حضرت امام علی رضا
حضرتِ سیِّدُنا امام علی رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرتِ سیِّدُناامام علی رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادتِ مبارکہ ۱۵۳ھ میں مدینہ منوّرہ میں ہوئی ۔ آپ کا نامِ مبارک علی اور کنیت سامی، ابوالحسن اور ابومحمد اور القابات صابر،ولی ،ذکی، ضامن ،مرتضیٰ اورسب سے مشہور لقب رضا ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرتِسیِّدُناامام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نورُ العین ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت ہی ذہین وفطین اور اعلیٰ درجے کے عالم وفاضل تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو رب کریم نے فہمِ قراٰن کی عظیم دولت سے ایسا نوازاتھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اکثرسوالات کے جوابات آیاتِ قراٰنی سے دیا کرتے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہر ماہ تین دن اہتمام کے ساتھ روزے رکھا کرتے ۔اس قدر عاجزی پسند تھے کہ غلاموں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی انفرادی کوشش نے بے شمار کفارکودامنِ اسلام سے وابستہ کیا ۔مشہور بزرگ حضرت سیدنا معروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہہی کی دعوتِ اسلام پر مسلمان ہوئے اور آسمان ولایت کے روشن ستارے بن کر چمکے ۔ امام علی رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو انگوروں میں زہر ملا کر دیا گیا جس سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۲۱ رمضان المبارک ۲۰۳ھ 55برس کی عمر میں شہادت سے سرفراز ہوئے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار شریف مشہد مقدس (ایران) میں ہے ۔
کرامت۔۔۔تیز ہوا نے تعظیم پیش کی
جب مامون نے اپنے بعد کا ولئ عہد امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا تو مامون کے دائیں بائیں بیٹھنے والوں میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں یہ نامزدگی اچھی نہ لگی اور انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ خلافت بنو عباس سے ختم ہوجائے گی اور بنو فاطمہ میں چلی جائے گی ۔ اس سوچ کی وجہ سے ان میں حضرت سیِّدُنا علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نفرت پیدا ہو گئی ۔ حضرت سیِّدُنا علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ جب مامون کے گھر ملاقات کے لئے تشریف لاتے تو وہ نوکر چاکر جو دربان ہوتے یا پردہ ہٹانے کی ذمہ داری ان کے سپرد ہوتی یہ سب اور دوسرے خادمین آپ کا استقبال کرتے اور سلام عرض کرتے پھر پردہ ہٹاتے تاکہ آپ اندر تشریف لا سکیں ۔ جب ان لوگوں کو آپ سے نفرت ہو گئی اور اس فیصلہ کے بارے میں پریشان ہو گئے تو آپس میں انہوں نے مشورہ کیاکہ اب جب حضرت سیِّدُنا علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ "" مامون "" سے ملنے آئیں ہم ان سے منہ موڑ لیں گے اور دروازوں کے پردے نہیں اٹھائیں گے ۔ اس پر سب متفق ہو گئے ابھی وہ یہ مشورہ کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ تشریف لائے اور اپنی عادت کے مطابق ملاقات کرنے اندر آنے لگے تو ان لوگوں کو اپنے مشورہ پر عمل کرنے کی ہمت نہ پڑی چنانچہ سب کھڑے ہوئے استقبال کیا اور دروازوں کے پردے بھی پہلے کی طرح اٹھائے جب آپ اندر تشریف لے گئے تووہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے تم نے اپنے منصوبہ اور مشورہ پر عمل نہیں کیا ۔ پھر یہ طے پایا کہ اب جو ہو گیا سو ہو گیا آئندہ اگر آئے تو پھر لازماً ہم اپنے مشورہ پر عمل کریں گے ۔ جب دوسرے دن آپ حسبِ عادت تشریف لائے اب کی باری یہ کھڑے تو ہو گئے سلام بھی کیا لیکن پردے نہ اٹھائے ، فوراً تیز ہوا چلی اس نے پردوں کو اٹھا دیا اور آپ اندر تشریف لے گئے پھر باہر نکلتے وقت بھی تیز ہوا نے آپ کی خاطر پردے اٹھا دیئے ۔ اب یہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے اور کہنے لگے "" اس شخص کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا مرتبہ ہے اور اس کی ان پر بڑی مہربانی ہے،دیکھو کہ ہوا کیسے آئی اور ان کے اندر آتے وقت اس نے کس طرح پردوں کو اٹھا دیا لہٰذا چھوڑو اپنے مشورہ کو اور دوبارہ اپنی اپنی ڈیوٹی دو ۔""(جامع کرامات اولیاء،ج۲،ص۳۱۲)
آں محبوب و حبیب الرحمٰن جملہ موحدان، فانی ورذات مولیٰ امام ابو الحسن علی بن موسیٰ رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ ائمہ اہل بیت میں سے آٹھویں امام ہیں۔
آپکی والدہ ماجدہ کااسم گرامی نکتم تھا۔ شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ وہ یعنی نکتم حضرت بی بی حمیدہ کی کنیز تھیں۔ حضرت بیبی حمیدہ نے جو امام موسیٰ رضا کی والدہ تھیں ایک رات رسول خداﷺ کو خواب میں دیکھا آپ نے فرمایا کہ اس کنیز کو اپنے بیٹے موسیٰ رجا کو بخش دو اس کے بطن سے جلدی ایک فرزند پیدا ہوگا جو بہترین خلائق ہوگا۔ بی بی نکتم کابیان ہے کہ جب امام علی رضا میرے بطن میں آنے تو مجھے حمل کا بوجھ بالکل محسوس نہ ہوتا تھا۔ اور نیند میں مجھے تسبیح وتہلیل کی آواز سنائی دیتی تھی۔
ولادت با سعادت
آپ کی ولادت بروز جمعہ گیارہ ذوالحج ۱۴۸ھ مدینہ منورہ میں واقع ہوئی ایک روایت کے مطابق ۱۵۳ھ میں ہوئی ہے۔ آپ کا اسم مبارک علی تھا۔ کنیت ابو الحسن اور ابو محمد تھی۔ اور آپ کے القاب رضا، مرتضیٰ ضامن، اور صابر وغیرہ بہت تھے۔ آپ کی والدہ ماجد کے بعد آپ مسند امامت پر متمکن ہوئے۔ آپ نے حق حقائق و معارف اور کرامات کا اظہار فرمایا اہل بیت میں سے بہت کم کسی سے ظاہر ہوئے ہوں گے مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ آپ کی کرامات میں سے ایک کرامت حضرت شیخ معروف کرخی کا مسلمان ہونا ہے۔ حضرت شیخ معروف کرخی نے آپ کے ہاتھ پر اسلام لاکر مدت دراز تک آپ کے در پر دربانی کے فرائض انجام دیئے انہوں نے حضرت امام صاحب سے فیض تربیت حاسل کیا اور خلافت سے سر فراز ہوئے اس کے بعد آپکے حکم سے شیخ معروف کرخی موضع کرخ میں جو بغداد کے مضاقات میں ہے رہ کر مسند شدہ ہدایت پر متمکن ہوئے۔ حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ مشائخ وقت کے مسند اور پیشوا ہوئے۔ حضرت معروف کرخی سے سات خانوادہائے طریقت جاسمی ہوئے یہ تمام سلاسل آپ کے ذریعے حضرت امام علی تک پہنچ کر حضرت علی کرم اللہ سجہہ پر ختم ہوتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت خواجہ داؤد طانی نے جو حضرت خواجہ حبیب عجمی کے مرید اور خلیفہ تھے ایک خرقہ خلافت حضرت معروف کرخی کو بھی عطا فرمایا۔
خواب کی تعبیر
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ اہل نتاج میں سے ایک بزرگ کا بیان ہے کہ ایک دن میں نے خواب میں آنحضرتﷺ کو خواب میں مسجد نتاج میں جہاں حاجی لوگ جمع ہوتے ہیں بیٹھے دیکھا۔ آپ کے سامنے کھجور کا خوانچہ پڑا ہے آپ نے اس میں سے سترہ کھجور اٹھاکر مجھے عنایت فرمائے۔ میں نے اسکی تعبیروں کی کہہر دانہ خرما کے بدلے ایک سال زندہ رہوں گا۔ بیعت کے دن میں نے سنا کہ امام علی رضا اس مسجد میں اترے ہیں۔ یہ سن کر میں فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اسی جگہ تشریف رکھتے ہیں جہاں خواب میں رسول اللہﷺ تشریف رکھتے تھے اور ااسی طرح آپ کے سامنے کھجور کا خوانچہ پڑا ہے۔ میں نے جاتے ہی سلام عرض کیا کہ اے ابن رسول اللہ (ﷺ) اس سے پہلے میں خرما کے دانے لے چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ جب آنحضرتﷺ نے عطا فرمائے تو میں بھی دیتا ہوں۔
چڑیا کا ہمکلام ہونا!
شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک دن میں امام علی رضا کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک ایک چڑیا نے آکر اپنے آپ کو امام صاحب کے سامنے ڈال دیا۔ وہ آواز نکال رہی تھی اور اضطراب میں تھی۔ امام صاحب نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ چڑیا کیا کہہ رہی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ، اس کا رسولﷺ اور ابن رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ کہتی ہے کہ میرے گھونسلے میں سانپ داخل ہوگیا اور میرے بچوں کو کھانا چاہتا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اٹھو اور اس کے گھونسلے میں سانپ کو ماردو۔ میں نےاٹھ کر دیکھا تو واقعی سانپ گھونسلے کے گرد چکر کاٹ رہا تھا میں نے اسے مارڈالا۔
آپ کا سندھی زبان میں کلام فرمانا اور ایک لمحہ میں عربی سکھانا
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابو اسماعیل سندھی نے امام صاحب کی خدمت یں آکر سندھی زبان مین سلام عرض کیا۔ آپنے اسے اسی زبان میں جواب دیا۔ اس کے بعد اس نے امام صاحب سے اپنی زبان میں سوالات کیے اور آپ نے اسی زبان میں جواب دیئے اس کے بعد اس نے عرض کیا کہ میں عربی زبان نہیں جانتا دعا فرمانویں کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر عربی آسان کردے۔ امام صاحب نے اپنا ہاتھ مبارک اس کے لبوں پر لگایا جس کی برکت سے وہ فوراً عربی بولنے لگا۔ ابو صلت کہتے ہیں کہ جس ملک سے کوئی شخص آتا تھا آپ اسی زبان میں اس سے کلام فرماتے تھے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ فصیح زبان بولتے تھے۔ آپ کےسامنے نابینا بینا ہوجاتے تھے اور رص لبیی امراض ایک ساعت میں ختم ہوجاتی تھیں۔
اس لباب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ مری بیوی حاملہ تھی۔ میں نے امام صاحب کی خدمت میں جاکر عرض کیا کہ دعا فرمانویں خدا تعالیٰ فرزند عطا فرمادے آپ نے فرمایا تمہاری بیوی کے بطن میں دو بچے ہیں۔ جب میں واپس جانے لگا تو دل میں خیال آیا کہ ایک کا نام محمد رکھوں گا اور دوسرے کا نام علی آپ نے مجھے آواز دے کر فرمایا کہ ایک کا نام علی رکھو اور دوسری کا نام امِ عمرو۔ جب وہ بچے پیدا ہوئے تو ایک لڑکا تھا۔ دوسری لڑکی۔ چنانچہ میں نے ایک کا نام علی رکھا دوسری کا نام امّ عمر ایک دن میں نے اپنی ماں سے دریافت کیا کہ ام عمر کیا نام ہے اس نے جواب دیا کہ میری والدہ کا نام ام عمر تھا اس نے یہ بھی کہا ہےکہ ایک دن میں امام صاحب کی خدمت میں چند مسائل دریافت کرنے کے خاطر حاضر ہوا۔ وہاں اس وقت لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ میں ان کے پاس پہنچ سکا چہ جائیکہ کہ سوال کرتا۔ چنانچہ میں متحر کھڑا تھا کہ اچانک ایک غلام نے اندر سے آکر مجھے ایک کاغذ دیا اور کہا کے اے فلاں یہ تمہارے سوالوں کا جواب ہے جب میں غور کیا تو میرے انہی سوالات کا جواب تھا۔
مامون الرشید کی عقیدت مندی اور انحراف اور قتل
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ جب امام موصوف کے کشف و کرامات کا اس قدر اظہا ر ہوا تو خلیفہ مامون بن ہارون کے دل میں ان کے حق میں اعتقاد پیدا ہوا اور کہنے لگا کہ خلافت آپ کا ھق ہے میں آپ کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔ لیکن امام صاحب راضی نہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے۔ لیکن کافی گفت و شنید کے بعد اس نے امام موصوف کو اپنا ولی عہد مقرر کردیا کہ میرے بعد آپ خلیفہ ہوں گے۔ آپنے فرمایا کہ اس امر کے متعلق جفر جامع خبر نہیں دیتا کہ صحیح ہوگا۔ چنانچہ وہی ہوا۔ مامون خلیفہ نے عباسیوں کی سازش سے امام صاحب کو زہر دے دی۔ چنانچہ حضرت شیخ علاؤالدولہ سمنانی قدس سرہٗ اپنی کتاب چہل مجالس میں فرماتے ہیں کہ جب امام علی رضا مامون کی درخواست پر باغ میں تشریف لے گئےاور خلیفہ کےہاتھ سے چند انگور کے زہر آلود دانے کھائے اور جانتے تھے کہ زہر آلودہ ہیں تو اسی روز آپ کا وصال ہوگیا۔ اس وقت آپ کے فرزند محمد تقی جن کی عمر سات سال تھی بغداد میں تھے آپ نے آن کی آن میں اسے طوس پہنچا دیا اور وصیت فرمائی کہ فلاں جگہ کو کھودنا وہاں سے ایک پتھر بر آمد ہوگا کہ جس پر کچھ لکھا ہوگا مجھے اس پتھر کے نیچے دفن کرنا۔ اس کے بعد فرمایا کہ جب تم بلوغت کو پہنچو میں نے فلاں درخت کے نیچے ایک امانت رکھی ہے وہاں جاکر اس کو باہر نکالنا۔ وہ امانت کتاب جعفر جامع ہے جو امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے لکھی تھی اس کے اندر غیب کے رموز در ج ہیں اور اس کتاب کو کوئی شخص نہیں پائے گا سوائے اس کے جو امام ہے اور یہ بھی لازم نہیں کہ امام ہر وقت حاضر ہوا اور وہ کتاب درجہ بدرجہ امیر المومنین علی رضی اللہ نہ کے فرزندوں کو پہنچتی تہے گی۔ اور امام حسینی کے سو کوئی نہ ہوگا۔ اور اس وقت وہ کتاب اور چند اور چیزیں جو انبیاء علیہم سے ملی ہیں پوشیدہ ہیں۔ جب امام مہدی ظاہر ہوں گے ان کو مل جائیں گی۔ ختم ہوا۔
شیخ علاؤ الدولہ سمنانی کا بیان ۴امام موصوف کے کرامات اس قدر ہیں کہ اس مختصر کتاب میں بیان نہیں ہو سکتے۔
مراۃ الاسرار میں کتاب منتخب التواریخ سے نقل درج کی گئی ہے کہ امام موصوف کا وصال ماہ صفر کے آخر ۲۰۳ھ میں ہوا۔ آپ کا مزار مبارک طوس میں ہے جو آج کل مشہس کے نام سے مشہور ہے۔ مراۃ الاسرار میں کتاب حبیب السیر سے منقول ہے کہ امام موصوف کی وفاتکے متعلق دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کا وصال ماہ رمضان سن مذکور میں ہوا۔ اور وہ خلیفہ مامون کا عہد حکومت تھا۔ دوسرا قول یہ ہےکہ آپ کا وصال ۲۰۸ھ میں ہوا۔ امام برح کے پانچ فرزند اور ایک دختر ایک روایت کے مطابق چار فرزند اور ایک دختر۔ ایک اور روایت میں ہےکہ سوائے امام تقی کے آپ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد
(اقتباس الانوار)