حضرت سیدنا امام محمد باقر

 

۳ صفر المظفر ۵۷؁ھ /۶۷۶ء      ۷ ذی الحجۃ ۱۱۴؁ھ

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَعَلَی الْمَولی السَّیِدِ الْامَامِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ نِ الْبَاقِرِ رَضِی اَللہ تعالیٰ عنھما

سید سجاد کے صدقہ میں ساجد رکھ مجھے

علم حق دے باقر علم ہدیٰ  کے واسطے

ولادت باسعادت:

آپ مدینہ منورہ میں واقعہ کربلا کے تین برس قبل بروز جمعہ بتاریخ ۳ صفر المظفر ۵۷ھ میں پیدا ہوئے۔

اسم مبارک و کنیت:

        آپ کا نام مبارک محمد کنیت ابو جعفر و مبارک اور لقب سامی، باقر، شاکر اور ہادی ہے[1]۔

آپ کے اساتذہ کرام:

                آپ حدیث میں اپنے والد ماجد سیدنا علی بن الحسین و ابن عباس و جابر بن عبداللہ و ابو سعید خدری و حضرت بی بی عائشہ و بی بی سلمہ و غرھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے محبوب تلامذہ میں سے ہیں[2]۔

والدہ ماجدہ:

آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بیب فاطمہ جن کو ام عبداللہ بھی کہتے ہیں (دختر نیک اختر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تھیں۔

سرور انبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بشارت

حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت جابر بن عبداللہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کو گیا۔ اس وقت وہ کپڑا اوڑھے ہوئے تھے۔ میں نےسلام کیا انہوں نے جواب دیا پھر پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے کہا محمد بن علی بن حسین بن علی ہوں۔ تو وہ میرے ہاتھ چومے اور کہا اے فرزند رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مبارک ہو تم کو سلام پیغمبر علیہ السلام کا میں نے کہا اسلام علیٰ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بعدہٗ میں نے قصہ پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ملاقات کرے گا میرے ایک فرزند سے کہ نام اس کا محمد ہوگا ان سے میرا سلام کہنا [3]

حلیہ شریف:

آپ کے قد میانہ اور رنگ گندم گون تھا۔ اور صورت و سیرت میں آپ مثل اپنے آبائے کرام کے تھے[4]۔

باقر کی وجہ تسمیہ:

صواعق محرقہ میں ہے کہ باقر بقرالارض ہے مشتق ہے اور بقرۃ الارض کے معنیٰ ہیں زمین کو پھاڑ کر اس کی مخفیات کو نکال کر ظاہر کرنے والا تو آپ نے مخفیاتِ کنز معارف و حقائق واشکال و لطائف کو ظاہر فرمایااسی وجہ سے آپ کو باقر کہا گیا[5]۔

فضائل:

حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ کے پانچوں امام ہیں۔ آپ طریقت میں دلیل ارباب مشاہد کے برہان، امام اولاد برگزیدۂ نسلِ علی ہیں۔ کتاب الٰہی کے بیان کرتے وقت علوم کی باریکیاں اور لطیف اشارات کو واضح کرنے میں مخصوص تھے۔ آپ کی کرامتیں مشہور اور روشن نشانیاں تابندۂ دلائل سے معروف ہیں۔ صاحب ارشاد کا قول ہے کہ جس قدر علم دین اور سنن، علم قرآن و سیر اور فنون ادب وغیرہ آپ سے ظاہر ہوئے وہ کسی سے ظاہر نہیں ہوئے۔ تذکرۃ الخواص الامہ میں حضرت قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ نےحضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں! میں نے ملاقات کی ہے۔ اور ان سے ایک مسئلہ دریافت کیا جس کا جواب اتنا شاندار عطافرمایا کہ اس سے شاندار جواب میں نے کسی سے نہ سنا نہ دیکھا۔

علمائے عصر نے بعض آیات بنیات کے معانی و مطالب آپ سے امتحاناً دریافت کئے تو آپ نے ایسے جواب شافی دے کہ سوائے تسلیم کے چارہ نہ رہا۔ ایک بار مقام عرفات میں تیس ہزار سوالات مختلف مسائل کے آپ سے کئے گئے۔ آپ نے تمام مشکل مسائل کے ایسے شافی جوابات عنایت فرمائے کہ تمام آپ کے فضائل و کمالات کے معترف ہوگئے۔ عطا کہتے ہیں کہ میں علمائے کرام کو ازروئے علم کے کسی کے پاس اس قدر اپنے کو چھوٹا سمجھتے ہوئے نہیں دیکھا جیسا کہ آپ کے روبرو۔ ابن شہاب زہری جنہوں نے سب سے پہلے حدیث کی تدوین کی ہے آپ کو حدیث ثقہ لکھتے ہیں۔ امام نسائی نے اہل مدینہ کے فقہائے تابعین میں آپ کا ذکر کیا ہے۔ ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں کہ آپ تابعین اہل مدینہ کے تیسرے طبقہ میں سے ہیں۔ اور آپ کے واسطے اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ حضور عالم ماکان ومایکون صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس وقت آپ کی ولادت کی پیشنگوئی فرمایا جب کہ آپ کی ولادت بھی نہ ہوئی تھی اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کو سلام کا حکم فرمایا[6] ۔

عادات و صفات:

                آپ بڑے عابد و زاہد، خاشع، خاضع، پاک طنیت اور بزرگ نفس تھے اپنے تمام اوقات کو عبادت و طاعت الٰہی سے معمور رکھتے تھے اور آپ کو عارفوں کی سیرو ماقات میں اس قدر رسوخ تھا کہ زبان اس کی صفت سے قاصر ہے۔ آپ کے صاحبزارے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد اکثر آدھی رات گذر جانے کے بعد رویا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نہایت عاجزی سے فرماتے۔ اَمَرْتَنِیْ فَلَمْ اَئْتَمِرْ نَہَیْتَنِیْ فَلَمْ اَزْتَجْرِفَھَا اَنَا عَبْدُکَ بَیْنَ یَدَیْکَ مُقِرٌّ لَا اَعْتَذِرُ۔ یعنی اے میرے پروردگا تو نے مجھے نیک کاموں کا حکم دیا مگر میں نے اس پر عمل نہیں کیا اور تونے مجھے برے کاموں سے دور رہنے کو فرمایا مگر میں باز نہ آیا۔ پس میں تیرا عاجز بندہ تیرے حضرت میں اپنے فردگذاشت و گناہوں کا اقرار کرنے والا کھڑا ہے اور کوئی عذر نہیں رکھتا [7]۔

خشیت الٰہی:

آپ بڑے عابد و زاہد اور انتہائی مستجاب الدعوات تھے۔ افلح آپ کے مولا کہتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر بن علی زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک مرتبہ حج کےلیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور میں بھی ہمراہ تھا۔ آپ جب مسجد حرام میں داخل ہوئے تو بیت اللہ شریف کو دیکھتے ہی اتنے زور سے روئے کہ چیخیں نکلنے لگیں۔ میں نے کہا حضور اس قدر زور سے نہ چیخیں کیونکہ تمام لوگوں کی نظریں آپ کی طرف مرکوز ہوگئیں ہیں تو آپ نے فرمایا فَقَالَ لِمَالَا اَبْکِیْ لَعَلَّ اللہَ تَعَالیٰ یَنْظُرُ اِلَیَّ بِرَحْمَتِہٖ فَاَفُوْزَ بِھَا عِنْدَہٗ غَدًا ثُمَّ طَافَ بِالْبَیتِ وَصَلّٰی خَلْفَ الْاِمَامِ وَرَفَعَ رَأسَہٗ مِنَ السُّجَوْدِ فَاِذَا مَوْضَعُ سُجُوْدِہٖ مُبْتَلٌّ بِدمُوْعِ عَیْنِہٖ توفرمایا کہ میں کیوں نہ روؤں؟ شاید اللہ تعالیٰ میرے رونے کی وجہ سے مجھ پر رحمت کی نظر فرمائے اور میں کل قیامت کے دن اس کے نزدیک کامیاب ہوجاؤں ۔ پھر آپ نے طواف کیا اور مقام ابراہیم پر نماز پڑھی اور جب سجدہ کرکے سر اٹھایا تو سجدہ کی جگہ آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی[8]۔  

مناجات باقر:

آپ کے خاص عقیدت مندوں میں سے ایک روایت کرتے ہیں کہ جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا اور آپ اپنے وظائف واوراد سے فارغ ہوجاتے تو اونچی آوازیں میں مناجات شروع کردیتے اور کہتے:

                "اے میرے اللہ ! اے میرے مولیٰ رات آگئی اور دنیا کے تمام حکمرانوں کا تصرف ختم ہوگیا۔ آسمان پر ستارے نکل آئے ۔ دنیا محو خواب ہوکر گویاناپید ہوگئی۔ لوگوں کا شوروغل سکوت میں بدل گیا۔ آنکھیں نیند سے بند ہونے لگیں تو لوگ بنی امیہ کے دروازوں سے بھاگنے لگے اور اپنی خواہشات کو ساتھ لیے واپس ہوئےلیکن اے میرے اللہ تو زندہ و پائندہ ہے۔ تجھے سب کچھ معلوم ہے۔ تو سب کچھ دیکھتا ہے۔ غنودگی اور نیند تجھ پر روا  نہیں۔ اور جو شخص ان صفات کے باوجود تجھے پہچاننے سے قاصر ہو وہ کسی نعمت کے قابل نہیں۔ اے وہ ذاتِ یکتا کہ کوئی چیز تجھے کسی بھی کام سے روک نہیں سکتی۔ اور دن رات کو تیری بقا میں خلل انداز ہونے کی مجال نہیں۔ تیری رحمت کے دروازے اس شخص پر کھلے ہیں جو تیرے حضور میں دعا کرتا ہے۔ اور تیری رحمت کے خزانے اس پر نچھاور ہیں جو تیری حمد وثنا کرے۔ تو وہ مالک و مولا ہےکہ کسی سوالی کو رد کرنا تیری شایانِ شان نہیں۔ جو مومن تیری بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے دنیا میں اسے باز رکھنے والا کون ہے۔ انسان تو کیا زمین و آسمان بھی اسے روکنےکی طاقت نہیں رکھتے اے میرے خدا جب میرے موت، قبر اور یوم حساب کو یاد کرتا ہوں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس دنیائے فانی کو دل کی شادمانی کا ذریعہ تصور کروں۔ اعمال نامے کا تصور دنیا کی کسی بھی دلچشپی میں کیوں کر محورہنے کی مہلت دے سکتا ہے۔ فرشتۂ موت کو یاد رکھوں تو دل کو دنیا سے کس طرح لگاسکتا ہوں۔ کیونکہ تیرے سوا کسی کوپکارتا نہیں ہوں اور تجھ سے میری یہی التجا ہے کہ مجھے وہ موت عطا کر جس میں عذاب نہ ہو اور حساب کے وقت وہ عیش مرحمت فرما کہ جس میں عقوبت و سزا نہ ہو"

آپ یہ سب کچھ کہتے اور روتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک رات میں نے ان سے کہا: اے سیداور میرے ماں کے باپ کے آقا کہاں تک روئیں تھے اور کب تک فریاد و نالہ میں مصروف رہیں گے؟ جواب میں کہنے لگے اے دوست! حضرت یعقوب علیہ السلام ایک بیٹے کے فراق میں اس قدر روئے کہ آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھے اور آنکھیں سفید ہوگئی۔ اور میں تو اٹھارہ عزیزوں کو گم کر کے بیٹھا ہو ں جن میں میرے پدر بزرگوار یعنی سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر شہدائے کربلا شامل ہیں پھر کیوں کر آہ و زاری میں، میں تخفیف کروں[9]۔

کرامات:

پاگل و مجنون کا علاج:

علمائے شریعت و عرفان طریقت دونوں گروہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ اولیائے محدثین و عارفین میں نہایت بابرکت اور سراپا کرامت بزرگ ہیں۔ چنانچہ حدیث کی جس سند میں آپ کا اور آپ کے فرزند اور آپ کے والد ماجد بزرگوار کا ذکر ہے۔ یعنی جعفرن الصادق عن ابیہ محمد ن الباقر عن بیہ علی بن الحسین عن ابیہ الحسین بن علی عن ابیہ علی بن  ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم محدثین کا اس سند کے بارے میں یہ قول ہے کہ اگر یہ سند کسی مجنون، پاگل پر پڑھ کر دم کی جائے تو وہ شفایاب ہوکر صاحب عقل و فہم ہوجائےگا[10]۔

اندھے کو بینا کردیا:

ابو بصیر کا بیان ہے کہ میں نے ایک روز حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ کیا آپ وارث رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! میں نے عرض کیا رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جمیع انبیاء علیہم السلام کے وارث تھے؟ فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا آپ بھی وارث جمیع علوم آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں؟ فرمایا تحقیق کہ ایسا ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ کیا آپ مردے کو زندہ، ابرص کو اچھا اور اندھے کو بینا کرسکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں میں کیا کھاتے کیا جمع کرتے ہیں؟ فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہم بھی کرسکتے ہیں۔ پھر فرمایا میرے نزدیک آؤ (ابو بصیر اس وقت نابینا تھے) میں جب آپ کے قریب گیا توآپ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا۔ تو دفعتاً میں آسمان، زمین اور پہاڑ کو دیکھنے لگا یہاں تک کہ میری آنکھ میں پوری بینائی آگئی۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کیا تو چاہتا ہے کہ اسی طرح دیکھتا رہے اور تیرا حساب و کتاب اللہ تعالیٰ پر رہے یا تو بدستور ہوجائے اور اس اندھے ہونے کے بدلے تجھے جنت ملے؟ میں نے عرض کیا کہ میں جنت چاہتا ہوں، تو آپ نے دوبارہ ہاتھ کو پھیرا تو میں جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا[11]۔

غیب پر آپ کی نظر:

                روایت ہے کہ ایک شخص کا بیان ہے کہ ہم لوگ قریب پچاس آدمی تھے جو حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے حضور میں حاضر تھے۔ اچانک ایک شخص کوفے سے آیا۔ جو خرمے کی تجارت کرتا ہے اور اس نے حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف رخ کرکے کہا کہ فلاں شخص کوفے میں ایسا گمان کرتا ہے کہ آپ کے ساتھ ایک ربانی فرشتہ ہے جو کافر کو مومن سے اور آپ کے دوستوں کو آپ کے دشمنوں سے جدا کردیتا ہے اور آپ کو اس کا شناسا کردیتا ہے؟ اس کی بات کو سن کر حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا کہ تیرا پیشہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں گیہوں بیچتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ اس نے کہا کہ کبھی کبھی جو بھی بیچ لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ایسا بھی نہیں ہے جس کا تم اقرار کررہے ہو بلکہ تیرا پیشہ چھوارے کے دانے کو بیچنا ہے اس شخص نے کہا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی؟ آپ نےفرمایا کہ ایک ربانی فرشتہ جو مجھے میرے دوست اور دشمن کی خبر دیتا ہے اور سن لے کہ تو فلاں بیماری سے مریگا۔ راوی کا بیان ہے کہ جب میں کوفہ پہنچا تو اس شخص کا حال پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کو انتقال کیے ہوئے آج تین دن ہوگئے۔ پھر بیماری کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت امام محمد زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس بیماری میں اس کی موت کی خبر دی تھی اسی مرض میں اس کی موت ہوئی[12]۔

ملک و دولت کی خوشخبری:

                حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے اور انہیں دنوں آپ کے والد ماجد حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات پائی تھی۔ داؤد ابن سلیمان اور منصور و وانقی مسجد نبوی میں آئے۔ داؤد تو حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب بیٹھے اور منصوردوانقی دوسری جگہ جا بیٹھے۔ حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ووانقی میرے سامنے کیوں نہیں آتا؟ داؤد نے کہا کہ حضور انہیں ایک عذر ہے۔ آ پ نے ارشاد فرمایا کہ وہ دن دور نہیں کہ ووانقی مخلوق خدا پر حکمراں ہوجائے گا۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہوگا۔ اور لمبی عمر پائے گا اور اتنے خزانے جمع کرے گا کہ اس سے پہلے کسی نے ایسا نہ کیا ہوگا۔ داؤد اٹھے اور یہ خوشخبری ووانقی سے بیان کیا اس کے بعد ووانقی آپ کے قریب آئے اور عرض کیا کہ حضور! مجھے آپ کے پاس آنے سے آپ کی عظمت و جلالت نے روکا تھا۔ پھر انہوں نے داؤد کے کہے ہوئے خوشخبر ی کے متعلق آپ سے دریافت کیا کہ یہ کیا بات میں سن رہا ہوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو تم نے سنا وہ سچ ہے اور ایسا ہی ہوگا۔ پھر منصور ووانقی نے پوچھا کہ ہماری حکومت کیا آپ کی حکومت سے پہلےہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں پہلے ہوگی۔ پھر اس نے سوال کیا  کہ کیا یہ حکومت مجھ ہی پر ختم ہوجائے گی یامیری اولاد کو بھی ملے گی؟ آپ نے فرمای اکہ ہاں تمہاری اولاد کو بھی حکومت ملے گی۔ پھر سوال کیا کہ ہماری حکومت دراز ہوگی یا بنی امیہ کی؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری مدت حکومت دراز ہوگی اورتمہارے لڑکے ملک کو حاصل کریں گے اوراسسے اس طرح کھیلیں گے جس طرح کے لڑکے گیند سےکھیلتے ہیں اور وہ کہیں گے کہ یہ وہ چیز ہے جو مجھے میرے والد سے پہنچی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا کہ منصور ووانقی کو قدرت نے حکومت دیا اور پانے ملک کی باگ ڈور جب سنبھالی تو لوگوں کو حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشن گوئی پر یقین کامل ہوا اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ویسا ہی ظہور پذیر ہوا[13]۔

پیشن گوئی:

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میرے والد گرامی ایک سال مجلس عام میں بیٹھے تھے کہ اپنے سر مبارک کو زمین کی طرف جھکایا اور پھر اٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا اے قوم! تمہارا کیا حال ہوگا جب ایک شخص تمہارے اس شہر میں چار ہزار افراد کے ساتھ آکر تین روز تک قتل و خونرزیزی کریگا اور تم ایسی بلا دیکھو گے جس کے دور کرنے کی تم میں طاقت نہ ہوگی اور یہ واقعہ سال آئندہ میں وقود پذیر ہوگا اس لئے تم اپنے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر کرلو۔ اور اس بات کو ہوش کے کانسے سن لو کہ جو کچھ میں نے تم سے کہا وہ ضرور ہوگا۔ اہل مدینہ نے آپ کی بات پر کچھ بھی التفات نہ کیا۔ اور کہا کہ ایسا واقعہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ جب وہ سال آیا حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے جملہ خاندان و جماعت بنی ہاشم کو ساتھ لےکر مدینہ سے کوچ کرگئے۔ آپ کےچلے جانے کے بعد نافع بن الارزق چار ہزار فوج لیکر مدینہ میں داخل ہوا اور تین روز تک اس نے مدینہ کو مباح کردیا اور بے حساب مخلوق خدا کو مارا اور جیسا کہ حضرت نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع پذیر ہوا[14]۔

حمیرہ نے کتاب المسائل میں تحریرفرمایا کہ زیدبن حازم نے کہامیں حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا اتنے میں انکے بھائی زید بن علی کا گذر ہوا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو یہ کوفے میں خروج کرے گا اور لڑیگا اور اس کا سر پھرایا جائےگا۔ چنانچہ جیسا کہ حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیشن گوئی فرمائی تھی ویسا ہی ہوا[15]۔

قتل کی سازش:

روایت ہے کہ ایک مرتبہ بادشاہ وقت نے آپ کو شہید کرنے کا ارادہ سے ایک شخص کی معرفت بلوایا۔ آپ اس شخص کے ہمراہ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے جب بادشاہ وقت کے قریب پہنچے تو وہ آپ سے معافی طلب کرنے لگا اور اظہار معذرت کرتے ہوئے تحائف پیش کیا اور بڑی ہی عزت و احترام کے ساتھ آپ کو واپس کیا۔ لوگوں نے بادشاہ وقت سے دریافت کیا کہ اے بادشاہ وقت تو انہیں قتل کی غرض سے بلوایا تھا لیکن ہم نے تو اس کے علاوہ سلوک تم کو ان کے ساتھ کرتے ہوئے دیکھا آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

بادشاہ نے جواب دیا کہ جب حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے قریب تشریف لائے تو میں نے دو بڑے غضبناک شیروں کو دیکھا جو ان کے دائیں بائیں کھڑے ہوئے تھے اور وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اگر تم حضرت کے ساتھ کوئی بھی گستاخی کی تو ہم تمہیں مار ڈالیں گے[16]۔

عمارت منہدم ہوجائے گی:

روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ دارالعمارت ہشام بن عبدالملک میں تشریف فرماتھے وہ عمارت بڑی ہی شان و شوکت سے بنی ہوئی تھی اس عمارت کو دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ عمارت توڑ دی جائے گی اور اس کی خاک بھی یہاں سے اٹھالی جائے گی۔ یہ سن کر لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا۔ مگر جب ہشام کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے ولید نے وہ عمارت کو مسمار کردیا اور جیسا کہ حضرت نے پیشن گوئی فرمائی تھی ویسا ہی ہوا[17]۔

اولاد کرام :

حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اولا د امجاد کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:

۱۔حضرت ابو عبداللہ                      ۲۔ حضرت امام جعفر صادق

۳۔ حضرت عبداللہ                                           ۴۔ حضرت ابراہیم

۵۔ حضرت عبداللہ                                           ۶۔ حضرت علی

۷۔ حضرت زینب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین [18]

ملفوظات:

حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت سے سرفراز فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اے بیٹے جب اللہ تعالیٰ تجھے کوئی نعمت دے تو اس پر الحمد اللہ کہو اور جب کوئی صدمہ پہنچے تو اس وقت لاحول ولا قوّۃالّا بالل العلی العظیم پڑھو اور جب رزق میں تنگی ہو تو استغفر اللہ پڑھو۔

ابو سعید منصور بن حسین رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب نشر الدرر میں لکھا ہے کہ امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے بیٹے اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کو تین چیزوں میں چھپا رکھی ہے اول اپنی رضا مندی کو اپنی فرمانبرداری میں اس لیے تو اس کے کسی فرمان کو حقیر نہ جانو شاید اس کی خوشی اسی میں ہو۔ دوم اپنے غصہ کو گناہ میں چھپایا ہے اس لیے تو کسی گناہ کو چھوٹا نہ سمجھو شاید اس کا غصہ اسی چھوٹے سے گناہ میں پوشیدہ ہو۔ سوم اپنے اولیا کو اپنی تمام مخلوق میں چھپایا ہے اس لیے تو کسی  شخص کو ذلیل نہ خیال کر شاید کہ وہ اللہ کا ولی ہو۔ آپ نے فرمایا کہ بجلی ایماندار اور بے ایمان دونوں پر گرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے پر نہیں گرتی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت رعد کی گرج سنو تو پڑھو سُبْحَانَ الَّذِیْ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰئِکَہُ مِنْ خِیْفَتِہٖ فرمایاکہ کوئی عبادت عفتِ بطن اور شرم گاہ سے افضل تر نہیں ہے۔ فرمایا کسل و ملامت سے اپنے آپ کو دور رکھ کیونکہ یہ دونوں ہر ایک برائیوں کی کنجی ہے۔ فرماتے ہیں کہ تو دنیا کو ایک منزل سمجھ کر وہاں اترے اور کوچ کئے یا وہ مال سمجھ جو خواب میں مل جاتا ہے اور بعد بیداری کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ فرماتے ہیں کہ جب ل میں خدا کا دین خالص داخل ہوتا ہے تو ماسوائے اللہ کو دل سے نکال دیتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایمان والےدنیا پر مطمئن نہیں ہوتے اس کے فانی ہونے کی وجہ سے اور آخرت سے بے پرواہ نہیں ہوتے بسبب اس کے ہول کے فرماتے ہیں تو اپنے دین میں جس کا للہ تعالیٰ نے تجھے نگہبان بنایا ہے اسی اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھ۔ فرماتے ہیں کہ فقر و غنا مومن کے دل میں پھرتے ہیں مگر جب توکل کا درجہ حاصل ہوتا ہے تو وہیں پکڑ لیتے ہیں۔

وقت وصال:

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد ماجد کے پاس تھا وصال کے وقت آپ نے غسل و تکفین و دفن اور دخول قبر کے متعلق چند وصایا فرمائے۔ میں نے کہا اے والد بزرگوار واللہ جب سے آپ بیمار ہوئے ہیں میں نے آج سے بہتر حالت میں کسی دن نہیں دیکھا اور میں فی الوقت موت کا کوئی اثر آپ پر نہیں دیکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! تو نے حضرت علی بن حسین کو نہیں سنا کہ وہ اس دیوار کے پیچھے سے مجھے پکارتے ہیں کہ اے محمد جلدی کر[19]۔

کفن:

آپ نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وصیت کی تھی کہ میں جس کپڑے میں نماز پڑھتا ہوں اسی کا مجھے کفن دیا جائے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غسل دیا اور حسب وصیت ا س کپڑے کا آپ کو کفن دیا گیا[20]۔

وصال مبارک:

حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ وصال میں اختلاف ہے۔ مشہور قول کے مطابق آپ کا وصال مبارک ساتویں ذی الحجۃ ۱۱۴؁ھ بروز دو شنبہ ستاون سال کی عمر میں سلطنت ہشام بن عبدالملک اموی کے وقت میں ہوا[21]۔

مزار مقدس:

آپ کا مزار مقدس مدینہ منورہ کے عام قبرستان جنت البقیع میں اندرون روضہ مبارک حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہے[22]۔

نقش خاتم:

آپ کا نقش خاتم رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًاتھا۔

 

[1] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۱۳

[2] اولیائے رجال الحدیث

[3] خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۳۵ واصح التواریخ ص ۵۵

[4] مسالک السالکین ج۱ ص ۲۱۴

[5] ایضاً ایضاً

[6] اصح التواریخ           ایضاً

[7] اصح التواریخ           ایضاً

[8] روض الریاحین ص ۵۶ و راہ عقیدت ص ۳۶۴

[9] کشف المحجوب ص ۱۲۸

[10] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۱۵    خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص

[11] شواہد النبوۃ ورد تقویۃ الایمان ۱۸۶

[12] ایضاً     ایضاً ص ۲۲۹

[13] ایضاً ایضاً ص ۲۲۹

[14] تشریف البشر ص ۶۶

[15] تشریف البشر ص ۶۸

[16] کشف المحجوب ص ۱۲۹

[17] مرج البحرین ص ۳۹

[18] تشریف البشر ص ۶۵           و انوار صوفیہ ۸۵

[19] مالک السالکین ج ۱ ص ۲۱۷ و تشریف البشر ص ۷۰ و جامع المناقب ص ۲۲۳

[20] جامع المناقب و تشریف البشر

[21] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۱۳

[22] ایضاً    ایضاً

تجویزوآراء