حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی
حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ بڑے صاحب کشف و کرامت تھے شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے علوم میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے آپ شیخ شمس الدین ترک پانی پتی کے خلیفہ اعظم تھے، آپ کا اصلی نام محمد بن محمود تھا لیکن پیر ومرشد کی طرف جلال الدین کا خطاب ملا تھا، آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت امیرالمومنین عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے آپ بچپن سے ہی جذبہ و محبت اور عشقِ خداوندی میں غرق تھے اور آخری عمر تک اسی حالت میں رہے، آپ پر اکثر مدہوشی طاری رہتی، جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ کے خادم آپ کے کان میں تین بار حق حق کہتے، آپ ہوش میں آتے اور پھر نماز پڑھتے نماز سے فارغ ہوکر پھر مراقبے میں چلے جاتے۔
شیخ جلال الدین وجد و سماع میں مشغول رہے آپ کی دعا کبھی نا منظور نہ ہوتی زبان سے جو کچھ فرمادیتے وہی ہوتا، آپ کے چالیس خلفاء ہوئے ہیں، ہر ایک خلیفہ سے علیحدہ علیحدہ سلسلہ تصوف جاری ہوا، آپ کی کتاب ذاد الابرار تصوف میں ایک عمدہ تصانیف سے ہے، کہتے ہیں کہ شیخ جلال الدین دوبار حج کرنے گئے، آپ کے لنگر میں کم از کم ایک ہزار آدمی صبح و شام کھانا کھاتا اور اگر کبھی خادم اور مرید کم ہوجاتے تو پھر بھی ایک ہزا رسے کم مہمان ہوتے تو بازار سے اتنے آدمی بلاکر دستر خوان پر ایک ہزار کی تعداد پوری کرلیتے حضرت شیخ کو شکار کا بڑا شوق تھا شکار پر جاتے تو غیب سے ایک ہزار آدمیوں کا کھانا جنگل میں آجاتا، سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ شیخ جمال الدین ہانسوی کا وہ سلسلہ جو شیخ علاؤ الدین علی احمد صابر کی دعا سے بند ہوگیا تھا آپ کی دعا سے دوبارہ جاری ہوگیا، آپ کی دعا یہ اثر تھا کہ شیخ برہان الدین ہانسوی قطب الدین منور ہانسوی اور شیخ نورالدین انور ہانسوی رحمۃ اللہ علیہم آپ کی دعا سے صاحبِ کرامت ہوئے ہیں اگرچہ یہ لوگ سلسلہ نظامیہ چشتیہ میں سے وابستہ تھے مگر شیخ جلال الدین کی دعا سے انہیں بہت فائدہ پہنچا۔
ایک دفعہ شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ سفر میں تھے رات ایک ایسے گاؤں میں ٹھہرے جہاں کے رہنے والے تھیلے پکڑے بھاگنے کی تیاریاں کر رہے ہیں، اُن سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس سال ژالہ باری کی وجہ سے ہماری فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں غلہ نہیں ہوسکا، اس کے باوجود اس علاقے کا حاکم ہم سے معاملہ اور بوج وصول کرنے کے لیے سختی کرتا ہے ہمیں اس کی ادائیگی کی طاقت نہیں۔ اس لیے ہم یہاں سے بھاگ جانا چاہتے ہیں آپ نے فرمایااگر تم لوگ یہ گاؤں میرے ہاتھ بیچ دو اور اس کا نام جلال آباد رکھ دو تو میں تمہیں اتنا روپیہ دوں گا جس سے تم معاملہ بھی ادا کردو گے اور امیر بھی ہوجاؤ گے،گاؤں والوں نے یہ بات مان لی، پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے پاس جتنی لوہے کی چیزیں ہیں ایک جگہ جمع کرلو، اور خشک لکڑی بھی لے آؤ چنانچہ آپ نے لکڑیوں پر لوہا رکھ کر ان کو آگ لگادی، اور حکم دیا کہ صبح ہوتے ہی اس کلوہے کو دیکھنا خود ہی آدھی رات کے وقت سب سے چھپ کر اپنے وطن چلے گئے صبح کے وقت لوگوں نے لوہے کی چیزوں کو دیکھا تو تمام خالص سونے کی بنی ہوئی تھیں، انہوں نے حاکم کو معاملہ ادا کیا اور سب کے سب امیر ہوگئے اور اُس گاؤں کا نام جلال آباد رکھا۔
سیرالاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک بار شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کے کنارے پر پہنچے آپ نے دیکھا کہ ایک ہندو جوگی آنکھیں بند کیے دریا کے کنارے پر بیٹھا ہے اُس نے آنکھیں کھول کر حضرت کو دیکھا تو فرمایا آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ میرے پاس آگئے ہیں میرے پاس سنگِ پارس ہے میں نے دل میں عہد کیا تھا کہ جو شخص آنکھیں کھولے میرے سامنے آئے گا میں اُسے سنگ پارس دے دوں گا اب تم اسے لے لو اور اپنے استعمال میں لاؤ کہ تم بہت خوش قسمت ہو، جنہیں ایسی دولت ملی، حضرت شیخ نے جوگی سے پتھر لے لیا اور دریا میں پھینک دیا آپ کی اس حرکت سے جوگی بہت ناراض ہوا، اور کہنے لگا آپ کو اس پتھر کی قدر و قیمت معلوم نہیں کہ اسے تم نے دریا میں پھینک دیا ہے اب خیریت اسی میں ہے کہ میرا پتھر مجھے واپس دے دو حضرت شیخ نے جواب دیا جب تم نے پتھر مجھے بخش دیا تھا میں جو چاہتا کرتا اب تمہیں اس سے کیا سروکار ہے، جوگی افسوس کرتا تھا روتاتھا اور کہتا تھا افسوس تم نے اتنی بڑی دولت کو دریا میں پھینک دیا ہے اب تمہیں میں ہرگز نہیں چھوڑوں گا تاوقتیکہ میرا پتھر میرے حوالے نہ کیا جائے، شیخ یہ بات سن کر مسکرائے اور فرمایا دریا میں اُتر جاؤ اور اپنا پتھر اُٹھاکر باہر لے آؤ مگر دیکھنا اسی طرح کا اگر کوئی دوسرا پتھر تو لالچ کرکے اسے نہ اٹھالینا صرف اپنا پتھر ہی لانا، جوگی نے یہ بات قبول کرلی اور دریا میں کود پڑا اس نے دیکھا کہ پانی میں ہزاروں سنگِ پارس موجود ہیں جیسے اس نے حضرت شیخ کو دیا تھا، اُس کو لالچ ہوا اور اُس نے کئی پتھر اٹھالیے اور اُسے چوری اپنے تھیلے میں چھپا لیا حضرت شیخ نے آواز دے کر کہا اوئے ظالم تم نے اپنا وعدہ بھلا دیا جوگی شرمندہ ہوا دریا سے باہر آیا اور سارے پتھر شیخ کے سامے لا رکھے اور شیخ کے قدموں میں گر کر کلمہ پڑھ لیا، اور آپ کا مرید ہوگیا، آپ کی دعا سے وہ کمالات کو پہنچا۔
اسی کتاب میں ایک اور واقعہ لکھا کہ احمد نامی ایک قلندر ترکستان سے مرشد کی تلاش میں چلا اور ہندوستان آپہنچا، اس نے لکھی کے جنگلات میں ڈیرہ جمالیا۔ اس نے پانی پت کے کئی مشائخ کو اپنے اس ارادے سے آگاہ کیا، چنانچہ مشائخ کا ایک گروہ حضرت شیخ جلال الدین کی قیادت میں لکھی کے جنگلات میں قلندر کے پاس پہنچا، جب کھانا کھانے لگے اور طعام سے کپڑا اٹھایا تو تمام غیر مشروع چیزیں پکی ہوئی تھیں یہ ایسی چیزیں تھیں جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے لیکن وہ ا س انداز سے پکائے گئے تھے کہ کھانے والے کو ترغیب دینے میں موثر تھا، حضرت جلال الدین نے مشائخ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کراہت کی بجائے اللہ سے دعا کرو کہ یہ حرام کھانے دستر خوان سے اُٹھ کر خود شہادت دیں تاکہ اس قلندر کی یہ چال نمایاں ہوجائے چنانچہ حضرت شیخ جلال الدین نے ان کھانوں پر نگاہ ڈالی تو ہر جانور جس کا گوشت تیار کیاگیا تھا اُٹھ کر سامنے آگیا یہ صورت حال دیکھ کر اس قلندر نے حضرت شیخ کے قدموں پر سر رکھ دیا اور نہایت عجز سے اعتراف کیا، کہ میں نے دیدہ دانستہ یہ کام اس لیے کیا تھا کہ دیکھوں کہ مشائخ اپنی نگاہ سے معلوم کرلیتے ہیں یا نہیں میں شیخ کو کامل وقت پاکر مرید ہوتا ہوں اور تکمیل سلوک کے لیے ان کے ہر اشارے پر زندگی وقف کردوں گا،حضرت نے اسے مرید بناکر درجہ کمال تک پہنچادیا۔
ایک دن حضرت شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کہیں جا رہے تھے کہ ایک ضعیف عورت سر پر پانی کا گھڑا رکھے جا رہی تھی، اس کے پاؤں کانپ رہے تھے آپ نے پوچھا کیا آپ کا کوئی اور آدمی پانی نہیں لاسکتا، کہنے لگی میں بے کس اور بے سہارا ہوں، حضرت نے پانی کا گھڑا اٹھایا اور اپنے کندھے پر رکھ کر چلنے لگے اور اس کے گھر پہنچے گھڑا رکھ کر فرمایا آج کے بعد ان شاء اللہ یہ گھڑا پانی سے بھرا رہے گا تمہیں پانی لانے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، وہ ضعیف عورت اس گھڑے سے پانی استعمال کرتی رہی مگر پانی کبھی کم نہ ہوا۔
سلطان فیروزالدین کے عہد حکومت میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اوچ شریف سے دہلی تشریف لائے۔ آپ یہاں آکر سخت بیمار ہوگئے حتی کہ لوگوں نے آپ کو موت کے قریب پایا۔ پانی پت میں شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کو غیبی اشارہ ہوا، کہ وہ فوراً دہلی پہنچیں اور اپنی عمرکے دس سال حضرت مخدوم جہانیاں کو نذرانہ پیش کریں۔ آپ زور کرامت سے طے الارض کرکے فی الفور دہلی پہنچے۔ حضرت مخدوم کی خدمت میں پہنچ کر اسلام علیکم کہا، اور آپ نے آنکھیں کھولیں تو شیخ جلال الدین نے کہا اٹھیں تازہ وضو کریں، مخدوم نے وضو کیا، تو آپ نے دونوں ہاتھ بڑحا کر فرمایا میں نے اپنی زندگی کے دس سال آپ کو بخشے ہیں، مخدوم نے کہا میں نے قبول کرلیے، یہ کہتے ہی حضرت شیخ جلال الدین پانی پت آگئے، مخدوم جہانیاں صحت یاب ہوئے، حضرت کی صحت یابی کی خبر سن کر سلطان فیروز الدین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا صورت حال معلوم کرنے پر آپ نے بتایا کہ مجھے شیخ جلال الدین نے اپنی زندگی کے دس سال دیے ہیں ورنہ میرا وقت آ پہنچا تھا۔ سلطان فیروزالدین کو حضرت شیخ جلال الدین کی زیارت کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ وہ چل کر پانی پت آیا اور آپ کی زیارت سے مشرف ہوا۔
شیخ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کے پانچ بیٹے تھے۔ خواجہ عبدالقادر، خواجہ ابراہیم خواجہ شبلی، خواجہ کریم الدین اور خواجہ عبدالاحد، آپ پانی پت میں پنج گنج ولایت کہلاتے تھے اگرچہ آپ کے خلفاء کی تعداد چالیس سے بھی زیادہ تھی، مگر آپ کا سلسلہ عالیہ شیخ عبدالحق قدس سرہ سے جاری ہوا تھا۔
شیخ جلال الدین پانی پتی کی وفات ۱۳ ماہ ربیع الاول ۷۶۵ھ کو ہوئی تھی آپ کا مزار پانی پت میں ہے۔
چوں جلال از جہاں سفر و رزید
یار حق بود وصل شد بایار
زاہد پاک اشرف الاقطاب
۷۶۵ھ
ہست تاریخ آں شہِ ابرار
۷۶۵ھ
بندہ مقتد اجلال الدین(۷۶۵ھ) پیروالی ارشاد (۷۶۵ھ)بحرِ عرفان جلال بے نیاز(۷۶۵ھ) کامل پیر عالیشان(۷۶۵ھ) مفتاح جلال حق جلال(۷۶۵ھ) ساکن خلد شد(۷۶۵ھ) خداوندِ اہل جلال (بہ تکرار) (۷۶۵ھ)
حضرت شیخ جلال الدین محمد کبیرالاولیاء(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ جلال الدین محمدکبیراولیاءشاہدبزم وصال ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کانسب نامہ پدری چندواسطوں سے امیرالمومنین حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ پر منتہی ہوتاہے۔۱؎
والدماجد:
آپ کےوالدماجدشیخ محمود امرائےپانی پت سے تھے۔
پیدائش:
آپ کی پیدائش پانی پت میں واقع ہوئی۔
نام:
آپ کانام خواجہ محمد ہے۔
لقب:
آپ اپنےپیرومرشدکےعطاکردہ لقب"جلال الدین"سے مشہورہیں۔
ایام طفولیت:
بچپن ہی سےآثاربزرگی نمایاں تھے۔آپ اورہم عمربچوں کی طرح کھیل کودمیں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ایام طفلی میں ہی آپ عشق الٰہی کےاسیرہوئے۔اکثرایساہوتاتھاکہ آپ جنگل میں تشریف لے جاتے تھےاوروہاں ذکروفکرمیں مشغول میں رہتےتھے۔۲؎آپ کوحسن باطنی کےعلاوہ حسن ظاہری بھی عطاہواتھا۔کھاتےپیتےگھرانےمیں پیداہوئے تھے۔بےدریغ پیسہ خرچ کرتے تھے۔آپ کامعیاررہائش اونچاتھا۔آپ کالباس اعلیٰ قسم کاہوتاتھا۔آپ لباس پرکافی پیسہ خرچ کرتے تھے۔
حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندرآپ کوبہت عزیزرکھتےتھے،بچپن ہی میں وہ آپ کو دیکھنےکے لئےروزانہ آپ کےگھرآیاکرتےتھے۔آپ کےیتیم ہونے کےبعدآپ کی پرورش کابارآپ کےچچا نےاپنے ذمےلیا۔۳؎
آپ کے حق میں دعا:
ایک مرتبہ ایساہواکہ آپ اپنےکھیت پرگئےہوئےتھے۔حضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)آپ کے مکان پرتشریف لائے۔معلوم ہواکھیت پرگئےہوئےہیں۔حضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ) بھی کھیت پرآپہنچے۔آپ نےاپنےدامن میں غلہ بھرکرحضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ )کو پیش کیا۔حضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)نےدریافت کیاکہ کیاہے۔آپ نےجواب دیا۔"گھوڑے کے واسطےدانہ"انہوں نےآپ سےکہا"گھوڑےسےپوچھو،اگروہ بھوکاہےاوروہ دانہ مانگتاہو،اس کودو"۔
آپ نےگھوڑےسےپوچھا۔آپ کویہ دیکھ کرتعجب ہواکہ گھوڑاگویاہوا۔گھوڑے نےعرض کیا۔" میراپیٹ بھراہے،حضرت مخدوم مجھ کودانہ کھلاکرمجھ پرسوارہوئےتھے۔"دانہ آپ لئےکھڑے رہے۔
حضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ )نےخوش ہوکرآپ سےفرمایا۴؎یہ غلہ میں نےتجھ کوبخشااور میں نےخدائےعزوجل سےدعامانگی ہےکہ جس قدریہ غلہ ہے،اس کےہردانہ کی برابرتجھ کواولاد و امجاد نصیب ہو"چنانچہ ایساہی ہوا۔
سیروسیاحت:
ایک دن کاواقعہ ہےکہ حضرت مخدوم بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)ایک عام گزرگاہ پررونق
افروزتھے۔آپ گھوڑےپرسواروہاں سےگزرے،حضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)نے جب آپ کوگھوڑےپرسواردیکھاتوفرمایا۔۵؎
"زہےاسپ وزہےسوار"۔
(کیساخوش قسمت گھوڑااورکیساخوش قسمت سوارہے)۔
یہ سن کرآ پ پروجدانی کیفیت طاری ہوئی۔گھوڑے سےفوراًاترے،گریبان چاک کرکےجنگل کی راہ لی۔چالیس سال آپ نےسفرمیں گزارے۔بہت سےدرویشوں سے ملےاوران کے فیوض و برکات سےمستفیدہوئے۔دوحج کئے۔۶؎
بیعت وخلافت:
سیروسیاحت سے واپس آکرحضرت شمس الدین ترک پانی پتی کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ حضرت بوعلی قلندر(رحمتہ اللہ علیہ)سےبیعت ہوناچاہتےتھے،آپ ان سے جب بیعت سے مشرف کرنےکےلئے عرض کرتےتووہ فرماتےکہ جلدی نہ کرو،ٹھہروتمہارے پیرآنےوالے ہیں۔
ایک دن حضرت شمس الدین ترک(رحمتہ اللہ علیہ)اپنےحجرےکےدروازےپررونق افروزتھے۔ مریدومعتقد حاضرخدمت تھے۔آپ لباس فاخرہ پہنےگھوڑے پرسواران کےسامنےسےنکلے، انہوں نےآپ کودیکھتے ہیں حاضرین سےفرمایا۔
"اپنی نعمت اس لڑکےکی پیشانی میں تاباں کودیکھتاہوں"۔
ان کایہ فرماناتھاکہ آپ کی نظران پر پڑی۔نظرکاپڑناتھاکہ آپ بےاختیارہوگئے۔گھوڑے سے اترےاورسرنیازان کےقدموں پررکھا،انہوں نےاپنےدست مبارک سےآپ کاسراٹھایااورآپ کوحکم دیاکہ "گھوڑے پرسوارہواورگھوڑےکوپھیرو"۔آپ حکم بجالائے۔
حضرت شمس الدین ترک پانی پتی نےاسی وقت آپ کوبیعت سے مشرف فرمایااورکلاہ چرمی جواس
وقت پہنےہوئےتھےاتارکراپنےہاتھ سےآپ کےسرپررکھی اورفرمایا۔
"تراایں ہم دادم وآں ہم دادم"
(میں نےتجھ کویہ بھی دیااوروہ بھی دیا)۔
آپ کےپیرروشن ضمیرحضرت شمس الدین ترک(رحمتہ اللہ علیہ)نےآخرعمرمیں آپ کوخرقہ خلافت سے سرفرازفرمایااورجانشینی کاشرف بخشا۔
سلطان فیروزشاہ کی باریابی:
سلطان فیروزشاہ کوجب حضرت مخدوم جہانیاں جہان گشت کی زبانی یہ معلوم ہواکہ آپ بقوت روحانی دہلی تشریف لائےاوران کی صحت کےلئےدعافرمائی اورآپ نےاپنی عمرکےچندسال ان کو عطافرمائےاورآپ کی دعاسےاچھےہوئےاورپھربقوت روحانی آپ پانی پت تشریف لےگئےتو اس نے خوش ہوکرکہا۔۷؎
"زہےطالع من کہ درعہد ماایں چنیں اولیائےعظام ہستند"۔
سلطان فیروزشاہ کوآپ کی قدم بوسی کااشتیاق پانی پت لایا۔وہ پانی پت پہنچ کرآپ کی خدمت بابرکت میں حاضرہوااورگلہائےعقیدت پیش کئے۔اس کاپیش کردہ نذرانہ قبول کرنےسے آپ نے انکارفرمایا۔
شادی واولاد:
آپ نےاپنےپیرومرشدکےحکم سےشادی کی۔آپ کےپانچ لڑکےاوردولڑکیاں تھیں۔لڑکوں کے نام ذیل میں دئے جاتے ہیں۔۸؎
حضرت خواجہ عبدالقادر،خواجہ ابراہیم،خواجہ شبلی،خواجہ کریم الدین،خواجہ عبدالواحد۔آپ کی لڑکیوں کی شادی کرنال کےشیخ زادوں میں ہوئی۔
وفات شریف:
آپ نے۱۳ربیع الاول ۷۲۵ھ کوانتقال فرمایا۔مزارپرانوارپانی پت میں زیارت گاہ خاص وعام ہے، آپ کی عمر(۱۷۰)ایک سوسترسال سےزیادہ ہوئی۔
خلفاء:
آپ کی وفات کےبعدخواجہ ابراہیم سجادہ نشین ہوئے۔انہوں نےاپنی خوشی سےخواجہ شبلی کواپنے بجائےسجادہ نشین مقررکیا۔آپ کےچالیس خلفاء ہیں۔آپ کے مشہورخلفاءحسب ذیل ہیں۔۱۰؎
خواجہ عبدالقادر،خواجہ ابراہیم،خواجہ شبلی،خواجہ کریم الدین،خواجہ عبدالواحد،شیخ زینا،شیخ احمد قلندر،شیخ عبدالحق رودلوی،شیخ بہرام۔
سیرت پاک:
آپ مادرزادولی تھے۔سماع سنتےتھے۔شکارکاشوق تھا۔لنگرآپ کاعام تھا۔ایک ہزارآدمی روزانہ آپ کے یہاں کھاناکھاتےتھے۔آپ کوبہت جلال تھا۔آپ جوفرماتے،وہی اورویساہوتا۔اعراس میں شریک ہوتے تھےاورخودبھی عرس کرتےتھے۔جس پرآپ کی نظر پڑتی،وہ ولی ہوجاتا۔ آپ کے فیض کاچشمہ جاری تھا۔یہ کہاجاتاہےکہ حضرت مخدوم علاؤالدین علی احمد صابرکی کمائی حضرت شیخ جلال الدین کبیرالاولیاء نےلٹائی۔
آپ صاحب کشف و کرامات وصاحب مقامات جلیلہ تھے۔آخری عمرمیں آپ کےاستغراق کایہ حال تھاکہ نمازکےوقت آپ کےکان میں تین مرتبہ حق،حق،حق کہاجاتا،تب آپ کوہوش آتااور نمازاداکرتے۔آپ علم شریعت وطریقت وحقیقت ومعرفت میں عدیم العدیل تھے۔
علمی ذوق:
آپ کی کتاب "زادالاابرار"آپ کےعلمی ذوق کی آئینہ دارہے۔۱۱؎
انکشاف حقیقت:
سلطان فیروزشاہ نےجب وہ آپ کی قدم بوسی سےپانی پت میں مشرف ہوا،آپ سے پوچھا۔
"یاشیخ!شماخدائےعزوجل رادیدہ اید"۔
(اےشیخ!کیاتم نےخدائےعزوجل کودیکھاہے)۔
آپ نےجواب دیا۔
"دیدن حق سبحانہ تعالیٰ بدیں چشم سربہ امرشرع شریف محالست و لیکن سایہ حق تعالیٰ رادیدہ ام"۔
(دیکھناحق سبحانہ تعالیٰ کااس چشم سربہ امرشرع شریف محال ہے،لیکن میں نےسایہ حق تعالیٰ کو دیکھاہے)۔
کشف وکرامات:
آپ کوبہ نورباطن حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی بیماری کاعلم ہوا،آپ بقوت روحانی ایک ساعت میں دہلی پہنچے،مخدوم جہانیاں کوحالت نزع میں پایا،آپ نےان کی صحت کےلئےدعافرمائی اور اپنی عمرکےچندسال ان کودےکراسی طرایک ساعت میں پانی پت واپس تشریف لائے۔
ایک مرتبہ آپ کاگزرایک گاؤں سےہوا،آپ نےدیکھاکہ گاؤں والےاپناسامان لئے ہوئےجاتے ہیں،آپ نے وجہ پوچھی،انہوں نے عرض کیاکہ گاؤں میں ژالہ زدگی کی وجہ سے فصل خراب ہوگئی ہے،لگان اداکرنےسےقاصرہیں،حاکم سخت ہے۔آپ نےفرمایاکہ اگراس گاؤں کوہمارے ہاتھ فروخت کرواورہمارےنام پرجلال آباد رکھوتوتمہارالگان بھی اداہوجائےاورتم کو اچھی خاصی رقم بچ جائے۔وہ لوگ راضی ہوگئے۔
آپ نےان لوگوں سےلوہااورلوہےکالانےکوفرمایااورلکڑی جمع کرنےکی تاکیدفرمائی۔ان لوگوں نے حکم کی تعمیل کی۔پھرآپ نےلکڑی جلانےاورلوہااس میں ڈالنےکی ہدایت فرمائی۔آپ نے یہ بھی تاکید فرمائی کہ صبح کو آکردیکھیں کہ کیاہوا۔اسی رات کوآپ اس گاؤں سے چل دئے۔صبح کو جب گاؤں والےوہاں گئےتوان کودیکھ کرحیرت ہوئی کہ سارالوہازرخالص تھا۔انہوں نےلگان اداکیا،باقی روپیہ اپنےخرچ میں لائےاوراس گاؤں کانام"جلال آباد"رکھا۔
ایک دن آپ دریاکےکنارےتشریف لےگئے۔وہاں ایک جوگی آنکھیں بندکئےبیٹھاتھا۔آپ کے وہاں پہنچنےپرجوگی نے آنکھیں کھولیں اورآپ کوسنگ پارس دیا۔آپ نےاس پتھرکودریامیں پھینک دیا۔جوگی خفاہوا۔آپ نےجوگی سےفرمایاکہ دریامیں جاکراپناپتھرلےآئے۔لیکن اس کے علاوہ اور کوئی پتھرنہ لے۔جب جوگی دریامیں گیاتواس نےوہاں ہزاروں اس قسم کے پتھرپائے۔اس نے اپنےپتھرکےعلاوہ ایک اورپتھراٹھایااورباہرآیا۔آپ نے اس سے فرمایاکہ وہ دوسراپتھرکیوں چھپا کرلایااس نےدونوں پتھرآپ کےسامنےرکھ دیئےاورآپ کامریدہوا۔
آپ کی دعاسے حضرت جمال الدین ہانسوی کاسلسلہ جاری ہوا۔
ایک کیمیاگرآپ کے ایک صاحب زادے کےپاس آیااوران کافقروفاقہ دیکھ کران کوکیمیاسکھانے کا وعدہ کیا۔انہوں نےآپ سےذکرکیا۔آپ نےحجرے کی دیوارپرتھوکا،حجرہ سونےکاہوگیا۔آپ نے اپنے صاحب زادے سے فرمایاکہ کیمیائے سعادت،سیکھنابہترہے۔۱۲؎
حواشی
ا؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۷
۲؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۸
۳؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۷
۴؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۲۰۱
۵؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۲۰۸
۶؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۹
۷؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۲۱۱
۸؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۲۰۸،۲۰۷
۹؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۸
۰ا؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۸
۱ا؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۸
۲ا؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۲۰۹
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)