حضرت امام المسلمین سیدنا امام باقر بن زین العابدین

حضرت امام المسلمین سیدنا

امام باقر بن زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 
آں کاشف سرائر، مطلع بر خمائر، آثار سید المرسلین، امام محمد باقر بن امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ائمۃ اہل بیت کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کا اسم گرامی محمد کنیت ابو جعفر اور القاب باقر، شاکر، اور ہادی ہیں۔ آپکی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت امام حسن تھا۔ آپ کی ولادت بروز جمعہ تین صفر، دوسری روایت کے مطابق ماہ رجب ۵۷ھ یعنی اپنے دادا امام حسین کی شہادت سے تین سال پہلے مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی عمر اپنے والد ماجد کے وصال کے وقت ۳۸ سال تھی۔ کہ آپ مسند خلافت پر تشریف فرما ہوئے۔

کرامات و کمالات
شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ ایک دن حبابہ والہہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ نے پوچھا حبابہ کہاں جارہی ہو اس نے کہا میرا سر مرض برص کی وجہ سے سفید ہوگیا ہے۔ اس وجہ  سے مغموم ہوں۔ آپ نے اس کے سر پر ہاتھ  پھیرا تو مرض جاتا رہا اور سر اور بال سیاہ ہوگئے۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک شخص کہتا ہے کہ میں امام باقر کے ساتھ مسجد نبوی میں حاضر تھا کہ ناگاہ داؤد بن سلیمان اور منصور دوانقی آئے۔ داؤد آکر آپ کے سامنے بیٹھ گیا لیکن منصور الگ جا بیٹھا۔ امام موصوف نے پوچھا کہ کیوں ہمارے سامنے نہیں آیا۔ داؤد نےکوئی وجہ بیان نہ کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ دن دور نہیں کہ منصور والئ ملک بن جائے گا۔ اور اس کی سلطنت شرق سے غرب تک ہوگی اور اس  قد دوت جمع کریگا کہ اس سے قبل کسی نے جمع نہ کی ہوگی۔ داؤد نے اٹھ کر یہ ماجرا منصور سے بیان کیا چنانچہ منصور نے  اُٹھ کر امام باقر کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے سوائے آپ کے رعب و جلال کے کسی چیز نے آپ کی خدمت میں حاضر  ہونے سے باز نہیں رکھا۔ اور یہ آپ نے داؤد سے کیا فرمایا ہے۔ آپ نےفرمایا کہ جو کچھ میں نے  کہا ہے سچ ہے اور اسی طرح ہوکر رہے گا۔ منصور نےپوچھا کہ کیا میرا ملک آپ کے ملک سے بڑا ہوگا۔ آپ نےفرمایا ہاں۔ اس  نےکہا میری حکومت  کی مدت زیادہ ہوگییا نبی اُمیہ کی۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری حکومت کی مدت زیادہ ہوگی۔ لیکن تمہارے بچے ملک جب حکمران ہوں گے تو بچپن سے کام لیں گے اور کام خراب کردیں گے۔ یہی کچھ مجھے اپنے والد بزرگوار سے ملا ہے۔ آخر کارجب منصور کو حکومت ملی تو امام باقر کا قول  یاد کر کے حیرت زدہ ہوتا تھا۔

علم غیب
کتاب مذکور میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک شخص کا بیان ہے کہ ہم پچاس آدمی حضرت امام باقر کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص  کوفہ  سے آیا جو کھجور فروخت کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ کوفہ میں فلاں شخص کہتا ہے کہ امام صاحب کے پاس ایک فرشتہ رہتا ہے جو ان کو کافر اور مومن اور دوست اور دشمن کے متعلق  بتاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارا فروخت پیشہ کیا ہے۔ اس نےکہا گندم فروخت  کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا غلط کہتےہو۔ اس نے کہا جو فروخت کرتا ہو۔ آپ نے فرمای انہیں تم کھجور فروخت کرتےہو۔ آپ نے فرمایا آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک برانی فرشتہ یہ باتیں بتاتا ہے اور تم فلاں مرض میں مطتلا ہوکر مرجاؤ گے۔ رادی کہتا ہے کہ جب وہ کوفہ  پہنچا تو اُسی مرض میں مبتلا ہوکر مرا۔

جنات کا حاضر خدمت ہونا
کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک آدمی نے آپ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی آپ نے فرمایا تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ۔ ایک جماعت آنے والی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد چند لوگ آئے اور آپ کی خدمت میں بیٹھ گئے۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے عرض کیا کہ یہ لوگ کون تھے آپ نے فرمایا تمہاری طرح  جن تھے۔ میں نے عرض کیا  آپ پر جن ظاہر ہوتے ہیں فرمایا  ہاں تمہاری طرح آکر حلال وحرام کے مائل دریافت کرتے ہیں۔

حضرت جابر صحابی سے ملاقات
کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ امام باقر فرماتے  ہیں ایک دن میں حضرت جابر بن عبداللہ (صحابی) کے پاس گیا اور ان پر سلام کیا۔ اس وقت وہ نابینا ہوچکے تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔ میں نےکہا محمدﷺ بن علی بن حسین ہوں۔ یہ سنتے ہی فرمایا اے میرے بیٹے آگے آؤ جب میں آگے ہوا تو اُنہوں نے میرے ہاتھ  پر بوسہ دیا اس کے بعد م یرے پاؤں پر بوسہ دینا چاہا کہ میں دور ہوگیا۔ اس نے کہا انّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقوئک السلام(رسول اللہ صلعم آپ کو سلام کہتے تھے) میں  نے جواب دیا کہ وعلی رسول اللہ السلام ورحمۃ (سلام ہو رسول اللہﷺ پر اور رحمت ہو اس پر)

میں نے پوچھا کہ اے جابر  یہ کیا قصہ  ہے فرمایا کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا تھا کہ اے جابر شاید تم میرے ایک فرزند کے آنے تک زندہ  رہوگے۔ اور اس سے ملاقات کروگے۔ اس کا نام  محمد بن علی بن حسین ہوگا۔ خدا تعالیٰ کو نور حکمت عطا کرے گا میرا اس  کو سلام کہنا۔

وصال
‘‘مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ اکثر ارباب تواریخ کی یہ رائے ہے کہ حضرت امام باقر کو ہشام بن عب الملک نے زہر دیا تھا جس سے آپ کا وصال ہوا۔ آپ کی عمر ستاون سال اور مدت امامت انیس سال تھی۔ آپ کا مزار مبارک قبرستان بقیع میں ہے اور امام زین العابدین کے مزار کے نزدیک ہے۔

اولاد
آپ کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ دوسری روایت کے مطابق آپ کے چھ فرزند اور ایک دختر تھیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ رحمۃ اللہ علیہ۔

اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔

ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد

(اقتباس الانوار)

---------------------------------------


نام محمد، کنیت ابو جعفر، لقب باقِر، شاکِر، ہادی، بروز جمعہ ۳؍ صفر ۵۷ھ کو حضرت امّ عبد اللہ فاطمہ بنتِ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے بطن سے بمقام مدینہ طیبہ پیدا ہوئے معرکہ کر بلا میں بعمر چار سالہ ہمراہِ جدِّ بزرگوار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ [۱] [۱۔ طبقاتِ مناوی۔ روضۃ الشہداء۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ۱۲ شرافت]

صورت و سیرت میں مثل آباء کرام رضی اللہ عنہ تھے، بڑے عالم، یگانہ روز گار تھے، نشرِ علوم اس قدر فرمایا ہے کہ دوست  و دشمن اِن کو باقِر العلوم کہتے تھے، صاحبِ ارشاد کا قول ہے کہ جِس قدر علم دین اور سنن و علم القرآن و سیر و فنون و ادب وغیرہ اِن سے ظاہر ہوئے وہ کسی سے ظاہر نہیں ہوئے، ایک بار مقامِ عرفات میں تیس ہزار (۳۰۰۰۰) آدمیوں نے تیس ہزار (۳۰۰۰۰) سوالہائے مختلف مسائل مشکلہ کے اِن سے کیے، اور فورًا جو بہائے شافی پا کر کمالات و فضائل کے معترف ہوئے۔

عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے علمائے کرام کو ازروئے علم کے کسی کے پاس اس قدر اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتے ہوئے نہیں دیکھا جیسا کہ اِن کے رو برو دیکھا، طبقات الحفّاظ میں ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد، اور جد امجد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ایک طائفہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اور اِن سے اِن کے صاحبزادہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ و عطاء رضی اللہ عنہ و ابن جریج رضی اللہ عنہ و امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ و اوزاعی رضی اللہ عنہ و زُہری رضی اللہ عنہ وغیرہ نے حدیث کو لیا ہے، اور ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ جنہوں نے سب سے پہلے حدیث کی تدوین کی ہے اِن کو حدیث میں ثقہ لکھا ہے، اور امام نسائی رضی اللہ عنہ نے اہلِ مدینہ کے فقہائے تابعین میں اِن کا ذکر کیا ہے، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ طبقات میں لکھتے ہیں کہ یہ تابعین اہلِ مدینہ کے تیسرے طبقہ میں سے تھے، اور نہایت عالم و عابد و ثقہ تھے، صواعق محرقہ میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا اے جابر رضی اللہ عنہ! حسین رضی اللہ عنہ کے ایک لڑکا ہوگا اُس کا نام علی رضی اللہ عنہ رکھا جائے گا، جس وقت قیامت کے دن ندا ہوگی یا سیّد العابدین اُٹھو تو وہی لڑکا اٹھے گا، پھر اُس لڑکے کا ایک لڑکا ہوگا، جس کا نام محمد ہوگا، پس اے جابر رضی اللہ عنہ! اگر تو اُس وقت زندہ رہے تو میرا سلام اُس کو کہنا، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے وہ سلامِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِن کو پہنچایا۔ یہ بڑے عابد، زاہد، خاشعِ، خاضع، پاک طینت اور بزرگ نفس تھے، تمام اوقات کو عبادت و طاعتِ الٰہی سے معمور رکھتے، آدمی رات گذرے رویا کرتے، اور درگاہِ الٰہی میں نہایت عاجزی سے مناجات کیا کرتے۔

بروز دو شنبہ ۷؍ ذلحجہ ۱۱۴ھ کو انتقال فرمایا، اور جنّت البقیع میں حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ [۱] [۱۔ طبقات الحفاظ۔ روضۃ الشہداء۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]

اِن کے چار صاحبزادے ہوئے۔

۱۔      امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ۲۔     عبد اللہ رضی اللہ عنہ

۳۔     ابراہیم رضی اللہ عنہ                ۴۔     علی رضی اللہ عنہ

اِن میں سے صرف جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی اولاد باتی ہے۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲]

(شریف التواریخ)

تجویزوآراء