حضرت سیدنا امام زین العابدین
حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ علیہ
آں وارث کمالات نبوت، ناشر اسرارِ ولایت، خلف راستین حضرت خاتم النبیین، امام علی الملقب زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، بن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ائمۃ اہل بیت کے چوتھے امام ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ شہربا نوبنت یزوجروشہریار بن خسروبن حرمزبن نوشیروان تھیں۔ ‘‘روضۃ الصفا’’ میں لکھا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں یزوجرو شہر یار کی تین لڑکیاں قیدی بناکر مدینہ منورہ لائی گئیں۔ یہ تینوں شہزادیاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خاطر اپنے حصے میں لے لیں کہ سلاطین عجم کی بیٹیاں ہیں ان کو فروخت کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ آپ نے ایک لڑکی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت کی۔ جس سے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ متولد ہوئے۔ دوسری کا حضرت محمد بن ابو بکر سے عقد کردیا جس کے بطن سے امام قاسم وجود میں آئے اور ایک کی شادی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کی جس کے بطن سے ساطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ چنانچہ حضرت امام زین العابدین، حضرات کی بہت اولاد ہوئی ہے۔
ولادت
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت جمعہ کے دن بتاریخ پندرہ جمادی الآخر اور دوسری روایت کے مطابق ماہ شعبان سال ۳۸ ھ میں ہوئی۔ آپ کا اسم گرامی علی تھا۔ کنیت ابو محمد وابو القاسم وابو الحسن وابوبکر تھی۔ آپ کے القاب زین العابدین، سید العابدین، زکی اور امین ہیں۔ آپ کی عمر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے وقت دو سال تھی۔ واقعہ کربلا کے وقت آپ کی عمر تئیس ۲۳سال تھی۔
خلافت
کہ آپ مسند امامت پر متمکن ہوئے۔ حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی خلافت میں اختلاف کیا۔ امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مناسب یہ ہے کہ حجرا سود کے پاس چل کر دریافت کریں کہ امام وقت کون ہے حقیقت ظاہر ہوجائے گی۔ چنانچہ دونوں حضرات متفق ہوکر حجراسود کے پاس گئے اور سوال کیا کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد امام کون ہے حجر اسود کو جنبش ہوئی اور زبان فصیح میں جواب دیا کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد امامت علی رضی اللہ تعالیٰ علیہ بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوملی ہے اور وہی امامِ وقت تسلیم کیا اور آپ کی محبت اُن کے دل میں جانشین ہوگئی۔
لقب زین العابدین کی وجہ تسمیہ
شواہد النبوت میں لکھا ہے کہ آپ کے لقب زین العابدین کا سبب یہ ہے کہ آپ ایک رات نماز تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان نے اژوہا کی صورت میں ظاہر ہوکر آپ کو عبادت سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ نے اس کی جانب ذرہ بھر توجہ نہ کی۔ شیطان نے قریب آکر آپ کی پاؤں کی انگلی کو پکڑلیا۔ آپ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے اس کے بعد اس نے انگلی کو زور سے کاٹا اور آپ کو شدید درد محسوس ہوا لیکن پھر بھی نماز نہ توڑی۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے آپ کو مطلع فرمایا کہ یہ شیطان ہے چنانچہ آپ نے اس کے منہ پر تھپڑ مارکر فرمایا کہ ملعون دور ہو جا۔جب شیطان بھاگ گیا تو آپ نے اٹھ کر انگلی کا علاج کیا۔ اُس وقت غیب سے آواز آئی کہ انت زین العابدین (توزین العابدین یعنی عبادت گزاروں کا زیور ہے) یہ واقعہ تین بار وقوع پذیر ہوا۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے گھر کے اندر نماز میں سر بسجود تھے کہ گھر میں آگ لگ گئی لوگوں نے پکار پکار کر کہا کہ یا ابن رسول آگ لگ گئی ہے لیکن آپ نے سجدے سے سر نہ اٹھایا۔ جب آگ بجھ گئی تو لوگوں نے کہا کس چیز نے آپ کو آگ سے غافل کردیا تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ آتش دوزخ نے۔
کرامات وکمالات
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ ایک شخص کہتا ہے کہ میں ایک دن حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا چڑیوں کا ایک جھنڈ آپ کے گرد گھوم گھوم کر کچھ پکار رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اے فلاں کیا تم جانتے ہو کہ یہ چڑیا کیا کہہ رہی ہیں۔ میں نےکہا نہیں۔ آپ نے فرمایا حق تعالیٰ کا ذکر کر رہی ہیں اور آج کی روزی طلب کر رہی ہیں۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن آپ چند خادموں کے ساتھ صحرا میں سفر کر رہے تھے کھانا کھانے کے لیے دستر خوان لگایا گیا۔ ایک جنگلی ہرن آپ کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی کرم اللہ وجہہ ہوں اور میری والدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنت رسول اللہﷺ ہیں۔ آؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ ہرن نے نزدیک ہوکر پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور چلا گیا۔ کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن آپ اپنے اصحاب کے ساتھ صحرا میں بیٹھے ہوئے تھےکہ ایک ہرنی آکر آپ کے پاس کھڑی ہوگئی اور پاؤں زمین پر مارنے لگی اور کچھ آواز نکالی۔ حاضرین نے کہا کہ ابن رسول یہ ہرنی کیا کہہ رہی ہے۔ آپ نےفرمایا کہ ہرنی کہتی ہے کہ کل فلاں قریشی زادہ نے میرا بچہ پکڑ لیا اور اُسے اب تک دودھ نہیں پلایا۔ بعض حاضرین کے دل میں شک پیدا ہوا۔ اس کے بعد آپ نے اس قریشی زادہ کو طلب کر کے فرمایا کہ یہ ہرنی تمہاری شکایت کر رہی ہے کہ اس نے میرا بچہ پکڑ لیا ہے اور اُسے دودھ نہیں پلایا۔ اس کے بعد حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ بچہ مجھے بخش دو۔ آپ نے بچہ لیکر ہرنی کو دےدیا اور وہ آواز دیتی ہوئی چلی گئی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کہا کہہ رہی ہے آپ نے فرمایا کہ دعا دے رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جزاکم اللہ خیرا۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن طواف کعبہ کرتے وقت ایک مرد اور عورت کے ہاتھ سے چمٹ گئے۔ بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ لوگوں نے مشورہ دیا اُن کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ ناگاہ حضرت علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پہنچ۔ آپ نے قریب آکر اپنے ہاتھ اُن ے ہاتھوں پر لگائے جس سے وہ آزاد ہوگئے۔
کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ جس شب میں آپ کا وصال ہوا آپ نے اپنے فرزند حضرت امام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ بیٹے میرے لیے وضو کا پانی لاؤ۔ جب وہ پانی لائے تو آپ نے فرمایا کہ اور پانی لاؤں اس پانی میں مردہ جانور ہے۔ رات اندھیری تھی جب چراغ لایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں ایک مردہ چوہا پڑا تھا۔ اس رات آپ نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے آج میرا وعدہ پہنچ چکا ہے اس کے بعد آپ ان کو وصیت فرمائی۔
وصال
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال بروز سہ شنبہ بتاریخ اٹھارہ ماہ محرم ۹۴ھ کو ہوا۔ یہ ولید بن عبدالملک بن مروان کا عہد حکومت تھا۔ آپ کا مزار مبارک جنت البقیع میں اپنے چچا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں ہے۔ روایت ہے کہ جس روز آپ کا وصال ہواتو آپ کی اونٹنی آپکی قبر کے پاس آکر بیٹھ گئی اور فریاد کرتی رہی جب امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر فرمایا کہ کھڑی ہوجا خدا تمہیں برکت دے گا تو وہ کھڑی ہوگئی۔ امام موصوف نے فرمایا اسے جانے دو تاکہ آرام سے مرجائے۔ چنانچہ تین دن وہاں رہ کر مرگئی۔ آپ کی عمر شریف ستاون سال تھی۔ آپ نے چونتیس سال امامت فرمائی۔ اکثر مؤرخین کا قول یہ ہے کہ ولید بن عبد املک نے اس امام معصوم کو زہر دے کر ہلاک کیا۔
اولاد امجاد
آپ کے گیارہ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود
(اقتباس الانوار)
نام علی، کنیت ابو محمد، ابو الحسن، ابو بکر، لقب سجّاد، سیّد السّاجدین، زَین العباد زَین العابدین، امین، بروز پنجشنبہ ۵؍ شعبان ۳۸ھ کو امّ ولد حضرت شاہِ زنان سُلافہ الملقّب بہ شہر بانو بنتِ یزد گُرد بن شہر یار بن پرویز بن ہر مز بن نوشیروان بادشاہِ ایران کے بطن سے بمقام مدینہ طیّبہ پیدا ہوئے۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الخواص الامّہ۔ روضۃ الشہداء ص ۳۸۴]
اپنے جدّ امجد حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ہم شبیہ تھے، دو سال تک اُن کے آغوش میں تربیت پائی، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جب اِن کو دیکھتے فرماتے مرحبا بالحبیب بن الحبیب۔ سعید بن المسیّب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اِن سے زیادہ کسی کو متورع نہیں دیکھا، [۱] [۱۔ حلیۃ الابرار ۱۲] ابن شہاب زُہری رضی اللہ عنہ اور ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہم نے اِن سے زیادہ افضل و فقیہ کسی کو نہیں پایا، [۱] [۱۔ حلیۃ الابرار۔ طبقات الحفاظ ۱۲] ذھبی رضی اللہ عنہ اور عیینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی قریشی اِن سے افضل نہیں دیکھا، امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے کہ یہ اہل فضل میں سے تھے، ابن ابی شیبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحیح ترین وہ تمام اسانید ہیں جوزہری رضی اللہ عنہ نے اِن سے، اور انہوں نے اپنے والد ماجد سے، اور اُنہوں نے حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہیں، [۱] [۱۔ طبقات الحفّاظ ۱۲] اور ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ تابعین کے دوسرے طبقہ سے تھے، ثِقہ مامون کثیر الحدیث، عالی قدر، رفیع منزلت، پرہیز گار، عابِد اور خائف من اللہ تھے۔ [۱] [۱۔ طبقات ابن سعد ۱۲]
ابو الائمہ اور سید الثابعین تھے، واقعہ کر بلا میں موجود تھے، لیکن بوجہ علالت شریکِ قتال نہ ہوسکے، دنیا کی لذتوں کو ترک کر دیا ہوا تھا، مصائبِ آل عبایا کر کے کثرت کے ساتھ گریہ و بکا میں مصروف رہتے، غمِ پدر میں اس قدر روتے کہ آنسو بالاخانہ کے پر نالہ کی راہ سے نیچے گرتے تھے، اور وہاں پر گھاس جم گئی تھی۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]
جب وضو کر کے نماز کے لیے تیار ہوتے تو چہرہ مبارک زرد ہوجاتا، اور جسم کانپنے لگتا، دِن رات میں ہزار رکعت نماز پڑھتے، [۱] [۱۔ صواعق محرقہ ۱۲] دِن کو روزہ رکھتے، اور شام کو صرف ایک پارۂ نان پر اکتفا کرتے، رات کو ایک ختم قرآن شریف بھی کیا کرتے، سخاوت پوشیدہ کرتے، راتوں کو آٹے و روٹیوں کا بوجھ پشت مبارک پر لے کر خیرات بانٹا کرتے، یہاں تک کہ پشت پر سیاہ داغ پڑ گئے تھے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
شبِ شنبہ ۱۸؍ محرم ۹۴ھ کو انتقال فرمایا، اور جنّت البقیع میں حضرت امام حسن مجتبےٰ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
ان کے گیارہ صاحبزادے ہوئے۔
۱۔ امام محمد باقر رضی اللہ عنہ۔
۲۔ ابو الحسین زَید الشہید رضی اللہ عنہ متوفی ۱۲۱ھ کوفہ میں خروج کیا، ہشام بن عبد الملک کے حکم سے یوسف ثقفی نے اِن سے محاربہ کیا، اُس کے غلام راشِد کے تیر سے شہید ہوئے، اِن کی نعش کو برہنہ دار پر کھینچا گیا، امر الٰہی سے اُسی رات عنکبوت نے جالا تن کر اِن پر پردہ کردیا۔ اِن کی اولاد سے ساداتِ بنی طنک، بنی خالص، بنوالا میر، بنوز برج، بنو علق بنو الابرار، بنو مریم، بنو الخطب، نیو المقرای، بنو کزبر، بنو قتیلہ، بنو زین الشرف، بنو مقتل، بنو ہیجا، بنی العذان، آلِ شیبان، بنو عقرون، بنو جکا جک وغیرہم بلادِ فارِس، مشہد، بغداد، بصرہ، کرمان، خراسان، ماوراء النہر، عراقِ عرب، مصر، وغیرہ میں آباد ہیں۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲ شرافت]
۳۔ عبد اللہ الباہر رضی اللہ عنہ چہرہ پر نورانیت کا غلبہ تھا، اِن کی اولاد سے سادات بنو الغریق کو کبیان وغیرہم بلاد شام، قم، مصر، رَے وغیرہ میں آباد ہیں۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲ شرافت]
۴۔ حسن رضی اللہ عنہ ۵۔ حسین اکبر رضی اللہ عنہ۔
۶۔ حسین اصغر رضی اللہ عنہ اِن کی اولاد سے سادات بنو میمون، بنو الجوائی، بنو طقسط، بنو المحترق، اشتریون، بنومکانسیہ، بنو عرام، بنو عجیبہ، بنو الصّایم، بنو معلاج، بنوابی الغنایم، بنو احمد، بنو طبیق، بنو عکّہ، بنو علون، بنو فوارِس، بنو عیلان، بنو الاعرج، بنو جلال، بنو شقائق، بنو خزعل، بنو مہنا، حاحدہ، جمامزہ، عقیقیون، بنو الموسوس، منقدیون، آلِ عدنان، بنو الکرش، بنو الفیل، بنو المضیرہ، بنو الفوطم، وغیرہم بلادِ مغرب، مصر، واسط، عراق، کرخ، مدینہ طیّبہ، بلخ، حلہ، دمشق، رَے، شیراز وغیرہ میں آباد ہیں۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲]
۷۔ عبید اللہ رضی اللہ عنہ
۸۔ عمرو الاشرف رضی اللہ عنہ۔ اِن کی اولاد سے ساداتِ شعرانیان، بنو زہران وغیرہ بلا و طبرستان، گیلان، قم وغیرہ میں آباد ہیں۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲]
۹۔ علی اصغر رضی اللہ عنہ۔ اِن کی اولاد سے سادات بنو افطس، بنو الشکران، بنو تزلج، بنو سمان، بنوز برج، بنو زبارہ، بنو المحترق ثانی، بنو الاعز، بنو ابو الصّلایا، بنوابی نصر وغیر سم بلادِ ہندوستان، مدائن، ترمذ، رَے وغیرہ میں آباد ہیں۔ [۱] [۱۔ روضۃ الشہداء ۱۲]
۱۰۔ سلیمان رضی اللہ عنہ ۱۱۔ قاسمِ رضی اللہ عنہ۔
اِن میں سے امام محمد باقر رضی اللہ عنہ اور زَید شہید رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ الباہر رضی اللہ عنہ اور حسین اصغر رضی اللہ عنہ اور عمرو اشرف رضی اللہ عنہ اور علی اصغر رضی اللہ عنہ کی اولاد باقی ہے۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]
(شریف التواریخ)