حضرت امام محمد تقی جواد

حضرت امام محمد تقی جواد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

کنّیت ابو جعفر، ابوجعفر ثانی، لقب نقی اور جواد تھا۔ آپ کی والدہ کا اسم گرامی حیزان یا ریحانہ تھا۔ یہ ماریہ قبطیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ ائمہ اثنا عشر میں نویں (۹) امام تھے۔ آپ مدینہ پاک میں بروز جمعہ ۱۰؍رجب ۱۹۵ھ پیدا ہوئے۔ آپ کی عمر ابھی پچیس (۲۵) سال ہی تھی کہ آپ کے علم و فضل کا شہرہ دنیائے اسلام میں پھیل گیا اور مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچنے لگا۔ چونکہ مامون کے ماتھے پر امام موسیٰ رضا کے قتل کا داغِ بدنامی نمایاں تھا اس نے اس بدنامی کے داغ کو دھونے کے لیے اپنی بیٹی ام الفضل کو آپ سے بیاہ دیا اور مدینہ بھیج دیا۔ وہ ہر سال کے خرچہ کے لیے ایک ہزار دینار بھی دیتا تھا۔

آنحضرت ایک بارگیارہ سال کی عمر میں شہر کی ایک گلی میں چند لڑکوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ اتفاقاً مامون شکار کے لیے باہر جارہا تھا اسے دیکھ کر سارے لڑکے بھاگ گئے مگر آپ کھڑے رہے۔ جب مامون نزدیک سے گزرا تو آپ کو دیکھا اور تیز نظروں سے دیکھ کر پُوچھنے لگا، بیٹا! تم دوسروں کے ساتھ کیوں نہیں بھاگ گئے؟ آپ نے فرمایا: راستہ تنگ تو نہیں کہ میرے ٹھہرنے سے آپ کو گزرنے میں تکلیف ہو۔ نہ ہی میں نے کوئی جُرم کیا ہے کہ آپ کو دیکھ کر بھاگ اُٹھتا۔ میرا  حسنِ ظن بھی یہ ہے کہ آپ بلاوجہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ماموں ان باتوں سے بہت خوش ہوا اور آپ کا نام پُوچھا تو آپ نے بتایا: محمد ابن علی رضا۔ چنانچہ واپسی پر مامون اسی راستے سے گزرا تو آپ کے لیے ایک شکاری باز چھوڑا۔ بازغائب ہوگیا اور چند لمحوں کے بعد ظاہر ہوا تو اس کے پنچے میں ایک نیم جان مچھلی تھی۔ مامون اسے دیکھ کر حیران رہ گیا اور اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر واپس آگیا۔ جب آپ کے پاس آیا تو آپ کو پوچھنے لگا: محمد یہ کیا بات ہے کہ باز مچھلی پکڑ کر لارہا ہے۔ آپ نے فرمایا: انَّ یمشینا فی بحرقدرتہ سحکا صغارا تصد ھا بذاتہ الملوک والخلفا فیحشرون بہا سلالۃ اھل النبوت۔ جب مامون نے یہ بات سنی تو کہنے لگا۔ واقعی آپ ابن الرضا ہی ہیں۔

جب مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل کو حضرت امام کے نکاح میں دے کر مدینہ روانہ کردیا۔ تو آپ راستے میں چند روز کوفہ میں ٹھہرے۔ آپ کے قیام کا آخر دن تھا کہ آپ ایک مسجد میں تشریف لائے جس کے صحن میں ایک بیری کا درخت تھا۔ اس پر کبھی بھی پھل نہیں لگاتھا آپ نے پانی کا ایک کوزہ طلب کیا اور اس میں تھوڑا سا پانی پی کر باقی درخت کی جڑوں پر چھڑک دیا اور خود نماز میں مشغول ہوگئے۔ آپ نماز سے فارغ ہوکر اس درخت کے پاس آئے ہی تھے کہ وہ پھل سے بھرا پڑا تھا۔ یہ پھل میٹھا بھی تھا اور بغیر گٹھلی کے بھی۔ لوگ اسے بڑے شوق سے تبرک سمجھ کر لے جاتے۔

صاحب الشواہد النبوت (مولانا جامی) فرماتے ہیں کہ اسلاف میں سے ایک شخص نے روایت کی ہے کہ میں نے ایک دفعہ عراق میں ایک ایسے آدمی کے متعلق سنا جس نے پیغمبری کا دعویٰ کردیا اور اسے لوہے کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ میں بھی اسے دیکھنے گیا اور دربان کو اطلاع دے کر اس کے پاس پہنچا، وُہ ایک فہیم، ذہین اور باہوش آدمی نظر آتا تھا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ کیا ماجرا ہوا۔ اس نے بتایا کہ میں شام میں عبادتِ خداوندی میں مشغول تھا۔ جس مسجد میں حضرت حسین﷜ کا سر نیزے پر رکھا گیا اس میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ایک رات میں یادِ الٰہی میں مشغول رُو بہ قبلہ بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور مجھے کہنے لگا:اٹھو۔ میں اٹھا اور اس کے ساتھ ہولیا۔ وُہ مجھے کُوفے کی ایک ایسی مسجد میں لے گیا جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، امامت کرایا کرتے تھے۔ اس نے مجھے پُوچھا، جانتے ہو یہ کون سی جگہ ہے۔ میں نے کہا: یہ کوفہ کی مسجد ہے۔ وہ نماز میں مشغول ہُوا اور میں بھی نماز پڑھنے لگا۔ اس کے بعد ہم اس مسجد سے نکل کر شہر سے باہر آگئے اور تھوڑے ہی وقت میں مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں پہنچ گئے۔ اس مسجد میں بھی دورکعت نماز پڑھ کر روانہ ہوگئے اور چند قدم اٹھانے کے بعد ہم نے اپنے آپ کو بیت اللہ میں دیکھا، وہاں نماز ادا کی اور جب بیت اللہ شریف سے باہر آیا تو وہ غائب تھا۔ میں اس واقعہ سے بڑا ہی متعجب ہوا اور مجھے کچھ علم نہ تھا۔ کہ یہ شخص کون تھا اور کہاں سے آیا۔ جب اسی حالت میں ایک سال گزر گیا تو میں نے دیکھا کہ اسی وقت اور اسی مقام پر رات کے وقت وہی شخص آیا اور مجھے ساتھ لے لیا اور گزشتہ سال کی طرح مجھے اُن اُن مقامات سے گزارتا گیا۔ جب وُہ جدا ہونے لگا تو میں نے اسے قسم دی کہ اپنا نام و پتہ تو بتا جاؤ۔ اس نے کہا: میرا نام محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر امام ہے۔ صبح ہوئی تو میں نے بعض لوگوں سے یہ واقعہ بیان کیا۔ رفتہ رفتہ یہ واقعہ حاکم وقت نے بھی سنا اور مجھے دعوت نبّوت کے الزام میں قید و بند میں ڈال دیا گیا۔ دراصل میں غلطی پر ہُوں کہ راز دارانِ خدا کے رازوں کو افشاکرنے کا مرتکب ہوا ہوں یہ بات سن کر میرے دل میں بڑا رحم پیدا ہُوا اور میں نے حاکمِ وقت کو ایک سفارش رقعہ لکھا۔ اس نے لکھا کہ جو شخص ایک رات میں کوفہ سے مدینہ اور مدینہ سے بیت اللہ ہوکر واپس آیا ہے اسے کہیں کہ وہی لوگ اسے قید و بند سے بھی نجات دلادیں۔ مجھے اس تحریر سے بڑا دکھ ہُوا اور میں مغموم ہوکر اٹھ کر چلا آیا تاکہ اسے رقعہ کے جواب سے آگاہ کروں۔ میں جیل کے دروازے پر پہنچا تو تمام پہرہ دار اور سپاہی پریشان نظر آئے۔ میں نے پُوچھا تو معلوم ہُوا کہ دعویِٰ نبوت کرنے والا قیدی گم ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں چل رہا کہ اسے زمین کھاگئی یا آسمان نے اٹھا لیا۔

آپ نے وفات سے تیس ماہ پہلے اپنی وفات کی تاریخ کا اعلان کردیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ فلاں نیک انسان نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور آپ کے جسم کے کپڑے مانگے ہیں تاکہ اپنا کفن بناسکے۔ آپ نے فرمایاکہ جاؤ اب وہ شخص میرے کپڑوں کے کفن سے بے نیاز ہوچکا ہے۔ اگرچہ امام کی اس بات سے وُہ شخص کچھ نہ سمجھا مگر اس نے اس شہر میں پہنچ کر سُنا کہ وُہ نیک آدمی کئی دن سے واصلِ بحق ہوچکا ہے اور اسے دفن کر دیا گیا ہے۔

آپ کے احباب میں سے ایک شخص سفر کی تیاری میں مشغول تھا اور آپ کے پاس سلام الوداع کہنے آیا۔ آپ نے فرمایا: آج جانے کا دن نہیں ہے اس لیے آج ٹھہر جاؤ۔ وُہ اپنے شہرروانہ ہوکر ایک دوسری جگہ جا ٹھہرا۔ اتفاقاً اس رات ایک سیلاب آیا جس سے وُہ غرق ہوگیا۔

مامون کی وفات کے بعد جب تیس (۳۰) ماہ گزرے۔ بتاریخ ششم ماہ ذوالحجہ۲۲۱ھ معتصم باللہ کے زمانہ اقتدار میں زہر ہلاہل کے صدمہ سے فوت ہوئےے۔ یہ زہر معتصم باللہ کے حکم سے دیا گیا۔

سالِ وصلش اگر کنی تحقیق
سالِ ترحیل آں شہ اعظم

 

ہست ظاہر ز زاید صدیق
ہست مہدی ہادی عالم
۲۲۱ھ

تجویزوآراء