امیر المومنین سید الثقلین حسین بن علی

امیر المومنین سید الثقلین حسین بن علی رضی اللہ عنہ

آپ کی کنیت ابی عبداللہ، ابوالائمہ اور لقب شہید، سیّد ، سیّد الشہداء تھا۔ آپ ائمہ اثنا عشریہ کے تیسرے امام تھے۔ آپ کی ولادت منگلوار چہارم ماہ شعبان ۳ یا ۴ ہجری کو مدینہ پاک میں ہوئی۔ آپ صرف چھ ماہ والدہ کے پیٹ میں رہے۔ اتنی مدت میں آج تک کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ صرف حضرت یحییٰ علیہ السلام تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضاء سے آپ کا نام حسین رکھا گیا۔ آپ اتنے با جمال تھے کہ جب تاریکی میں بیٹھتے تو آپ کی پیشانی اور رخساروں کی روشنی سے راستے منور ہوجاتے تھے۔ آپ سینہ سے لے کر پاؤں تک مشابہ بہ جسم رسول پاکﷺ تھے۔ حضرت رسولِ خدا فرمایا کرتے تھے: حسین﷜ مجھ سے ہیں اور میں حسین﷜ سے ہوں۔ اللہ اس کو اپنا محبوب رکھے گا جو حسین﷜ سے محبت کرے گا اور اسے خوار کرے گا جو حضرت حسین سے نفرت کرے گا۔

ایک دفعہ حضرات حسن اور حسین آنحضرت کے سامنے صحن میں کشتی کر رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن کی حوصلہ افزائی فرما رہے تھے۔ حضرت فاطمۃ الزہرا﷞ نے عرض کی: یا رسول اللہ آپﷺ بڑے بیٹے کو فرما رہے ہیں چھوٹے کو گرائے۔ آپﷺ نے مسکرا کر فرمایا: جبرئیل ﷤ حسین﷜ کو کہہ رہے ہیں کہ حسن﷜ کو گرالو۔ اس لیے مجھے حسن﷜ کی طرفداری کرنا پڑی۔

ام الحارث نے حضرت رسولِ خدا کی خدمت میں بتایا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس سے مجھے سخت وہشت آئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا دیکھا، کہنے لگی: لوگوں نے آپﷺ کے جسم کا ایک حصّہ کاٹ لیا اور میری گود میں رکھ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ خواب بڑی اچھی ہے۔ فاطمہ﷞ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا جو تم اپنی گود میں لے لو گی۔ پیدائش کے بعد ایسا ہی ہوا۔

سرکارِ دو عالمﷺ حضرت حسین﷜ کو اپنی دائیں ران پر بٹھاتے تھے اور اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کو بائیں ران پر۔ اسی حالت میں ایک روز حضرت جبرئیل حاضر ہوئے اور پیغامِ خداوندی سنایا کہ ہم دونوں کو آپ کے پاس جمع نہیں ہونے دیں گے ایک کو اٹھا لیا جائے گا۔ اب آپ کی مرضی ہے جسے چاہیں رکھیں۔ آپ دل میں بڑے فکر مند ہوئے اور سوچاکہ اگر حسین﷜ فوت ہوگئے تو حضرت علی﷜، فاطمہ اور خود مجھے بڑا صدمہ ہوگا لیکن اگر ابراہیم فوت ہوئے تو صرف مجھے صدمہ ہوگا۔ چنانچہ مجھے اپنا صدمہ گوارا ہے۔ لیکن یہ گوارا نہیں کہ حضرت علی﷜ و فاطمہ غمگین رہیں۔ غرضیکہ اس واقعہ کے تین دن بعد حضرت ابراہیم واصل بحق ہوئے۔

حضرت ام سلمہ ﷞ بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے باہر چلے گئے اور کافی دیر تک واپس تشریف نہ لائے۔ جب آپﷺ واپس آئے، آپ کے بال پریشان، غبار آلود اور خود تھکے تھکے دکھائی دیتے تھے۔ آپﷺ کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی۔ میں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! یہ کیا ہے؟ اور آپﷺ اس حال میں کیوں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ آج مجھے عراق کے ایسے مقام پر لے جایا گیا جسے کربلا کہتے ہیں۔ یہ جگہ میرے حسین﷜ کا مقتل ہوگی۔ مجھے اپنی اولاد کے دوسرے افراد بھی دکھائے گئے۔ میں اس زمین پر پڑا ہوا خون اکٹھا کرکے لے آیا ہوں۔ آپﷺ نے ہاتھ کھول کر مجھے فرمایا: اس سرخ متی کو اپنے پاس محفوظ رکھ لو۔ میں نے حضورﷺ کے ہاتھ سے لے کر ایک شیشی میں بند کرلی اور اس کے منہ کو محکم کرکے بند کرلیا۔ جب حضرت حسین﷜ ابن علی﷜ سفرِ عراق کو روانہ ہوئے اور اس شیشی کو ہر روز  باہر لاکر دیکھا کرتی تھی اور روتی تھی۔ محرم کی دسویں تاریخ کو شام کے وقت میں نے دیکھا کہ وہ مٹی خون بن گئی ہے۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ آج حسین﷜ شہید کردیے گئے ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی آئی کہ ہم نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قتل کے جرم میں ستر ہزار انسانوں کو قتل کروادیا تھا۔ آپ کے بیٹے حسین﷜ کے خونِ ناحق کے بدلے میں ستر ہزار سے دُگنے انسان قتل کراؤں گا۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے ایسا ہی ہوا۔

روایات صحیحہ میں لکھا ہے کہ قاتلانِ حسین﷜ میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جسے موت سے پہلے درد ناک مصائب  اور ابتلاء میں نہیں ڈالا گیا۔ اور ہر شخص بدترین طریقہ سے ہلاک ہوا۔ ہر موذی کا انجام تفصیلی طور پر تاریخی کتابوں مثلاً روضۃ الصفاء، حبیب السیر وغیرہ میں تحریر ہے۔

قاتلانِ حسین ﷜ اور عبداللہ بن زیاد کے سرہائے بریدہ جب کوفہ کی جامع مسجد میں لائے  گئے تو بہت بڑا ہجوم مسجد میں آگیا۔ اچانک ایک کونے سے شور اٹھا: سانپ سانپ!! وہ سانپ دیکھتے ہی دیکھتے عبداللہ بن زیاد کے نتھنے میں گھسا اور باہر آیا اور دوسرے سروں پر لہراتا رہا۔ اسی طرح اس نے کئی بار کیا جو لوگوں نے دیکھا۔

شمر ذی الجوشن (قاتلِ حضرت حسین﷜) کربلا سے کچھ زیورات خمیہ سادات سے اٹھا لایا تھا۔ کچھ زیورات تو اس نے اپنی لڑکی کو دے دیے۔ اس عورت نے ان زیورات کو از سرِ نو بنانے کے لیے جب آگ میں ڈلوایا تو وہ سارے زیور خاکستر بن گئے۔ جب وہ ٹھنڈے ہوئے تو معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ چاندی ہے یا پیتل۔ جب یہ صورت حال شمر کو بتائی گئی تو اس نے سارے زیور سنار کے حوالے کردیے اور کہا کہ میرے سامنے اسے کٹھالی میں گالا جائے۔ دیکھتے دیکھتے وہ زیورات بھی بیکار دھات بن گئے۔

قاتلانِ حسین﷜ نے کربلا سے اہل  بیت کے چند اُونٹ ذبح کیے اور انہیں پکایا۔ لیکن گوشت اتنا کڑوا تھا کہ کوئی بھی کھا نہ سکتا تھا۔

تاریخ شہادت شاہ ولایت سیّد کونین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دسویں محرم الحرام ۶۰ھ ہے۔ جمعہ کا دن تھا اور ظہر کا وقت تھا۔ میدانِ کربلا میں شہادت واقع ہوئی۔ بعض مورخین نے ۶۱ھ بھی لکھی ہے۔ آپ کے ساتھ بہتر دوسرے جاں نثار بھی شہید ہوئے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے بھائی، بھتیجے اور دوسرے عزیز بھی تھے جو پیاسے، بھوکے اور بے سر و سامانی میں آپ کے ساتھ ہی شہید ہوئے۔

نماند ستمگارِ بد روزگار
بماند برو لعنتِ پائیدار

تاریخ وفات:

ہست ہم آخرین دو حرف حسین
سالِ ترحیل سیّد عالی
سالِ وصلش عجب شدہ است عیاں
کن رقم ہم باختلاف رقم
سالِ تاریخ سرورِ دوراں!

 

سالِ ترحیل سیّد الثقلین
گفت دل رفت از زمین والی
زیب آفاق رفت از دوراں!
زبدہ دین  برفت از عالم!
از سر سرور آمدہ است عیاں

 

 

 

 

 

--------------------------

نام حسین، شبیر، کنیت ابو عبد اللہ، لقب ولی، زکی، طیّب، شہید، سیّد، سبطِ اصغر، بروز سہ شنبہ ۳؍ شعبان ۴ھ / ۶۲۴ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، سینہ سے قدموں تک حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے مشابہ تھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب تھے، اِن کے حق میں فرمایا حین منی وانا من حسین احبّ اللہ من احبّ حسینًا حسین سبط من الاسباط۔ [۱] [۱۔ جامع ترمذی بروایت یعلےٰ بن مرّہ ۱۲]

علم، عمل، زہد، تقوٰے، جود، سخا، شجاعت، فتوت، اخلاق، مروّت، صبر، شکر، حلم، حیا وغیرہ صفات کمال میں بوجہ اکمل طاق، اور مہمان نوازی، غربا پروری اعانتِ مظلوم، ایصالِ رحم، انعامِ فقرا و مساکین میں شہرہ آفاق تھے پچیس حج پا پیادہ کیے، دن رات میں تین ہزار رکعت پڑھا کرتے تھے۔

بروز جمعہ ۱۰؍ محرم ۶۱ھ مطابق ۱۰؍ اکتوبر ۶۸۰ء کو بمقام کر بلا، یزیدوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے چار سو دس اشقیا کو واصل جہنم کر کے، سنان بے ایمان کے نیزہ اور شمر بد گہر کے تلوار سے نہایت مظلومی کی حالت  میں بھوکے اور پیاسے شہید ہوئے۔

رباعی

زیں بعد خامہ راہوسِ گفتگو نماند
لب تشنہ رفت ساقی کوثر ازیں جہاں

 

دل چاک چاک گشت کہ جائے رفونماند
آے لب خاک شوکہ ترا آبرو نماند

کسی نے سچ فرمایا ہے۔

نظم

اللہ نے پیدا جو کیا رنج و بلا کو
پر سب سے سوا حصہ ملا آلِ عبا کو
آغازِ مصیبت تو کیا نامِ نبی پر

 

تقسیم ہوا سب وہ محبّانِ خدا کو
تحریر کا فرماں جو ہَوا کلکِ فضا کو
اور خاتم بالخیر حسین ابن علی پر

اِن کے چھ (۶) صاحبزادے ہوئے۔

۱۔ علی اکبر شہید کر بلا رضی اللہ عنہ۔ ۲۔ علی اوسط زین العابدین رضی اللہ عنہ۔ ۳۔ علی اصغر شہید کر بلا رضی اللہ عنہ ۴۔ جعفر رضی اللہ عنہ بچپن میں فوت ہوئے۔ ۵۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ بچپن میں فوت ہوئے۔ ۶۔ محمد رضی اللہ عنہ بچپن میں فوت ہوئے۔ [۱] [۱۔ ذخائر العقبےٰ ۱۲ شرافت]

اِن میں سے صرف امام زَین العابدین رضی اللہ عنہ کو اولاد باقی ہے۔

(شریف التواریخ)

------------------------

 

 جناب امیر المومنین امام حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خدا کی بے شمار رحمتیں اور سلام آل محمد کی روشن شمع اور تمام دنیاوی علائق سے مجرد اور شہید دشتِ کربلا اور عالم دوستی کے بادشاہ تھے اس پر تمام خلائق کا اتفاق ہے کہ تک امر حق ظاہر رہا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  حق کے مطیع و تابع رہے لیکن جب امر حق پوشیدہ ہوگیا تو آپ نے تلوار اٹھائی اور تاوقتیکہ اپنی پیاری  اور عزیز جان کو  حق تعالیٰ کی راہ میں قربان نہ کر ڈالا ایک دم آرام نہ لیا امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے کلمات میں سے ایک یہ ہے اشفق الا خوان دینک علیک یعنی میں اپنی بھائیوں کو ڈراتا ہوں تمہیں اپنا دین مضبوطی سے پکڑے رہنا لازم ہے۔ کشف المحجوب میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آپ کے پاس  آکر عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے فرزند میں ایک درویش و محتاج آدمی صاحب اہل و عیال ہوں مجھے آپ سے صرف اس رات کی خوراک ملنی چاہیے جناب امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ذرا کی ذرا بیٹھ جاؤ ہمارا رزق راستہ میں ہے ابھی پہر رات بھی نہ گذری تھی کہ دینار کی پانچ تھیلیاں حضرت امیر معاویہ کے آدمی لے کر آئے آپ نے پانچوں تھیلوں میں سے اشرفیاں نکال کر درویش کے آگے رکھ دیں اور معذرت کی کہ آپ کو یہاں زیادہ ٹھہرنا پڑا۔ اور یہ مقدار آپ کے قابل نہیں ہے اگر مجھے معلوم ہوتا کہ صرف یہی مقدار آنے والی ہے تو میں تم سے اس  قدر انتظار نہ کرواتا مجھے امید ہے کہ تم مجھے معذور سمجھو گے کیونکہ ہم اہل بلا  ہیں اور دنیا کی تمام راحتوں سے دور پڑے ہوئے ہیں ہم نے اپنی تمام مرادیں گم کر دی ہیں اور دوسروں کی مرادوں پر زندگی بسر  کرتے ہیں جب امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کر بلا کی زمین میں پہنچے تو غار ضریر نام موضع میں اترے یہ جمعرات کا دِن اور  ۶۱ ہجری کا دوسرا روز تھا اس کے دوسرے روز جمعہ کو عبد اللہ بن زیاد چار ہزار سواروں کا خونخوار لشکر لے کر وہاں پہنچا اور آئندہ جمعہ تک دونوں طرف کے لشکروں میں جنگ قائم رہی اس مدت میں جنابِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلبیت سے پانی روک دیا گیا تھا اور عبد اللہ بن زیاد کے تشدد اور سختی سے پانی کا ایک قطرہ تک اہلبیت کے معصوم بچوں تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس سفر میں جناب امیر المومنین حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمرا ہی میں آنحضرت کے اہلبیت میں سے انتیس آدمی موجود تھے الغرض دسویں محرم ۶۱ ہجری جمعہ کے دن آپ نے شہادت کا چھلکتا ہوا ساغر منہ سے لگایا  اور آپ کے ساتھ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزندوں میں سے سات شخصوں نے اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے فرزندوں میں سے تین آدمیوں نے اور آپ کے یاروں میں سے اٹھاسی اشخاص نے شہادت پائی۔ آپ کی کل عمر اٹھاون برس کی تھی۔ رضی اللہ عنہ۔ خواجہ حکیم سنائی آپ کی مدح میں کہتے ہیں۔

 

قصیدہ

پسر مرتضی امیر حسین
مصطفیٰ مرد راکشید بدوش
درسرائے فنا دکشور دین
شاخ اورا بشاخ مصطفوی
دشمنان قصد جان او کروند
عمر عاص از فسادرائے زد
بایزید پلید بیعت کرد
کر بلا چون مقام و منزل ساخت
حبڈا کر بلا  وآن تعظیم
وآن تن سر بریدہ در گل و خاک
وان گرین ہمہ جہاں گشتہ
حرمت دین و خاندان رسول
تیغہا لعل گون زخونِ حسین
لم شمشیر و نیزہ و پیگان
ہمہ را  بردل از علی صد داغ
کین دل باز خواستہ زحسین

 

ہم چواد مے نبود در کونین
مرتضی پردر یدہ در آغوش
بود در صدر ملک کوثر دین
دُرِّ او عقد حُقہ نبوی
تادِماراز تلش برآوردند
شرح راز دو پشت پائے زد
تاکہ از خاندان بر آردگرد
تاکہ آل زیاد بروے تاخت
کز بہشت آورد بخلق نسیم
وان عزیز ان بہ تیغ دلہا چاک
در گلِ خون تنش با غشتہ
جملہ بردا شتند ز جہل فضول
چہ بوددر جہاں بتر زین تبین
برسرِ نیزہ سر بجائے ستان
شدہ یکسر قرین و طاغی باغ
شدہ مانع برین شماتت و شین

ترجمہ: امام حسین فرزند علی مرتضی کی مانند دونوں جہان میں دوسرا نہ تھا آپ کو جناب نبی کریم نے اپنے کندھے پر بٹھایا اور مرتضی نے محبت کی گودی میں پالا تھا آپ دین و  دنیا کے بادشاہ اور کوثر دین کے صدر نشین تھے آپ کی شاخ شاخ مصطفوی سے وابستہ تھی اور آپ کا موتی حقہ نبوی کا عقد تھا دشمنوں نے آپ کے ہلاک کرنے کا بیڑا اٹھایا جس کا انجام عمرو بن عاص کے ہاتھ پر ہوا اس مفسد اور فتنہ انگیز نے شرع کو بالائے طاق رکھ کر یزید سے بیعت کی تا خاندان نبوی میں تہلکہ ڈال دے جب امیر المومنین حضرت امام حسین نے کربلا میں قیام کیا تو عبد اللہ بن زیاد خونخوار لشکر سے آپ پر حملہ آور ہوا مقام کربلا نہایت ہی مقدس اور  متبرک مقام ہے جہاں بہشت کی خوشگوار ہوا خلق کو پہنچتی ہے اور جس کی خاک مٹی میں شہیدوں کے سر غلطان اور دل تلوار سے چاک ہوئے۔ ابو الہوس جہلانے دین کی عزت و حرمت اور خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برباد کو ڈالا جس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کے خون سے تلواریں لعل گون ہو رہی تھیں تو وہ بھی عجب عبرت انگیز نظارہ تھا جس سے بدتر دنیا میں اور کوئی نظارہ نہ تھا شمشیر و نیزہ اور پیکان کے زخم آپ کے جسم پر لگ رہے تھے اور شہیدوں کے سر  نیزوں اور برچھیوں پر نظر آتے تھے اور چونکہ باغی لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عداوت کے داغ دل  پر رکھتے تھے اس لیے حضرت امام حسین سے یہ دشمنی نکالی اور انہیں نا حق شہید کر ڈالا۔

 

گذارش مصنف

کاتب حروف محمد مبارک العلوی الکرمانی۔ المدعوبہ امیر خورد عرض کرتا ہے کہ جب اس بندہ ضعیف کی عمر پچاس سال کی ہوگئی اور اس وقت تک کوئی ایسا عمل وجود میں نہیں آیا جو خدا تعالیٰ کی درگاہ بے نیازی کے قابل و سزاوار ہوتا اور شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی ان چند بیتوں نے غفلت کی روئی گوش ہوش سے نکالی۔

ہر دم از عمر میرود نفسے
ایکہ پنجاہ رفت در خوابی
خجل آنکس کہ رفت و کار نساخت

 

چون نگہ میکنم نماند بسے
مگر این بے پنج روز دریابی
کوس رحلت زدندد بار نساخت

ہر وقت عمر کے سانس گھٹتے جاتے ہیں اور جب میں غور سے دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت تھوڑے باقی رہ گئے ہیں پچاس سال تو خواب غفلت میں گذر گئے اب اس پنجر و زہ زندگی میں کچھ کر لینا چاہیے ایسے شخص کو نہایت شرمندگی اٹھانی پڑے گی کہ بغیر کام بنائے خالی ہاتھ گیا جیسا وہ شخص شرمندہ ہوتا ہے کہ کون کا نقارہ بج جانے سے بھی اپنا بوجھ نہیں لا دیتا۔

میں عالم تحیر میں محو تھا اور دل ہی میں کہہ رہا تھا کہ یہ کیسا قیامت را واقعہ ہے کہ میں کوئی ایسا ذریعہ و وسیلہ نہیں رکھتا جو اس گمراہ اور بھولے بھٹکے کے لیے رہبر ہوسکے ابھی میں دریائے حیرت ہی میں غرق تھا کہ ازلی عنایت اس ضعیف و بیچارہ کی نازک اور خطر ناک حالت پر متوجہ ہوئی اور ایزوی توفیق نے اس شکستہ دل کی رفاقت کی حضرت سلطان المشائخ کی بے انتہا محبت نے دستگیری کی اور اس دریائے عصیان میں ڈوبے ہوئے کا عین وقت پر ہاتھ آپکڑا۔

دست من گیر  کی بیچارگی ازحد بگذشت
سَرِ من دار کہ درپایٔ تو ریزم جان را

(میری دستگیری کر کہ بیچارگی حد سے گذر گئی میرا سر اوٹھا کہ جان تیرے قدموں میں نثار کرتا ہوں۔)

یک بیک عالم غیب سے اس بیچارہ کو القا ہوا کہ اے عالم تحیر کے سرگشتہ اوراے صحرائے حیرت کے سرگردان و پریشان گو دنیا قرار کی جگہ نہیں ہے لیکن پھر بھی تجھے چاہیے کہ دامن قرار میں ثابت قدم رہ۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

قرارمے طلبی در جہاں زہے غافل
ترا قرار نبا شد مگر بدارِ قرار

(دنیا میں قرار کا طالب ہونا بڑی غفلت کی بات ہے کیونکہ بجز دار تجھے کہیں قرار نہیں مل سکتا۔)

تو اپنے پیروں کے اعتقاد میں مضبوط رہ اور ان کے متبرک اوقات کو اپنے پریشان حال کا سفارشی بنا ممکن ہے کہ سلطان المشائخ کی محبت کی بدولت تیرے دل و  جان میں رب العالمین کی محبت کے عمیق دریا سے چشمہ ابل پڑے اور تو  اس  کی وجہ سے اپنے نفس بد کردار کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے نجات  حاصل کر سکے اور یہ واضح رہے کہ اس ابدی دولت کے حاصل ہونے کے اسباب و وسائل اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتے کہ تو خواجگان چشت رضی اللہ عنہ کے اس بڑے شجرے کے مشائخ کے مناقب قلمبند کرے جن کے نام نامی اس میں درج ہیں اور جو درگاہ بے نیازی کے عاشق اور عالمِ محبت خداوندی کے سیاح ہیں جنہوں نے مخلوق خدا کو نفسی کے خطرناک موقع سے چھڑا دیا اور خواہش و ہوا کے غوغے سے رہائی دی۔ کسی بزرگ نے کیا ہی خوب کہا ہے۔

وکانو الدین اللہ حصنا مویدا
وسنتہ من سمیتہ خیر مرسل
فیارب اکرمھم بروح ورحمۃ
وانزلھم بالفضل فی خیر منزل

(اوہ خدا کے دین اور  پیغمبر کی سنت کے لیے مضبوط قلعے تھے خدا وندا راحت و رحمت سے اس کا اکرام کر اور اپنے فضل و کرم سے بہتر جگہ عنایت فرما۔)

تجھے اپنی تالیف میں اس بات کا التزام کرنا ضرور ہے کہ مشائخ کی فضائل و کرامات۔ ان کے روح افزا کلمات۔ ان کے دل کش ملفوظات ان کی مہذب و شائستہ چال ڈھال ان کے مقامی حالات و طرز معاشرت ان کے پیدائش اور نشو نما  پانے کے مقامات کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھے اور اس کے ساتھ ہی اپنی اس  عقیدت مندی اور خواہش اعتقادی کا اظہار کرے جو حضرت سلطان المشائخ کے ساتھ رکھتا ہے نیز یہ بھی مشرّح و مفصّل طور پر قلم بند کرے کہ تیرے آبا واجداد کا اتصال سلطان المشائخ کی درگاہ تک کیونکر پہنچا۔

ہر لحظہ راز دل بجہد بر سر زبان
دل مے طپد کہ عمر بشد ناگہان بگوے

اگر ایسا کرے گا تو ان باتوں کے مطالعہ سے تیری آنکھ میں نور اور سینہ میں سرور حاصل ہوگا اور تیرے پریشان دل میں اطمینان و جمعیت پیدا ہوگی اور آخر کار اخروی نجات پائیگا یہ ضعیف کہتا ہے۔

نجاتِ آخرت حاصل توان کرد
اگر در دامن مردان زنی دست

(مردان ہمت کے دامن پکڑنے سے اخروی نجات مل سکتی ہے۔)

شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

دست در دامن مردان زن و  اندیشہ مکن
ہر کہ با نوح نشیند چہ غم از طو فانش

(مردوں کا دامن پکڑنے میں اندیشہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نوح علیہ السلام کے ساتھ رہ کر طوفان کا اندیشہ کرنا فضول ہے۔)

الغرض جب یہ مضمون غالم غیب سے مجھے القا ہوا  تو میں خواجگان چشت رضی اللہ عنہ کے متبرک اوقات کا مقدمہ اپنے حال زار کا سفارشی لایا اور نہایت عجز و انکساری کے ساتھ حضرت سلطان المشائخ سے درخواست کی کہ یہ مجموعہ جس کا نام ’’سیر الاولیا فی محسبتہ الحق جل وعلا‘‘ ہے خدا کے فضل و کرم اور  اس کی مدد و نصرت سے پایہ تکمیل کو پہنچا خدا  کا شکر ہے کہ جب میں نے اپنے پیروں اور مقتداؤں کی مدد سے یہ کتاب لکھنی شروع کی اور حضرت سلطان المشائخ کی محبت کا واسطہ دیا تو اس نے بہت جلد تمام و تکمیل کی توفیق پائی۔ امیر حسن شاعر کہتا ہے۔

مور مسکین ہو سے داشت کہ در ککعبہ رسد
دست بر پائے کبوتر زد وناگہ برسید

(مسکین چیونٹی  کو کعبہ پہنچنے کی خواہش ہوئی تو اس نے کبوتر کا پاؤں پکڑلیا اور دفعۃً وہاں  جا پہنچی)

خدائے علام الغیب خوب جانتا ہے کہ اس کتاب کی تالیف کا سبب  بجز سلطان المشائخ کی محبت کے اور کوئی چیز نہیں ہے بندہ ضعیف عرض کرتا ہے۔

دگرنہ من کیا  ام آنکہ جان را
دہم از دیدہ و دل نیکوان را
بعشق  رویٔ شان کروم ہوسناک
کنم دل راز غمہا چاک در چاک

چونکہ مجھے شیخ شیوخ العالم نظام الحق والشرع والدین کی نسبت سلطان المشائخ کا خطاب الہام ربانی سے معلوم ہوا ہے اس لیے میں اس کتاب میں اسی معزز و ممتاز خطاب کی ہر جگہ رعایت کروں گا اور آپ کو ہمیشہ اسی مقتدر خطاب سے یاد کروں گا اِس کتاب میں اکثر روایات و حکایت اور لطائف و غرائب میں نے سلطان المشائخ ہی سے نقل کیے ہیں اور اس  کے ساتھ بہت سے ان فوائد کو بھی جمع کر دیا ہے جنہیں گذشتہ ناموروں اور معزز حضرات نے سلطان المشائخ کے جان بخش ملفوظات سے روایت کیا ہے علاوہ ازیں جو حالات و حکایت میں نے ان عزیزوں کی زبانی سنی ہیں جن کے قول و قلم دیانت صیانت اور ملفوظات پر پورا بھروسا اور کلی اعتماد ہے میں نے اس کتاب میں انہیں بھی قلم بند کردیا ہے اس طرح جو باتیں میں نے اپنے والد ماجد اور اپنے بزرگوار چچاؤں سے سنی ہیں جو سلطان المشائخ کے اعلیٰ درجے کے مقرب تھے اور جنہوں نے آپ کی نظرِ مبارک میں پرورش پائی تھی انہیں بھی درج کتاب کیا گیا ہے خواجہ سنائی نے خوب فرمایا ہے۔

لطفِ او ہر چہ در عقول نہاد
روح بردیدہ قبول نہاد

(اس کے لطف نے جو چیز عقول میں رکھی روح نے اسے فوراً قبول کرلیا۔)

اور جس جگہ کوئی نظم یا کوئی بیت یا قطعہ نظر پڑا اور کلام کے مناسب واقع ہوا وہ بھی اس کتاب میں لے لیا گیا لیکن صرف وہی نظم دابیات جو سلطان المشائخ کی محبت کا نقارہ بجاتی اور عاشقوں کے دلوں کو چقماق سے آگ کا شعلہ جھاڑتی اور اصحاب شوق کی آگے بھڑکاتی ہے چنانچہ ایک بزرگ فرماتے ہیں۔

آتش عشق تو از ہر جا بخاست
آخر این آتش زجائے خاستست

(تیرے عشق کی آگ ہر جگہ سے اٹھی آخر یہ آگ کہاں سے اوپر اٹھی۔)

اور ان نازک خیال شعرا کے نامجن سے یہ غیبی لطائف جو محبت و عشق کی زیادتی کے سبب میں صادر ہوئے ہیں اس  نظم وغیرہ کے عنوان میں لکھ دیے ہیں البتہ جس شاعر کا نام معلوم نہیں ہوا ہے وہاں لفظ بزرگ لکھ دیا ہے حضرت سلطان المشائخ کی مرویات و منقولات کو میں نے آپ ہی سے روایت کیا ہے ناظرین جس نظم کو شعرا کے نام سے خالی پائیں اس کی نسبت یہ سمجھنا چاہیے کہ کاتب حروف نے حضرت سلطان المشائخ کے دریائے محبت کی تہ سے نہایت نفیس و قیمتی موتی نکالے ہیں اور نوک قلم سے کاغذ کی سطح پر سروں کی لڑیوں میں پروئے ہیں شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

نالیدن درد ناک سعدی
بردعویٔ دوستی بیان است
آتش بہ نئے قلم در انداخت
دین صبر کہ میرود دخان است

(سعدی کا دردناک رونا اس کی دوستی کے دعوے کی دلیل ہے قلم کے نیزہ میں آگ موجود ہے اور سیاہی دُھواں ہے۔)

اس کتاب کے اول و آخر نیز درمیانی حصہ نے حضرت سلطان المشائخ کے ذکر سے اس لیے زیب و زینت پائی ہے کہ صاحب دلوں پر عام جلوہ گرمی اور  تمام و کمال قبولیت پائے کیونکہ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ذکر الشیخ فی الکلام کالملح فی الطام او کالروح فی الاجسام۔ یعنی کلام میں اپنے شیخ کا ذکر  کرنا ایسا ہے جیسا کھانے میں نمک یا جسم میں روح۔

اس کتاب کے دس  باب ہیں اور ہر باب گویا ایک الگ اور جدا کتاب ہے جو دلکشانکتوں دلربا لطیفوں سے مشین و مزین ہے ایک ایک نکتہ سے عالم حقیت کی رمزین ظاہر ہوتی اور  مخفی بھید واضح ہوتے ہیں جیسا کہ اس کتاب کی فہرست میں آپ ملاحظہ کریں گے اب کاتب حروف کی التماس ہے کہ ناظرین کتاب اسے دعاء ایمان سے فراموش نہ کریں اور فاتحہ سے بھول نہ جائیں۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

از خاطر حق پذیر یاران
یک فاتحہ التماس دارم
تاکار شکتہ برآید
آن دامنِ شان نمیگذارم

کاتب حروف عقیدت مند مریدوں اور  راسخ  الاعتقاد معتقدوں کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ خواجگان چشت قدس اللہ سرہم العزیز کے بڑے شجرے میں جن مشائخ کا ذکر  ہے یوں تو  ان میں سے ہر ایک شیخ خدا  تعالیٰ کی محبت و عشق میں نہایت تاباں و درخشاں آفتاب تھا  اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی وجہ سے مقام محبت سے ترقی کر کے محبوبیت کے درجہ میں پہنچ  گیا تھا فا تبعونی یجبکم اللہ اور ہر شخص اپنے اپنے عہد  میں خدا تعالیٰ کی عبادت و  بندگی اور دنیائے غدار کے ترک دینے میں بڑے بڑے عظیم الشان  مشائخ کے ہم پلہ تھا لیکن عالم محبت میں سب سے مستثنیٰ اور ممتاز تھا بندہ ضعیف کہتا ہے۔

در عبادات یافتہ توفیق
بادشاہانِ  عالم تحقیق
ہر یکے در  زمان خود ممتاز
در محبت میان اہل نیاز

(عبادات کی توفیق ان کی رفیق تھی اور وہ عالم تحقیق کے بادشاہ تھے ہر ایک اہل نیاز کے درمیان اپنے عہد میں محبت و عشق میں ممتاز تھا۔)

خاص کر خواجہ بندہ نواز سلطان المشائخ نظام الحق والشرع والدین خدا وندی محبت میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے بندہ ضعیف عرض کرتا ہے۔

زعشق حق مجسم بود ذاتش
جہا نے بندۂ آن ذات پاکش

(آپ عشق حق کی مجسم تصویر تھے اور ایک عالم آپ کا غلام تھا۔)

آپ کے متبرک سانسوں سے ہر وقت خدا وند تعالیٰ کی محبت کی بو پھیلتی تھی اور اس  بُو سے طالبانِ حق کے مشام جان میں کافی حصہ پہنچتا تھا اور ایک عالم معطر و خوشبودار ہوتا تھا۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

عالم معطر مے شود چون ناف آہوئے ختن
گویا کہ نوروز از برش بوئے بصحرامیزند

(آہوئے ختن کے ناقہ کی طرح ایک عالم معطر ہوتا ہے اور اس کی خوشبو تمام جنگل کو  مہکادیتی ہے۔)

عارف و عاشق اس بو کی وجہ سے آپ کے آستانہ پر سر رکھتے اور چوکھٹ مبارک کو بار بار چومتے تھے خواجہ حکیم سنائی کہتے ہیں۔

عاشقان سوئے حضرتش بد مست
عقل در آستین و جان بردست

عُرفا و صلحا سرگشتہ و پریشان اور مدہوش و حیران جوق در جوق آتے اور اس مقتدائے عشاق کی محبت کے آستانہ پر گردن تسلیم خم  کر دیتے اور اس درگاہ کی خاک پر بار بار جبہ فرسائی کرتے تھے۔ امیر حسن کہتا ہے۔

نمیر فتم بلاشد بوئے زلفش
خراب اندر پئے آن بوئے رفیتم

(اس کے کوچہ میں جانے کا میرا قصد نہ  تھا لیکن اس کی زلف کی خوشبو نے بے اختیار مجھے اپنی  طرف کھینچ لیا۔)

اور اس بادشاہ اہل محبت اور سرتاج اہل عشق کی محبت کی بدولت  حق تعالیٰ کی محبت کی بو اپنے مشامِ جان میں محسوس پاتے تھے یہ  ضعیف کہتا ہے۔

از بوے تو بوے یار خود مے یا بم
ازروئے تو سِرِّ کار خود مے یابم
تا جان ندہم فدانیابم جانان
جان میدہم و نگار خود مے بابم

(میری تیری بو میں اپنے یار کی بو پاتا ہوں اور تیرے وسیلہ سے اپنے کام کا انجام دیکھتا ہوں جب تک میں اپنی جان قربان نہ کروں گا یار کو نہ پاؤں گا لہذا اس کے وصال کی یہی ایک تدبیر ہے کہ اپنی جان دیدوں۔)

اور حق تعالیٰ نے اس خوش آئندہ اور دل و دماغ کو معطر کرنے والی بو کو اپنیمحبت کے پُر فضا باغ سے محبوبوں کی ذات میں رکھا ہے تاکہ جس بیچارہ اور سوختہ دل کے، مشام جان میں وہ خوشگوار بو پہنچے خدا تعالیٰ کی محبت و عشق کے قابل و شایان ہوجائے اور اس بو پر جان قربان کردے بندہ ضعیف کہتا ہے۔

 

قطعہ

اے عارفانُ عاشقان جان میدہم جان میدہم
بر آستان دوستان جان مے دہم جان می دہم
گفتی اگر خواہی بقا جان رابدہ بر بوئے ما
اینک ببوئے دلستان جان میدہم جان میدہم

(اے عارفو، اور اے عاشقو! میں دوستوں کی چوکھٹ پر جان دیتا ہوں میرے محبوب نے کہا اگر تو بقائے دوام چاہتا ہے تو ہماری بو پر جان قربان کر ڈال اس لیے میں اپنے دلربا کی بو پر جان دیتا ہوں۔)

حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جس جگہ اصحاب قلوب اور صاحب دل جمع ہوجاتے ہیں تو مجلس برخاست ہونے کے بعد ایک زمانہ تک وہاں خوشبو باقی رہتی ہے یہ خوشبو خارجی اور عارضی نہیں ہوتی بلکہ ہر صاحب دل کی ذات میں ایک ترو تازہ نافہ ہوتا ہے جو ہر وقت اور ہر جگہ اپنی مہک دیتا رہتا ہے لیکن بعض کی خوشبو ظاہر ہوتی ہے اور بعض کی مخفی۔ اس طرح ہر ایک کی بو الگ الگ اور جدا  جدا ہوتی ہے کسی میں کافور کی ہوتی ہے اور کسی میں عنبر کی اور کسی میں مشک وغیرہ کی۔ مولانا ظہیر الدین کوتوال مندہ سے جو حافظ کلام ربانی اور نہایت  نیک دل آدمی تھے اور ارتقا و پرہیز گاری میں غیر معمولی شہرت رکھتے تھے روایت کی گئی ہے کہ میں ایک دفعہ سلطان المشائخ کی خدمت  میں حاضر تھا کہ عود کی خوشبو اوڑھے ہوئے محسوس ہوئے ہر چند میں نے دائیں بائیں غور سے دیکھا کہ شاید کسی جگہ لوگ عود سلگار ہے ہیں لیکن کسی مقام پر مجھے عود نظر نہیں پڑا اس وقت مجھے خیال ہوا کہ شاید حجرہ کے اندر عود سلگ رہا ہے اتفاقاً خادم نے کسی کام کے لیے دروازہ کھولا اور میں نے حجرہ کو بھی اچھی طرح سے دیکھا مگر یہاں بھی عود کا نام نشان تک نہ تھا میری یہ حالت دیکھ کہ حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا کہ مولانا یہ عود کی خوشبو نہیں ہے یہ تو ایک اور ہی چیز کی خوشبو ہے امیر حسن کہتا ہے۔

عطار گوبہ بندد دکان را کہ من زدوست
بوئے کشیدہ ام کہ بمشک و  عبیر نیست

عطر فروش سے کہہ دینا چاہیے کہ اپنی دُکان بند کردے کیونکہ میں اپنے دوست سے وہ بو پاتا ہوں جو مشک و عبیر میں نہیں ہے۔)

یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ سلطان المشائخ نے اپنی کملی جسے آپ کے قد مبارک کے چومنے اور چھو جانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا قاضی محی الدین کاشانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرحمت فرمائی اور اس کملی سے (جو سچ پوچھتے تو  زرتار دو شالہ سے کہیں بہتر  و برتر تھی) ایک ایسی راحت فزا خوشبو پیدا ہوتی تھی جس پر بہشت کی خوشبو  کو رشک ہوتا تھا جناب قاضی صاحب نے نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ اول اس کملی کو  سر پر  رکھ اور  آنکھوں سے لگا یا بعد ازاں گھر لے گئے اور اپنی جان سے بڑھ کر اس کی حفاظت و نگرانی میں مصروف ہوئے تھوڑے تھوڑے زمانے کے بعد اسے باہر نکالتے اور دلی عقیدت مندی کے ساتھ چومتے چاٹتے اور برکتیں اور سعادتیں حاصل کرتے تھے اور اس کی جان فزا خوشبو سے اپنے مشام جان کو ہر وقت معطر پاتے تھے شیخ سعدی کہتے ہیں۔

اِین بوی عبیر آشنائی
از ساختۂ یار مہربان است

(یہ عبیر جیسی خوشبو دوست کی ساختہ پرداختہ ہے)

لیکن قاضی صاحب کا خیال تھا کہ کملی کی یہ خوشبو عارضی ہے چند  روز میں جاتی رہے گی مگر جب ایک طولانی مدت گذر جانے کے بعد بھی کملی سےویسے ہی تازہ خوشبو آتی رہی اور ایک ذرّہ برابر بھی کم نہ ہوئی اور اس نعمتِ عظمیٰ اور دولتِ غیر مترقبہ کا اپنے ذاتی تجربوں سے معائنہ کیا تو اس کملی کو قاضی صاحب نے مبارک ہاتھ سے خوب دھویا  لیکن پہلے سے بھی زیادہ خوشبو کملی میں آنے لگی قاضی صاحب نے جب یہ  صورت دیکھی تو ان کے استعجاب کے ساتھ حیرت اور بھی بڑھ گئی اتفاق سے قاضی صاحب کے خادموں نے کملی کی خوشبو کی کیفیت حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کی اور اول سے آخر تک ساری کیفیت دہرائی جوں ہی آپ نے کملی کی خوشبو کی کیفیت سنی زارو قطار رونے لگے اور پُر نم آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہنے لگا بندہ ضعیف مناسب مقام عرض کرتا ہے۔

بگریست جوابر در بہاران
خندید چو گل بروئے یاران

 

(ابر بہاری کی طرح رویا اور پھول کی طرح ہنسا)

آپ نے قاضی صاحب کو بُلا کر فرمایا قاضی صاحب یہ اس محبت کی خوشبو ہے جو خدا تعالیٰ نے محبوں کی ذات میں سپرد کی ہے۔ شیخ سعدی نے کیا ہی خوب فرمایا ہے۔

این بوئے نہ بوئے بوستان ست
این بوے زکوئے دوستان است

(یہ بو باغ کی نہیں ہے بلکہ دوستوں کی گلی کی ہے۔)

حضرت سلطان المشائخ کا باطن جو حقیقت میں خدا تعالیٰ کی محبت کا نہایت عمیق اور گہرا دریا تھا ہر وقت موج زن رہتا تھااور نہایت چمکدار موتی بے انتہا رونے کی وجہ سے آنکھوں کی راہ سے جو در اصل محبت کی سر چشمہ تھیں باہر نکالتا تھا اور پانی میں آگ ڈالتا تھا۔

چشم تو کہ از چشمہ دریائے محبت
آن چشم بجز لعل گہر بار نہ ریزد

(تیری آنکھ دریائے محبت کا سرچشمہ ہے جس سے بجز لعل گہر بار کے اور کچھ نہیں نکلتا۔) وقال واحد من الاولیا۔

لولا مدامع عشاق ولو عنھم
لبان فے الناس عز الماء والناس
فکل نار فمن الفاسھم قد لاحت
وکل ماء فمن عین لھم جار

بعنی ایک ولی کا قول ہے کہ اگر عشاق کے آنسو اور ان کے دلوں کی سوزش کا وجود  نہ ہوتا تو  لوگوں میں پانی و آگ موجود نہ ہوتی۔ پس ہر قسم کی آگ اُن کے انفاس سے ظاہر ہوئی اور ہر طرح کا پانی ان کی آنکھوں سے جاری ہوا۔ خواجہ سنائی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔

دل و چشمش ز شوق در محراب
چشمہ آفتاب و چشمہ آب

(جب اس کا دل اور آنکھ شوق کی وجہ سے محراب میں جگہ پاتے ہیں تو ایک آفتاب کا چشمہ دوسرا پانی کا چشمہ بن جاتا ہے)

بندہ ضعیف عرض کرتا ہے۔

ہر کہ زان چشم جرعہ نوشید
خلعتِ لِی مَع اللہ او  پوشید

(جس نے اس چشمہ سے ایک گھونٹ پیا گویا لی مع  اللہکا خلعت پہنا۔)

آپ عالم محبت کے پیاسوں کو اپنی شراب شوق سے سیرات و مست کرتے تھے یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔

کسے گز جوئے عشقت جرعہ یافت
بماند تا قیامت مست و مدہوش
دران مجلس کہ بخشی جام عشقت
نگردانی محمد را فراموش

(جس نے تیرے بحر عشق سے ایک گھونٹ پیا وہ قیامت تک مست و مدہوش رہا جس مجلس میں کہ تو اپنے عشق کا جام بخشے محمد مبارک کو فراموش نہ کی جیو۔)

پھر یہ دل مشتاق یوں عرض کرتا ہے۔

ز دریائے جمالت چون شدم سیراب ای ساقی
کہ ہر چہ بیشتر بینم تمنا بیشتر با شد

(ساقی جب میں تیرے دریائے جمال سے سیراب ہوتا ہوں تو میری تمنائیں پیشتر سے بھی زیادہ بھڑک اٹھتی ہیں۔)

اور آپ عشق حقیقی کے بیابان کے سر گشتہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی محبت کی راہ دکھاتے اور منزل مقصود تک پہنچاتے تھے یہ ضعیف کہتا ہے۔

میر سانید بمقصود و منازل ہمہ را
لطف اوورنہ کہ باشم کہ نہم دل بردو ست

(وہ سبِ کو منزل مقصود پر پہنچاتا تھا یہ اس کا لطف ہے ورنہ میں کون ہوں جو دوستی کا دم بھروں۔)

حضرت سلطان المشائخ کی عالی جاہ جناب سے معرفت کا آفتاب ہمیشہ چمکتا رہتا تھا اور ان بیچاروں کے دلوں کو نور بخشتا تھا جو نفسانی خواہشوں میں مبتلا ہوتے تھے اور جن کے باطن بالکل تاریک ہوجاتے تھے بلکہ آپ اپنی فطری تا بانی سے انہیں خدا تعالیٰ کے منظور نظر ہوجانے کے قابل بنا دیتے تھے ضعیف کہتا ہے۔

زدرگہ تو بدان آفتاب عشق بتافت
بران دلے کہ ز دنیا و دین مبرایافت
زروشنائی عشقت جہاں منور شد
مگر رقیب کزان روشنی نصیب نیافت

(تیری درگاہ سے آفتابِ عشق چمکتا جس کا دل دین و دنیا سے خالی پایا تیرے عشق کی روشنی سے گو جہان منور ہے مگر بد قسمت رقیب اس سے حصہ نہیں لیتا۔)

اور ہم جیسے معاصی کے دریا میں ڈوبے ہوؤں اور نفس امارہ کی فانی خواہشوں میں جلے ہوؤں کہ اپنی رحمت کے سایہ میں پرورش فرماتے تھے شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

خدایا برحمت نظر کردۂ
کہ این سایہ بر خلق گستردۂٖ

(اے خدایا تیری ہی عنایت و مہربانی ہے کہ تو نے یہ سایہ خلق پر پھیلا رکھا ہے)

یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔

آلودہ دامنان کہ نظربہ توافگنند
صافی شوند و پاک چو صوفیِ با صفا
ای آفتاب حسن ازاں چشمۂ حیات
آبے بخش تانشوم بعد  ازین فنا

(جب آلودہ دامن تجھ پر نظر ڈالتے ہیں تو صوفی جیسے پاک صاف ہوجاتے ہیں۔ اے حسن کے آفتاب مجھے چشمۂ حیات سے تھوڑا سارا پانی عنایت کر کہ اس کے بعد فنا نہ ہوں۔)

یہ ضعیف کہتا ہے۔

اے مایہ حسن وکان نعمت
اینک بدرت امیدواران
جان برکفدست کردہ ازول
برشکل خوش تو جان سپاران

(اے حسن کی پونچی نعمت  کی کان میں ہتھیلی پر جان رکھ کر تیرے دروازے پر اس امید میں کھڑا ہوں کہ تیری دلگیر صورت پر جان قربان کروں۔)

حضرت سلطان المشائخ کی مقدس ذات آپ کے دریا جیسے دل کے تابع تھی اور آپ کا حق پذیر دل روح مطہر کے تابع۔ اور حضور کی پاکیزہ روح نے اپنی کمالیت کی وجہ سے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور دل نے باین وجہ کہ اس میں اور روح میں ایک خاص قسم کا اتحاد وار اتباط ہے قالب کو جذب کرلیا تھا۔ پس اس صورت میں جناب سلطان المشائخ کی مبارک ذات ہمہ تن روح تھی امیر خسرو فرماتے ہیں:

وجود خواجہ نہ از آب و گل گشتہ مرتب
کہ جان خضر و مسیحا بہم شدہ است مرکب

(خواجہ کا وجود پانی اور خاک سے مرتب نہ تھا بلکہ خضر و مسیح کی روح سے مرکب تھا)

اور جب یہ تھا تو آپ کی ذات مبارک نے موت کا حکم چاہا اور خود روحانی ہوگئی۔ لیکن اس  قسم کی ذات جو مجسم روح تھی ہر تر دامن اور چشم آلود کے تماشا کرنے کے قابل نہیں ہے البتہ چشم معرفت کے ساتھ جان کے روزن سے نظر کرسکتے ہیں۔ خواجہ سنائی کہتے ہیں:

ازدرِ دل بمنظر جان آئی
بمتاشائے باغ جان آئی

(دل کے دروازے سے منظرِ جان میں آکر باغِ جان کا تماشا کرنا چاہیے)

ایک بزرگ سے بندگانِ دین نے سوال کے کہ آپ اپنے دوست کو دیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے جواب میں فرمایا۔ نہیں جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگےانزہ داک الجمال عن نظر مثلی۔ یعنی میں اس جہاں آرا جمال کو اسبات سے پاک اور منزہ جانتا ہوں کہ اسے مجھے جیسا دیکھ سکے۔ زان بعد یہ  قطعہ  اُن کی زبان پر جاری ہوا۔

انی لا حسد ناظری عینک
حتی اغص اذا نظرت الیک
واراک یخطر فی شمائلک التی
فی فنتی فاغا رُمنک علیک

یعنی میں تیرے دیکھنے والوں پر یہاں تک حسد کرتا ہوں کہ تیری طرف دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہوں اور  جب میں دیکھا ہوں کہ تیرے دل میں وہ چیز گذرتی ہے جو مجھے فتنہ میں مبتلا کرنے کا باعث ہے تو میں تجھ پر غیرت کرتا ہوں۔

 (سیر الاولیاء)

تجویزوآراء