حضرت سیدناامام زین العابدین  

 

۵ شعبان المعظم  ۳۸؁ھ     ۱۸ محرم الحرام ۹۴؁ھ

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَعَلَی الْمَولی السَّیِدِ الْاِمَامِ عَلِیِ بْنِ الْحُسَیْنِ زَیْنِ الْعَابِدِیْن رضِی اَللہ تعالیٰ عنہ

سیدسجاد کے صدقہ میں ساجد رکھ مجھے

علمِ حق دے باقر علم ہدیٰ کے واسطے

ولادت باسعادت:

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ۵ شعبان المعظم بروز پنجشنبہ ۳۸؁ھ مدینہ منورہ میں ہوئی[1]۔

اسم مبارک:

          حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کے نام اظہار عقیدت کے طور پر اپنے والد گرامی کے نام پر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اکثر شہزادوں کے نام علی ہیں۔ البتہ بڑے اور چھوٹے ہونے کی رعایت سے انہیں اکبر، اصغر، صغریٰ اورکبریٰ کے اضافہ سے پکارا جاتا تھا۔ اسی مناسبت کی بنا پر آپ کا نام بھی علی ہے۔

لقب و کنیت:

          آپ کی کنیت ابو محمد، ابوالحسن، ابوالقاسم اور ابو بکر ہے اور لقب آپ کا سجاد، زین العابدین، سید العابدین،، ذکی اور امین ہے۔

تعلیم و تربیت:

          آپ نے دو برس تک سیدنا علی مرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آغوش عاطفت میں پرورش پائی بعدۂ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذیر نگرانی علومِ معرفت سیکھا، یعنی آپ نے دو برس اپنے والد حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم کے ساتھ گذاری پھر دس برس اپنے چچا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اور گیارہ برس اپنے والد ماجد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تربیت پاکر علوم و معرفت کے عظیم منازل طے فرماگئے۔

والدہ ماجدہ:

          آپ کی والدہ[2] ماجدہ ام ولد تھیں یزدجرد (آخری بادشاہ فارس) پسر شہریار بن شیرویہ  بن پرویز بن ہرفربن کسریٰ نوشیرواں کی بیٹی تھیں۔ نام مبارک ان کا سلافہ اور بقولے غزالہ اور لقب شاہ زمان و شہربانو تھا۔

حلیہ شریف:

آپ اپنے جدِ امجد حضرت علی شیر خدا مشکل کشا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم شبیہ تھے رنگ مبارک گندم گون تھا، اور پستہ قد ولاغراندام تھے، ریش مبارک میں حِنا اور کثم سے خضاب کرتے تھے۔

ولادت کی بشارت:

امام ابن المدینی حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں حاضر تھا اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کی گود میں تھے اور حضور ان کو کھلارہے تھے تو حضور نے فرمایا ااے جابر! ان کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کا نام علی ہوگا۔ جب قیامت کا دن ہوگا۔ منادی اسے اس لقب سے پکارے گا کہ سید العابدین کھڑے ہوں تو ان کا وہ بیٹا کھڑا ہوگا۔ پھر اسکے یہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جس کا نام محمد (امام باقر) ہوگا۔ اے جابر اگر تم اسے پانا تو اسے میرا سلام کہنا۔

نسب نامہ شریف:

علی بن حسین بن علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصبی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن مالک بن نضر بن کنانہ ہے۔

خصائل مبارکہ:

          حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اسلاف کے اخلاق و خصائل کے پیکر تھے، آپ بہت ہی شائستہ اور باادب تھے اپنے بڑوں کا احترام کرتے، مصیبت زدوں کی فریاد رسی کرتے،مفلوک الحال اور غریب لوگ آپ کی ذات میں بے پناہ ہمدردی اور شفقت پاتے تھے۔ عمر ابو نصر نےلکھا ہے کہ آپ نے بیشمار غلام خرید کر آزاد کئے، آپ اپنے بدترین دشمنوں سے بھی مہربانی کا برتاؤ کرتے تھے۔

          مروان ابن الحکم جو آپ کی دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا، جب وہ حکومت کے زیر عتاب آیات و اپنے اہل و عیال کے لیے آپ سے پناہ کا طلب گار ہوا، تو آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے اس کے اہل خانہ کو ایک طویل عرصے تک پناہ دی اور ان کی خبر گیری کرتے رہے۔

          آپ نے اخلاق کریمانہ نے خلق خدا کو آپ کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ ایک بار کا واقعہ ہےکہ آپ نے سنا کہ کوئی شخص آپ کو برا کہتا ہے آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے ایسا حسن سلوک کیا کہ وہ آپ کے مصاحبوں میں شامل ہوگیا، شعراء نے آپ کی نجابت و شرافت، اخلاق حسنہ اور عبادت گزاری پر بیشمار قصائد کہے ہیں۔

فضائل:

وارثِ نبوت، چراغ امت، سید مظلوم، زین عبادت شمع اوتاد، سیدنا ابوالحسن علی المعروف بہ زین العابدین بن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ آپ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ عبادت گزار، کشفِ حقائق و نطق و قائق میں مشہور تھے۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے کسی قریش کو امام زین العابدین سے افضل و اعلیٰ نہیں دیکھا۔ اور حضرت سعید بن مسیت فرماتے ہیں کہ میری نظرمیں ان سے بڑھ کر کوئی صاحبِ تقویٰ نہیں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب آپ کو دیکھتے تو فرماتے مرحبا بالحبیب بن الحبیبیعنی شاباش اے محبوب کے محبوب بیٹے۔

          ابو حازم فرماتے ہیں کہ ہم نےا ٓپ سے زیادہ افضل وفقیہ کسی  کونہیں پایا۔ ذہبی اور عینیہ کا قول ہےکہ ہم نے کوئی قریش اپنے سے افضل نہیں دیکھا۔ حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ آپ اہل فضل میں سے تھے۔ ابن ابی شیبہ کاقول ہے کہ اَصَحُ الْاَسَانِیْد الزُّھْرِیْ عَنْ عَلِیِّ بِنِ الْحُسَیْنِ عَنْ اَبِیْہِ  یعنی حدیث کی سندوں میں سب سے زیادہ صحیح سند وہ ہےجس میں امام زین العابدین اپنے والد امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور وہ اپنے والد حضرت امیر المؤمنین علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کریں[3]۔ نقش خاتم آپ کا وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہِ ہے۔

ایثار و قربانی:

          آپ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال و اسباب خدا کی راہ میں خیرات کیا، آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ بہت سے غربائے اہل مدینہ کے گھروں میں پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ ان غرباء کو خبر نہیں ہوتی تھی کہ یہ کہاں سے آتا ہے؟ مگر جب آپ کا وصال ہوگیا تو ان غریبوں کو پتہ چلا کہ یہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی سخاوت تھی[4]۔

حلم و صبر:

          آپ بہت ہی حلیم و صابر وشاکر تھے۔ یزید پلید کے دورِ حکومت میں آپ کو کربلا سے دمشق تک ہتھکڑی اور بیٹری پہنا کر لایا گیا، پھر عبدالمالک بن مروان نے اپنی حکومت کے زمانے میں آپ کو لوہے کہ ہتھکڑی اور گلے میں بھاری طوق پہنا کر مدینہ منورہ سے شام تک چلنے پر مجبور کیا اور دمشق میں آپ کو قید کردیا۔ آپ نے ان تمام مشقتوں کو برداشت فرمایا اور اُف بھی نہیں کیا۔ بلکہ ہر دم و ہر قدم صبر و شکر الٰہی کے پیکر بنے رہے اور زبان پر شکر الٰہی کے سوا ایک لفظ بھی شکوہ و فریاد کو نہ لائے۔ آپ کے عقیدت شعار و وفادار شاگرد امام زہری کو آپ کے گرفتاری کی خبر ہوئی تو تڑپ گئے اور دمشق میں عبدالمالک بن مروان کے دربار میں پہونچ کر آپ کو رہا کرایا اور پھر پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ آپ کو مدینہ منورہ لائے[5]۔

بردباری:

          ایک دن حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر سے تشریف لئے جارہے تھے کہ راستے میں ایک گستاخی نے آپ کو برا کہنا شروع کیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ بھائی! جو کچھ تم نے مجھے کہا ہے۔ اگر میں واقعی ایسا ہی ہوں تو خدا تھے معاف فرمائے۔ وہ شخص یہ سن کر بڑا نادم ہوا اور بڑھ کر آپ کی پیشانی کو بوسہ دے کر کہنے لگا۔ حضور! میں نے جو کچھ کہا ہے آپ ہرگز ایسے نہیں ہیں بلکہ میں ہی جھوٹا ہوں۔آپ میری مغفرت کی دعا فرمادیں۔ آپ نے فرمایا اچھا جاؤ، خدا تمہیں معاف فرمائے۔

روایت:

          ایک دن آپ مدینہ منورہ کی گلی میں جارہے تھے کہ ایک قصاب کو دیکھا کہ ایک بکری کو زمین پر لٹائے ہوا ہے اور اسے ذبح کرنے کے لیے چھری پتھر پر تیزکررہا ہے ۔ یہ دیکھتے ہی آپ کی حالت غیر ہوگئی والد ماجد کی شہادت یاد کرکے اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں، پھر آپ نے اس قصاب سے پوچھا اے بھائی! تو نے اس بکری کو دانہ پانی دیا ہے یا نہیں؟ اس نے عرض کیا۔ اے امام میں اس کو تین روز سے دانہ پانی کھلاپلارہا ہوں اور اس وقت بھی پانی پلا کر لایا ہوں، یہ سنکر آپ نے سرد آہ کھینچی اور رو کر فرمایا افسوس! کوفیوں نے میرے والد مظلوم کی بکری جیسی بھی قدر نہ کی کہ تین روز تک بھوکا پیاسا رکھ کر اسی طرح شہید کرڈالا۔

عبادت و ریاضت:

          آپ نے اپنے والد بزرگوار سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد دنیا کی لذتوں کو بالکل ترک کردیا۔ اور یاد الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ شب و روز واقعات کربلا اور مصائب آلِ عباد کو یاد کرکے روتے تھے نہ دن کو چن نہ رات کو آرام تھا۔ جب شفقت پدری اور ان کی بیکسی و بے بسی یاد آتی تو روتے روتے بیخود ہوجاتے اور زبان حال سے مضمون اس شعر کو ادا فرماتے

بسنگ رخنہ شداد بس گر یستم بے تو       زسنگ سخت ترم من کہ زیستم بے تو

آپ کی نماز:

          حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز کے لیے وضو کرنے بیٹھتے تو آپ کا چہرۂ مبارک زرد ہوجاتا تھا۔ اور جب آپ نماز کےلیے کھڑے ہوتے تو تغیّر رنگ کے باعث پہچاننا مشکل ہوجاتا۔ لوگ آپ سے دریافت کرتے کہ اے فرزند رسول اللہ ! آپ کا یہ کیسا حال ہوجاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ لوگو! نماز اللہ کےیہاں پیشی کا وقت ہے، کون ایسا نادان انسان ہوگا جو رب کائنات کی پیشی کے وقت ہنستا اور کھل کھلاتا ہوا اس کی عدالت میں حاضر ہوگا[6]۔

۲۔      حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر روز و شب میں ایک ہزار رکعت نفل پڑھا کرتے تھے، ایک روز آپ اپنے مکان میں نفل پڑھ رہے تھے کہ آپ کے مکان کو آگ لگ گئی، لوگ آگ بجھانے لگے۔ مگر آپ اسی خشوع و خضوع سے نماز نفل ادا کرتے رہے۔ جب آگ بجھ گئے، تو آپ نماز سے فارغ ہوئے۔ لوگوں نے عرض کیا حضور! مکان کو آگ لگ گئی تھی ہم لوگ بجھانے میں مصروف تھے مگر آپ نے پرواہ تک نہ فرمائی؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ یہ آگ بجھارہے تھے اور میں آخرت کی آگ بجھانے میں مشغول تھا[7]۔

۳۔      امام طلحہ شافعی نے لکھا ہے کہ ایک بار محراب عبادت میں شیطان سانپ کی شکل میں ظاہر ہوا تاکہ امام علی ابن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے استغراق میں خلل ڈالے، اس نےآپ کی انگشتِ پا کو دانتوں میں دبایا۔ مگر آپ کی مشغولیت میں شمّہ برابر بھی فرق نہ آیا۔ آخر وہ پشیمان ہو کر دور جا کر کھڑا ہوگیا اور پھر یہ آواز تین بار فضا میں بلند ہوئی جو کہہ رہی تھی۔

اَنْتَ زین العابدین انت سید الساجدین،آپ ہی عابدوں کی زینت ہیں، آپ ہی سجدہ گزاروں کے سردار ہیں۔[8]

خوفِ خدا:

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے خدا ترس تھے، آپ کا سینہ گویا خوف و خشیت الٰہی کا گنجینہ تھا۔ روایت ہے کہ ایک بار آپ حج بیت اللہ کو تشریف لے جا رہےتھے اور حج کا احرام باندھا تو لبّیک نہیں پڑھا۔ لوگوں نے کہاحضور! لبّیک کیوں نہیں پڑھتے؟ تو آبدیدہ ہوکر ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ میں لبّیک کہوں اور خدا کی طرف سے لا لبّیک کی آواز نہ آجائے کہ نہیں، نہیں تیری حاضری قبول نہیں لوگوں نے عرض کیا کہ حضور! بغیر لبّیک پڑھے ہوئے آپکا احرام کیسے ہوگا؟ تو آ نے بلند آواز سے لبّیک اَللّٰہمَّ لبّیک پڑھا۔ مگر ایک دم لرز کر خوفِ الٰہی سے اونٹ کی پشت سے زمین پر گرپڑے اور بے ہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے۔ لبّیک پڑھتے اور پھر بیہوش ہوجاتے یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ نے حج ادا فرمایا[9]۔

تلاوتِ قرآن حکیم:

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دادا حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تلاوت قرآن حکیم فرماتے تھے تو آپ کی خوش الحانی سےلوگ کھینچے چلے آتے تھے یہاں تک کہ آپ کے اردگرد لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوجاتی تھی اور حاضرت ایسے خود رفتہ ہوجاتے کہ ایک دوسرے کی خبر تک نہ ہوتی۔

میدان کربلا سے واپسی:

روایت ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کے شہزادے سمیت میدان کربلا میں شہید کردیا گیا تو حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی باقی نہ بچا کر عورتوں کو دیکھ بھال کرسکے آپ اس وقت شدید بیمارتھے، جب حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اہل بیت اطہار کے ساتھ اونٹوں کی ننگی پیٹھ پر سوار کراکے دمشق میں یزید پلید کے سامنے لایا گیا تو کسی نے آپ سے پوچھا۔ کَیْفَ اَصْحَبْتُم یَاعَلِیْ وَیَا اَھْلَ بَیْتِ الرحمۃ قَالَ اَصْحَبْنَا مِنْ قَوْمِنَا بِمَنْزِلَۃِ قَوْمِ مُوْسٰی مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یُذْبِحُوْنَ اَبْنَاءَھُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نَسِاءَھُمْ فَلَا نَدْرِیْ صبحنا من مساءنا من حقیقۃبلاءنا  یعنی اے علی! اے رحمت کے گھر والے! تم نے کیسے صبح کی؟ آپ نے جواب میں فرمایا ہم نے اپنی قوم میں اس طرح صبح کی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے فرعون میں صبح کی تھی کہ فرعونیوں نے ان کے بچوں کو قتل کیا اور ان کی عورتوں اور بچیوں کو زندہ رکھا۔ لہٰذا ہم نہیں جانے کہ اس امتحان گاہ میں ہماری صبح شام کے مقابلے میں کیا حقیقت رکھے گی، ہم خدا کی نعمتوں پر شکر بجا لاتے ہیں اور اس کی بلا ومصیبتوں پر صبر کرتے ہیں بس یہ ہی ہمارے مصیبت کی حقیقت ہے۔

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جب کربلا سے لوٹنے لگے تو اپنی التجا و سلام وعقیدت بارگاہ رسالت میں بڑے ہی درد بھر انداز میں پڑھا تھا جو اپنی فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے وہ قصیدہ یہ ہے۔

اِنْ نِّلْتِ یَارِیْحَ الصَّبَا یَوْمً اِلٰی اَرضِ الْحَرَم
اے باد صبا اگر تو کسی دن حرم کی سرزمین پر جائے
بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَرَمْ
تو میرا سلام اس روضہ اقدس تک پہنچا جس میں عظمت والے نبی آرام فرما ہیں
مَنْ وَجْہُہٗ شَمْسُ الضُّحٰی مَنْ خَدُّہٗ بَدْرُالدُّجٰی
وہ کون ہیں جن کا چہرہ مبارک چڑھتا سورج اور جن کا رخسار ظلمتوں کا چاند ہے
مَنْ ذَاتُہٗ نُورُ الْھُدٰی مَنْ کَفُّہٗ بَحْرُ الْھُمَمْ
وہ کون ہے جن کی ذات ہدایت کا نور اور جن کا دست مقدس عزم کابحر بیکراں ہے
قُرْاٰنُہٗ بُرْھَانُنَا نَسْخًا لِاِدْیَانِ مَّضَتْ

ان کا لایا ہوا قرآن ہماری دلیل ہے جو گذشتہ تمام دینوں کے لیے ناسخ ہے

اِذْجَاءَناَ اَحْکَامُہٗ کُلُّ الصُّحُفْ صَارَ الْعَدَمْ

جب اس کے احکام ہم تک پہنچے صحفِ آسمانی کالعدم ہوگئے

اَکْبَادُنَا مَجْرُوْھَۃً مِنْ سَیْفِ ہِجْرِ الْمُصْطَفیٰ

میرے دل میں ایک حسرت ہے کہ میں مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کی گذرے ہوئے تمام اوقات میں

لِیْ کُلِّ حَیْنٍ قَدْ مَضٰی فِی الْحالِ ما یحصل ہم

وہ تعریف کیوں نہ کرتارہا جو ان کے بارے میں آج نصیب ہوئی

یَا مصْطَفٰی یَا مُجْتَبٰی اِرحَمْ عَلیٰ عِصْیَا نِنا

اے مصطفیٰ اے مجتبیٰ ہمارے گناہوں پر رحم و کرم فرما

مَحْبُوْرَۃٌ اَعْمَالُنَا طَمْعًا وَّ ذَنْبًا بِالظُلَمُ

ہمارے اعمال حرص و ہوس سیہ کاریوں اور ظلم و جبر سے پر ہیں

لَسْتُ بِرَاج مُّفْرَدًا بَلْ اَقْرِبَائِیْ کُلُّھُمْ

میں تنہا امیدوار نہیں بلکہ تمام قرابت دار امید رکھتے ہیں

فِی القَبْرِ اِشْفَعْ یَانَبِیْ بِالصَّادِ وَالنُّوْنِ الْقَلَمْ 

میں تنہا امیدوار نہیں بلکہ میرے تمام قرابت دار امید رکھتے ہیں

فِی الْقَبْرِ اِشْفَعْ یَا نَبِیْ اِلصَّادِ وَالنُّوْنِ الْقَلَمْ

کہ اے نبی مکرم آپ آخرت میں ہماری شفاعت فرمائیں گے آپکو صاد و نون قلم کا واسطہ

یَارَحْمَۃً الِلّعَالَمِیْن اَدْرِکْ لِزَیْنِ الْعَابِدیِن

اے رحمۃٌ للعالمین زین العابدین کی دستگیری فرمائیے

محبُوسِ اَیْدِ الظَّالِمِیْنِ بِالْمَوْکَبِ وَالْمُزْدَحَمْ

جو بھیڑ اور ازدہام میں ظالموں کے ہاتھوں گھرا ہوا ہے

یزید کی گستاخی:

جب اہلبیت کا لٹا ہوا قافلہ یزید پلید کے دربار میں پہنچا تو اس نے زنان حرم محترم پر فرمایا کہ اے بے حیا یزید! کیا تجھ میں شرم وغیرت کی کچھ بھی خو باقی نہیں رہی کہ تیرے گھر کی عورتیں جو اس کی بھی اہلیت نہیں رکھتی کہ ہماری کنیزیں بن سکیں وہ تو پردہ میں بیٹھیں اور ہم جو کہ ناموس رسول ہیں، جن کے گھر میں فرشتے بھی اجازت لے کر داخل ہوں انہیں تو اس طرح بے پردہ و بے حجاب بھر ے دربار میں بلا کر رسوا کررہا ہے، ظلم و ستم کا ایک ایک تیر اہلبیت اطہار کے سینۂ صبر و استقلال پر آزماگیا اب بھی تیری ظالمانہ پیاس نہیں بجھی؟ کیا اب بھی تیرا دل نہیں بھرا ، ظالم کہیں ایسے نہ ہو کہ غیرت حق کو جلال آئے اور قہر الٰہی کی بجلی اس وقت تجھے جلا کر خاکستر کردے۔

          اس تقریر سے یزید پلید کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا، فورا! تمامی مستورات عصمت کو پردہ میں بھجوادیا اور سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس بلاکر کہنے لگا، کہ تمہارے والد نے چاہا کہ منبروں پر ان کا نام لیا جائے ان کے نام کا خطبہ پڑھاجائے، مگر قدرت نے یہ قدر و منزلت تو میری قسمت میں لکھی تھی، ان کی آرزو کیسے پوری ہوتی! اللہ نے مجھے کامیاب کیا اور نہیں اس نعمت سے محروم رکھا۔

          سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرت ہاشمی کو جوش آگیا اور فرمایا کہ او جھوٹے! انصاف سے کہہ کر منبروں کو میرے باپ دادا نے بنایا یا تیرے باپ دادا نے، قرآن تیرے باپ دادا پر نازل ہوا یا میرے جد امجد جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر، حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حقیقت بیانی تقریر نے یزید کی آتش غیظ و غضب کو اور بھڑکا دیا اور اتنا مشتعل ہو ا کہ حواس باختہ ہو کر حضرت امام زین العابدین کے قتل کا حکم دے دیا۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یزید کو ڈانٹتے ہوا کہا کہ او ہندہ کے بیٹے خبردار قتل امام زین العابدین کا ارادہ بھی نہ کرنا ورنہ ابھی تک تو ہم صبر و ضبط سے کام لیتے آئے ہیں، اگر اب تو نے نسل پیغمبر کی اس آخری نشانی کومٹانا چاہا تو اس کا انجام بہت خراب ہوگا، اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ خوف کی وجہ سے قتل سے باز آگیا۔

          اتنے میں یزید کا بیٹا آگیا، یزید کہنے لگا کہ میرا یہ بیٹا اور آپ عمر میں برابر ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں میں کشتی ہوجائے دیکھتا ہوں کہ کون جیتتا ہے؟ آپ نے فرمایا اگر تجھے یہ ہی شوق ہے کہ میری رگوں میں ہاشمی خود جو دوڑرہا ہے اس کی طاقت و قوت دیکھو تو ایک تلوار مجھے دیدو اور ایک اپنے بیٹے کو پھر دیکھو کس کا وار کاری ہے اور کون طاقتور ہے۔

معاً یزید کے محل سرا سے نوبت بجنے کی آواز آنے لگی یزید کے بیٹے نے کہا بتاؤ؟ یہ نوبت کس کی بج رہی ہے تمہارے باپ دادا کی یا میرے باپ دادا کی؟ ابھی اسکی بیہودہ بکواس ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ مسجد سے اذان کی آواز آئی، سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ او ابن یزید! تیرے باپ کی نوبت تیرے اس قصر نحوست میں بجے گی اور صرف اس وقت تک جب تک نقارہ سلامت ہے، لیکن مسجد سے میرے جدّ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نوبت کی جو آواز آرہی ہے جس کی گونج فرش سے عرش تک ہے وہ صبح قیامت تک باقی رہے گی۔ بتا تو سہی اشھد ان محمدًا رسول اللہ میرے جد امجد کے لیے ہے یا تیرے؟ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس گفتگو سے یزید کچھ متاثر ہوا نیز اس پر کچھ خوف کا بھی غلبہ ہوا، کہنے لگا آپ مجھ سے کچھ فرمائش کریں میں اسے پورا کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ توقع نہیں ہے کہ میں جو کچھ بھی کہوں گا تو اسے پورا کرے اور اگر تو واقعی اپنے قول میں سچا ہے تو میرے چار مطالبات ہیں ۔ اسے پورا کردے اول تو یہ کہ میرے والد محترم کے قاتل کو میرے حوالے کرتاکہ میں اس کو قتل کروں۔ ۲ دوم یہ کہ شہدا ء کے سروں کو مجھے دے تاکہ میں انہیں جسم ہائے مقدسہ کے ساتھ دفن کروں۔۳ سوم یہ کہ آج جمعہ کا دن ہےمجھے اجازت دے کہ میں منبر پر چڑح کر خطبہ پڑھوں۔۴ چہارم یہ کہ ہمارے لٹے ہوئے قافلہ کو مدینہ پہنچادے۔ یزید ے ان چاروں سوالوں کو سن کر سب سے پہلے قاتل حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پوچھا، لوگوں نے کہا خولی بن یزید ہے خولی بن یزید نے صاف انکار کرگیا اور کہا میں نے قتل نہیں کہا بلکہ سنان ابن انس ہے، سنان ابن انس اپنا نام سن کر فوراً بول اٹھا کہ قاتل امام پر میں لعنت بھیجتا ہوں قاتل حسین تو شمر ذی الجوش ہے، تمام درباری بھی تصدیق کرنے لگے کہ واقعی قاتل حسین شمر ہی ہے۔ مگر شمر بھی صاف انکار کرگیا۔ یزید نے برہم ہو کر کہا آخر کسی نہ کسی نے تو قتل کیا ہی ہوگا۔ یزید کے تیور دیکھ کر شمر کو بھی طیش آگیا اور کہنے لگا میں کیوں قتل کرنے لگا؟ کیا حسین نے میری سلطنت دبار کھی تھی؟ بلکہ اصل میں قاتل حسین وہ ہے جس کو خطرہ تھا کہ اگر حسین زندہ رہا تو میری سلطنت باقی نہ رہے گی، قاتل حسین وہ ہے جس نے قبائل کو جمع کیا انہیں ہتھیار دئے، جاگیریں دیں، زرو جواہر بانٹے اور قتل حسین پر ابھارا خود عشرت کدہ میں بیٹھا رہا اور دوسرے کے زریعے اپنا مقصدحاصل کیا، چونکہ ساری زد یزید پر پڑرہی تھی۔ اس لیے وہ کہنے لگا کہ تم سب پر خدا کی لعنت ہو سب کے سب یہاں سے چلے جاؤ۔ اس کے بعد امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے سے کہنے لگا کہ قاتل امام کو مطالبہ تو درگذر کیجیے باقی آپ کے تمام مطالبات منظور ہیں۔

دمشق کی جامع مسجد:

          مطالبات کی منظوری کے بعد حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دمشق کی جامع مسجد میں خطبہ پڑھنے کی غرض سے تشریف لے گئے جس وقت یزید جامع مسجد پہونچتا ہے تو دیکھتا کیا ہے کہ شام کے امراء ورؤسا جمع ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبہ پڑھنے سے میرا بنا بنایا کام بگڑ جائے، فوراً ایک شامی خطیب کو اشارہ کیا۔ وہ منبر پر چڑھ گیا اور خطبہ شروع کردیا، خطبہ کیا تھا۔ جھوٹ کا جیتا جاگتا شاہکار تھا۔ جس میں آل ابو سفیان کی بے جا تعریف اور آلِ ابی طالب کی تحقیر و تذلیل اور سبطِ پیمبر کی برائیاں تھی۔ امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرت ایمانی اس غلط بیانی کو برداشت نہ کرسکیں، آپ کھڑے ہوگئے اور آگے بڑھ کر فرمایابئس الخطیب انت یعنی شامی تو انتہائی جھوٹا اور فتنہ پرور خطیب ہے۔ ایک فاسق و فاجر سیہ کار شخص کی خوشنودی کے لیے اللہ جل جلالہ کی نافرمانی کررہا ہے اور اپنے کو عذاب الٰہی کا مستحق ٹہراتا ہے۔ اور اے یزید! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آج مجھے خطبہ پڑھنے کا موقع دیا جائیگاپھر وہ وعدہ خلافی کیسی؟ یزید اس یاد دہانی کے باوجود بھی حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطبہ پڑھنے کا موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ مگر حاضرین مسجد کھڑے ہوگئے اور اصرار کرنے لگے کہ اہلبیت اطہار کی شان خطابت بے مثل ہے آج ہم انہیں کا خطبہ سننا چاہتے ہیں۔

یزید اپنے حواریوں سے مشورہ کرنے لگا کہ امام زین العابدین اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کی فصاحت و بلاغت کا عرب و عجم میں ڈنکا بج رہا ہے، کہیں ایسا نہ کہ ہاشمی شیر اپنی شاندار فصاحت و بلاغت سے پانسہ ہی پلٹ دے، یزید کے یہی خوابوں نے جواب دیا کہ ابھی بچے ہیں، اتنا سلیقہ کہاں؟ امید ہے کہ وعظ و نصیحت کرکے خطبہ ختم کردیں گے؟ مجبور ہو کر یزید نے آپ کو خطبہ پڑھنے کی اجازت دے دی۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر تشریف لائے اور خطبہ شروع فرمایا۔ حمد و نعت کے بعد آپ نے جو کلمات ارشاد فرمائے اس کو علامہ ابو اسحاق اسفرائنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب نور العین میں بہت تفصیل سے نقل فرمایا ہے ان کلمات کے مفہوم حسب ذیل ہیں۔

"اے لوگو! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ دنیا اور اس کی فریب کاریوں سے بچو، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جو زوال پذیر ہے اس کے لیے بقا نہیں ہے، اس نے گذشتہ قوموں کو فنا کردیا ہے۔ حالانکہ تم سے زیادہ ان کے پاس مال و اسباب تھے ان کی عمریں تم سے کہیں زیادہ لمبی تھیں، ان کے جسموں کو مٹی نے کھالیا اور ان کے حالات پہلے کی طرح نہیں ، تو اب اس کے بعد تم دنیا و مافیہا سے کس بہتری کی امید رکھتے ہو؟ افسوس افسوس! خبردار ہوشیار ہوجاؤ کہ اس دنیا سے لپٹے رہنا اور اس میں مشغول ہوجانا بے فائدہ ہے۔ لہذا اپنی گذشتہ اور آئندہ کی ذندگی پر غور کرو نفسانی خواہشات سے فارغ اور مدت عمر ختم ہونے سے پہلے اس دنیا میں نیک کام کرلو جس کا اچھا بدلہ تمہیں آئندہ ملے گا۔ کیونکہ ان اونچے اونچے محلوں سے بہت جلد قبروں کی طرف بلائے جاؤ گے اور اچھے برے کاموں کے بارے میں تم سے حساب لیا جائے گا، خدا کی قسم بتاؤ کتنے تاجروں کی حسرتیں پوری ہوئیں؟ اور کتنے جابر ہیں جو ہلاکت کے گڑھوں میں گرے ۔ جہاں ان کی ندامت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا اور نہ ظال کو اس کی فریاد رسی نے اور اسی کا صلہ انہوں نے پایا، جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیسا تھا اور اے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا"

"اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کر میرا نام علی ہے، میں حسین ابن علی کا بیٹا ہوں، میں فاطمہ زہرا کا لخت جگر ہوں، میں خدیجۃ الکبریٰ کا فرزند ارجمند ہوں،میں مکہ زادہ اور صفا و مروہ و منیٰ کا بیٹا ہوں (بچہ) اس ذات قدسی صفات کا بیٹا ہوں جس پر ملائکہ آسمان صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کے متعلق رب کائنات کا ارشاد ہے۔ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی میں اس کا بیٹا ہوں جو شفاعت کبریٰ کا مالک ہے، میں اس کا بیٹا ہوں جو قیامت میں ساقیٔ حوض کوثر ہیں اور جو قیامت کے دن صاحب علم ہوگا، میں صاحب دلائل و معجزات کا بیٹا ہوں، میں اس کا بیٹا ہوں جو قیامت کے دن مقام محمود پر فائز ہوگا، میں صاحب سخا و عطا کو بیٹا ہوں، میں اس شہنشاہ ذی وقار کا بیٹا ہوں جسے درخشندہ تاج پہنایا جائیگا میں بیٹا ہوں صاحب براق کا، میں بیٹا ہوں صفات و حکم اسماعیلی رکھنے والے کا، میں بیٹا خدائے مالک و معبود کے رسول برحق کا، میں بیٹا ابراروں کے سردار کا، میں اس کا بیٹا ہوں جس پر سورۃ بقرۃ نازل کی گئی، میں اس کا بیٹا ہوں جو ظلم سے قتل کیا گیا۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس کا سر نیزوں پر گھمایا گیا، میں اس کا بیٹا ہوں جس نے پیاسے جان دی،میں بانیٔ کربلا کا بیٹا ہوں، میں اس کا بیٹا ہوں جا کا عمامہ اور چادر چھین لیے گئے، میں اس کا بیٹا ہوں جس پر آسمان کے فرشتے روئے۔

          اے لوگو! خدا نے اچھی آزمائش کے ساتھ ہمارا امتحان لیا ہمیں علم و ہدایت عطافرمائی اور ہمارے مخالفوں کو گمراہی کا جھنڈا پکڑایا اور ہمیں جملہ عاملین پر بزرگی عطافرمائی اور ہمیں وہ دیا جو اہل عالمین میں سے کسی کو نہ دیا اور ہمیں پانچ چیزوں کے ساتھ مخصوص فرمایا، جو مخلوق میں سے کسی میں نہیں پائی جاتی ہیں یعنی علم، شجاعت، سخاوت، محبت خدا اور محبتِ رسول اور ہمیں وہ عطافرمایا جو مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں فرمایا[10]۔

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس خطبہ کا یہ اثر ہوا کہ لوگ چیخ، چیخ کر رونے لگے اور اس قدر ہیجان بڑھا کہ یزید نے گھبرا کر موذن کو اذان کا حکم دے دیا۔

حج بیت اللہ:

          حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج بیت اللہ کے اردے سے ایک سال مکہ معظمہ تشریف لے گئے تھے اور اسی سال ہشام ابن عبدالملک بن مروان بھی حج کو گیا ہوا تھا اور طواف کعبہ سے فارغ ہوکر اس نے چاہا کہ حجر اسود کو بوسہ دے مگر ہجوم اس قدر تھا کہ ہشام بوسہ نہ دے سکا پھر وہ منبر پر چڑھ کر خطبہ دینے لگا عین خطبہ کے وقت حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد حرام میں داخل ہوئے چاند سا چہرہ نورانی رخسار اور معطر لباس میں ملبوس طواف کرنا شروع کیا اور حجر اسود کے قریب جب آپ پہونچے تو لوگ ازراہ تعظیم حجر اسود کے اردگرد سے ہٹ گئے تاکہ آپ آسانی سے اسے بوسہ دے سکیں۔ اہل ہشام میں سے ایک شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو ہشام سے دریافت کیا کہ اے امیر المومنین آپ کو تو لوگوں نے حجر اسود تک جانے کا راستہ نہ دیا حالانکہ آپ ان کے خلیفہ ہیں اور وہ نوجوان خوبرو کون ہیں؟ کہ ان کے آتے ہی تمام لوگ حجر اسود سے ہٹ گئے اور ان کے لیے جگہ خالی کردی؟ ہشام نے کہا کہ میں اسے نہیں جانتا (حالانکہ وہ آپ کو خوب جانتا تھا) اس انکارسے اس کی مراد یہ تھی کہ اہل شام آپ کو نہ پہچان سکیں اور پہچاننے پر کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں اور آپ کو امیر المومنین بنانے پر تیار ہوجائیں۔ فرزدق شاعر وہاں موجود تھا وہ کہنے لگا کہ میں انہیں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا کہ اے ابو فراس (فرزدق کی کنیت ہے) تو آپ ہمیں جلد بتائیں کہ وہ کون ہیں جو اتنے بارعب اور پر جمال ہیں؟

فرزدق نے کہا تو سنئے اس کا حال، صفت اور نام و نسب میں بیان کرتا ہوں چنانچہ اس کے بعد ایک طویل قصیدہ پڑھا جو فضائل و مناقب کے ساتھ عربی ادب کا شاہکار ہے پورا قصیدہ کشف المحجوب اور دوسری سوانح کی کتابوں میں مرقوم ہے یہاں صرف اس کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں

ھٰذالَّذِیْ تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطَاءَتَہٗ

یہ وہ ہیں جن کے نشان قدم بطحا والے جانتے ہیں

وَالْبَیْتُ یَعْرِفُہٗ وَالْحِلُّ وَالْحَرَمُ

اورخانہ کعبہ و حل و حرم انہیں پہچانتے ہیں

ہٰذا اِبْنُ خَیْرِ عِبَادِ اللہِ کُلّہِمْ

یہ اللہ کے سارے بندوں میں سب سے بہتر بندے کا فرزند ہے

ہَذَا لتَّقِیُّ النَقِیُّ الطَّاہِرُ الْعِلَمْ

پرہیز گار پاکیزہ نیکی میں مشہور شخص ہیں

          اسی طرح کے اور بہت سے اشعار و فرزدق نے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل بیت اطہار کی مدح میں پڑھے۔ جس پر ہشام کو بہت غصہ آیا اور حکم دیا کہ اسے عسفان کے قید خانے میں بند کردیا جائے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ اس کے بعد یہ خبر پوری تفصیل سےلوگوں نے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پہونچادی۔ یہ خبر سن کر آپ نے ارشاد فرمایا کہ بارہ ہزار درہم اس کو پہنچادیے جائیں اور اس سے کہدیا جائے کہ اے ابو فراس ہمیں معاف کرنا کیونکہ ہم ابھی حالت امتحان میں ہیں اس لیے اس سے زیادہ کچھ ہمارے پاس موجود نہیں ہے جو تمہیں بھیج سکیں۔

          فرزدق نے وہ بارہ ہزار نقرئی سکے یہ کہہ کر واپس کردیے کہ اے فرزند رسول ِ خدا! سونے چاندی کے لیے تو میں نے بے شمار اشعار کہے ہیں، جن میں جھوٹ اور مبالغہ کی کثرت ہوتی تھی، لیکن یہ اشعار تو میں نے ان جھوٹی مدح خوانیوں کے کفارے کے طور پر خدا، و رسول خدا اور فرزندان رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ اجمعین کی خاطر عرض کیا ہے، جب وہ درہم اور ان کی کل باتیں حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہونچی تو آپ نے پھر وہ رقم اسے واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ رقم بہرحال اسے دے دو، اور کہدو کہ اگر ہماری محبت کا دم بھرتے ہو تووہ چیزیں ہمیں نہ لوٹاؤ جو ہم تمہیں دے چکے ہیں اور اپنے ملک سے اسے باہر نکال چکے ہیں۔[11]

احترام خلفائے ثلثہ:

          حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں چند اشخاص جو عراق کے رہنے والے تھے حاضر ہوئے اور خلفائے ثلٰثہ یعنی حضرت امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق و امیر المومنین سیدنا عمر فاروق و امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی شان عالی وقار میں کچھ نا مناسب الفاظ بولنے لگے، جب وہ لوگ بول چکے تو آپ نے ان لوگوں سے دریافت کیا کہ مجھ کو تم لوگ بتاؤ کہ کیا تم مہاجرین اولین میں سے ہو جن کے حق میں اللہ تعالی ٰ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دَیَارِہِمْ وَاَمْوَلِھِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِنَ اللہِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ اُولٰئِکَ ہَمُ الصّٰدِقُوْن۔ جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ۔ اور اللہ و رسول کی مدد کرتے وہی سچے ہیں۔ (کنز الایمان)

          اس بات کو سن کر ان لوگوں نے کہا کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایاان  میں سے ہوجن کی شان میں اللہ تعالٰ نے ارشاد فرمایا وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ۔ اورجنہوں نے پہلے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا۔ دوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرگئے اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو رہ گئی اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو"

اس آیت سے انصار مراد ہیں؟ اہل عراق نے اس کو بھی سن کر مثل سابق انکار کیا۔ بعدہٗ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ تم لوگ اس قول خدا کے بھی مصداق نہیں ہو کہ وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْ مِنْۢ  بَعْدِ ھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌاور جو ان کے بعد آئے۔ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان اور رحم والا ہے۔

اس کے بعد فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس سے نکل جاؤ۔

آپ کی تقریر کا ماحصل یہ ہوا کہ اہل عراق! اے برا کہنے والوں خلفائے ثلٰثہ کے! یہ وہ لوگ ہیں جن کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور تم لوگ نہ مہاجرین میں سے ہو اور نہ انصار اور نہ ہی اس آخری قول کے مصداق ہو جس کا قائل تمام اہل ایمان کو ہونا چاہیے۔ لہذا تم لوگ بہت برے ہو، اس لیے یہاں سے دور ہو اور میرے پاس سے چلے جاؤ۔

کرامات

دست مبارک کی برکت:

روایت ہے کہ ایک مرتبہ خانہ کعبہ کے طواف میں ایک مرد اور ایک عورت کا ہاتھ سنگِ اسود سے چمٹ گیا، اس نے چھڑانے کی ہزار کوشش کی مگر اپنے ہاتھ کو نہ چھڑا سکا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ اتنے میں حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے آپ نے جب اس کی یہ کیفیت دیکھی تو بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھ کراپنا ہاتھ لگایا آپ کے دستِ مبارک کے لگتے ہی اس کا ہاتھ فوراً چھوٹ گیا[12]۔

ہرن کی فرمانبرداری:

          روایت ہے کہ ایک بار آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ بغرض تفریح جنگل میں تشریف لے گئے جب دسترخوان بچھا اور سب لوگ کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک ہرن جاتا ہوا نظر پڑا، آپ نے ہرن کو بلایا کہ ادھر آ اور میرے ساتھ کھانا کھا، ہرن فوراً چلا آیا اور قدرے کھانا کھا کر چلا گیا۔[13]

ہرن کی فریاد:

          روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ ایک جنگل میں رونق افروز تھے، ایک ہرنی آئی اور زمین پر لوٹ کر فریاد کرنے لگی، لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا چاہتی ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک قریشی اس کا بچہ پکڑ کر لے گیا ہے اسی کی یہ فریاد کررہی ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس قریشی کو اس کے بچہ کے ساتھ بلوایا اور اس سے فرمایا کہ اے شخص اگر تو چاہتا ہے کہ تیرےبچے  ظلم اور قید سے محفوظ رہیں تو، تو اس بچے کو چھوڑ دے چنانچہ اس نے بچہ چھوڑ دیا ہرنی بچہ پاکر کچھ بولی اور چلی گئی۔ لوگوں نے پوچھا ابن رسول اللہ! یہ کیا کہتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ کہتی ہے؟ جزاک اللہ فی الدارین خیرا[14]

آپ کی دعا کا اثر:

                        منہال ابن عمر سے منقول ہے کہ ایک بار میں حج بیت اللہ کی غرض سے مکہ معظمہ گیا ہوا تھا۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حج بیت اللہ کو تشریف لے گئے تھے۔ میں آپ کی ملاقات کو گیا اور قدمبوسی سے مشرف ہوا۔ مجھ سے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت فرمایا کہ خزیمہ بن کاہل الاصفری کا کیا حال ہے(یہ شخص قتل امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں شریک تھا) میں نے عرض کیا کہ اس کو کوفہ میں زندہ چھوڑ آیا ہوں یہ سن کر آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھایا اور فرمایا اَللّٰہُمَّ ارْزقْہٗ الْحَدِیْدَ یعنی اے اللہ اس کو آتش سوزاں کے حوالے کر۔

راوی کا بیان ہے کہ جب میں کوفہ واپس آیا تو مختار بن عبید خروج کرچکا تھا۔ میری مختار سے دوستی تھی اس لیے میں اس کی ملاقات کو گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی سوار ہوچکا ہے۔ میں اس کے ساتھ چلا یہاں تک کہ ایک مقام پر پہونچ کر وہ ٹہر گیا اور خزیمہ کو گرفتار کرکے لوگ لائے۔ مختار نے حکم دیا کہ فوراً اس کے ہاتھ کاٹ ڈالو! جلاد نے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا اور لکڑیوں کے انبار میں ڈال کر اس کو جلادیا۔

میں یہ دیکھ کر سبحان اللہ پڑھنے لگا، تو مختار نے مجھ سے اس کا سبب پوچھا میں نے سارا قصہ آپ کی ملاقات اور خزیمہ کے حق میں بددعا کرنے کا کہا، یہ سنتے ہی مختار گھوڑے سے اتر پڑا اور دوگانہ شکریہ کا ادا کیا، راستہ میں میرا مکان پڑتا تھا وہ میرے مکان پر آیا اور میں نے کھانے کی دعوت دی تو اس نے کھانا نہیں کھایا اور کہا اے دوست! اللہ تعالیٰ نے حضرت علی بن حسین کی دعا قبول فرما کر آج خزیمہ کو میرے ہاتھ سے سزائے اعمال کو پہنچایا اور میں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل سے ان کے قتل کا انتقال لیا۔ اس کے شکریہ میں آج میں روزہ سے ہوں۔[15]

سنگِ اسود کی گواہی:

                        منقول ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کےبعد حضرت محمد حنیف منصب امامت کے دعویدار ہوئے اور حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لا کر فرمانے لگے کہ میں آپ کا چچااور عمر میں بھی آپ سے بڑا ہوں، آپ تبرکات حضرت سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میرے حوالے کردیں۔ آخر دونوں حضرات نے اس دعوے کے انقصال کے واسطے سنگِ اسود کو منصف قرار دیا اور دونوں حضرات سنگِ اسود کے پاس تشریف لے گئے آپ نے سنگِ اسود سے کہا اے سنگِ اسود، اس بات کا تصفیہ تیرے ذمے ہے کہ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد ہم دونوں میں سے کون امام برحق اور مستحق امامت ہے، تو حجر اسود بزبان فصیح گویا ہوا کہ حق تعالیٰ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد منصب امامت و ولایتِ باطنی حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو عطا فرمایاہے یہ سنکر حضرت محمد حنفیہ اپنے دعویداری سے باز آئے[16] ۔

اولاد کرام:

                        حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جملہ اولاد کرام کی تعداد پندرہ تھیں، جن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں۔

۱۔ حضرت محمد کنیت ابی جعفر اور لقب آپ کا باقر ہے

۲۔حضرت زید                                 ۳۔ حضرت عمران

۴۔ حضرت عبداللہ                                               ۵۔ حضرت حسن

۶۔ حضرت حسین                                                 ۷۔ حضرت حسین اصغر

۸۔ حضرت عبدالرحمٰن           ۹۔ حضرت سلیمان

۱۰۔ حضرت علی                                ۱۱۔ نام معلوم نہیں مگر بغیہ الطالب میں دس ہی لڑکوں کا ذکر ہے۔ اور صاحبزادیاں یہ تھیں:

۱۲۔ حضرت خدیجہ                                              ۱۳۔ حضرت فاطمہ

۱۴۔ حضرت علیہ                           ۱۵۔ حضرت ام کلثوم رضون اللہ تعالیٰ علیہم سے باقی ہے جن سےکثیر اولاد کرام پیدا ہوئیں[17]۔

ہر مصیبت کی دافع دعا:

منقول ہے کہ ایک بار حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک شخص نے حجر اسود کے قریب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جب وہ دیر تک آپ کو سجدہ میں پایا تو اس نے اپنے دل میں کہا کہ ایک مرد صالح اہلبیت نبوت سے ہیں۔ سننا چاہیے کہ سجدہ میں کیا پڑھ رہے ہیں جب اس نے سنا تو آپ یہ کہہ رہے تھے۔ اللّہم عبدک بِفنَا ئِکَ مِسْکِیْنُکَ بِفِنَائِکَ فَقِیْرُکَ بِفِنَائِک یعنیاے خدا یہ بندہ کمزور تیری پناہ چاہتا ہے یہ تیرا مسکین تیری پناہ ڈھونڈتا ہے، یہ تیرا سائل تیری امان طلب کرتا ہے، یہ تیرا فقیر تیری پناہ کا خواستگار ہے۔

ناقل کہتا ہے کہ خدا کی قسم جب میں نے اس دعا کو کسی مصیبت میں پڑھا تو اس سے نجات پائی۔

ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ نیک بخت اور سعید کون ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا مَنْ اِذَا رَضِی لَم یَحْمِلْہُ رِضَاہُ عَلَی الْبَاطِلِ وَاِذَا سَخِط لَمْ یُخْرُجْہُ سَخْطُہٗ مِنَ الْحَقِّ یعنی وہ شخص جب راضی ہو تواس کی رضا اس کو باطل پر آمادہ نہ کرے اور جب ناراض ہو تو اس کی ناراض گی اسے حق سے نہ نکالے۔ یہ وصف راست لوگوں کے اوصاف کمال میں سے ہیں اس لیے کہ باطل سے راضی ہونا بھی باطل ہے اور غصہ کی حالت میں حق کو ہاتھ سے چھوڑنا بھی باطل ہے، مومن کی شان نہیں کہ وہ بطلان میں مبتلا ہو[18]۔

وصال:

 آپ کو ولید بن عبدالملک نے زہر دیا اس سے آپ کی شہادت ۱۸ محرم الحرام اور بقول بوض ۱۲ محرم و ۲۲ محرم الحرام یوم شنبہ یا دو شنبہ کو، ۵۷ یا ۵۸ سال کی عمر میں  ہوئی، مدینہ منورہ میں وصال فرمایا اور مزار مقدس آپ کا جنت البقیع میں قبّہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میں ہے۔

بعد وصال:

                        آپ کے وصال کے بعد آپ کی سواری کی اونٹنی آپ کی قبر شریف پر سر ڈال کر پڑگئی اور آنکھ سے اس کے آنسو جاری تھے، حضرت امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر چند اسے اٹھایا مگر وہ نہ اٹھی تو آپ نے فرمایا کہ یہ اسی جگہ جان دے دے گی، آخر ایسا ہی ہوا[19]۔

 

 

[1] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۰۷

[2] اصح التواریخ ص ۵۳

[3] تاریخ الخلفاء، مسالک السالکین واصح التواریخ،

[4] تاریخ الخلفاء

[5] خزینۃ الاصفیا ج ۱ ص ۳۱/ ۳۲

[6] عوارف المعارف ص ۴۷۵

[7] روض الریاحین ص ۵۵، حیوٰۃ الحیوان ج ۱ ص ۱۱۷، خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۳۱

[8] اصح التواریخ ص ۵۵

[9] ایضاً، ایضاً و مواعق محرکہ۔

[10] کربلا کے بعد والعیون العبراء المقتل سیدا الشہداء

[11] کشف المحجوب ص ۱۲۵

[12] خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۳۴ و انوار صوفیہ ص ۸۱

[13] مسالک السالکین ج ۱ ص ۱۱

[14] ایضاً، ایضاً

[15] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۱۱ و شواہد النبوۃ

[16] مسالک السالکین ۱ ص ۲۰۸

[17] مسالک السالکین ۱ ص ۲۰۸

[18] ایضاً، ایضاً ج ص ۲۰۹

[19] مسالک السالکین ج ۱ ص ۲۰۷ و تشریف البشر ۵۹

تجویزوآراء