ سفارت سے یہ مراد ہے کہ عارضی طور پر محققی ہوجانے کے وران آپ کے یکے بعد دیگرے چند سفیع تھے جن کے ذریعے آپ مخلوق خدا کی حاجت روائی کرتے رہے۔ اس اثنا میں آپ سے بیشمار کرامات کا ظہور ہوا۔ جن کا ذکر روضۃ الصفاء اور حبیب السیر میں کثرت سے موجود ہے یہ سفارت ایک شخص علی بن محمد پر ۳۲۶ھ میں ختم ہوئی اس کے بعد کسی سفیر نے امام موصوف کو نہ دیکھا نہ آپ کا کلام سنا۔
ایک فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی آخر الزمان حضرت عیسیٰ بن مریم ہوں گے۔ لیکن یہ روایت بہت صغیف ہے اس وجہ سے آنحضرتﷺ کی اکثر صحیح اور متواتر احادیث میں امام مہدی آخر الزمان کا نبی فاطمہ ہونا ثابت ہے اور یہ کہ عیسیٰ بن مریم ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے تمام عارفان صاحب تمکین اس بات پر متفق ہیں۔ چنانچہ شیخ محی الدین ابن عربی قد س سرہٗ نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں مفصل لکھا ہے کہ امام مہدی آخر الزمان آل رسول ﷺ اور آل فاطمۃ زہرا سے ہوں گے۔ آپ کا اسم گرامی، رسول اللہ کا اسم ہوگا اور تین سو ساٹھ رجال اللہ کامل آپ کے ہمراہ ہوں گے۔ آپ روئے زمین کو ظلم وستم سے پاک کردیں گے۔ الی آخرہٖ۔
کتاب مقصد اقصیٰ میں لکھا ہے کہ شیخ سعد الدین حموی قدس سرہٗ نے امام مہدی آخر الزمان کے متلعق ایک کتاب لکھی ہے جس میں ایسی علامات بیان کی گئی ہیں کہ اور کسی میں نہ ہوں گی۔ جب آپ کا ظہور ہوگا ولایت آشکار ہوا جائے گی اور اختلاف مذاہب، ظلم، بد خوئی، وغیرہ مٹ جائیں گی ولایت مطلق محمدی آپ پر ختم ہوجائے گی۔ یہ ہے جو تمام مصنفین نے امام محمدی صاحب الزمان کے متعلق لکھا ہے اور اس فقیر راقم الحروف کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ باوجود یکہ کہ ان کا تعلق فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت سے ہے معلوم نہیں کس وجہ سے انہوں نے رافضیوں کی روایات نقل کی ہیں۔ جو مردود کونین ہی ممکن ہے ان علمائے اہل سنت و جماعت کے پاس اپنے اکابر کی کوئی روایات نہ تھیں یا روافضل کی روایات نقل کرنے میں ان کی نیت خیرتھی لیکن نیت کا علم کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اس وجہ سے یہ فقیر جو فرقہ ناجیہ اہل سنت وجماعت کا کم ترین فرد ہے عرض پرداز ہے کہ حق بات یہ ہے کہ مہدی موعود وہ ایسا شخص ہوگا جو اولا فاطمہ میں سے آخر الزمان میں پیدا ہوگا اور جو کچھ روافضل کی طرف سے اس بارے میں کہا گیا ہے سب باطل محض ہے۔
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
(اقتباس الانوار)