حضرت امام موسیٰ رضا

حضرت امام علی بن موسیٰ بن جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ علیہ

ائمہ اثنا عشر میں آٹھویں امام ہیں۔ کنیت ابوالحسن، لقب رضا اور ولادت مدینہ پاک میں ہوئی۔ ولادت ۱۵۲ھ بعد از وفات حضرت جعفر صادق﷫۔ تاریخ نگاروں نے آپ کی والدہ کا نام تخمینہ، ساتتہ، ام النبیین اور استقراء لکھا ہے۔ وہ حضرت کاظم کی والدہ بی بی حمیدہ کی کنیز تھیں۔

ایک رات حضرت حمیدہ﷜ نے خواجہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ نے فرمایا: اپنی کنیز تخمینہ کو اپنے بیٹے موسیٰ کے نکاح میں دے دو۔ اللہ اس سے ایک ایسا بیٹا دے گا جو روئے زمین کے بہترین انسانوں سے ہوگا۔

حضرت رضا کی والدہ سے یہ روایت منسوب ہے کہ جب رضا میرے پیٹ میں تھے مجھے کوئی بوجھ یا گرانی محسوس نہیں ہوتی تھی اور خواب میں مجھے اپنے پیٹ سے تسبیح کی آواز سنائی دیتی تھی بعض اوقات میں ڈر جایا کرتی تھی۔ جونہی میں بیدار ہوتی کوئی آواز نہ سنتی۔ حضرت رضا نے ولادت کے وقت اپنے ہاتھ زمین پر رکھ لیے اور نگاہ آسمان کو کردی اور ہلتے ہوئے لبوں سے دعا جاری تھی۔

خلیفہ مامون نے حضرت رضا کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔ جب آپ دربار میں جاتے تو خلیفہ کے امراء اور اعیان استقبال کو کھڑے ہوجاتے اور جو پردہ خلیفہ کے تخت کے ساتھ آویزاں ہوتا، اٹھا دیا جاتا۔ کچھ عرصہ کے بعد بعض درباریوں نے حسد و بغض کی وجہ سے نفرت کے طوفان برپا کردیے۔ اور اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس کے بعد آپ کا استقبال نہ کیا جائے اور نہ ہی پردہ اٹھایا جائے۔ لیکن دوسرے روز جب حضرت امام تشریف لائے تو امرائے دربار اٹھے اور پردہ بھی اٹھادیا گیا۔ امام صاحب کے اندر جانے کے بعد انھیں احساس ہوا تو انہوں نے ایک دوسرے کو لعن طعن کرنا شروع کردیا۔ پھر انہوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ آیندہ کوئی نہ اٹھے۔ لیکن پھر آپ کے آنے پر اٹھے اور سلام کیا مگر پردہ اٹھانے میں توقف کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک تیز ہوا کو بھیجا جس سے پردہ اٹھ گیا اور امام صاحب اندر تشریف لے گئے۔ جب واپس آئے تو پھر ہوا سے پردہ اٹھا۔ امراءِ دربار نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو قائل ہوگئے کہ امام اللہ کے عزیز ہیں۔ ہمارے ذلیل کرنے سے آپ ذلیل نہیں ہوسکتے۔ مجبوراً رسمِ دربار کے مطابق عمل کرنے لگے۔

امام رضا کی ولی عہدی کے دوران ایک عرصہ تک بارش نہ ہوئی۔ مامون الرشید کے بعض وزراء جو خاندانِ نبّوت سے بغض رکھتے تھے۔ خلیفہ کو کہنے لگے: جس دن سے آپ نے انہیں ولی عہد مقرر کیا ہے اللہ کی رحمت کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔ یہ بات خلیفہ کو بڑی ناگوار گزری اور آپ سے طلب نزولِ بارانِ رحمت کی۔ آنحضرت دعا کے لیے اتوار کو ایک صحرا میں نکل پڑے۔ ایک عظیم اجتماع میں بارش کے لیے دعا فرمائی۔ اسی وقت بادل گھِر کر آئے..... اور لوگ دوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف چلے مگر حضرت نے فرمایا: لوگو!رک جاؤ۔ یہ بادل تو فلاں شہر کے ہیں، یہاں نہیں برسیں گے۔ تھوڑے توقف کے بعد مطلع صاف ہوگیا۔ پھر بادل آئے مگر آپ نے لوگوں کو کہا: یہ بادل فلاں علاقے کے لیے ہیں۔ چنانچہ دس بار اسی طرح ہوا۔ گیارھویں بار جب بادل آئے تو آپ نے فرمایا: یہ بادل تمہارے لیے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرو اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ یہ بادل اس وقت تک نہ برسیں گے جب تک تم گھروں میں محفوظ نہ ہوجاؤ گے۔ آپ خود منبر سے اترے اور اپنی جگہ پر پہنچے۔ جب تمام لوگ اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو بارانِ رحمت کا نزول ہوا حتّٰی کہ ایسی بارش پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

مامون الرشید کا ایک مقرب ولی عہدی کی تمنّا دل میں اور حسد و بغض کا بوجھ لیے مامون الرشید کو کہنے لگا کہ آپ نےنبو عباس کے خاندان سے خلافت علیحدہ کرکے حضرت علی کے گھر میں بھیج دی ہے حالانکہ یہ لوگ عباسیہ کے بڑے بدخواہ ہیں۔ بادیہ گمنامی کے گمناموں کو ازسرِ شہرت دے دی ہے اور ہم لوگوں سے ان لوگوں کے مراتب بلند کردیے ہیں۔ یہ بات بلند ہمتی، دلاوری اور انصاف سے بڑی بعید ہے۔ اگر یہ کام اچھا ہوتا تو آپ کے آباو اجداد ہی کر لیتے۔ مامون نے بتایا کہ علی رضا کی ولی عہدی میری محبت اور الفت کی وجہ سے نہیں بلکہ وُہ عوام میں بیٹھ کر انھیں خلافت و بیعت پر آمادہ کرتے تھے۔ میں نے اسے اپنا ولی عہد بنادیا تاکہ وہ لوگوں کومیری طرف دعوت دیتا رہے اور میری خلافت کا اعتراف بھی کرتا رہے اور خاندان عباسیہ کی عداوت سے علیحدہ رہے۔ مجھے خطرہ تھا کہ یہ کوئی نیا فتنہ پیدا نہ کردے جس کا انسداد میرے لیے مشکل ہوجائے۔ لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ میرا فیصلہ غلط تھا۔ لیکن اب میں نے اسے نوازاہے۔ اور اپنا ولی عہد بنایا ہے۔ اب یہی چارہ ہے کہ آہستہ آہستہ اس کے اثرورسوخ کو کم کردیاجائے تاکہ عوام خود معلوم کرلیں کہ یہ ولی عہدی کے لائق نہیں ہیں اور اس طرح معطل کردیا جائے۔ اس شخص نے کہا: آپ اطمینان رکھیں میں اسے مجمع عام میں شرمسار کردوں گا اور وہ خود بخود اپنی راہ لے گا اور بغداد میں وہ کبھی نہیں آئے گا۔ ان کے متبعین کو بھی طمع، لالچ دے کر اس سے علیحدہ کرلوں گا اور آپ کے دربار میں حاضر کروں گا۔ جب تنہا رہ جائے گا تو یہ کام زیادہ آسان ہوجائے گا اور کسی عباسی کے ہاتھوں قتل ہوجائے گا یا قید خانہ میں جان دیدیگا۔

ایک دن حضرت خلیفہ مامون کے پاس تشریف لائے اور اپنی مسند پر آرام سے بیٹھے تھے کہ وُہ بدخواہ اور حاسد بھی آگیا اور آپ کو مخاطب کرکے بولا: اے ابن موسیٰ! میں نے سُنا ہے کہ تمہارے معتقدین اور مریدین بارانِ رحمت کے برسنے پر تمہاری کرامت پر بڑا فخر کرتے ہیں اور تعریف کے قلابے ملاتے رہتے ہیں اور آپ کا مقام پیغمبروں سے بھی بلند جانتے ہیں حالانکہ تم نے (عام مسلمانوں کے) توسل سے دعاءِ بارانِ رحمت کی۔ اس طرح بادل برسا۔ اندریں حالات تم تن تنہا اس کرامت کے مستحق نہیں ہو جبکہ تمام مسلمانانِ بغداد کا حصّہ ہے۔ ان نا اہلوں کو اس حرکت سے روکنا چاہیے۔ حضرت خلیفہ تمہارے لحاظ سے کسی کو کچھ نہیں کہتے اور تمہیں زمین سے اٹھا کر آسمانِ شہرت پر لا رکھا ہے۔ اپنا ولی عہد اور جانشین مقرر کیا ہے۔ یہ حقوق کا صلہ ہے جو تم دے رہے ہو کہ امیر المومنین کے عہدِ خلافت میں تمہارا رتبہ خلیفہ وقت سے بلند کیا جارہا ہے۔ حضرت امام نے یہ تمام تفصیل سننے کے بعد فرمایا: میں ان باتوں سے منع تو نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں نعمتِ خدا وندی کے شکرانے سے روکتا ہوں۔ یہ ولی عہدی کا جو ذکر کیا جارہا ہے اس کی مثال حضرت یوسف ﷤ کی ہے کہ بادشاہِ مصر نے انہیں خود ولی عہد بنایا تھا اور دنیا میں خدا کے نزدیک جو رتبہ تھا، عزیز مصر بننے سے کم نہیں ہوا تھا۔ وہ حاسد اس دندان شکن جواب سے برا فروختہ ہوگیا اور کہنے لگا، ابن موسیٰ! تم اپنی حدود سے تجاوز کرتے جارہے ہو اور اپنے آپ کو حضرت یوسف﷤ سے ملارہے ہو، حالانکہ یہ معمولی سی کرامت جو عام مسلمانوں کی دُعا سے ظاہر ہوتی ہے اس قدر بلند بانگ دعویٰ کررہے ہو۔ اگر تم اتنے ہی صاحبِ کرامت ہوتو خلیفہ کے دربار میں بچھی ہوئی قالین پر شیروں کی تصویر کو زندہ کرکے دکھاؤ اور انہیں مجھ پر مسلّط کردو۔اگر ایسا کردو تو یہ کرامت اور معجزہ ہوگا۔

اس بدگفتار کی یہ گفتگو سنتے ہی حضرت امام رضا جلال میں آگئے اور غضب ناک ہوکر ان شیروں کو للکارا اور کہا: اس کذاب اور اہلبیت کے دشمن کو پکڑ لو اور اپنا تر نوالہ کرلو۔ حکم ملتے ہی وُہ دونوں تصویریں شیر بن کر جھپٹیں اور شہنشاہ ولایت کے اس بدگو کو اپنے خونیں پنجوں میں دبوچ لیا اور اس کی ہڈیاں توڑ ڈالیں اور اس کی ہڈی اور گوشت چباگئے۔ خون کے قطرے جو فرش پر گرگئے تھے، چاٹنے لگے۔ خلیفہ مامون یہ منظر دیکھ کر دم بخود ہوگیا اور زمین پر گرگیا۔ جب دونوں شیر اس کام سے فارغ ہوئے تو امام کی پابوسی کے لیے آئے اور زبانِ حالی سے کہنے لگے اگر آپ حکم فرمائیں تو اس غدار خلیفہ کو جو ظاہر میں آپ کی دوستی کا دم بھرتا ہے مگر دلی طور پر دشمنِ اہل بیت ہے کیفرِ کردار تک پہنچادیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی زندگی مطلوب ہے کیونکہ ایک عظیم کام اُس سے لینا ہے تم جس طرح تھے اسی طرح ہوجاؤ۔ چنانچہ دونوں بہادر مگر بھُوکے شیر اپنی اصلی حالت پر چلے گئے اور شیرِِ قالین بن گئے۔ حضرت نے عطر و گلاب طلب کیا اور خلیفہ کے منہ پر چھڑکا۔ جب خلیفہ ہوش میں آیا تو خوف و ہراس کی بناء پر اس نابکار کے حالات قطعاً دریافت نہ کیے۔

ایک نے روایت کی ہے: میں کوفہ سے خراسان کو روانہ ہوا تو میری بیٹی نے مجھے ایک چادر دی کہ اسے بیچ کر میرے لیے ایک فیروزہ لیتے آئیں میں جب مرو میں پہنچا تو حضرت موسیٰ رضا کا ایک غلام میرے پاس آیا کہ امام صاحب کا ایک خادم وفات پاگیا ہے۔ تمہارے پاس ایک چادر ہے اگر فروخت کردو تو ہم اس کا کفن بنالیں۔ میں نے کہا کہ میرے پاس کوئی چادر نہیں۔ تھوڑے سے عرصے کے بعد وہ غلام دُوسری بار آیا تو اس نے آکر کہا: امام محترم نے تمہیں سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ تمہارے پاس وہ چادر ہے جو آپ کی بیٹی نے دی تھی تاکہ فیروزہ خرید سکو۔ چادر کی قیمت یہ لو اور چادر دے دو۔ یہ بات سُن کر حیران رہ گیا کیونکہ اس واقعہ کا میرے اور لڑکی کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔ میں نے چادر اس کے حوالے کردی اور سوچا کہ یہ شخص باطنی علوم سے واقف ہے کیوں نہ اس سے چند مسائل دریافت کرلوں۔ مسائل ایک کاغذ پر لکھ کر حضرت امام کے دروازہ پر حاضر ہوگیا لیکن عوام کے ہجوم کی بنا پر زیارت نہ کرسکا چہ جائیکہ مسئلہ دریافت کرتا۔ ناگاہ ایک غلام اندر سے آیا اورمیرا نام دریافت کرکے ایک کاغذ مجھے دیا اور کہا کہ یہ تمہارے مسائل کا جواب ہے۔

نباج کے علاقہ کے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضرت رسالت مآب ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ وہ مسجدِحاجیاں میں تشریف فرماہیں۔ کھجور کے درخت کا ایک طبق بناکر اس میں کھجوریں رکھی ہیں۔ میں حاضرِ خدمت ہوا تو آپ نے چند کھجوریں مجھے بھی عنایت فرمائیں جب میں نے انھیں گِنا تو سترہ کھجوریں تھیں۔ اس خواب کی تعبیر مجھے یوُں آئی کہ اب میں سترہ سال اور زندہ رہوں گا۔ چند دنوں کے بعد حضرت امام موسیٰ بن رضا قصبۂ نباج میں تشریف لائے اور اسی مسجد میں رونق افرورز ہُوئے۔ میں نے دیکھا کہ اسی جگہ بیٹھے ہیں جہاں حضور ﷺ کو بیٹھے دیکھا تھا۔ کھجوروں کا ایک طبق اسی طرح آپ کے سامنے پڑا ہے۔ میں نے سلام کیا تو آپ نے بڑی شفقت سے چند کھجوریں دیں جنھیں گِنا تو سترہ تھیں۔ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ چاہتا ہُوں۔ آپ نے فرمایا: اگر جناب رسالت مآب ﷺ زیادہ دیتے تو مجھے کوئی مضائقہ نہیں تھا اب میں آپ ﷺ کے خلاف نہیں کرسکتا۔

حضرت امام موسیٰ رضا کے غلام نے روایت کی ہے کہ ایک دن ریان بن ابی الصلت آپ کے در اقدس پر حاضر ہوا اور کہنے لگا: میری دلی خواہش ہے حضرت مجھے اپنے لباس کے دو کپڑے اور چندسکے جن پر آپ کی مُہر ہو مرحمت فرمائیں۔ میں نے حضرت سے اجازت طلب کی ابھی سخن زبان پر نہیں آیا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ ریان چاہتا ہے کہ یہاں آکر وہ کپڑے اور چند سکّے لے۔ اسے لے آؤ اور وہ کپڑے اور تیس درہم دے دو۔

ایک دفعہ ایک تاجر کو قزاقوں نے کرمان کے پاس برفانی گھاٹیوں میں پکڑلیا اور اس کا منہ برف سے بھر دیا اور مال و دولت لُوٹ کرلے گئے۔ برف کی شدید سردی سے اس کی زبان بیکار ہوگئی اور بات نہ کرسکتا تھا۔ وہ خراسان میں آیا تو اسے خبر ہُوئی کہ حضرت موسیٰ رضا نیشا پور میں تشریف فرما ہیں۔ دل میں کہنے لگا کہ وہ اہل بیت نبوت سے ہیں۔ آپ کی خدمت میں جاؤں شاید کوئی علاج بتائیں۔ رات خواب میں دیکھا۔ گویا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: تمہارا علاج کمونی اور سعرقہ ملخ ہے۔ ان تینوں کو پانی میں بھگو کر دوتین بار زبان پر رکھو اِن شاء اللہ تعالیٰ شفایاب ہوجائے گے۔ جب بیدار ہُوا تو خواب کا اعتبار نہ کیا اور نیشا پور جا پہنچا۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ابھی بات نہیں کی تھی کہ آپ نے فرمایا: تمہاری زبان کا علاج تو وہی ہے جو خواب میں بتایا گیا تھا۔ میں نے گزارش کی کہ ایک بار اور فرمادیجیے آپ نے فرمایا: کمونی اور سرقعہ ملخ۔ ان تینوں کو پانی میں بھگو کر زبان پر رکھو، بحکمِ خدا شفا ملے گی۔اس شخص نے ایسا ہی کیا۔ شفایاب ہوگیا۔

ایک شخص سندھ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ چونکہ وہ عربی زبان نہیں جانتا تھا، سندھی میں بات کرتا تھا آپ نے سندھی میں گفتگو کرنا شروع کردی۔ اس نے گزارش کی کہ مجھے عربی نہیں آتی اِن شاء اللہ عربی سیکھ لُوں گا۔ آپ نے دستِ مبارک اس کے ہونٹوں پر پھیرا تو وہ اسی وقت فصیح عربی میں گفتگو کرنے لگا۔

ایک دن حضرت امام اپنے صحن میں بیٹھے تھے کہ ایک چڑیا آپ کے قدموں میں آکر گری۔اور لوٹ پوٹ ہوکر فریاد کرنے لگی۔ آپ نے حاضرین کو بتایا کہ یہ چڑیا کہہ رہی ہے کہ اس کے گھر میں سانپ ہے اور اس کے بچّوں کون کھانا چاہتا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص جلدی سے سانپ کی تلاش کرو اور سانپ کو ماردو۔ ایک خادم اٹھا اور حجرہ میں گیا۔ دیکھا کہ ایک خونخوار سانپ چھت پر لٹک رہا ہے، اسے پکڑا اور مار دیا۔

ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا، میری بیوی حاملہ ہے، دُعا فرمائیں: اللہ مجھے بیٹا عطا فرمائے۔ آپ نے فرمایا: تمہاری بیوی کے پیٹ میں دو (۲) بچے ہیں وہ شخص گھر گیا تو چند دن گزرنے کے بعد اس کے دو بچّے ہوئے۔ اس نے چاہا کہ ایک کا نام محمّد رکھوں اور دوسرے کا علی۔ آپ نے زور سے کہا: نہیں نہیں، ایک کا نام علی رکھو اور دوسرے بچّے کا نام ام عمر! یعنی ایک لڑکا تھا اور دوسری لڑکی۔

حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ نے آنحضرت کی وفات کا واقعہ شواہد النبوت میں یُوں قلم بند کیا ہے۔ آپ کا خادم خاص ابو الصلت بیان کرتا ہے کہ ایک دن امام ذوی الاکرام علی بن موسیٰ رضا کھڑے تھے۔ مجھے فرمانے لگے کہ تم ہارون کی قبر کےگنبد کے پاس چلے جاؤ اور اس کے چاروں طرف سے مٹی لیتے آؤ۔ میں گیا اور مٹی لے آیا۔ آپ نے سُونگھ کر پھینک دی اور کہا دیکھنا مجھے یہاں ہرگز دفن نہ کرنا۔ یہاں ایک پتھر ظاہر ہوگا۔ جوسنگ شکن ہتھیار بھی لایا جائے گا پتھر کو توڑ نہیں سکے گا۔ پھر آپ نے فرمایا: فلاں مقام سے مٹی اٹھا لاؤ۔ میں گیا تو لے آیا اور فرمایا کہ میری قبر اس جگہ بنانا اور میرے دفن کرنے کے وقت تم یہاں حاضر رہنا اور لوگوں کو کہنا کہ سات درجے نیچے لے جائیں اور قبر کے درمیان شق کریں۔اگر وہ چھوڑ دیں تو پھر کہنا کہ لحد بنالیں۔

دفن سے پہلے میرے سر کی جگہ سے پانی کا چشمہ نکلے گا۔ یاد رکھو جس کلام سے میں تم سے بات کررہا ہوں اسی کلام سے وہاں کلام کرنا۔ پانی جوش مارے گا اور ساری لحد پانی سے بھر جائے گی اور پانی میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیرتی نظر آئیں گی۔ یہ روٹی ٹکڑے ٹکڑے کرکے مچھلیوں کو کھلا دینا۔ پھر ایک بہت بڑی مچھلی ظاہر ہوگی۔ وہ چھوٹی مچھلیوں کو کھا جائے گی۔ جب ساری مچھلیاں گم ہوجائیں گی، پانی پر ہاتھ رکھنا اور یہ کلام پڑھنا۔ پھر پانی کم ہوجائے گا اور لحد خشک ہو جائے گی لیکن یہ تمام باتیں مامون الرشید کے سامنے کرنا۔ پھر آپ نے فرمایا: ابوالصلت کل میں مامون کے سامنے جاؤں۔ جب میں وہاں سے باہر آؤں گا میرے سر پر کوئی چیز نہیں ہوگی۔ پھر میرے ساتھ کوئی بات نہ کرنا۔ اگر میرے سر پر کوئی چیز ہوئی تو میرے ساتھ باتیں کرنا۔ جب رات گزر گئی، صبح ہوئی تو آپ نے نئے کپڑے زیبِ تن کیے اور انتظار کرنے لگے۔ حتیٰ کہ مامون کا غلام آپ کو بلانے کو آگیا اور آپ کو مامون کے پاس لے گیا۔ اس وقت مامون کے سامنے تازہ انگوروں کے طبق پڑے تھے۔ اس نے کہا کہ کیا آپ نے ایسا انگور پہلے دیکھا ہے؟َ آپ نے فرمایا: ان انگوروں سے اچھے انگور بہشت میں ہیں۔ ماموں نے کہا کہ یہ انگور کھالو۔ آپ نے فرمایا: مجھے معذور سمجھیں۔ مامون نے بڑی تعریف کی۔ کیا آپ میرے دل کو توڑ رہے ہیں یہ کہہ کر ایک خوشہ خود اٹھا کر کھانے لگا۔ باقی کے حضرت کو دے دیے۔ آپ نے تین دانے کھائے اور باقی کے دانے پھینک دیے اور اُٹھ کر چلے آئے۔ مامون نے کہا: آپ کہاں جارہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جہاں آپ نے بھیجا ہے۔ کوئی چیز سر پر پہن لی اور اپنے گھر کو روانہ ہوئے کہتے ہیں: مامون نے ان انگوروں میں زہر ہلاہل ملادیا تھا اور حضرت امام کو کھلادیے۔ تین دانے جو اس نے خود کھائے وہ زہر سے خالی تھے۔ چونکہ مجھے ہدایت تھی جب میں نے سر پر کچھ پہنا ہو تو مجھ سے بات نہ کرنا۔ میں خاموش رہا۔ آپ نے گھر پہنچ کر فرمایا کہ دروازہ بند کردیا جائے اور خود بستر پر لیٹ گئے۔ میں مکان کے صحن میں پریشانی کے عالم میں پھرتا رہا، میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان اندر سے نکلا جو شکل و شباہت سے حضرت سے مِلتا جُلتا تھا۔ میں دوڑ کر قریب گیا اور پُوچھا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔ فرمایا مجھے ابھی ابھی مدینہ سے بُلایا گیا ہے اور میں بارہ اماموں میں سے ہوں۔ میں نے نام پُوچھا تو آپ نے بتایا میرا نام حجتہ اللہ محمّد تقی بن علی بن موسیٰ﷜۔ پھر والد محترم کے پاس آیا۔ خود چلے گئے اور مجھے نہیں لے گئے۔ جب امام نے اسے دیکھا تو وہ اُٹھے، گلے لگالیا اور دو آنکھوں کے پاس بوسہ دیا اور اپنے بستر پر بٹھالیااور لیٹ گئے۔ وہ والد محترم کی طرف منہ کر کے بعض رازو ارانہ باتیں کہنے لگا۔ اس وقت میں نے حضرت امام کے لبوں پر جھاگ دیکھی، جو برف سے بھی زیادہ سفید تھی۔ محمد تقی اسے چاٹ رہے تھے اور ہاتھ باپ کے سینہ پر رکھے ہیں۔ پیراہن کے اندرپھیر رہے ہیں اور کوئی چیز چڑیا کی طرح نکالی اور دیکھتے دیکھتے حضرت امام رضا واصل بحق ہوگئے۔

امام محمد تقی نے فرمایا: اے بو الصلت اٹھو اور پانی لاؤ اور ایک تختہ لیتے آو۔ میں نے عرض کی نہ اس وقت پانی ہے نہ تختہ۔ آپ نے فرمایا: ہے۔ میں اٹھا، پانی بھی مل گیا۔ یہ پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا اور صندلی لکڑی کا ایک تختہ بھی پڑا تھا جس سے میرا دماغ معطّر ہوگیا۔ اٹھا کر لے آیا آپ نے اپنے پدر بزرگوار کو غسل دیا۔ میں نے چاہا کہ مدد کروں مگر آپ نے فرمایا میرے ساتھ کچھ لوگ ہیں جو مدد کررہے ہیں، تمہاری ضرورت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اندر جاؤ، ایک صندوق پڑا ہے اس میں کفن پڑا ہوگا۔ میں باہر گیا تو صندوق معہ کفن لے آیا چنانچہ اسی کفن میں تکفین کی گئی اور نمازِ جنازہ اداکی۔ پھر مجھے فرمایا کہ تابُوت لے آؤ۔ میں نے عرض کی۔ اگر حکم ہو تو کسی ترکھان کو لے آؤں تاکہ تابوت تیار کرلے۔ پھر فرمایا کہ توشہ خانہ میں جاؤ۔ وہاں تابُوت پڑا ہے میں گیا تو وہاں تابوت پڑا تھا۔ ایسا تابوت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں اٹھا کر لے آیا۔ آپ کی نعش پاک کو تابوت میں رکھ دیا گیا اور پھر نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ ابھی نماز جنازہ مکمل نہیں ہوئی تھی کہ توبوت اپنی جگہ اُٹھا اور چھت کو پھاڑتا ہُوا آسمان کو اُڑگیا اور نظروں سے غائب ہوگیا۔ میں نے کہا اے ابن رسول ! مامون ابھی آرہا ہوگا۔ اگر اسے تابوت نہ ملا تو کیا کہے گا۔ آپ نے فرمایا: خاموش رہو، تابوت ابھی واپس آجائے گا۔ ایک گھنٹے کے بعد تابوت واپس آگیا اور اسی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر نعش کو تابوت سے نکال کر بستر پر لٹا دیا۔ اور کفن ساری چیزیں میری نظر سے غائب ہوگئیں۔ نعش یُوں دکھائی دینے لگی کہ اسے ابھی تک غسل بھی نہیں دیا گیا۔ پھر کہا کہ اٹھو اور دروازہ کھول دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو مامون اپنے غلاموں کے ساتھ اندر داخل ہوا اور مکروفریب سے رونے لگا اور امامِ وقت کے تجہیزو تکفین کی تیاری شروع کردی۔ جس جگہ پہلےقبر کھودی گئی ایک سخت چٹان آئی۔ پوری کوشش کے باوجود بھی وہ چٹان ٹوٹ نہ سکی۔ وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ قبر کھودی گئی میں آنحضرت کی وصیّت کی مطابق اسی قبر پر حاضر رہا۔ جب لحد تیار ہوئی تو قبر کے سرہانے سے پانی کی نمی ظاہر ہونے لگی۔ میں نے وہ کلمات جو مجھے پڑھائے گئے تھے، پڑھے تو زمین سے پانی ابلنے لگا۔ لحد پُر ہوگئی۔ اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں نظر آنے لگیں میں نے روٹی کے ٹکڑے ان کے سامنے پھینکنا شروع کردیے وہ کھانے لگیں پھر ایک بڑی مچھلی نمودار ہوئی اور ان ساری مچھلیوں کو کھاگئی اور پھر خو بخود غائب ہوگئی پھر میں نے وہی کلمات پڑھے تو پانی زمین میں دھنس گیا اور لحد کی زمین خشک ہوگئی گویا یہاں پانی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔

یہ واقعہ دیکھتے ہی مامون کہنے لگا: علی رضا اپنی زندگی میں بعض عجائبات دکھایا کرتے تھے۔ آج موت کے بعد بھی وہی عجائبات نظر آرہے ہیں۔ ایک شخص جو محب اہل بیت تھا کہنے لگا یہ اس بات کی علامت ہے کہ عباسی حکومت کا اسی طرح خاتمہ ہوجائے گا جس طرح ان چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کا ہوا ہے اور وہ دنیا کے تھوڑے پانی میں مغرور ہیں۔ کوئی ایسا آدمی اس بڑی مچھلی کی طرح نمودار ہوگا جو اس سلطنت کو تباہ کردے گا اور پھر نہ چھوٹی مچھلی رہے گی نہ بڑی۔ صرف اللہ کی ذات باقی رہے گی۔ مامون نے کہا: تم سچ کہتے ہو۔ چنانچہ حضرت امام کو اسی قبر میں دفن کیا گیا۔

آپ کا مزار ولایت طوس قرب سنایا میں واقع ہے۔ آپ ۹؍ رمضان المبارک ۲۰۸ھ کو فوت ہوئے۔ بعض تذکروں میں ۹؍ ماہ صفر ۲۰۳ھ اور ۲۰۵ھ اور ۲۰۶ھ بھی تحریر ہے۔

آں امام علی رضا موسیٰ
طالب عالی است تولید ش
۱۵۲ھ
    
قرہُ دیدۂ نبی و علی!
رحلتش گو امام دین نبی!
۲۰۱ھ

-------------------------------------

نام علی، کنیت ابو الحسن، لقب صابِر، ولی، زکی، رضا، بروز پنجشنبہ ۱۱؍ ربیع الآخر ۱۵۳ھ کو امّ ولد حضرت تحمینہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے بمقام مدینہ طیبہ پیدا ہوئے۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]

جملہ صفات میں مثل آبائے کرام رضی اللہ عنہ تھے، جب شکم والدہ میں تھے تو مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا کو کوئی ثِقل معلوم نہ ہوتا تھا، اور شکم سے تسبیح و تہلیل کی آواز سنتی تھیں۔

بڑے عالم وحید العصر فرید الدّھر تھے، ابراہیم بن عباس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے اِن سے زیادہ کوئی عالم نہیں دیکھا، خلیفہ مامون الرشید اِن سے اکثر امتحانًا سوال کیا کرتا اور یہ جوابِ شافی دیا کرتے، جب کوئی سوال کرتا، تو آیتِ قرآن سے اُس کو جواب دیتے، قلیل النوم و کثیر الصّوم تھے، ہر ماہ میں تین روزے کبھی اِن سے ترک نہیں ہوئے اکثر اندہیری راتوں میں خیرات کرتے، جب خلوت میں ہوتے فقیرانہ لباس پہنتے، جب دربار شاہی میں جاتے لباسِ فاخرہ زیبِ بدن فرماتے، خاکساری اور منکسر  مزاجی اِس درجہ تھی کہ موسمِ گرما میں چٹائی پر اور موسمِ سرما میں ٹاٹ یا کمّل پر بیٹھا کرتے غلاموں کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔

صواعقِ محرقہ میں ہے کہ یہ سب سادات سے ذکر میں روشن تر اور قدر میں سب سے برتر تھے اِسی واسطے خلیفہ مامون نے اِن کو اپنے سینہ میں جگہ دی، اور اپنی لڑکی سے اِن کا نکاح کیا اور خلافت کا ولی عہد کیا۔

شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر اولیا اِن کے دروازہ کی دربانی کرتے رہے، اور اِن کے وسیلہ سے خدا کو پہنچے۔

صاحبِ کشف الظنون نے لکھا ہے کہ مسندِ اہلِ البیت اِن کی تالیف سے ہے۔

بروز جمعہ ۱۹؍ صفر ۲۰۳ھ کو انتقال فرمایا، اور مشہد مقدّس میں مدفون ہوئے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]

ان کے پانچ صاحبزادے ہوئے۔

۱۔ امام محمد تقی رضی اللہ عنہ۔ ۲۔ حسن رضی اللہ عنہ۔ ۳۔ حسین رضی اللہ عنہ۔ ۴۔ جعفر رضی اللہ عنہ۔ ۵۔ ابراہیم رضی اللہ عنہ۔

اِن میں سے صرف امام محمد تقی رضی اللہ عنہ کی اولاد باقی ہے۔

(شریف التواریخ)

تجویزوآراء