حضرت خواجہ بہاؤ الحق والدین نقشبندی
حضرت خواجہ بہاؤ الحق والدین نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا نام محمدؑبن محمدؑ بخاری ہے ۔آپ کو خوا جہ محمد بابا سماعی ؒ کی طرف سے فرزندی کے مقبول نظری ہےاور بظاہر آداب طریقت کی تعلیم سید امیر کلال رحمتہ اللہ علیہ سے ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ۔لیکن حقیقت میں آپ اویسی تھےاور روحانی تربیت خواجہ عبدالخالق غجدوانی ؒ سے حاصل کی ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ شروع حال جذبہ کے غلبہ میں ،میں ایک رات بخارا کے تین متبرک مزارات پر پہنچا۔ہر مزار پر ایک روشن چراغ دیکھا۔چراغدان میں پورا روغن اور فتیلہ ہےلیکن بتی کو تھوڑی سی حرکت چاہیے۔تاکہ روغن سے باہر آجائے اور اچھی طرح روشن ہوجائے۔آخری مزار پر میں قبلہ کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھ گیا۔اس میں غیبی توجہ ہوئی۔میں نے دیکھا کہ قبلہ کی دیوار پھٹ گئیہے اور ایک بڑا تخت ظاہر ہواہے۔ایک سبز پردہ پر تنا ہوا ہے۔اس کے گرد ا گرد ایک جماعت ہے ۔میں نے خواجہ محمد ؑبابا کو ان کے درمیان دیکھا اور پہچان لیا۔میں نے سمجھ لیا کہ آپ فوت ہوچکے ہیں۔اس جماعت میں سےایک نے مجھے کہا کہ تخت پر خواجہ عبدالخالق بیٹھے ہیں۔اور یہ جماعت انکے خلیفہ ہیں۔ہر ایک کی طرف اشارہ کیا ۔خواجہ احمد صدیقؒ خواجہ اولیائے کلاںؒ خواجہ عارف ریوکری۔خواجہ محمد الخیر نغوی،خواجہ علی رامیتنی قدس اللہ تعالی اروا حھم جب خواجہ محمد بابا تک پہنچا تو کہا ان کو تم نے ان کی زندگی میں دیکھا ہوا ہے ۔یہ تمہارے شیخ ہیں۔تم کو انہوں نے کلاہ دی تھیاور تجھ کو وہ بزرگی عنایت کی ہے کہ بلا ئےاتری ہوئی تیری برکت سے دفع ہوگئی۔اس وقت اس جماعت نے کہا کہ کان لگاؤاور اچھی طرح سنو کہ حضرت خواجہ بزرگ وہ باتیں کریں گےکہ خدا کے راہ کےسلوک میں تم کو ان سے گریز نہ ہوگا۔میں نے اس جماعت سے درخواست کی حضرت خواجہ کو سلام کہواور ان کے جمال مبارک سے مشرف ہوجاؤں۔تب پرچہ آگے سے اٹھایا گیا۔میں نے دیکھا کہ ایک پیر بزرگ نورانی ہیں۔میں نے سلام کیا آپ نے جواب دیا۔اس وقت سلوک کی وہ باتیں جو کو شروع اور وسط اور اخر سے تعلق رکھتی ہیں۔مجھ سے بیان فرمائیں اور کہاکہ وہ چراغ جو تم کو اس کیفیت پر دکھائے گئے۔اس بات کے اشارہ اور مژدہ ہیں کہ تم کواس راہ پر چلنے کہ استعداد و قابلیت ہے۔لیکن استعداد کے فتیلہ کو حرکت دینی چاہیےکہ روشن ہوجائےاور اسرار کا ظہور ہوجائے۔
یہ فرمایا اور اس میں مبالغہ کیا کہ ہر حال میں اپنا قدم امردنہی،عمل،غزیمت اور سنت پر رکھنا۔فتنوں اور بدعتوں سے دور رہناہمیشہ حدیث مصطفیؑ کو اپنا پیشوا بنانااور اخبار رسول صلی اللہ و علیہ وسلم و صحابہ کرام ؓ کا متلاشی رہنا۔ان سب باتوں کے بعد اس جماعت نےمجھ سے کہا تیرے صدق کا حال شاید یہ ہے کہ کل صبح کے وقت فلاں جگہ جائیو اور فلاں کام کیحو۔اس کی تفصیل آپ کے مقامات میں مذکور ہے۔اس کے بعد نسف کی طرف میر سید کلال کی خدمت میں جانا۔جب آپکے حکم کے بموجب نسف میں گیااور حضرت امیر علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پہنچا۔حضرت امیر نے بڑی مہربانی فرمائی اور بڑی توجہ سے مجھ کو ذکر کی تلفین فرمائی۔نفی و اثبات کے طریق خفیہ میں مشغول رکھا۔اور جب مین خواب میں عزیمت(عزیمت اس کو کہتے ہیں کہ جس میں رخصت شرعی پر عمل نہ ہو تکلیف شرعی پر عمل ہو)کے عمل پر مامور تھا۔اس لیے علانیہ کے ذکر کا عامل نہ ہوا۔کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کو درویشی وراثتاً پہنچتی ہےیا کسی سے۔آپ نے فرمایاجذبۃ من جذبات الحق توازی عمل التقلین یعنی خدا کےجذبوں میں سے ایک جذبہ جن و انسان کے عمل کے برابر ہے۔میں اس سعادت سے مشرف ہواہوں۔پھرآپ سے سوال کیا گیا کہ آپ کے طریقہ میں ذکر جہر اور خلوت سماع ہوتا ہےفرمایا کہ نہیں۔پھر پوچھا کہ تمہاری طریقت کی بناکس پر ہے۔فرمایا خلوت اور درانجمن یعنی بظاہر تو لوگوں میں اور باطن میں خدا کے ساتھ۔
ازدروں شو آشناد وزبروں بیگانہ وش ایں چنیں زیبا روش کم ہے بوداندر جہاں
حق سبحانہ و تعالی جو یہ فرماتے ہیں رجال لا تلھیم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہیعنی وہ ایسے لوگ ہیں ان کو تجارت اور بیع خدا کے ذکر سے غافل نہیں کرتی۔اسی مقام کی طرف اشارہ ہے کہتے ہیںکہ حضرت خواجہ کا کوئی غلام یہ لونڈی نہیں تھا۔لوگوں نے آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو فرمایابندگی خواجگی کے ساتھ اچھی معلوم نہیں ہوتی۔کسی نے آپ سے پوچھاکہ حضور کا سلسلہ سے کوئی شخص ٹھکانے تک نہیں پہنچتا۔فرماتے ہیں نفس پر تہمت لگاؤکیونکہ جو شخص خدا کی مہربانی سے اپنے نفس کو بدی کے ساتھ پہچانتا ہے اور اس کے مکر اور دھوکا کو جان چکا ہے۔اس کے نزدیک یہ عمل سہل ہے۔اس راستے پر چلنے والے ایسے بہت سے گزرے ہیں کہ دوسرے کے گناہ کواپنے اوپر رکھ لیتے تھے اور اسکا بوجھ خود اٹھا لیتے تھے۔فرماتے کہ خدا تعالی کا یہ قول یا ایھا الذین امنواباللہاے ایمان والوں خدا پر ایمان لاؤ۔اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر لحظہ اس وجود طبعی کی نفی اور حقیقی وجود کا اثبات چاہیے۔شیخ جنید علیہ الرحمۃ فرماتے ہیںکہ ساٹھ سال ہوچکے ہیں کہ میں ایمان لاتا ہوں۔فرماتے تھے کہ وجود کے نفی ہمارے نزدیک بہت قریب راستہ ہے۔لیکن اختیار کے ترک اور اعمال کے قصور کے ملاحظہ کے بغیرحاصل نہیں ہوتی۔فرماتے تھے کہ اس راہ پر چلنے کے لیےماسوا کا تعلق قید اور ایک بڑا حجاب ہے۔
تعلق حناب است و بے حاصلی چو پیوند ہا بگسلی واصلی
اہل حقیقت ایمان کی یوں تعریف کرتے ہیں الایمان عقد القلب بنفی جمیع مانو لھت الیہ من المنافع والمضارسوی اللہ تعالی ھےایمان یہ ہے کہ دل کا خدا کے ساتھ اور پیوند ہواور خدا کے سوا جس قدر نفع ضرر کی چیزیں ہوں جن کی طرف دل شیفتہ ہوتا ہےان سب کو دور کیا جائے۔فرماتے تھے کہ ہمارا طریقہ صحبت ہے۔خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت ہے۔خیریت جمعیت میں ہےاور جمعیت صحبت میں ہے۔بشر طیکہ ایک دوسرے میں نفی ہو اور جو کچھ اس بزرگ نے فرمایا ہے کہ تعال نومن ساعۃ یعنی آکہ تھوڑی دیر تک ایمان لائیں۔اسی طرف اشارہ ہے کہ اگر طالبوں کی ایک جماعت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھیں تو اس میں خیروبرکت بہت ہے۔امید ہے کہ اس امر پر ملازمت اور ہمیشگی ایمان حقیقی تک پہنچادے۔فرماتے تھے کہ ہمارا طریقہ عروۃ الوثقی ہے یعنی مضبوط کڑا۔رسولؑ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑنااور صحابہ اکرام ؓ کے آثار کی پیروی کرتا ہےاس طریقہ پر تھوڑے عمل کے ساتھ بہت سی فتوحات حاسل ہوتی ہیںلیکن سنت کے کام کی پیروی بھی بڑا کام ہے۔جو شخص اس طریقہ سے منہ پھیر لے اس کے دین میں خطرہ ہے۔فرماتے ہیں، طالب کو چاہیےجس زمانہ میں خدا کے کسی دوست سے تعلق رکھتا ہو۔اپنے حال کا واقف ہو۔صحبت کے زمانے کو پہلے زمانہ سے مقابلہ کرے۔اگر فرق پائے تو بحکم احمیت فالزم یعنی تورہ پر پہنچ گیاہے۔
پس اس کو لازم پکڑ۔ اس بزرگ کی صحبت کو غنیمت جانے اور فرماتے ہین کہ لاالہمیں طبیعت کے معبود کی نفی ہے اور الااللہ میں معبود بحق جل جلالہ کا اثبات ہےاور محمد رسول اللہ میں اپنے آپ کو فاتبعونی کے حکم میں لانا ہے۔میری تابعاداری کرو۔ذکر سے مقصود یہ ہے کہ کلمہ توحید کی حقیقت تک پہنچے اور کلمہ توحید کی حقیقت یہ ہے ماسوائے کے کہنے سے کلی طور پر نفی ہوجائے۔بہت کہنا شرط نہیں۔فرماتے تھے کہ حضرت عزیز ان علیہ الرحمہ والغفران فرماتے ہیںکہ اس گروہ کے نزدیک زمین ایک دسترخوان ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ایک ناخن کے برابر ہے۔ان کی نطر سے کوئی چیز غائب نہیں۔فرماتے تھے توحید کے سرے پر تو پہنچ سکتے ہیں لیکن معرفت تک پہنچنا دشوار ہے۔جس زمانہ میں کہ حضرت خواجہ سفر مبارک میں گئے تھے۔خراسان کے ایک صاجزادہ کو ذکر کی تعلیم فرمائی تھی۔لوٹنے کے وقت اس سے کہا گیا کہ فلاں شخص نے ذکر کے سبب میں تکرار کی تعلیم حاصل کی تھی۔اب اس نے مشغولی کم کردی ہے۔فرمایا مضائقہ نہیں۔پھر اس سے آپ نے فرمایا کہ کبھی ہم کو تم نے خواب میں دیکھا ہے ؟ا سنے کہا ہاں۔فرمایا کہ یہی کافی ہے۔اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو تھوڑاسا تولق بھی ان بزرگوں سے ہوا۔امید ہے آخر الامرانہیں سے مل جائیں گا۔اور وہ ان کی نجات اور بلند درجات کا سبب ہوجائیں گا۔ایک شخص نے آ پ سے عرض کیا کہ فلاں شخص بیمار ہے اور وہ حضور کی توجہ کا سائل ہے۔فرمایا کہ پہلے تو رجوع عاجزانہ چاہیے۔پھر خاطر شکتہ کہ توجہ۔لوگوں نے آپ سے کرامت طلب کی ۔فرمایا کہ ہمارہ کرامت تو ظاہر ہے۔باوجود اس قدر بڑے گناہوں کے ہم زمین پر چل سکتے ہیں۔فرماتے تھے کہ شیخ ابو سعید ابو الخیر علیہ الرحمۃ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کے جنازہ کے سامنے کونسی آیت پڑھیں۔فرمایا کہ آیت پڑھنی تو بڑا کام ہے۔یہ بیت پڑھ دینا۔
مفلسا نیم آمدہ در کوئے تو شینا اللہ ازجمال روئے تو
مولانا جلال الدین خالدی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ خواجہ بہاؤالدین کے سلوک کی نسبت اور طریقہ متاخرین سے کس طریقہ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔فرمایا کہ تم متقدمین کی بابت پوچھوکیونکہ دو سال سے زیادہ ہوچکا ہے کہ اس قسم کی ولایت کے ظہور کے آثار کے خدا کی عنایت سے خواجہ بہاؤالدین پر ظاہر ہوئے ہیں۔کسی متاخرین پر ظاہر نہیں ہوئے۔پیر شیخ قطب الدین جو کہ حضرت خواجہ کے مرید ہیں۔خراسان میں تشریف لائے تھے۔وہ فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا۔حضرت خواجہ نے مجھے فرمایا کہ فلاں کبوتر خانہ میں جا۔وہاں سے چند کبوتر لا۔جب میں کبوتروں کے بچے لایا تو میری طبیعت ا نکی طرف راغب ہوئی۔ایک کبوتر کا بچہ میں نے زندہ رکھ لیا۔اور باقی خواجہ کے حضور میں لایا۔جب کبوتروں کو پکایا اور حاضرین پر تقسیم کیا۔تو مجھے نہ دیا اور فرمایا کہ فلاں شخص نے اپنا حصہ زندہ لے لیاہے۔آپ کی وفات پیر کی شب ۳ماہ ربیع الاول ۷۹۱میں ہوئی۔قدس اللہ تعالی روحہ
(نفحاتُ الاُنس)