سیدالاولیاء سیدنا حضرت امام علی رضا
۱۱ ربیع الاول شریف ۱۵۳ھ/۷۷۰ء
۲۱ رمضان المبارک ۲۰۸ھ/ ۸۴۲ء
اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَعَلَی الْمَولی السَّیِدِ الْاِمَامِ عَلِیِ بْنِ مُوْسیٰ الّھنا رضِی اَللہ تعالیٰ عنھما
صدق صادق کا تصدق صادق الاسلام کر
بے غضب راضی ہو کاظم اور رضا کے واسطے
ولادت :
آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں ۱۱ ربیع الاول بروز پنجشنبہ ۱۵۳ھ بعہد ابو جعفر منصور عباسی ہوئی[1]۔
اسم شریف و کنیت:
آپ کا نام نامی علی کنیت سامی، ابوالحسین اور ابو محمد ہے۔
القاب:
لقب آپ کے مختلف ہیں صابر، ولی، ذکی، ضامن، مرتضی اور مشہور لقب رضا ہے[2]۔
والدین کریمین:
آپ کے والد ماجد حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور والدہ ماجدہ حضرت ام ولد تخمینہ یا شمائہ ہیں۔ بعضوں نے ام البنین اور استقراء میں نام بتائے ہیں[3]۔
حلیہ مبارکہ:
آپ نہایت ہی شکیل و جمیل تھے، رنگ مبارک آپ کا سانوالا تھا۔
ولادت کی بشارت:
آپ کی جدہ محترمہ بی بی حمیدہ سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا سرکار نے بشارت دی کہ تم اپنی کنیز تخمینہ کو اپنے بیٹے موسیٰ کاظم کے حوالے کردے اسےا یک لڑکا پیدا ہوگا جو بہترین اہل زمین سے ہوگا[4]۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔ جو اپنے وقت کے بہترین مایہ ناز بنکر پوری دنیائے اسلام میں چمکے۔
شکمِ مادر میں آپکی کرامت:
آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جب میں حاملہ ہوئی تو کبھی بھی اپنے شکمِ میں گرانی محسوس نہ کی اور جب میں سوجاتی تو اپنے شکم سے تسبیح و تہلیل کی آواز سنتی جس سے میرے دل میں خوف کا غلبہ طاری ہوجاتا لیکن جب میں بیدار ہوجاتی تو پھر کوئی آواز سننے میں نہ آتی تھی اور جب آپ کی ولادت ہوئی تو اپنے دست مبارک کو زمین پر رکھا اور روئے انور آسمان کی طرف اور لبہائے مبارک ہل رہے تھے جیسے کوئی مناجات کرتا ہو[5]۔
فضائل:
آپ نہایت زہین اور فطین اور اعلیٰ درجے کے عالم و فاضل تھے۔ خلیفہ مامون رشید ۲۱۸ھ آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کرتا تھا، آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے آٹھویں، امام و شیخ طریقت ہیں حضرت ابراہیم بن عباس کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ علوم و معارف کا جانکار نہیں دیکھا اور خلیفہ مامون اکثر آپ سے امتحاناً سوالات کرتا اور آپ اس کے جوابات شافی دیتے اور ایک خوبی آپ کے اندر یہ بھی تھی کہ جب بھی کوئی سوال آپ سے کرتا تو آپ اکثر اس کے جوابات آیات قرآنی سے دیا کرتے اور ایسا کبھی بھی نہیں دیکھنے کو ملا کہ کسی نے آپ سے سوال کئے ہوں اور اس کو جواب با صواب نہ ملا ہو۔
عادات و صفات:
آپ بہت ہی کم سوتے اور اکثر روزہ رکھتے اور ہر ماہ میں تین روزہ آپ سے کبھی نہیں چھوٹے آپ اکثر اندھیری رات میں خیرات کرتے تھے اور جب خلوت میں ہوتے تو فقیرانہ لباس زیب تن فرماتے اور جب دربار وغیرہ میں تشریف لے جاتے تو لباس فاخرہ زیب تن فرماتے، خاکساری اور منکسر المزاجی اس درجہ تھی کہ موسم گرما میں چٹائی پر اور موسم سرما میں ٹاٹ یا کمبل پر بیٹھا کرتے تھے، اور غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے[6]۔
خاکساری:
حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوہ گراں اور علوم و معارف کا سمندر اور مخلوق نوازی اور رحم و کرم کا مجسمہ تھے۔ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ حمام خانے میں غسل فرمارہے تھے کہ اسی وقت ایک فوجی آدمی آیا اور آپ کو وہاں سے اٹھا کر خود غسل کرنے اور لگا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اےاسود (سیاہ) میرے سر پر پانی ڈال کر مجھکو نہلا؟یہاں تک کہ آپ بخوشی اس لشکری کو نہلانے لگے اسی درمیان میں ایک تیسرا شخص بھی وہاں حاضر ہوا جو آپ کو بخوبی جانتا تھا اس نے جب آپ کو نہلاتے ہوئے دیکھا تو چیخ ماری اور کہا کہ اے لشکری تو ہلاک ہو، تو ابن رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے خدمت لیتا ہے، جب اس لشکری کو واقفیت ہوئی تو فوراً آپ کے قدموں میں گر پڑھا اور معذرت کرنے لگا کہ حضور! جس وقت میں نے آپ کو پانی ڈالنے کے لیے کہا تھا اسی وقت آپ نے انکار کیوں نہیں کردیا؟ تو آپ نے فرمایا اِنّہالَمَثُوبَۃٌ جس کام میں مجھ کو ثواب ملے وہ کیوں نہ کروں[7]۔
عقد شریف:
صواعق محرقہ میں ہے کہ آپ سادات کرام میں علم و فضل اور قدر منزلت میں سب سے بر تر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مامون نے اپنے سینے میں آپ کو جگہ دی اور اپنی صاحبزادی ام حبیب کو آپ کے ساتھ عقد کردیا اور اپنی ساری مملکت کا آپ کو شریک و مالک بنا دیا[8]۔
آپ کا علم و فضل:
حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم و فضل دیکھ کر خلیفہ مامون نے اپنی صاحبزادی کا آپ سے عقد کرنے کا قصد کیا تو بنی عباس کو یہ بات ناگوار گزری کہ کہیں ان کے والد کی طرح انہیں بھی اپنا ولی عہد نہ بنادے، مامون نے عباسیوں سے کہا کہ میں اس صغر سنی کے عالم میں ان کو علم و فضل اور حلم میں ممتاز ہونے کہ وجہ سے انتخاب کیا ہے چنانچہ بنی عباس آپ کے اوصاف کے بارے میں بحث کرنے لگے آخر عباسیوں نے مناظرہ کی ٹھان لی اور ایک جید عالم اور بے نظیر مناظر یحییٰ بن اکثم کو حضرت امام سے گفتگو کرنے لیے مقرر کیا مخالفین نے سمجھا تھا کہ امام صاحب ابھی بچے ہیں اور ایک جید عالم کے ساتھ وہ بات کرنے میں ٹِک نہیں سکتے اور اس طرح مامون کے دل سے آپ کی عظمت زائل ہوجائے گی۔ تاریخ مقرر پر بہترین انتظامات ہوئے مسندیں بچھ گئیں اور اراکین دولت و اہل علم و فضل تمام جمع ہوگئے۔ حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تشریف لائے یحیٰ بن اکثم نے آپ سے چند سوالات کئے تو آپ نے ہر سوال کے احسن اور مدلل جوابات دیئے جس پر یحییٰ خاموش ہوگیا پھر مامون نے آپ سے کہا ک آپ نے یحییٰ کے ہرسوالوں کے جوابات دئے اب ذرا آپ بھی ان سےکوئی سوال کریں؟ حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یحییٰ سے سوال کیا۔
آپ اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ صبح کے وقت ایک مرد نے ایک عورت کے طرف دیکھا، اس وقت وہ اس پر حرام تھی، طلوع آفتاب کے وقت وہ اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت پھر اس پر حرام ہوگئی، عصر کےوقت پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت پھر حرام ہوگئی، عشا ء کے وقت حلال، آدھی رات کو پھر حرام اور فجر کے وقت پھر حلال ہوگئی؟ یحییٰ یہ سوال سن کر بالکل حیران ہوگئے اور کہا کہ اس مسئلہ کو میں نہیں جانتا۔
حضرت امام نے مذکورہ سوال کو اس طرح حل فرما کر پورے مجمع پر اپنی دھاک بٹھا دی کہ صبح کے وقت ایک اجنبی نے ایک کنیز کی طرف دیکھا اس وقت وہ اس پر حرام تھی، طلوع آفتاب کے وقت اس نے اس کو خرید لیا وہ اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس نے آزاد کردیا تو وہ اس پر حرام ہوگئی عصر کے وقت اس نے اس سے نکاح کرلیا وہ حلال ہوگئی مغربم کے وقت اس نے ظہار کیا پھر حرام ہوگئی عشا کے وقت کفارہ دیا پھر حلال ہوگئی آدھی رات کو طلاق بائن دیا پھر حرام ہوگئی اور فجر کو اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی۔ یہ جواب سن کر سب لوگ حیران رہ گئے اور مامون نے بنی عباس کی طرف دیکھ کر کہا دیکھ لیا لوگوں نے؟ پھر اس کے بعد اس نے اپنے مقصد کو پورا کرلیا اور اپنی شہزادی سے آپکا عقد نکاح فرمایا۔
نیشا پور اور بیس ہزار محدثین:
صواعق محرقہ میں علامہ ابن حجر تاریخ نیشاپور سے ناقل ہیں کہ جب نیشاپور تشریف لے گئے تو زائرین کے ہجوم و کثرت کی وجہ سے لوگوں کا چلنا دشوار ہوگیا تھا اور آپ ایک خچر پو سوار تھے اور لوگ آپ کے سروں پر چھاتا لگائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو آپ کی زیارت نہیں ہوپارہی تھی اس وقت ابو زرعہ رازی م ۲۶۴ھ اور محمد بن اسلم طوی م ۲۴۲ھ اس زمانے کی مشہور حفطان حدیث تھے آگے بڑھ کر خچر کی لگام تھام لی اس وقت ان کے ساتھ طلبہ و محدثین اس کثرت سے تھے کہ شمار میں نہیں آسکتے ان دونوں نے نہایت عجز و انکساری سے عرض کیا کہ: حضور! اپنےجمال و کمال سے لوگوں کو مشرف فرمائین اور اپنے آبائے کرام کی کوئی حدیث سنائیں۔ تو آپ نے خچر کو روک دیا اور چھتری کو ہٹادیا۔ خلقت کی آنکھیں آپ کی طلعت ہمایوں کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوئیں۔ یہاں تک کہ لوگ زمین پر گرتے اور بیخود ہورے تھے اور خچر کے پاؤں چومتے تھے، علماء محدثین نے پکار کر لوگوں کو خاموش کیا اور حافظانِ حدیث کے التماس پر فرمایا کہ حدثنی ابو موسیٰ الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق ابیہ محمد الباقر عن ابیہ علی زین العابدین عن ابیہ شہید کربلاء عن ابیہ علی المرتضی قال حدثنی حبیبی وقرۃ عینی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم واٰلیہ وسلم قال حدثنی جبرئیل علیہ السلام قال حدثنی رب العزۃ سبحانہ تعالیٰ قال کلمۃ لاالہ الا اللہ حصنی فمن قالہا دخل حصنی ومن دخل حسنی امن من عذابی۔
مجھ سے میرے والد حضرت موسی کاظم نے ان سے ان کا والد ماجد حضرت امام جعفر صادق نے ان اسے ان کے پد بزرگوار حضرت امام محمد باقر نے ان سے ان کے ابّ مکرم حضرت امام زین العابدین نے ان سے ان کے شفیق حضرت امام حسین نے ان سے ان کے والد ماجد حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ عجہہ الکریم نے انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے حدیث بیان کی میرے حبیب اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک حضرت ابو القاسم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ مجھے اگاہ کیا حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہ فرماتا ہے اللہ جل شانہٗ کہ کلمہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ میرا قلعہ ہے پس جس نے اس کو پڑھا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے بے خوف ہو۔
یہ فرما کر آپ نے پردا چھوڑ دیا اور تشریف لے گئے مجمع میں جو محدثین جلوہ افروز تھے اس حدیث کو نقل فرمارہے تھے اور جب ان کا شمار کیا گیا تو ان کی تعداد بیس ہزار تھی۔ امام[9] احمد حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ لَوْ قُرِئی ھذا الاسْنَادْ علی مجنون لافاق من جنونہٖ یعنی مذکورہ بالا حدیث کو اگر اسی اسناد کے ساتھ پڑھ کر دیوانہ پر پھونک دیا جائے تو اس کی دیونگی جاتی رہے گی اور تندرست ہوجائے گا اور ابو القاسم قشیری نے فرمایا کہ یہ حدیث اسی مسند سے بعض امرا ئے ساسانیہ کو پہنچی تو اس کو انہوں نے آب زر سے لکھوایا اور وصیت کی کہ اسکو میرے ساتھ قبر میں دفن کردینا مذکورہ امیر کے وصال کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو دریافت کیا کہ: اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ انہوں نے بتایا ۔ غفرلی بتلفظی بِلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ و تصدیقی انّ محمّدًا رسول اللہ۔[10]
واقعہ ولایت بعہد مامون
حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقبولیت و برتری اظہر من الشمش ہے آپ نے وین متین کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور بیشمار افراد آپ کے حلقہ درس میں رہ کر آپ کی علمی و روحانی فیضان سے سیراب ہوئے جس کی تفصیل بخوف طوالت نہیں دی جاسکتی ۔ اور آپ کی ہمہ گیر مقبولیت کا ہی یہ عالم تھا کہ مامون م ۲۱۸ھ نے آپ کو مسند و ولایت سونپنے کا فیصلہ کرلیا اور چاہا کہ آپ کو ولی عہد بناؤں تو سب سے پہلے فضل بن سہل کو بلا کر اپنے ارادے سے باخبر کیا اور اس کو کہا کہ تم اپنے بھائی حسن نے بھی اس کے متعلق مشورہ کرلینا مشورہ کے بعد دونوں مامون کے دربار میں حاضر ہوئے تو حسن نے اپنا مشورہ یہ سنایا کہ یہ ایک بڑا عظیم اقدام ہے اور اگر ایسا کردوگے تو ولایت و عمارت تمہارے خاندان سے رخصت ہوجائے گی اس کے بعد مامون نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے ہ اگر میں دھوکہ بازوں پر قابو پاگیا تو خلافت کو بنی طالب کے افضل ترین فرد کو سونپ دوں گا اور علی رضا ان سب میں افضل ترین ہیں اور ایسا میں ضرور کروں گا۔ ان دونوں نے جب مامون کو عزم بالجزم دیکھا تو انکار و اعتراض کرنے سے خاموش ہوگئے پھر مامون نے حکم دیا کہ تم دونوں ابھی امام علی رضا کی خدمت میں جاؤ اور میرے ارادے سے باخبر کرکے ولایت کو سونپ دو۔ وہ دونوں حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماموں کے ارادے سے آگاہ کرکے خلافت کو اختیار کرنے کو کہا۔ حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کام سے معذرت کی مگر وہ دونوں بضد رہے آخر میں حضرت نے چار وناچار خلافت کو قبول فرمالیا۔ اور یہ شرط رکھی کہ میں کوئی امرونواہی عزل و نصیب و کلام کسی دوسرے اشخاص کی حکومت و دبدبہ کی بنیاد پر نہیں کرونگا اور ساتھ ہی جو چیز اپنی اصل پر فی الوقت موجود و قائم ہے اس کو تبدیل نہیں کرونگا۔ جب یہ باتیں مامون نے سنی تو اس نے آپ کے جملہ شرائط کو قبول کرلیا اور یک تاریخی مجلس ۵ رمضان المبارک بروز پنجشنبہ ۲۰۱ھ کو منعقد کیا جس میں اس کی مملک کے جملہ حل و عقدوار کان دولت جمع ہوئے اس وقت مامون نے فضل بن سہل کو حکم دیا کہ جملہ حاضرین جلسہ کو حضرت علی رضا کے امیر المومنین ہونے کی خبر کردو کہ آج کی تاریخ سے میں نے ان کو اپنا ولی عہد قرار دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت تشریف لائے اور اپنے مخصوص مقام پر جلوہ گر ہوئے۔ اس وقت آپ سبز رنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے اور سر پر عمامہ اور تلوار حمائل تھی مامون نے اپنے بیٹے عباس کو حکم دیا کہ تم کھڑے ہو کر سب سے پہلے اس سے بیعت کرو، بیعت کے بعد خطباء اور شعراء نے کھڑے ہو کر حضرت کی بلندی شان اور ولی عہد ہونے کا بیان واضح طور پر کیا اس کے بعد مامون نے بیشمار زروجواہرات حاضرین پر نچھاورہ کیا اس کے بعد پھر مامون نے آپ کو کہا کہ حضرت آپ کھڑے ہو کر لوگوں میں خطبہ پڑھیں؟
حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور پہلے خدائے تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور حضرت رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود پڑھا پھر ارشاد فرمایا :
ایّھا النّاس انّ لنَا علَیْکمْ حقّاً بِرسُولِ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وَلکُمْ عَلینا حقّ بہٖ فاذا ادّیتُم اِلَینَا ذٰلک وَجَبَ لَکم عَلینَا الحُکمُ والسَّلام[11]۔
قرآن مجید سے جواب دینا:
حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ اکثر سوالات کے جوابات قرآن مجید سے دیا کرتے تھے آپ کو رب کائنات نے فہم قرآن کا اتنا عظیم علم عطا کیا تھا اور آپ کی فقاہت و دینی نظر اتنی بلند تھی کہ ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں مامون حاضر ہوا تو آپ کو بیش قیمت لباس پہلے دیکھ کر سوال کیا کہ: یا ابن رسول اللہ !کیا ایسا لباس درست ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا حضرت یوسف و سلیمان علیہم اسلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اور قباہوئے دیبا منسوج مذہب یعنی سونے کے تاروں سے بنے ہوئے قبا زیب تن فرماتے اور تخت مصع پر جلوہ افروز ہو کر مخلوق خدا پر حکمرانی فرماتے اور امرونواہی کی تلقین کرتے لہذا مقصد اصلی امام کا یہی ہے کہ عدل و انصاف کرے، سچ بولے، جب بھی حکم دے تو انصاف کا دے اور جب وعدہ کرے تو ایفا کرے اور یہ واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اچھے لباس اور اچھے کھانے کو حرام نہیں فرمایا اس کے بعد یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
قُلْ مَنْ حَرّم زینۃ اللہِ التِی اخرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطیّبٰتِ مِن الرِّزْقِ ط
"تم فرماؤ کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی[12]۔
دوسرا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ مامون بیمار ہوا اور نذر مانی کہ صحت ہونے پر زرِ کثیر خیرات کروں گا۔ جب صحتیابی ہوئی تو اس نے علمائے عصر سے زرِ کثیر کی تعداد پوچھی، سبھی علماء نے اپنی سمجھ اور رسائی کے مطابق جواب دیا مگر جب ان جوابوں سے مامون کو تشفی نہ ہوئی آخر میں اس نے آپ کی خدمت میں سوال پیش کرکے جواب مانگا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تراسی دینا خیرات کردو یہ زر کثیر ہے تو علماء نے پوچھا کہ اس تعداد پر زر کثیر کا اطلاق کس طرح ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔
لَقَدْ نَصرکُمُ اللہ فی مَوَاطِنِ کثیرۃٍ
یعنی بے شک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی[13]۔
حضرت معروف کرخی کا اسلام لانا:
آپ کا تبلیغی کوشش نے بیشمار افراد کو اسلام کا شیدائی بنایا آپ ہی کی عظیم کوششوں کی بدولت حضرت معروف کرخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے پرانے مذہب سے تائب ہوکر آپ کے دست حق پرست پر ایمان لائے اور آپ کی فیض بخش صحبت نے اولیائے اکابرین کی صف میں کھڑا کردیا اور آپ ہی کی نیابت سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے ایک عظیم امام ہوئے۔
کشف و کرامات
حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کشف و کرامات کے واقعات بیشمار ہیں یہاں چند واقعات لکھے جاتے ہیں،
مامون رشید نے جب آپ کو خلیفہ بنا کر آپ کو ولی عہد ٹھہرایا تو مامون رشید کے حاشیہ نشینوں کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ اب خلافت بنی عباس سے نکل کر نبی فاطمہ کی طرف منتقل ہوجائے گی اور وہ لوگ آپ سے جلنے لگے۔ حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ عادت تھی کہ مامون کے گھر تشریف لاتے اور اندر جانا چاہیے تو تمام درباری و خدام سب سروقد تعظیم میں کھڑے ہوجاتے اور سلام عرض کرنے کے بعد پردہ اٹھادیتے تاکہ آپ اندر تشریف لے جائیں، مگر جب وہ لوگ نصرت کرنے لگے تو باہم مشوہ کیا کہ اب جب وہ آئیں تو ہم لوگ الگ ہوجائیں اور پردہ نہ اٹھائیں گے۔ ابھی سب اس بات پر متفق ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ حضرت تشریف لائے معاً تمام درباری کھڑے ہوگئے اورسلام عرض کئے اور پردہ اٹھادیا جس طرح کی عادت تھی۔ جب آپ اندر چلے گئے تو درباریوں نے ایک دوسرے کو ملامت کیا کہ جس بات پر تم لوگوں نے اتفاق کیا تھا اسکو کیوں چھوڑ دیا؟ سبھوں نے کہا اب ہم ایسا ہی کریں گے اور پردہ نہیں اٹھائیں گے دوسرے دن جب آپ تشریف لائے سبھوں نے کھڑے ہوکر سلام تو کیا لیکن پردہ نہیں اٹھایا، اچانک ہوا چلی اور اس تیز ہوا نے پہلے سے بھی زیادہ پردہ اٹھادیا اور آپ اندر تشریف لے گئے، اور باہر آتے وقت پھر دوسری مرتبہ ہوا چلی اور پردہ کو اس سے بھی زیادہ اٹھادیا۔ جب آپ وہاں سے باہر تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس مرد کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا مرتبہ ہے اور اس کے حال پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ دیکھو آتے اور جاتے وقت ہوا نے کس طرح ہر دو جانب سے پردہ اٹھایا۔ اس لئے ہم لوگ جس طرح ان کی خدمت انجام دیتے تھے اسی طرح ادا کرتے رہیں کیونکہ اسی میں ہم لوگوں کی بھلائی ہے[14]۔
آپ کی دعا سے بارش کا ہونا:
آپ کے ولی عہد ہونے کے بعد عرصۃ تک بارش نہ ہوئی۔ دشمنوں نے مامون رشید سے شکایت کی جب سے علی رضا ولی عہد ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے بارش کو موقوف کردیا ہے اور یہ بات ان کے خراب ہونے کی دلیل ہے، مامون نے جب یہ بات سنا تو اس کو کافی گراں گذری اور اور آپ سے نزول باراں کے لیے دعا کا طالب ہوا۔ حضرت امام بروز دو شنبہ نماز استسقاء کے لیے کثیر جماعت کو لیکر میدان میں نازل ہوئے جس وقت آپ دعا میں مصروف تھے تو تھوڑی ہی دیر نہ گذری تھی کہ ابر ظاہر ہوا اور بجلی چمکنے لگی جس کو دیکھ کر لوگوں نے جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ابھی ٹھہرو یہ ابر یہاں کے واسطے نہیں ہے۔ چنانچہ کئی بار ابر پیدا ہوا اور گذرا آپ ہر بار فرماتے رہے کہ یہ ابر یہاں کے واسطے نہیں ہے بلکہ فلاں جگہ کے واسطے ہے۔ آخر میں جب یہ ابر پیدا ہوا تو آپ نے اس وقت اجازت دی اور سبھی لوگ اپنے اپنے مقام پر چلےگئے پھر اس قدر بارش ہوئی کہ تمام زمین پانی ہی پانی سے بھر گئے اور مخلوق خدا نے راحت و آرام کی سانس لیا[15]۔
آن واحد میں عربی بولنے لگا:
ملک سندھ کا رہنے والا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سندھی زبان میں آپ سے گفتگو کرنے لگا آپ اس کی ہربات کو سمجھ کر سندھی ہی زبان میں جواب دیتے رہے۔ جاتے وقت اس شخص نے عرض کیا حضور! میں عربی زبان نہیں جانتا اور تمنا رکھا ہوں کہ عربی سیکھوں؟ آپ نے دست مبارک اس کے لبوں پر پھیردیا معاً وہ عرب کے فصیحوں کی طرح فصیح و بلیغ عربی زبان بولنے لگا[16]۔
زندہ جنازہ کا مردہ ہونا:
ایک بار حاسدوں نے بغرض مذاق کی ایک زندہ شخص کو تابوت میں رکھ کر آپ کے پاس لائے کہ آپ نماز پڑھیں تو رسوا وشرمندہ کریں۔ چنانچہ اسی مذاق کے تحت جنازہ کو آپ کے آگے رکھا گیا آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھ دی۔ نماز کے بعد لوگوں نے جب چادر اٹھائی تو اس کو مردہ پایا اور اپنے کئے پر نہایت نادم و پشیمان ہوئے اور مردہ کو کفن دے کر دفن کردیا۔ جب تین دن گذرگئے تو آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا قم باذْن اللہ تو قبر شق ہوگئی اور مردہ زندہ ہوکر نکل آیا[17]۔
دل کے خطروں پر آگاہی:
ایک راوی کا بیان ہے کہ ریّان بن الصلت نے مجھ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی خدمت میں حاضر نے کی اجازت طلب کروں اور کہا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ حضرت امام اپنے کپڑوں سے ایک کپڑا مجھے پہنائیں گے اور اپنے نام کے سکہ زردہ درہموں میں سے چند درہم مجھے عطا فرمائیں گے۔ راوی نے کہا کہ جب میں حضرت امام علی رضا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ابھی آپ سے کوئی بات بھی نہیں کیا تھاکہ آپ نے خود ہی یہ فرمایا کہ ریّان بن الصلّت چاہتا ہے کہ میرے پاس آئے اور امید رکھتا ہے کہ میں اسے ایک کپڑا پہناؤ اور جن درہموں پر میرا نام ہے ان میں سے کچھ درہم اس کو دوں اتنے میں ریان آیا اور آپ نے کپڑا اور تیس درہم عطا کئے[18]۔
آپ کا علم ما فی الارحام :
جعفر ابن صالح کہتے ہیں کہ میری بیوی حاملہ تھی اسی ایام میں حضرت اما م علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت مبارکہ میں حاضری کی سعادت حاصل کی اور عرض کیا کہ حضور! دعا کیجیے کہ رب قدیر میری بیوی کو ایک لڑکا عطافرمائے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تیری بیوی دو بچوں کی حاملہ ہے میں اس بشارت عظمیٰ کو سنکر وہاں سے واپس ہوا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ ولادت کے بعد میں ایک کا نام محمد اور دوسرے کا علی رکھوں گا، یہ خیال آنا ہی تھا کہ آپ نے آواز دی اور ارشاد فرمایا کہ تم ایک کام علی اور دورے بچے کا نام ام عمر رکھنا۔ چنانچہ ولادت ہوئی تو ایک لڑکا تھا اور دوسری لڑکی میں نے بچے کا نام علی اور بچی کا ام عمر رکھا۔ ایک روز میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ ام عمر کیسا نام ہے، تو انہوں نے کہا کہ میری ماں کانام ام عمر تھا[19]۔
علم ما تکسب غداً:
شواہد النبوۃ میں تحریر ہے کہ ایک شخص خراسان کے ارادے سے ایک شہر کوفہ سے نکلا چلتے وقت اس کی لڑکی نے ایک چادر دیا کہ اس کو فروخت کرکے فیروزہ لیتے آئیں گے۔ جب وہ مرو پہنچا تو حضرت علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چند غلام حاضر ہوئے اور کہا کہ حضرت امام علی رضا کے ایک غلام کا انتقال ہوگیا ہے اس لیے تمہارے پاس جو کپڑا موجود ہے اس کو ہمارے ہاتھ بیچ دو تاکہ میں اس کپڑے میں اس کو کفنائیں اس شخص نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی اس قسم کا کپڑا نہیں ہے،یہ سن کر لوگ چلے گئے مگر دوبارہ پھر لوٹ کر آئے اور عرض کیا کہ ہمارے آقا نے ہمیں خبر دی ہے کہ تیرے پاس ایک چادر ہے جو تیری لڑکی تجھ کو دی ہے تاکہ اس کو فروخت کرکے اس روپے سے اس کے لیے تو فیروہ خریدے لہذا اس کی قیمت ہم لائے ہیں تواس شخص نے اس چادر کو ان کے ہاتھ بیچ دیا اور دل میں خیال کیا کہ چل کر حضرت سے چند مسئلے دریافت کروں مسائل کو ایک کاغذ پر نوٹ کرلیا اور آپ کی خدمت میں جانے لگا۔ جب آپ کے مکان کے دروازے پر پہنچا تو دیکھا کہ مخلوق کا اژدہام ہے اور بھیڑ کی وجہ سے آپ کے چہرہ کو بھی نہیں دیکھ پارہا تھا حیران و پریشان کھڑا رہا ناگہاں ایک غلام آیا اور میرا نام لیکر پکارا ار ایک تحریر مجھے دیا اور کہا کہ فلاں!یہ تیرے تمام مسئلوں کا جواب ہے۔ جب میں نے اس کو پڑھا تو اس میں ان تمام مسائل کے شافی جواب موجود تھے [20]۔
آپ کا موت پر مطلع کرنا:
حضرت امام علی رضا قدس سرہ العزیز ایک روز ایک شخص کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: اے شخص تو جو کچھ چاہتا ہے اس کی وصیت کردے اور اس چیز کے لیے آمادہ ہوجا جس سے کسی شخص کو بھی گریز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جب اس بات کے کہنے پرمکمل تین دن گزرگئے اس شخص کا انتقال ہوگیا[21]۔
کثرت مال کی پیشن گوئی:
حسین بن موسی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں جعفر بن عمر علوی کا گزرہوا، ہم میں سے بعض نے ان کی طرف بنظر حقارت دیکھا اس پر حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عنقریب تم اس کو کثیر المال اور کثیر الخدم دیکھو گے۔ اس بات کو ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ وہ والی مدینہ ہوگئے اور ان کی حالت اچھی ہوگئی اور اکثر جب ان کا گذر ہم پر ہوتا تو ان کے گرد خدام اور فوج ہوتے جو ان کے ساتھ چلتے اور ہم ان کےلیے تعظیماً کھڑے ہوجاتے اور دعا کرتے [22]
اولاد:
ابن خشاب نے کتاب موالید اہلبیت میں لکھا ہے کہ حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پانچ صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں جن کے اسمائے مبارکہ یہ ہیں۔ حضرت محمد جواد، حسن، جعفر ، ابراہیم، حسین، حضرت عائشہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین
خلفاء:
حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلفاء کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں: حضرت معروف کرخی، حضرت امام تقی، حضرت امام ابوالقاسم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم[23] ۔
نقش خاتم:
نقش خاتم آپ کا حَسْبِی اللہ تھا۔
تصانیف:
آ پ نے مامون کے لیے ایک رسالہ علم طب میں تصنیف فرمایا تھا کہ کسی دوسری تصنیف کا ذکر کہیں نہ مل سکا[24]۔
وصال کے حیرت انگیز حالات
رہ نمہ بن امین خادم خلیفہ مامون جو حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں رہتے تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ میں تم کو ایک راز پر آگاہ کرتا ہوں جس کو امانت کے طور پر میری حیات تک محفوظ رکھناورنہ قیامت میں تیرا دامن گیر ہوں گا؟ میں نے قسم کھائی کہ ہرگز آپ کے راز کو آپ کی زندگی میں افشاء نہیں کروں گا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا اے ہرنمہ ! میری موت قریب ہے اور بہت جلد میں اپنے آباؤاجداد سے ملنے والا ہوں میری موت کا سبب یہ ہوگا کہ میں انگور اور انار کے دانے خلیفہ کے پاس کھاؤں گا اور انتقال کرجاؤں گا۔ اس وقت خلیفہ میرے دفن کے بارے میں یہ چاہے گا کہ میری قبر اپنی باپ ہارون رشید کے قبر کے پیچھے کھدوائے اور وہاں دفن کرے۔ لیکن بحکم اللہ تعالیٰ وہاں کی زمین سخت ہوجائے گی اور کدال کچھ کام نہ کرے گی جس کی وجہ سے قبر ہرگز کھود نہ سکیں گے۔ اے ہرنمہ تو جان لے کہ میرا مدفن فلاں مقام میں ہوگا اور مجھ کو وہ جگہ بھی بتلادی پھرفرمیا اکہ جب میرا جنازہ تیار ہو، اس وقت خلیفہ کو ان سب باتوں سے آگاہ کردینا اور نماز میں تھوڑا توقف کرنا کیونکہ ایک عربی شخص ناقہ سوار جنگل کی طرف سے آئے گا اور اس کی اونٹنی بچہ دیگی پھر وہ اس پر سے اتر کر مجھ پر نماز پڑھے گا، تم لوگ اس کے ساتھ نماز ادا کرنا، اس کے بعد قبر کی جگہ جو میں نے بتائی ہے اس کو کھودنا وہاں پر ایک قبر پٹی ہوئی تہ بتہ نکلے گی اور اس کی تہ میں سفید پانی ہوگا۔ پھر جس وقت اس کی تمام تہیں کھل جائیں اور پھر پانی نہ نکلے تو جان لینا کہ وہی میری جگہ ہے اور دفن کرنا۔ راوی کہتے ہیں کہ چند روز بعد آپ نے خلیفہ کے پاس انگور اور انارکھایا اور انتقال فرمایا۔ ہرنمہ کا بیان ہے کہ میں آپ کے وصال کے بعد خلیفہ مامون کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ رومال ہاتھ میں لیے حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عن ہکے وصال کے غم میں رورہے ہیں اور آنسوؤں کو پوچھتے جارہے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے امیر المومنین ایک بات ہے اگر اجازت ہو تو عرض کروں؟ کہا بیان کرو! اس اس کے بعد تجہیز و تکفین کا حکم دیا اور آپ کے حکم کے بموجب نماز جنازہ میں ذرا تاخیر کی گئی کہ یکایک وہ عربی شتر سوار آکر موجود ہوا اور نماز پڑھ کر چل دیا اور اس نے کسی سے بات نہ کی اور نہ ہی کسی کو مخاطب کیا خلیفہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو لاؤ؟ لیکن اس کو کہیں پتہ نہ چلا۔ خلیفہ نے امتحانً ہارون رشید کی قبر کے پیچھے قبر کھودنے کا حکم دیا لیکن وہ زمین پتھر سے زیادہ سخت نکلی اور کوئی اس کو کھود نہ سکا سبھی عاجز ہوگئے۔ پھر مقام آپ نے مقرر فرمایا تھا وہاں کھودنا شروع کیا فی الواقع جیسا فرمایا تھا اسی طرح سے ایک قبر مطبق منہ ظاہر ہوئی اور سفید پانی وہاں موجود تھا بعدہٗ اور تہیں ظاہر ہوئی اور مقام مقصود میں آپ کو دفن کردیا گیا۔
دوسری روایت مولانا جامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مذکورہ روایت میں اس بات کا اضافہ فرمایا کہ لحد میں پانی بھر جائے گا اور اس میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پیدا ہوں گی یہ روٹی جو میں دیتا ہوں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ڈالنا مچھلیاں ٹکروں کو کھا جائے گی پھر ایک بڑی مچھلی پیدا ہوگئی وہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں غائب ہوجائیں گی تب اپنا ہاتھ پانی پر رکھنا جو کچھ میں تعلیم کرتا ہوں پڑھنا یہاں تک کہ پانی ختم ہوکر لحد خشک ہوجائے[25]۔
تاریخ وصال:
آپ کو انگور میں زہر ملا کر کھلایا گیا جس سے آپ ۲۱ رمضان المبارک ۲۰۳ھ بروز جمعہ ۵۵ سال کی عمر میں شہادت پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
مزار پرانوار:
آپ کا مزار پرانوار مطور میں بمقام سنایا جو قرب بغداد کے ہے اور جسے اب مشہد مقدس کہتے ہیں۔ زیارت گاہ خلائق ہے، ملفوظات ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ایسی تکلیف دیتا ہے جس کے وہ متحمل نہ ہوں؟ فرمایا اللہ تعالیٰ بڑا عادل ہے ایسی تکلیف کسی کو نہیں دیگا پوچھا گیا کہ بندوں کو اپنے ارادے پر قدرت حاصل ہے ارشاد فرمایا بندہ اس بات سے بالکل ہی عاجز ہے۔
[1] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۲۹
[2] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۲۹
[3] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۲۹
[4] مسالک السالکین ج ۱ ص ۱۳۱
[5] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۳۱
[6] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۲۱
[7] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۳۱
[8] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۳۱
[9] حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور نام و نسب احمد بن حنبل بن ہلال بن اس شیبانی مروزی ۱۶۲ھ ۷۸۰ء میں بغداد شہر میں ولادت ہوئی، آپ نے بغداد کے محدثین و فقہا سے علمی استفادہ فرمایا پھر مکہ و مدینہ منورہ ، کوفہ، بصرہ، یمن، شام و جزیر وغیرہ کاظمی سفر فرما کر اپنے زمانے کے مشہور مشائخ حدیث و فقہ کی شاگردی کی سعادت حاصل فرمائی۔ آپ کے مزاج میں توکل و استغفاء حد درجہ تھا ساری رات شب بیداری و گریہ وزاری کرتے اور روزانہ بلا ناغہ سو رکعت نفل نماز پڑھتے تھے مگر کوڑوں کے مار سے جب آپ نڈھال ہوچکے تو اس وقت سے روزانہ ڈیڑھ سو رکعت پڑھنے لگے تھے۔ آپ کو دس لاکھ حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ آپ نے پانچ حج ادا کیا تین پیدل اور دو سوار ی پر، ہلال بن علاء فرماتے ہیں کہ خلق قرآن کے فتتنے میں اگر امام احمد بن حنبل کورے کی سزا پانے کے باوجود حق پر ثابت قدم نہ رہتے تو ہزاروں مسلمان کافر ہوجاتے اور خداوند کریم امام احمد کو جزائے خیر عطافرمائے کہ انہوں نے کوڑون کی مار برداشت کرلی اور حق پر ثابت قدم رہ کر ساری امت کو گمراہی سے بچالیا۔ خلیفہ معتصم نے آپ کو گرفتار کیا اور اٹھائیس ماہ جیل میں رکھ کر کوڑے لگواتا رہا۔ خلیفہ معتصم کے انتقال کے بعد واثق باللہ خلیفہ ہوا تو اس نے بھی کوڑوں کی مار اور جیل کی سختیاں جاری رکھی۔ یہاں تک کہ متوکل باللہ کے عہد میں معتزلی کا زور ٹوٹا اور آپ جیل سے نکالے گئے۔ ۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ھ ۸۳۳ء میں تہتر برس کی عمر میں وصال فرمایا آپ کی نماز جنازہ میں بیس لاکھ کا مجمع تھا۔ اس مجمع سے متاثر ہو کر بیس ہزار یہودی نصرانی و مجوسی مسلمان ہوئے۔ دو سو تیس سال بعد آپ کے قبر کے بغل میں ایک دوسری قبر کھودی گئی تو آپ کی قبر کھل گئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کا کفن سلامت اور جسم بالکل تروتازہ تھا۔
(اولیاء رجال الحدیث)
[10] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۳۰/ ۲۳۱
[11] تشریف البشر ص ۹۸
[12] سورہ اعراف آیت نمبر ۳۲ ترجمہ رضویہ
[13] سورۃ توبہ آیت نمبر ۲۵ ترجمہ رضویہ
[14] مسالک السالکین ج ۱ ص۲۳۰
[15] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۳۳
[16] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۳۳ و خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۵۷
[17] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۳۲
[18] شواہد النبوۃ ماخوذ رد تقویۃ الایمان ص ۱۸۸
[19] شواہد النبوۃ ماخوذ رد تقویۃ الایمان ص ۲۳۷
[20] خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۵۴ وردتقویۃالایمان ص ۳۰۳
[21] خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۵۴ وردتقویۃالایمان ص ۲۲۷
[22] تشریف البشر ص ۱۰۹
[23] انوار صوفیہ ص ۸۴
[24] تشریف البشر ص ۱۰۹
[25] تشریف البشر ص ۱۱۱