خواجہ ابویعقوب یوسف بن ایوب ہمدانی قدس سرہ

 

مقام و مرتبہ:

آپ عالم، عامل، عارف، زاہد، پرہیزگار، صاحب احوال جلیلہ ، کرامات واضحہ ،     او رمقامات علیہ کے مالک  تھے۔ اور علوم ومعارف میں قدم راسخ رکھتے تھے۔ اپنے وقت میں یگانہ مشائخ تھے۔ خراسان میں مریدین کی تربیت آپ پر ختم تھی۔ آپ کی مجلس میں علماء فقہاء ،اور  صلحاء کا بڑا مجمع رہا کرتا تھا جو آپ کے کلام سے مستفیض ہوتے تھے۔ آپ ساٹھ سال سے زیادہ مسند ارشاد پرمتمکن رہے۔ کچھ عرصہ کوہ زرا[۱] میں بھی مقیم رہے اور سوائے نماز جمعہ کے کبھی باہر نہ نکلتے تھے۔

[۱۔ زَرا مضافات حوزان سے ہے جو خراسان میں نواح مردِ رود سے ہے۔]

ولادت باسعادت:

آپ موضع بوزنجرد[۱] میں قریباً ۴۳۰ھ میں پیدا ہوئے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد میں آئے۔ وہاں آپ نے ابواسحاق شیرازی کی صحبت اختیار کی اور ان سے فقہ پڑھی یہاں تک کہ اصول فقہ و مذہب و خلاف میں ماہر ہوگئے اور قاضی ابوالحسین محمد بن علی بن مہتدی باللہ۔ ابوالغنائم عبدالصمد بن علی بن مامون۔ ابوجعفر محمد بن احمد بن مسلمہ وغیرہ سے سماع حدیث کیا۔ اور اصفہان و سمرقند میں بھی سماع کیا۔

[۱۔ بوز نجرد بضم باء موحدہ و سکون واو و فتح زا و نون ہر دو و کسر جیم و  سکون راء و در آخر وال مہملہ ہمدان کے دیہات میں سے شہر سے سادہ کی طرف کو ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے۔]

باطنی علوم کا حصول:

اس کے بعد سب کو ترک کرکے عبادت و ریاضت و مجاہدہ کا طریق اختیار کیا۔ مشہور یہ ہے کہ تصوف میں آپ کا انتساب شیخ ابوعلی فارمدی سے ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ عبداللہ جوینی نیشا پوری اور شیخ حسن سمنانی کی صحبت میں بھی رہے ہیں اور مقدم الذکر سے خرقہ پہنا ہے۔ مرو میں آپ کا قیام دیر تک رہا۔ وہاں آپ کی خانقاہ میں اس قدر طالبان خدا تھے کہ کسی دوسری خانقاہ میں نہ تھے۔ آپ مرو سے ہرات آئے۔ کچھ عرصے کے بعد پھر مرو چلے آئے بعد ازاں دوبارہ ہرات میں تشریف لے گئے۔ وہاں زیادہ عرصہ نہ گزرا  تھا کہ پھر مرو کا قصد کیا، یہ آپ کا اخیر سفر تھا۔

وعظ کہنے کی صلاحیت:

خواجہ یوسف ہمدانی کی طرح سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بھی اٹھارہ سال کی عمر میں تحصیل علم کے لیے اپنے وطن سے بغداد میں تشریف لائے تھے۔ جب آپ تحصیل علم سے فارغ ہوچکے تو ایک روز بغداد ہی میں خواجہ موصوف سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ جسے آپ یوں بیان فرماتے ہیں:

’’بغداد میں ایک شخص ہمدان سے آیا جسے یوسف ہمدانی کہتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ قطب ہیں۔ وہ ایک مسافر خانے میں اترے۔ جب میں نے یہ حال سنا تو میں مسافر خانے میں گیا، مگر ان کو نہ پایا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ سرداب میں ہیں۔ پس میں اس سرداب میں اترا جب انہوں نے مجھے دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور مجھے اپنے پاس بٹھایا۔ آپ نے میرے تمام حالات مجھ سے ذکر کیے اور مجھ سے میری تمام مشکلات کو حل فرمایا۔ پھر مجھ سے یوں ارشاد کیا۔ اے عبدالقادر! تم لوگوں کو وعظ سنایا کرو۔ میں نے عرض کیا آقا! میں عجمی ہوں۔ فصحائے بغداد کے آگے کیا گفتگو کروں یہ سن کر آپ نے فرمایا تم کو اب فقہ اصول فقہ، اختلاف مذاہب نحو، لغت اور تفسیر قرآن یاد ہے تم میں وعظ کہنے  کی صلاحیت و قابلیت موجود ہے۔ برسرِ منبر لوگوں کو وعظ سنایا کرو، کیونکہ میں تم میں ایک جڑ دیکھتا ہوں جو عنقریب درخت ہوجائے گی۔

کرامات:

۱۔       ایک روز حضرت خواجہ ایک مجمع میں وعظ فرما رہے تھے۔ دو فقیہوں نے جو اس مجلس میں حاضر تھے آپ سے کہا چپ رہو تم تو بدعتی ہو، آپ نے فرمایا تم چپ رہو، زندہ نہ رہو، وہ دونوں مرگئے۔

۲۔       ہمدان کی ایک عورت کے لڑکے کو فرنگی قید کرکے لے گئے۔ وہ روتی ہوئی حضرت خواجہ کی خدمت میں آئی۔ آپ نے فرمایا کہ صبر کر، اس نے کہا کہ مجھ سے صبر نہیں ہوسکتا، آپ نے یوں دعا فرمائی: ا للھم فک اسرہ و عجل فرجہ، خدایا اس کی بیڑی توڑ دے اور اس کا غم جلدی دور کردے۔ پھر اس عورت سے فرمایا اپنے گھر جا۔ تو لڑکے کو گھر میں پائے گی۔ وہ چلی گئی کیا دیکھتی ہے کہ لڑکا گھر میں ہے، وہ حیران ہوئی اور لڑکے سے دریافت کی، اس نے بیان کیا کہ میں ابھی قسطنطنیہ میں تھا۔ میرے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور نگہبان مجھ پر مقرر تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کو میں نے نہیں دیکھا تھا اس نے مجھے اٹھایا اور آنکھ جھپکنے میں مجھے یہاں لے آیا۔ یہ سن کر وہ عورت پھر حضرت  خواجہ کی خدمت میں آئی اور لڑکے کا قصہ بیان کیا آپ نے فرمایا کیاتو امر الٰہی سے تعجب کرتی ہے؟

۳۔      حضرت خواجہ ۵۱۵ھ میں بغداد میں تشریف لائے اور مدرسہ نظامیہ میں مجلس وعظ منعقد کی اور لوگوں میں بڑی قبولیت پائی۔ صوفی ابوالفضل صافی بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ایک روز آپ نظامیہ میں علماء  کے  مجمع میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک فقیہ ابن سقا نامی مجلس سے اُٹھا اور اُس نے آپ سے سوال کیا آپ نے فرمایا بیٹھ جا مجھے تیرے کلام میں کفر کی بو آتی ہے۔ شاید تیری موت اسلام پر نہ ہوگی۔ اس واقعہ سے ایک مدت کے بعد شاہ روم کی طرف سے ایک نصرانی بطور ایلچی خلیفہ کے پاس آیا۔ ابن سقا اُس کے پاس گیا اور اُس سے التجا کی کہ مجھے اپنے ساتھ لے چلو میں دین اسلام چھوڑ کر تمہارے دین میں داخل ہونا چاہتا ہوں، نصرانی نے منظور کرلیا، وہ نصرانی کے ساتھ قسطنطنیہ میں پہنچا اور شاہ روم سے ملا اور عیسائی ہوگیا اور عیسائی ہی مرا۔کہتے ہیں کہ ابن سقا قاری و حافظ قرآن تھا۔ مرض موت میں ایک شخص نے اسے قسطنطنیہ میں دیکھا کہ ایک دکان میں لیٹا ہوا ہے اور ہاتھ میں ایک پرانا پنکھا ہے جس سے وہ اپنے چہرے سے مکھیاں اڑا رہا ہے اس حالت میں اس سے پوچھا گیا کہ کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟ بولا کہ نہیں۔ سب بھول گیا، صرف یہ آیت یاد ہے: رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ (سورۃ حجر، ع۱) اس  وقت کفار آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔

صاحب بہجۃ الاسرار نے قصہ ابن سقا دوسرے طریقہ سے بیان کیا ہے۔ جسے راقم الحروف سیرت الغوث الاعظم میں لایا ہے۔

وصال مبارک:

اخیر سفر میں ہر ات سے مرو کو آ رہے تھے کہ راستے میں ہرات و بغشور کے درمیان موضع بامئین میں روز دو شنبہ ۲۲ ربیع الاول ۵۳۵ھ میں انتقال فرمایا اور وہیں دفن کیے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد آپ کے مریدوں میں سے ابن النجار آپ کے جسد مبارک کو مرو میں لے گیا اور وہاں اس خطیرہ میں دفن کردیا جو آپ کے نام سے موسوم ہے۔

ارشاداتِ عالیہ

۱۔       سماع ایک سفیر ہے حق تعالیٰ کی طرف اور ایک ایلچی ہے حق تعالیٰ کی طرف سے وہ ارواح کی خوراک اور اجسام کی غذا اور قلوب کی زندگی اور اسرار کی بقا ہے۔ وہ پردہ کے پھاڑنے والا اور بعید کے ظاہر کرنے والا ہے۔ اور برق درخشاں اور آفتاب تاباں ہے۔ وہ عالم میں ہر فکر ہر لحظہ ہر تدبر و تفکر ہر ہوا کے جھونکے اور ہر درخت کی حرکت اور ہر ناطق کے نطق سے ہوتا ہے۔ پس تو اہل حقیقت کو سماع میں سرگشتہ و حریان اور مقید واسیر اور  صاحب خشوع و مست دیکھتا ہے۔

۲۔       جان لے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی زیبائی کے نور سے  ملائکہ مقربین میں سے ستر ہزار فرشتے پیدا کیے اور ان کو اپنی بارگاہ میں عرش و کرسی کے درمیان کھڑا کیا۔ ان کا لباس سبز صوف ہے۔ اور ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی مثل ہیں۔ وہ اپنی پیدائش کے وقت سے حالت وجد میں سرگشتہ و حیران اور فروتن و مست کھڑے ہیں۔ اور شیفتگی کی شدت کے سبب سے رکن عرش سے کرسی تک دوڑتے ہیں۔ پس وہ اہل آسمان کے صوفیہ اور بلحاظ نسبتوں کے ہمارے بھائی ہیں۔اسرافیل علیہ السلام ان کے قائد و مرشد اور جبرائیل علیہ السلام ان کے  رئیس و متکلم ہیں اور حق تعالیٰ ان کا انیس و ملیک ہے۔ پس ان پر سلام و تحیہ و اکرام ہو۔

۳۔      شیخ نجم الدین رازی رحمہ اللہ نے کتاب مرصاد العباد میں ذکر کیا ہے کہ ایک روز ایک درویش نے شیخ یوسف ہمدانی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں اس وقت شیخ احمد غزالی قدس سرہ کے پاس تھا۔ آپ درویشوں کے ساتھ دستر خوان پر کھانا تناول فرما رہے تھے کچھ دیر آپ پر ہیبت طاری ہوگئی بعد ازاں آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت حضرت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا کہ تشریف لائے اور میرے منہ میں لقمہ ڈال دیا۔ یہ سن کر شیخ یوسف ہمدانی قدس سرہ نے فرمایا تلک خیالات تربی بھا اطفال الطریقۃ۔ یہ خیالات ہیں جن سے اطفالِ طریقہ پرورش پاتے ہیں۔[۱] (انیس الطالبین۔ ص۹۷)

[۱۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے احوال و مواجید مقاصد سے نہیں۔ بلکہ مطلوب کے مباوی ہیں۔ ان سے اطفال طریقہ کا شوق بڑھتا ہے اور ان کے دل میں مزید ترقی کی آرزو پیدا ہوجاتی ہے۔]

۴۔      تم خدا تعالیٰ کے ساتھ صحبت[۱] رکھو۔ اگر یہ میسر نہ آئے تو اس شخص کے ساتھ صحبت رکھو جو خدا تعالیٰ کے ساتھ صحبت رکھتا ہے۔

[۱۔ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار فرماتے ہیں کہ یہاں صحبت سے مراد حضور و آگاہی ہے جو لازم صحبت ہے کیونکہ مصاحبین کے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے سے آگاہ و حاضر ہوں۔ (رشحات۔ ص۲۴۸)](بہجۃ الاسرار۔ تاریخ ابن خلکان۔ نفحات الانس)

(مشائخِ نقشبندیہ)

تجویزوآراء