حضرت امام حسن مجتبیٰ

حضرت سیدنا امیرالمؤمنین امام حسن مجتبیٰ بن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنھما

آپ کی کنیت ابومحمد، لقب تقی اور سیّد تھا۔ آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں ۱۵؍ رمضان  ۳؍ہجری کو ہوئی۔ حضرت جبرئیل نے آپ کا نام نامی ایک ریشمی ٹکڑے پر طلائی حروف میں لکھ کر حضرت شاہ  رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور کہا کہ اس فرزند دلبند کا نام حسن رکھا جائے۔

صحیح اقوال میں سے ثابت ہوا ہے۔ امام حسن﷜ سینے سے سر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ ایک دن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن﷜ کو اپنے کندھے پر بٹھایا تھا اور قسم کھا رہے تھے کہ یہ شبیہ رسول مقبولﷺ کی شبیہ ہے۔ حضرت علی﷜ سن کر مسکرا رہے تھے۔

حضرت امام حسن﷜ نے پچیس حج پا پیادہ کیے۔ ایک دفعہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے۔ حضرت حسن﷜ آپﷺ کی گود میں تھے اور فرماتے تھے: میرا یہ بیٹا سیّد ہے۔ عنقریب اللہ تعالیٰ اس کی وساطت سے امت کے دو بڑے گروہوں کو یکجا کردے گا۔ یہ اشارہ حضرت معاویہ﷜ اور حضرت حسن﷜ کی صلح کی طرف تھا۔ حضرت علی﷜ کی شہادت کے بعد شیعان علی﷜ اور فرقہ معاویہ﷜ کے درمیان شدید اختلاف ہوا تو حضرت حسن﷜ خلافت سے دست بردار ہوگئے اور امیرمعاویہ﷜ کو خلیفہ تقسیم کرلیا اور چند شرائط کے ساتھ ایک عہد نامہ لکھ دیا۔

شواہد النبوت کے مصنف حضرت مولانا جامی﷫ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے لکھتے ہیں: ایک رات حضرت حسن﷜ جناب رسالت مآب کے پاس  سوئے ہوئے تھے جب رات کا ایک حصّہ گزرا تو آپ نے حضرت حسن﷜ کو فرمایا: اب اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ اگر حکم ہو تو رات کے اندھیرے میں میں ساتھ جاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں میرا بیٹا تنہا جائے گا۔ چنانچہ آسمان سے ایک روشنی نمودار ہوئی اور حضرت حسن﷜ اس روشنی میں گھر پہنچ گئے۔

ایک دفعہ حضرت حسن﷜ حضرت زبیر﷜ کی اولاد میں سے ایک شخص کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ رات کو ایک خشک کھجور کے درخت کے نیچے قیام کیا۔ ابن زبیر﷜ نے کہا: کاش یہ درخت کھجوروں سے پُر میوہ ہوتا اور ہم کھاتے۔ آپ نے فرمایا: تم کھجوریں کھانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ﷜ نے دعا کی اور درخت کھجوروں سے بھر گیا۔ ایک شتر بان نے دیکھ کر کہا: واہ کیا جادو ہے، فرمایا: جادو نہیں یہ دعائے حسن﷜ ہے جو کبھی ردّ نہیں ہوتی۔ چنانچہ لوگ درخت پر چڑھ گئے اور اتنی کھجوریں اتاریں کہ سارا قافلہ سیر ہوگیا۔

کہتے ہیں: خلافت معاویہ﷜ کے دوران حضرت معاویہ﷜ نے چاہا کہ اپنے بیٹے یزید پلید کو اپنا جانشین بنادے لیکن باہمی صلح کے شرائط نامہ کے ہوتے ہوئے یہ بات نہیں ہوسکتی تھی۔ تا وقتیکہ حضرت حسن﷜ زندہ ہیں۔ چنانچہ معاویہ آپ کے قتل کے درپے ہوگئے اور آپ کی ایک منکوحہ کی وساطت سے آپ کو زہر کھلادیا گیا۔ آپ اس زہر ہلاہل کے صدمہ سے واصلِ بحق ہوئے۔ آپ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ نے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنالیا اور شامیوں نے سب سے پہلے بیعت کی۔ اس کے بعد مکہ والے، پھر مدینہ والے بھی بادلِ نخواستہ بیعتِ یزید پر آمادہ ہوگئے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام حسن﷜ کو زہر خورانی میں حضرت معاویہ﷜ کا ہاتھ نہیں تھا۔ یہ کام صرف یزید کی سازش سے طے پایا تھا لیکن شواہد النبوت سے ثابت ہوتا ہے کہ زہر خورانی کا فیصلہ معاویہ نے کیا تھا واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔

آپ﷜ اوائل ماہ ربیع الاول بروز جمعرات ۵۰ھ میں اس وار پُر از ملال سے بقرب ایزد متعال پہنچے۔

آپ﷜ کی وفات کے وقت آپ﷜ کے چھوٹے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ﷜ کے پاس تھے۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور کہتے تھے: اے جانِ حسین﷜! مجھے بتاؤ تمہیں کس نے زہر دیا؟ تاکہ میں اس سے بدلہ لے سکوں اور اسے قصاص میں قتل کردوں، آپ نے فرمایا: اگر میرا قاتل وہ شخص ہے جس پر مجھے شک ہے تو خالقِ حقیقی اس سے ضرور انتقام لے گا۔ اگر وہ نہیں تو میں ایک بے گناہ کو قتل کرانے کو تیار نہیں۔ خدا کی قسم حسن کی جان تو دستِ قدرت میں ہے۔ قیامت کے دن مجھے انتقام لینے پر مامور کیا جائے گا لیکن میں اس وقت تک جنت میں قدم نہیں رکھوں گا جب تک اپنے قاتل کو بخشوا نہ لوں گا       ؎

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو پناہیں دیں

حضرت حسن﷜ کو زندگی میں چھ بار زہر دیا گیا لیکن کبھی کارگر نہ ہوا۔ ساتویں بار اذا جاء اجلھم لا تستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون کے پیشِ نظر خالقِ حقیقی سے جاملے۔

تاریخِ وفات:

چوں محب جناب نبوی بود
نیز گو سالِ رحلت آں شاہ!

 

بس محبت است سالِ رحلت آں
ماند بے یار سر بسر دوراں

 

 

 

--------------------------------------

نام حسن، شبّر، کنیت ابو محمد، لقب تقی، نقی، زکی، سیّد، سبط اکبر مجتبےٰ، بروز سہ شنبہ پندرہویں رمضان ۳ ھ مطابق جون ۶۲۴ء میں بمقام مدینہ طیّبہ پیدا ہوئے، سر سے سینہ تک حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے مشابہت رکھتے تھے، بعد وفات والد بزرگوار کے تختِ خلافت پر بیٹھے، اور چھ ماہ سند افروزِ خلافت رہ کر حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو خلافت تفویض کردی، اور حدیثِ نبوی انّ ابنی ھٰذا سیّد ولعلّ اللہ ان یصلح بہٖ بین فئتین عظیمتین من المسلمین۔ [۱] [۱۔ صحیح بخاری بروایت ابو بکرہ ۱۲ شرافت] کا مصداق ٹھیرے۔

بڑے حلیم، سلیم، رحیم، کریم، متواضع، منکسر، صابر، متوکل اور با وقار تھے، زہد و مجاہدہ نفس میں مشغول رہتے، مدینہ طیّبہ سے مکہ تک پا پیادہ چل کر بیس (۲۰) حج کیے، حالانکہ سواریاں موجود ہوتی تھیں، کسی اہلِ حاجت کو محروم نفرماتے، دو بار اپنا سارا مال اور تین بار نصف مال راہِ خدا میں دے دیا،

شبِ شنبہ ۵؍ ربیع الاول ۵۰ھ مطابق ۳۰؍ ستمبر ۶۷۱ء کو جعدہ بنتِ اشعث بن قیس کے زہر دینے سے شہید ہوئے، مزار اقدس مدینہ طیبہ جنّت البقیع میں ہے۔

اِن کے بارہ صاحبزادے ہوئے۔

۱۔       ابو محمد حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ۔ مجروحِ جنگ کر بلا و شاملِ اسیرانِ اہل بیت رضی اللہ عنہ۔ ان کی اولاد سے ساداتِ بنو قتادہ، آلِ طاؤس، سیلقیون، بنو الملحوس، بنو الکشیش، بنواشز بنو الارزق، خندریس، بنو حمدان، آلِ ابی الضّحاک، آلِ حسن، آلِ ندیم، سویقیون آل ابی الحمد، احمدیّون، بنی عمق، آل المطر، آلِ حمزہ، کرامیون، آلِ عرفہ، آلِ جمّاز، آلِ سلمہ، بنی االسّراج، فاتکیون، بنو الحجازی، آلِ مضام، آلِ ابو الطیّب، بنود ہاس، بنو علی، بنو حسان، بنو قاسِم، بنو یحییٰ، بنو شماخ، بنو مکثر، موسویون، آلِ علقمہ، آلِ ابی اللّیل، صالحیون، آلِ ۔۔، صلاصلہ، آل الشرقی، آلِ نزار، آلِ یحییٰ، آلِ عطیہ، گیلانیان، ہواشِم، بنو علی ثانی، آلِ شہم، آلِ مقن، حرّانی، آلِ کتیم، آلِ ادریس، آلِ ابی الطیّب ثانی، بنو مالک، بنو مالک، بنو النج، آلِ معیّہ، طباطبا، بنو المسجد، بنو الکرکی شعرانی، بنو توزون، آلِ ابی العسّاف، بنی رسی وغیرہم بلادِ مکہ مکرمہ، مدینہ طیّبہ، مصر، کوفہ، یمامہ، بصرہ، یمن، بغداد، شام کابل، طرابلس، فارس، حرّان، گیلان سوس، شیراز، ہندوستان وغیرہ میں آباد ہیں۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲]

۲۔       ابو الحسن زین الدین زید رضی اللہ عنہ کثیر الاحسان راوی احادیثِ نبوی رضی اللہ عنہ اِن کی اولاد سے ساداتِ قبیلہ خطیبان، بنو ظاہرِ بطحانیان، دراز گیسو، شجریان، بنوشکر، بنود وہم وغیرہم بلادِ آمِل، ارمنہ، نصیبین، حبش، طبرستان، رَے، اصفہان وغیرہ میں آباد ہیں۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲]

۳۔      ابو مسلم عمرو اشرف رضی اللہ عنہ شہید کر بلا۔ ۴۔ ابو بکر عبد اللہ اکبر رضی اللہ عنہ شہید کر  بلا۔ ۵۔ ابو ابراہیم قاسِم رضی اللہ عنہ شہیدِ  کربلا۔ ۶۔ حسین اشرم رضی اللہ عنہ فاضلِ عہد۔ ۷۔ ابو حمزہ عبد الرحمٰن متوفی بحالتِ احرام بمقام ابوا۔ ابو طالب عبد اللہ اصغر رضی اللہ عنہ۔ ۹۔ اسمٰعیل الغنم رضی اللہ عنہ۔ ۱۰۔ ابو اسحاق محمد یعقوب رضی اللہ عنہ۔ ۱۱۔ ابو علی جعفر رضی اللہ عنہ۔ ۱۲۔ ابو اشرم طلحہ الجوّاد رضی اللہ عنہ۔

اِن میں سے حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ کی اولاد باقی ہے۔ [۱] [۱۔مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۱۹۴ شرافت]

(شریف التواریخ)

---------------------------------

جناب امیر المومنین حضرت امام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر خدا تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور سلام جو جناب مصطفیٰ کے جگر گوشے اور حضرت فاطمہ زہرا کے فرزند اور سر سے لے کر ناف تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہ تھے اور جناب امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ناف سے لے کر قدم تک اس کان کرم اور مجسم لطف و شفقت کے ساتھ پوری طرح مشابہت رکھتے تھے۔ امیر المومنین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ امیر المومنین امام حسین سے دو برس دس مہینے بڑے تھے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صحرا نشین جنگل سے آیا اور امیر المومنین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے گھر کے آگے ایک گوشہ میں تشریف رکھتے تھے صحرا نشین نے جناب امیر المومنین حضرت امام حسن کو بیمحا با ماں باپ کی گالیاں دینی شروع کیں آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے فرمایا کہ اے بدوی یسا  معلوم ہوتا ہے کہ تو بھوکا ہے یا پیاس کی وجہ سے بیتاب ہے آخر  بتا تو تجھے ہوا کیا ہے آپ نہایت نرمی اور خوش آئند تبسم کے ساتھ یہ فرما رہے تھے اور باد یہ نشین اسی طرح سختی کے ساتھ گالیاں دیے چلا  جاتا تھا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ گھر سے جاکر فلاں دینار کی تھیلی لے آ۔ اور اس  بادیہ نشین کے حوالے کردے جب صحرا نشین نے امام حسن کی یہ بات سُنی تو بے اختیار بول اٹھا اشھد انک ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بے شبہہ جناب رسول خدا  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند رشید ہیں اس کے بعد بہت سی دعائیں اور تعریفیں کر کے کہنے لگا کہ حضرت! میں یہاں صرف آپ کے حلم و بردباری کے امتحان کی غرض سے حاضر ہوا تھا الغرض یہ تحمل و حلم جو حضرت امام حسن میں پایا جاتا تھا محققون کی صفت ہے کہ ان کے نزدیک مدح و ذم دونوں یکساں ہوتے ہیں۔ وہ جس طرح کسی کی تعریف پر مغرور و فریفتہ نہیں ہوتے اسی طر کسی کی مذمت اور بُرائی سے رنجیدہ و ملول نہیں ہوتے لوگوں کی ظلم و جَفائیں سہتے اور  متغیر نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہجو کرنے والے کا منہ دینار و درہم سے بھرتے اور برائی کی بھلائی سے تلافی کیا کرتے ہیں امیر المومنین حضرت امام حسن کی عبرت آمیز نصائح میں سے ایک یہ ہے کہ علیکم بحفظ السرائر فان اللہ مطلع علی الصمائر۔ آپ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! تمہیں اپنے بھیدوں اور رازوں کی حفاظت کرنا لازم ہے کیونکہ خدا تعالیٰ تمہارے دلوں کے حقائق پر مطلع اور خبردار ہے آپ علم حقائق و اصول میں وہ پایہ رکھتے تھے کہ حسن بصری جیسا بر گزیدہ اور محقق شخص آپ کے ان کلمات پر جو اس علم میں دخل رکھتے ہیں کلی توجہ رکھتے اور انہیں دستور العمل بنائے ہوئے تھے آپ نے صرف آٹھ مہینے پندرہ دن خلافت کی اور سینتالیس سال کی عمر میں انتقال فرمایا آپ کی بی بی جعدہ بنت اشعث کندی نے حضرت امیر معاویہ کے برانگیختہ کرنے اور اُبھارنے اُکسانے سے جناب امیر المومنین حضرت امام حسن کو جس طرح ممکن ہوا زہر دیدیا چنانچہ آپ اسی زہر کی وجہ سے ربیع الاول ۴۷ ہجری میں دارِ بقا کی طرف تشریف لے گئے خواجہ حکیم سنائی آپ کی مدح میں لکھتے ہیں۔

 

قصیدہ

بو علی آنکہ در مشام ولی
نامہ دوست پاکی دل اوست
قرۃ العین مصطفیٰ او بود
جگر و جان علی و زہرا را
منہجِ صدق در دلائلِ او
بود مانند جد بخلق عظیم

 

آیداز گیسوانش بوی علی
دوست راچیست بہ زمانہ دوست
سید قوم اولیا او بود
دیدۂ و دل حبیب مولی را
مہتری راست در محائل او
پاک عرق دنفیس و خلق کریم

ترجمہ: حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ مقدس ذات ہیں جن کے گیسوؤں سے حضرت علی کی خوشبو ولی کے دماغ میں پہنچتی ہے۔ دوست کا خط حقیقت میں اس کی پاکی دل کی علامت ہے اور دوست کے لیے دوست کے خط سے بہتر اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ آپ آنحضرت کی آنکھ کی ٹھنڈک اولیا کی سر کے تاج علی و زہرا کے جگر و جان رسول عربی کے دل و دیدہ تھے آپ کے دلائل میں شریعت کا سیدھا راستہ ملتا تھا اور آپ کے چہرۂ مبارک سے سرداری کی نشانی عیاں تھی آپ خلق عظیم میں اپنے جد امجد کے مشابہ تھے اور خلق کریم میں مشہور ہونے کے علاوہ خود نفیس اور پاک ذات تھے۔

(سیر الاولیاء)

تجویزوآراء