حضرت جلال الدین چشتی قادری
حضرت جلال الدین چشتی قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا تعلق سادات گھر انے سے تھا۔ آپ کے خاندان نے مغلیہ دور کے آخر میں ہندوستا ن کی جانب ہجرت کی اور ضلع بجنور کے قصبہ سنہپور میں سکونت اختیار کرلی۔ آپ کے والد سید عبدالشکور صاحب ایک عابد وزاہد انسان تھے ہمہ وقت رجوع الی اللہ رہتے جن کا نکاح اپنےہی خاندان کی ایک نیک خاتون بی بی برکت فاطمہ سے ۱۹۱۰ء میں ہوا جن کے بطن سے حضرت مولانا قاری جلالاالدین جشتی پیدا ہوئے آٹھ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن حکیم ختم کرلیا ۔۱۲ سال کی عمر میں آپ آگرہ تشریف لے آئے اورجلد ہی قرآن پاک حفظ کرلیا ، آگرہ اس وقت دینی علوم و فنون کا مرکز تھا، وقت کے جید علماء سے درس نظامی کی آگرہ اس وقت دینی علوم و فنون کا مرکز تھا، وقت کے جید علماء سے درس نظامی کی تکمیل کی۔آپ کے اساتذہ علامہ حضرت محمد روشن دین وغیرہ کا سلسلہ تلمذ پشت درپشت علامہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے جاکر ملتا ہے، علوم ظاہری کی تکمیل کے بعدعلوم باطنی کے حصول میں لگ گئے، اور اپنے وقت کے ولی کامل حضرت حاجی سید آل حسن سے بیعت ہوگئے۔ سید صاحب سلسلہ چشتیہ صابریہ کے صاحب حال و قال بزرگ تھے، تقسیم ہند کے بعد ہجرت فرمائی اور کراچی کی مشہور بستی کھارا در میں قیام کیا اور یہیں باغ زھرا اسٹریٹ پر واقع اوکھائی میمن مسجد میں امامت و خطابت کے مناصب سنبھال لیے۔ ۳۴ سال کا عرصہ آپ نے تبلیغ دین میں گذارا ، بعد نماز عشاء درس کا سلسلہ جاری رہتا ۔ مسائل عشق و جذب و فنا و بقاء عدم و وجود ، منزل عشق و عقل وغیرہ بڑے ہی آسان اور دلکش پیرایہ میں سمجھادیا کرتے تھے، جلال الدین شاہ چشتی کی اس پر آشوب دور میں سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ شریعت پر مکمل عمل پیرا ہوتے تھے اور چھوٹی سے چھوٹی سنت کو بھی ترک نہ فرماتے۔ بالآخر دین کا خادم عاشق رسول حضرت جلال الدین شاہ چشتی نے ۱۲/جمادی الثانی /۱۴۰۲ھ ۔۸ /اپریل /۱۹۸۲ء جمعرات کی شب بوقت ۴۰۔۱۲ منٹ پرداعی اجل کو لبیک کہا اور ہزاروں مریدوں اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت علامہ قاری مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمۃ نے پڑھائی ،آپ کا مزار سخی حسن قبرستان کراچی میں مرجع خلائق ہے۔
(عرفان منزل مصلح الدین نمبر ص ۳۱۷)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )