خواجہ خواجگان حضرت خواجہ سید بہاؤ الدین محمد نقشبند بخاری
حضرت خواجہ بزرگ بہاؤالدین محمد نقشبند بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
(روحِ رواں سلسلہ نقشبندیہ)
ولادت با سعادت:
آپ کی ولادت با سعادت ۴ محرم الحرام ۷۱۸ھ میں قصر عارفاں میں ہوئی۔ جو شہر بخارا سے ایک فرسنگ کے فاصلہ پر واقع ہے۔ پیدائش سے پہلے حضرت بابا محمد سماسی نے آپ کے تولد مبارک کی بشارت دی تھی۔ تولد سے تیسرے روز آپ کے جد امجد آپ کو حضرت بابا قدس سرہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت بابا نے آپ کو فرزندی میں قبول فرمایا اور اپنے خلیفہ سید امیر کلال سے آپ کی تربیت کے بارے میں عہد لیا جیسا کہ پہلے آچکا ہے۔
آثار ِولایت:
لڑکپن ہی سے ولایت کے آثار اور کرامت و ہدایت کے انوار آپ کی پیشانی سے ظاہر و آشکارا تھے۔ چنانچہ آپ کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ میرا فرزند بہاء الدین چار سال ایک ماہ کا تھا۔ میرے پاس ایک گائے تھی جو حاملہ تھی۔ ایک روز میرے فرزند نے اس کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔ کہ یہ گائے گو سالہ(گائے کا بچہ) سفید پیشانی جنے گی۔ چنانچہ چند ماہ کے بعد قدرت حق تعالیٰ سے ویسا ہی گوسالہ جنی۔ جنہوں نے میرے فرزند کی بات سنی تھی وہ حیران ہوئے۔ اور حضرت خواجہ محمد بابا کے نفس مبارک کا اثر ہوگیا۔
تعلیم و تربیت:
آپ کو آدابِ طریقت کی تعلیم بظاہر سید امیر کلال سے ہے۔ مگر حقیقت میں آپ اویسی ہیں۔ کیونکہ آپ کی تربیت حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی کی روحانیت سے ہوئی ہے۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں کہ ادائل احوال اور غلبات جذبات و بیقراری میں راتوں کو میں نواحی بخارا میں پھرا کرتا تھا۔ اور ہر مزار پر جاتا تھا۔ ایک رات میں تین مزاروں پر گیا۔ جس مزار پر پہنچتا ایک چراغ ٹمٹماتا نظر آتا۔ چراغ میں پورا تیل اور بتی ہوتی۔ مگر بتی کو ذرا اکسانے کی ضرورت تھی۔ تاکہ تیل سے باہر آجائے اور بخوبی جلے۔ شروع رات میں خواجہ محمد واسع کے مزار پر پہنچا۔ وہاں ارشاد ہوا کہ خواجہ محمود انجیر فغنوی کے مزار پر جانا چاہیے۔ جب میں اس مزار پر پہنچا تو دو شخص آئے انہوں نے دو تلواریں میری کمر پر باندھیں اور گھوڑے پر سوار کر کے اس کی باگ کا رخ مزار مزداخن کی طرف پھیردی۔ جب وہاں پہنچا تو فتیلہ اور چراغ اسی حالت میں تھا۔ میں رو بقبلہ بیٹھ گیا۔ اور اسی توجہ میں غیبت ہوگئی۔ کیا دیکھتا ہوں کی قبلہ کی جانب سے دیوار شق ہوگئی اور ایک بڑا تخت ظاہر ہوا۔ تخت پر ایک بزرگ بیٹھا ہے۔ جس کے آگے ایک سبز پردہ لٹکا ہوا ہے۔ اور اس تخت کے گرد ایک جماعت حاضر ہے میں نے اس جماعت میں خواجہ محمد بابا کو دیکھا اور جان گیا کہ یہ جماعت گزشتہ بزرگوں کی ہے۔ مگر دل میں خیال آیا کہ وہ بزرگ اس جماعت میں کون ہے۔ اتنے میں اس جماعت میں سے ایک نے کہا کہ وہ خواجہ عبدالخالق ہیں اور یہ جماعت ان کے خلیفے ہیں۔ خلیفوں کے نام گن گن کر اس نے ہر ایک کی طرف اشارہ کیا کہ یہ خواجہ احمد صدیق ہیں۔ یہ خواجہ اولیائے کلال۔ یہ خواجہ عارف ریوگری۔ یہ خواجہ محمود انجیر فغنوی اور یہ خواجہ علی رامیتنی ہیں جب خواجہ محمد بابا سماسی تک پہنچا تو ارشارہ کر کے کہا کہ ان کو تم نے حالت حیات میں دیکھا ہے۔ یہ تیرے شیخ ہیں۔ انہوں نے تجھے کلاہ دی ہے۔ کیا تو ان کو پہچانتا ہے۔ میں نے کہا کہ میں ان کو پہچانتا ہوں۔ کلاہ کا قصہ بہت دنوں کا ہے مجھے یاد نہیں رہا۔ اس نے کہا کہ وہ کلاہ تیرے گھر میں ہے۔ اور تجھے یہ کرامت عطا ہوئی ہے کہ جو بلا نازل ہو وہ تیری برکت سے دور ہوجائے گی۔ اس وقت اس جماعت نے کہا کہ کان لگا کر سنو۔ حضرت خواجہ بزرگ ارشادات فرمائیں گے جو تجھے راہِ حق کے سلوک میں کام آئیں گے۔ میں نے اس جماعت سے درخواست کی کہ میں حضرت خواجہ کو سلام کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے وہ پردے آگے سے اٹھادیے میں نے حضرت خواجہ کو سلام کیا۔ حضرت نے جواب دیا اور ارشادات فرمائے جو سلوک کے ابتدا و وسط و انتہا سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ جو چراغ تجھے اس حالت میں دکھائے گئے تیرے لیے بشارت ہیں اور اس امر کی طرف اشارہ ہیں کہ تجھ میں اس راستے کی استعداد و قابلیت ہے۔ مگر استعداد کی بتی کو اکسانا چاہیے تاکہ روشن ہوجائے۔ اور اسرار ظاہر ہوں۔ اور قابلیت کے بمو جب عمل کرنا چاہیے تاکہ مقصد حاصل ہو۔
دوسرا ارشاد:
دوسرا ارشاد جس کی آپ نے تاکید فرمائی یہ تھا کہ ہر حال میں جادۂ شریعت و استقامت پر قدم رکھنا چاہیے اور عزیمت و سنت پر عمل کرنا اور رخصت اور بدعت سے دور رہنا چاہیے۔ اور ہمیشہ احادیث مصطفےٰ ﷺ کو اپنا پیشوا بنانا اور اخبار رسول اکرم ﷺاور آثارِ صحابہ کرام کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ ان ارشادات کے ختم ہونے پر حضرت خواجہ کے خلیفوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے حال کی صداقت کا شاہد ایک یہ ہے کہ تو مولانا شمس الدین ابکنوی کے پاس جانا اور کہنا کہ فلاں ترک نے ایک شخص سقا نام پر دعویٰ کیا ہے۔ حق اس ترک کی طرف ہے اور تم سقا کی رعایت کرتے ہو۔ اگر سقا مدعی کی جانب کی حقیقت کا منکر ہو۔ تو اس سے کہنا ’’اے سقاے تشنہ‘‘ وہ اس بات کو جانتا ہے۔ دوسرا شاہد یہ ہے کہ سقا نے ایک عورت سے زنا کیا ہے۔ جب وہ حاملہ ہوگئی تو حمل کو اسقاط کر کے بچہ کو فلاں جگہ میں انگور کے نیچے دفن کردیا ہے۔ پھر ان خلیفوں نے فرمایا کہ جب تو یہ پیغام مولانا شمس الدین کو پہنچادے۔ تو دوسرے روز صبح کے وقت فوراً تین عدد مویز (سوکھے ہوئے بڑے انگور)لینا۔ اور ریگ مردہ (مقام)کے راستے نسف (مقام )کی طرف امیر سید کلاں کی خدمت میں روانہ ہوجانا۔ جب تو پشتہ قزاخوں (مقام)پر پہنچے گا۔ تو ایک بوڑھا ملے گا جو تجھے ایک گرم روٹی دے گا۔ وہ روٹی لے لینا مگر اس سے بات نہ کرنا۔ آگے بڑھ کر تجھے ایک قافلہ ملے گا۔ قافلہ سے ایک سوار آگے آئےگا۔ جسے تو نصیحت کرے گا اور وہ تیرے ہاتھ پر توبہ کرے گا۔ حضرت عزیزاں کی کلاہ جو تیرے پاس ہے اسے اپنے ساتھ سید امیر کلال کی خدمت میں لے جانا۔ بعد ازاں اس جماعت نے مجھے ہلادیا اور میں ہوش میں آگیا۔ صبح کو میں فوراً زیورتوں کی طرف اپنے مکان میں گیا۔ اور متعلقین سے کلاہ کا قصہ دریافت کیا وہ بولے کہ مدت ہوئی وہ کلاہ فلاں جگہ میں ہے۔ جب میں نے حضرت عزیزاں کی کلاہ دیکھی میرا حال دگر گوں ہوگیا اور میں بہت رویا۔ اسی وقت میں ابکنہ (مقام کا نام )میں آیا اور نماز فجر مولانا شمس الدین کی مسجد میں پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوکر میں وہ قصہ مولانا سے بیان کیا۔
سقا کا انکار کرنا:
سقا حاضر تھا۔ وہ مدعی کی جانب کی حقیقت کا منکر ہوگیا۔ میں نے سقا سے کہا کہ میرا ایک گواہ یہ ہے کہ تو سقاے تشنہ ہے۔ تجھے عالم معنے سے کچھ حصہ نہیں۔ وہ خاموش ہوگیا۔ پھر میں نے کہا کہ میرا دوسرا گواہ یہ ہے کہ تو نے ایک عورت سے زنا کیا۔ وہ حاملہ ہوگئی۔ تیرے حکم سے اسقاط حمل کیا گیا۔ اور بچہ کو تونے فلاں جگہ میں انگور کے نیچے دفن کردیا۔ سقا نے اس سے بھی انکار کیا۔ مولانا اور مسجد کے لوگ اس جگہ پہنچے اور تلاش کی تو وہاں مدفون بچہ پایا۔ سقہ نے معافی مانگی۔ مولانا اور مسجد کے لوگ روپڑے اور عجیب حالات ظاہر ہوئے۔ جب وہ دن گزرا میں دوسرے روز آفتاب نکلنے کے وقت جیسا کہ واقعہ میں مامور ہوا تھا تین عدد مویز لے کر ریگ مردہ کے راستے نسف کی طرف روانہ ہونے لگا۔ جب مولانا کو میری روانگی کی خبر ہوئی تو مجھے بلایا اور مجھ پر بڑی عنایت کی۔ اور فرمایا کہ تجھ میں درد پیدا ہوگیا ہے۔ اس درد کی دوا ہمارے پاس ہے۔ تو اسی جگہ ٹہر جا تاکہ ہم تیری تربیت کا حق بجالائیں۔ اس ارشاد کے جواب میں میری زبان سے نکلا کہ میں دوسروں کا فرزند ہوں۔ اگر آپ پستانِ تربیت میرے منہ میں دیں تو مجھے نہ لینا چاہیے۔ یہ سن کر مولانا خاموش ہوگئے اور مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اسی وقت کمر مضبوط باندھی۔ اور دو شخصوں کو حکم دیا۔ پس انہوں نے پوری قوت سے ہر طرف سے میرا کمر بند کس دیا اور میں چل پڑا۔
گرم روٹی کا ملنا:
جب میں پشتہ فزاخوں (مقام)پر پہنچا۔ ایک بوڑھا مجھ سے ملا جس نے مجھے ایک گرم روٹی دی۔ میں نے لے لی۔ اور اس سے کوئی بات نہ کی۔ آگے بڑھ کر ایک قافلہ پر میرا گزر ہوا۔ قافلہ والوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو کہاں سے آرہا ہے؟ میں نے کہا کہ ابکنہ سے۔ وہ بولے کہ وہاں سے تو کب روانہ ہوا۔ میں نے کہا کہ طلوع آفتاب کے وقت۔ میں جس وقت ان سے ملا۔ چاشت کا وقت تھا۔ وہ متعجب ہوئے کہ ابکنہ سے یہاں چار فرسنگ کا فاصلہ ہے اور ہم اول شب روانہ ہوئے تھے۔ جب میں ان سے آگے بڑھا تو وہ سوار ملا۔ میں نے سلام کہا اس نے کہا کہ تو کون ہے۔ میں تجھ سے ڈرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ہاتھ پر تجھے توبہ کرنی چاہیے۔ اس نے جلدی گھوڑے سے اتر کر بہت تضرع اور توبہ کی۔ اس کے پاس بہت شراب تھی۔ وہ سب اس نے پھینک دی۔
سید امیر کلال کی خدمت میں حا ضری:
جب میں اس سے آگے بڑھا اور نسف کی حد میں پہنچا تو اس جگہ گیا جہاں حضرت سید امیر کلال تشریف رکھتے تھے۔ میں ان کی ملاقات سے مشرف ہوا۔ اور حضرت عزیزاں کی کلاہ ان کے آگے رکھ دی۔ حضرت امیر ایک لحظہ خاموش رہے اور کچھ دیر کے بعد فرمایا کہ یہ کلاہ حضرت عزیزاں کی ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ حضرت امیر نے فرمایا کہ اس کے بارے میں اشارہ یوں ہوا ہے کہ اس کو دو پردوں کے درمیان محفوظ رکھو۔ میں نے قبول کیا اور کلاہ لے لی۔ بعد ازاں حضرت امیر نے مجھے ذکر کی تلقین کی۔ اور بطریق خفیہ نفی و اثبات میں مشغول کیا۔ میں ایک مدت تک اس سبق میں مشغول رہا۔ میں جیسا کہ واقعہ میں مامور ہوا تھا۔ عزیمت پر عمل کیا اور ذکر بالجہر نہ کیا۔ چونکہ مجھے اخبار و آثار رسول کریم و صحابہ کرام کی اتباع کا حکم تھا۔ اس لیے علماء کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا اور احادیث پڑھا کرتا اور آثار صحابہ معلوم کیا کرتا تھا۔ اور ہر ایک پر عمل کرتا اور اس کا نتیجہ اپنے باطن میں مشاہدہ کرتا۔
فیض کا دروازہ:
حضرت خواجہ نقشبند فرماتے ہیں! کہ اوائل ِاحوال میں ایک دفعہ ۹ ماہ تک فیض کا دروازہ مجھ پر بند رہا۔ میں کمزور اوربیچین ہوگیا۔ میں نے چاہا کہ مخلوق کی خدمت و ملازمت میں مشغول ہوجاؤں۔ اس حال میں میرا گزر ایک مسجد پر ہوا۔ جس پر یہ شعر لکھا ہوا نظر پڑا۔ ؎
اے دوست بیا کہ ما ترائیم
بیگانہ مشو کہ آشنائیم
جب میں نے یہ شعر پڑھا۔ مجھ پر رقت طاری ہوئی۔ اور عنایت الٰہی سے وہ دروازہ پھر مجھ پر کھل گیا۔ فرماتے ہیں کہ مبادی احوال میں ایک رات میں مسجد زیورتوں میں ایک ستون کے پیچھے رو بقبلہ بیٹھا تھا۔ ناگاہ غیبت و فنا کا اثر ظاہر ہونے لگا۔ اور رفتہ رفتہ میں بیخود ہوگیا۔ اور اس حالت میں فنا ئے کلی کو پہنچ گیا۔ ارشاد ہوا کہ ہوشیار ہوجاؤ۔ جو مطلوب و مقصود ہے تمہیں مل گیا کچھ دیر کے بعد میں ہوش میں آگیا۔ فرماتے ہیں کہ اس قصہ کے بعد ایک روز میں اس باغ میں تھا اور اشارہ اس باغ کی طرف کیا جس میں آپ کا مزار مقدس واقع ہے۔ متعلقین کی ایک جماعت میرے ساتھ تھی۔ ناگاہ عنایت الٰہی کے جذبات کا اثر ظاہر ہونے لگا۔ اضطراب و بیقراری پیدا ہوئی۔ میں اٹھ کر رو بقبلہ ہوبیٹھا۔ اچانک غیبت واقع ہوئی۔ اور وہ غیبت فنائے حقیقی تک پہنچ گئی۔ میں اس فناء میں کیا دیکھتا ہوں کہ میری روح کو آسمانوں کے ملکوت سے آگے کو لے گئے۔ اور اس مقام پر پہنچا کہ میری روح ستارہ کی شکل میں نور بے نہایت کے دریا میں محو و نا پدید ہوگئی۔اور میرے قالب میں حیات ظاہری کا کچھ نشان نہ رہا۔ میرے گھر والے اور متعلقین اس حالت میں گریہ و زاری کرتے تھے۔ یہاں تک میں میں آہستہ آہستہ وجود بشریت میں آگیا۔ وہ غیبت و فناء کم و بیش چھ گھنٹے رہی تھی۔
ذکر کی کیفیت:
خواجگان نقشبندیہ کے سلسلہ میں خواجہ محمود انجیر فغنوی کے وقت سے سید امیر کلال کے زمانے تک ذکر خفیہ کو ذکر علانیہ کے ساتھ جمع کیا کرتے تھے۔ مگر خواجہ نقشبند ذکر خفیہ کیا کرتے تھے اور ذکر علانیہ سے پرہیز کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اور جب حضرت امیر کے اصحاب حلقہ میں ذکر علانیہ کرتے تو حضرت خواجہ مجلس سے اٹھ جایا کرتے۔ حضرت امیر کے اصحاب پر یہ امر ناگوار گزرتا۔ مگر حضرت خواجہ حضرت امیر کی خدمت و ملازمت میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہ کرتے۔ اور ہمیشہ سر تسلیم ان کی ارادت و متابعت کی آستان پر رکھتے۔ اور حضرت بھی روز بروز حضرت خواجہ کی طرف زیادہ التفات کرتے۔ یہاں تک کہ ایک روز آپ کے اصحاب کی ایک جماعت نے خلوت میں آپ کی خدمت میں حضرت خواجہ کی شکایت کی۔ حضرت امیر نے اس خلوت میں کچھ جواب نہ دیا۔ مگر بعد ازاں ایک دن آپ کے تمام چھوٹے بڑے اصحاب جن کی تعداد پانچ سو تھی سو خار میں مسجد اور دیگر مکانات کی تعمیر کے لیے جمع تھے۔ اور ہر ایک کام میں لگا ہوا تھا۔ جب مٹی کا کام تمام ہوا۔ آپ نے اس مجمع میں شکایت کرنے والوں سے فرمایا کہ تم میرے فرزند بہاء الدین کے حق میں بدگمانی کرتے ہو اور غلطی سے اس کے بعض احوال کو قصور پر محمول کرتے ہو۔ تم نے اس کو نہیں پہنچانا۔ حق تعالیٰ کی نظر خاص ہمیشہ اس کے شامل حال ہے۔ اور بندگان حق تعالیٰ کی نظر حق سبحانہ کے تابع ہے۔ اس کے حق میں مزید التفات کے بارے میں میرا کچھ اختیار نہیں۔ پھر حضرت خواجہ کو جو اینٹیں لا رہے تھے طلب کیا اور ان سے یوں خطاب کیا:
’’اے فرزند بہاء الدین! حضرت خواجہ نے جو تمہارے حق میں وصیت کی تھی میں اسے بجالایا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا تھا کہ جس طرح میں نے تمہاری تربیت کی میرے فرزند بہاء الدین کی تربیت بھی اسی طرح کرنا۔ اور کوتاہی نہ کرنا۔ سو میں نے ویسا ہی کیا ہے۔ اور اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کر کے فرمایا میں نے یہ پستان تمہارے واسطے خشک کیے اور تمہاری روحانیت کا مرغ بشریت کے بیضہ سے نکل آیا۔ مگر تمہاری ہمت کا مرغ بلند پرواز واقع ہوا ہے۔ ترک و تاجیک سے جس جگہ کوئی خوشبو تمہارے دماغ میں پہنچےطلب کرو اور اپنی ہمت کے بموجب طلب میں کوتاہی نہ کرو۔‘‘
مولانا عارف کی خدمت میں حاضری:
اس ارشاد کے مطابق حضرت خواجہ سات سال مولانا عارف دیک [۱] کرانی کی خدمت میں رہے اور ان کی متابعت اور تعظیم و آداب بجالاتے رہے۔ چنانچہ وضو کے وقت نہر کے کنارے مولانا سے نیچے کی طرف وضو کرنے بیٹھتے اور چلتے وقت مولانا کے قدم پر قدم نہ رکھتے۔ بعد ازاں قثم شیخ کی خدمت میں دو تین مہینے رہے۔ جب پہلے پہل شیخ کی خدمت میں پہنچے تو شیخ اس وقت خربوزہ کھا رہے تھے۔ شیخ نے چھلکا آپ کی طرف پھینک دیا۔ آپ نے بر سبیل تبرک کھالیا اسی مجلس میں تین بار ایسا ہی وقوع میں آیا۔ اسی اثناء میں شیخ کے خادم نے آکر اطلاع دی۔ کہ تین اونٹ اور چار گھوڑے گم ہوگئے۔ شیخ نے حضرت خواجہ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت خواجہ مراقب ہوکر متوجہ ہوگئے۔ نماز شام کے ادا کرنے کے بعد خادم نے خبر دی کہ اونٹ اور گھوڑے خود بخود آگئے ہیں۔
[۱۔ دیک گراں ایک گاؤں ہے۔ قصبہ ہزارہ سے جو آب کوہک کے کنارے واقع ہے اور وہاں سے شہر بخارا نو فرسنگ کے فاصلہ پر ہے۔ مولانا عارف کا مزار مبارک گاؤں سے باہر ہزارہ کے راستے پر ہے۔ (رشحات)]
شیخ اتا کی خدمت میں حاضری:
بعد ازاں بارہ سال حضرت اتا کی خدمت میں رہے۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ اوائل حال میں ایک روز میں نے خواب میں دیکھا۔ کہ حضرت حکیم اتا قدس سرہ جو کہ کبار مشائخ ترک سے تھے مجھ سے ایک درویش کی سفارش فرماتے ہیں۔ جب میں بیدار ہوا اس درویش کی صورت میرے ذہن میں تھی۔ میں نے اپنی دادی سے جو صالحہ تھیں اس خواب کا ذکر کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ بیٹا! تجھے مشائخ ترک سے کچھ فیض پہنچے گا۔ میں ہمیشہ اس درویش کی ملاقات کا طالب رہا ایک روز بازار بخارا میں اس سے میری ملاقات ہوگئی۔ میں نے اس کو پہچان لیا۔اس کا نام خلیل اتا تھا۔ اس وقت تو اس کی صحبت میسر نہ ہوئی۔ جب میں گھر پہنچا اور شام ہوگئی تو ایک قاصد آیا کہ وہ درویش خلیل آپ کو یاد کرتے ہیں۔ میں نے کچھ تحفہ لیا اور بڑے نیاز و شوق سے ان کی خدمت میں گیا۔ جب میں ان کی ملاقات سے مشرف ہوا۔ تو میں نے چاہا کہ وہ خواب ان سے بیان کروں مگر خود انہوں نے ترکی زبان میں مجھ سے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے وہ ہمارے سامنے عیاں ہے۔ بیان کی ضرورت نہیں۔ یہ سن کر میرا حال دگر گوں ہوگیا۔ اور میرا میلان خاطر ان کی طرف زیادہ ہوگیا۔ ان کی صحبت میں عجیب حالات دیکھنے میں آتے تھے۔ اتفاقاً کچھ مدت کے بعد ان کو ماوراء النہر کی بادشاہی مل گئی۔ ایک دفعہ ایام سلطنت میں ایک کام کے لیے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے مجھے اپنی ملازمت و خدمت کی عزت بخشی۔ بادشاہت کے زمانے میں بھی ان سے بڑے بڑے حالات ظہور میں آتے اور میرا میلان خاطر ان کی طرف اور زیادہ ہوتا۔ وہ مجھ پر بڑی شفقت کرتے تھے۔ اور کبھی مہربانی سے اور کبھی غصہ سے مجھے آدابِ خدمت سکھاتے۔ جس سے مجھے بہت فائدے پہنچتے۔ ان آداب کی تعلیم اس راہ کی سیر و سلوک میں مجھے بہت کار آمد ہوئی۔ میں ان کی سلطنت میں چھ سال اس طریق پر ان کی خدمت میں رہا کہ مجلس عام میں آداب سلطنت بجالاتا اور تنہائی میں ان کا محرم خاص تھا۔ اپنے خواص بارگاہ کے سامنے آپ اکثر یوں فرمایا کرتے کہ جو شخص رضائے حق تعالیٰ کے لیے میری خدمت کرے گا۔ وہ خلق میں بزرگ ہوجائے گا۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ کا مقصود کون اور کیا ہے۔ اس سے آپ کا اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ بادشاہوں کا اعزاز و اکرام ان کی ظاہری عظمت کی وجہ سے نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ اس واسطے کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے جلال و بزرگی کا مظہر بنایا ہے۔ اس مدت کے بعد جب ان کی سلطنت کو زوال آیا۔ تو ایک دم میں وہ خدم و حشم وملک اڑتی خاک ہوگئے۔ یہ دیکھ کر دنیا کا تمام کام میرے دل پر سرد ہوگیا۔ میں بخارا میں آیا اور زیورتوں میں جو دیہات بخارا سے ہے ساکن ہوگیا۔
مشائخ کے مقامات کی سیر:
فرمایا کہ منازل و مقامات کے طے کرنے میں حضرت حسین بن منصور حلاج کی صفت و مرتبہ میرے وجود میں ظاہر ہوئی۔ نزدیک تھا کہ وہ آواز جوان سے ظہور میں آئی تھی مجھ سے بھی ظاہر ہوجائے۔ بخارا میں ایک سولی تھی۔ مگر دونوں دفعہ میں اپنے آپکو اس سولی کےنیچے لے گیا اور کہا کہ تیری جگہ یہی سولی ہے۔ عنایت الٰہی سے میں اس مقام سے عبور کر گیا۔
فرمایا کہ اویس قرنی کی روحانیت کا اثر علائق ظاہری و باطنی سے تجرد کلی اور انقطاع تمام ہے اور امام محمد علی حکیم ترمذی کی روحانیت کا اثر بے صفتی محض ہے۔
فرمایا کہ میں نے سلطان بایزید اور شیخ جنید اور شیخ شبلی اور منصور حلاج کے مقامات کی سیر کی۔ جہاں وہ پہنچے تھے میں بھی وہاں پہنچا یہاں تک کہ صفات انبیاء کی سیر میں ایسی بارگاہ میں پہنچا کہ جس سے بڑی کوئی بارگاہ نہ تھی۔ میں نے جان لیا کہ یہ بارگاہِ محمدی ہے علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ سلطان العارفین جب اس بارگاہ تک پہنچے تھے تو انہوں نے چاہا کہ سیر کرنے میں آنحضرتﷺ کی مماثلت کریں۔ اس لیے ان کی پیشانی پر دست رد مارا گیا۔ مگر میں نے ایسی گستاخی نہ کی بلکہ سر نیاز و تعظیم آپ کے آستانہ عزت و احترام پر کھا۔
حضرت خضر سے ملاقات:
فرمایا کہ غلبات طلب میں ایک روز میں بخارا سے نسف کی طرف جا رہا تھا کہ حضرت سید میر کلال کی صحبت کا شرف حاصل کروں۔ جب میں رباط جغراتی میں پہنچا مجھے ایک سوار ملا وہ چراوہوں کی طرح ایک بڑی لکڑی ہاتھ میں لیے اور نمدہ(اونی کپڑا) پہنے میرے پاس آیا۔ اور اس لکڑی سے مجھے مارا اور ترکی زبان میں کہا کہ کیا تو نے گھوڑے دیکھے ہیں۔ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ اس نے کئی بار میرا راستہ روکا اور لکڑی ماری۔ میں نے اس سے کہا کہ میں آپ کو پہچانتا ہوں۔ وہ رباط قراول تک میرے پیچھے آئے اور مجھ سے کہا کہ آؤ کچھ دیر بات چیت کریں۔ مگر میں نے توجہ نہ کی۔ جب میں حضرت سید میر کلال کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے حضرت خضر کی طرف توجہ نہیں کی۔ میں نے عرض کی کہ ہاں۔ میں آپ کی طرف متوجہ تھا۔ اس لیے ان کی طرف متوجہ نہ ہوسکا۔
نظر عنایت کی برکت:
حضرت علاء الحق والدین قدس سرہ فرماتے تھے کہ ہمارے مرشد حضرت خواجہ کی نظر عنایت کی برکت سے طالبوں کا یہ حال تھا کہ قدم اول میں سب سعادت مراقبہ سے مشرف ہوجاتے تھے۔ جب نظر عنایت زیادہ ہوتی تو درجہ عدم کو پہنچ جاتے۔ جب اس سے بھی زیادہ نظر عنایت ہوتی تو مقام فناء کو پہنچ جاتے اور فانی ازخود باقی بحق ہوجاتے۔ اس حال میں حضرت خواجہ یوں فرمایا کرتے کہ ہم تو دولت وصال کے واسطہ ہیں۔ ہم سے منقطع ہوکر مقصودِ حقیقی سے ملنا چاہیے۔ اور اربابِ تکمیل و ایصال کا طریقہ یہ ہے کہ راستی کے بچوں کو طریقت کے گہوارے میں لٹاتے ہیں اور تربیت کے پستان سے دودھ پلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حد فصال کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان سے دودھ چھڑاتے ہیں اور بارگاہِ احدیت کا محرم بناتے ہیں۔ تاکہ حضرت عزت جل احسانہ سے بلا واسطہ فیض حاصل کرسکیں۔
فقر و ایثار:
حضرت خواجہ فقیر تھے اور ہمیشہ فقر کی تائید کیا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا ہے محبت فقر سے پایا ہے۔ آپ کے دولت خانہ موسم سرما میں خاشاک مسجد ہوا کرتا اور گرما میں پرانا بوریا۔ ہر چیز بالخصوص طعام میں حلال کی رعایت اور شبہات سے اجتناب میں نہایت احتیاط فرمایا کرتے تھے۔ اپنی مجلس میں ہمیشہ اس حدیث نبوی کو بیان فرمایا کرتے تھے:
ان العبادۃ عشرۃ اجزاء تسعۃ منھا طلب الحلال و جزء واحد منھا سائر العبادات
عبادت دس جزء ہیں۔ جن میں سے نو طلب حلال ہیں اور ان میں سے ایک باقی عبادات ہیں۔
باوجود کمال فقر کے آپ میں ایثار اعلیٰ درجہ کا تھا۔ جو شخص آپ کی خدمت میں ہدیہ لاتا۔ اتباعِ سنت کے طور پر آپ اسی قدر زیادہ اس کے ساتھ احسان کرتے۔ اگر کوئی دوست یا مہمان آپ کے درِ دولت پر آتا۔ جب شام ہوتی کھانا جس میں کچھ تکلف ہوتا لاتے اور اس کے آگے رکھتے۔ اور ایک طرف چراغ رکھ دیتے تاکہ وہ کھانا کھالے۔ اگر وہ سو جاتا اور ہوا سرد ہوتی تو خواہ گھر میں فقط ایک کپڑا ہوتا اس کو مہمان پر ڈال دیتے۔ آپ کا گذارہ زراعت سے تھا۔ ہر سال کچھ جو اور کچھ ماش بوتے۔ بیج۔ زمین اور بیلوں سے کام لینے میں بڑی احتیاط کیا کرتے۔ اکابر و علماء جو حاضر خدمت ہوتے آپ کا طعام بطور تبرک کھایا کرتے۔ شہر میں آپ کا کوئی مکان ملکیتی نہ تھا۔ بطور عاریت رہا کرتے۔ آپ کے ہاں کوئی خادم یا خادمہ نہ تھی۔ جب وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا۔ بندگی با خواجگی راست نمے آید۔ آپ فرماتے تھے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حجروں میں جو کا آٹا چھلنی سے نہ چھانا جاتا۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الاطعمہ)۔ اس لیے چند روز ہمارے گھر میں جو کا آٹا بغیر چھانے پکتا۔ تمام متعلقین و فرزندان بیمار ہوگئے۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس کا باعث یہ تھا کہ اہلبیت رسالت کے ساتھ بے ادبی کی گئی۔ کیونکہ اس کھانے میں مساوات کی تشبیہ پیدا ہوگئی۔ بے شک متابعت میں بہت کوشش کرنی چاہیے۔ مگر حقیقت میں اپنے آپکو ہرامر میں مقصر خیال کرنا چاہیے۔ بعد ازاں جو کا آٹا نہ پکایا گیا۔ تمام تندرست ہوگئے۔ ؎
ہر کہ پے در پے رسول نہاد
از ہمہ رہرواں بہ پیش افتاد
دستر خوان:
حضرت خواجہ اکثر اوقات کھانا پکاتے اور دسترخوان کی خدمت خود کیا کرتے تھے۔ اور درویشوں کو بالخصوص طعام کھانے کے وقت وقوف و حضور کی رعایت کا حکم دیتے اور تاکید کرتے۔ اگرچہ دستر خوان پر بڑا اجتماع ہوتا مگر جب ان میں کوئی غفلت سے لقمہ کھاتا تو آپ براہ شفقت و تربیت اسے آگاہ فرماتے اور لقمہ کھانے نہ دیتے۔ اگر کھانا غصہ اور کراہت سے پکا ہوتا۔ آپ اسے نہ کھاتے اوردرویشوں میں سے بھی کسی کو کھانے نہ دیتے۔
غصہ کی حالت میں پکا ہوا کھانا:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت خواجہ غدیوت (مقام)میں تشریف فرما تھے۔ ایک درویش آپ کی خدمت میں کھانا لایا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ کھانا نہ چاہیے۔ کیونکہ یہ غصہ کی حالت میں پکایا گیا ہے۔ آٹا چھاننے اور خمیر کرنے اور پکانے کے وقت کسی میں غصہ رہا ہے۔
اگر کوئی شخص کفگیر کو غصے یا کراہت کی حالت میں دیگ میں مارتا آپ اس کھانے کو نہ کھاتے اور فرماتے جو کام غضب و غفلت یا کراہت و دشواری سے کیا جائے۔ اس میں خیر و برکت نہیں۔ کیونکہ اس میں نفس و شیطان کا دخل ہوجاتا ہے۔ اس سے اچھا نتیجہ کب پیدا ہوسکتا ہے۔ اعمال صالحہ اور افعال حسنہ کے صدور کی بنا طعام حلال پر ہے جو وقوف و آگاہی سے کھایا جائے۔ تمام اوقات بالخصوص نماز میں حضور اسی سے حاصل ہوتا ہے۔
کرامات کا بیان:
۱۔ حضرت خواجہ کے ایک مخلص کا بیان ہے کہ جس زمانے میں دشت قبچاق کی طرف ایک لشکر نے بخارا پر حملہ کر کے بہت سی مخلوق کو ہلاک اور بہت سوں کو قید کرلیا۔ وہ میرے بھائی کو بھی قید کر کے لے گئے۔ میرے والد بیٹے کے غم میں بہت پریشان تھے۔ مجھے ہمیشہ کہا کرتے۔ اگر تو میری رضا مندی چاہتا ہے تو اپنے بھائی کی تلاش میں دشت قبچاق کی طرف جا۔ چونکہ مجھے حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت تھی۔ میں مہمات میں ان ہی کی طرف رجوع کیا کرتا تھا۔ میں نے یہ قصہ بھی ان سے عرض کیا۔ آپ نے فرمایا جلدی جا اور باپ کی رضا مندی حاصل کر۔ میں نے ایک درہم بطور نذر آپ کی خدمت میں پیش کیا جسے آپ نے قبول کیا۔ مگر پھر مجھے واپس کردیا اور فرمایا کہ اسے اپنے پاس رکھنا۔ اس میں بڑی برکتیں ہوں گی۔ جس وقت سفر میں تمہیں کوئی مہم پیش آئے۔ تو ہماری طرف متوجہ ہونا۔ میں حسبِ ارشاد روانہ ہوگیا۔ اس سفر میں تھوڑی سی تجارت سے مجھے بڑا نفع ہوا۔ اور بغیر کسی دشواری کے اپنی بھائی کو خوارزم میں پالیا۔ قیدیوں کی جماعت کے ساتھ کشتی میں سوار ہوکر ہم بخارا کی طرف روانہ ہوگئے۔ کشتی میں لوگ بہت تھے۔ ناگاہ مخالف ہوا چلنے لگی اور کشتی کے غرق ہوجانے کا اندیشہ ہوا۔ لوگوں نے فریاد شروع کی۔ اس پریشانی کی حالت میں میرے کان میں کسی کی آواز آئی جو حضرت خواجہ کو یاد کر رہا تھا۔ اسی وقت مجھے حضرت خواجہ کا وہ ارشاد یاد آیا۔ کہ جس وقت تمہیں کوئی مہم پیش آئے تو میری طرف متوجہ ہونا۔ میں حضرت خواجہ کی طرف توجہ کی اس وقت حضرت خواجہ مجھے دکھائی دیئے۔ میں نے سلام عرض کیا۔ ان کی برکت سے ایک لمحہ میں ہوا ٹھہر گئی۔ اور دریا کی لہر موقوف ہوگئی۔ تھوڑی مدت کے بعد ہم دونوں بھائی بخارا میں حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کیا۔ حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ جس وقت کشتی میں تم نے ہمیں سلام کیا تھا ہم نے سلام کا جواب دیا تھا مگر تم نے نہ سنا تھا۔
دیناروں کی گمشدگی:
حضرت خواجہ کے ایک درویش کا بیان ہے کہ میرے پچیس دینار عدلی گم ہوگئے۔ لوگوں نے حضرت خواجہ سے یہ قصہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان دیناروں کو اس گھر کی لونڈی لے گئی ہے۔ آپ نے کنیز کو حکم دیا کہ عدلی دینا دے دو۔ اس نے کہا کہ میں نے فلاں جگہ زمین میں دفن کردئیے ہیں۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ جو زمین میں مدفون ہیں وہ صرف تین دینار ہیں۔ حاضرین متعجب ہوئے۔ جب دیکھا گیا تو زمین میں تین ہی دینار تھے۔
مردہ زندہ ہوگیا:
ایک روز حضرت خواجہ ایک درویش کو کسی طرف روانہ کر رہےتھے۔ آپ نے حسب عادت اس کو بغل میں لیا اور اس پر نظر عنایت ڈالی۔ اتفاقاً اخی محمد در آہنی جو حضرت خواجہ کے بڑے درویشوں میں تھا اس درویشوں کے آگے آگے جاتا تھا۔ ایک ساعت کے بعد وہ درویش گر پڑا۔ اور اس کی روح قالب سے نکل گئی۔ جب اخی محمد نے یہ حال دیکھا تو وہ جلد حضرت خواجہ کی خدمت میں پہنچا اور ماجرا عرض کیا۔ حضرت خواجہ اس درویش کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا قدم مبارک اس کے سینے پر کھا۔ وہ ہلنے لگا اوراس کی روح قالب میں آگئی۔ بعد ازاں حضرت خواجہ نے فرمایا کہ میں اس کی روح چوتھے آسمان سے واپس لایا ہوں ۔
بیٹے کی قربانی:
ایک صحیح النسب سید نے جو حضرت خواجہ سے عقیدت و محبت رکھتا تھا یہ حکایت بیان کی۔ کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ بیت اللہ شریف تشریف لے گئے تھے۔ جس روز حاجی قربانیاں دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم بھی قربانی دیتے ہیں۔ ہمارا ایک لڑکا ہے اسی کو قربان کر دیتے ہیں۔ جو درویش اس سفر میں آپ کے ساتھ تھے انہوں نے یہ بات لکھ لی۔ جب بخارا میں واپس آئے تو معلوم ہوا کہ جس روز کعبہ میں حضرت خواجہ کی زبانِ مبارک پر وہ الفاظ جاری ہوئے تھے اسی دن بخارا میں آپ کا وہ لڑکا فوت ہوا تھا۔
تصرف کی کیفیت:
حضرت خواجہ علاء الدین عطار بیان کرتے ہیں !کہ ایک روز حضرت خواجہ درویشوں کی جماعت کے ساتھ شہر بخارا میں دروازہ کلا باد میں ایک درویش کے مکان پر تشریف رکھتے تھے۔ اتفاقاً وہ درویش حضرت خواجہ کی کلاہ نو روزی سی رہا تھا۔ ایسی کلاہ امرا و حکام ہی پہنا کرتے تھے۔ آپ اس وقت حالتِ بسط میں تھے۔ آپ کی حالت سے درویش میں بڑا ذوق پیدا ہو رہا تھا۔ اسی حالت میں حضرت خواجہ اور درویشوں نے جو آپ کی خدمت میں تھے کلاہ نو روزی سر پر رکھی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ چونکہ ہم نے سلاطین کی ٹوپی سر پر رکھی ہے۔ چاہیے کہ سلطنت میں تصرف کریں۔ بتاؤ سلاطین میں پہلے ہم کس پر زد کریں۔ ایک درویش پہلوان محمود نام نے حاکم ماوراء النہر کا نام لیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے اسی پر زد کی۔ حاضرین مجلس نے وہ تاریخ لکھ لی۔ آپ نے اسی وقت ایک امیر بخارا کی طرف خط لکھا۔ جو حاکم موصوف سے بھاگ کر کابل چلا آیا تھا۔ اور وہ خط کابل جانے والے کے ہاتھ دے دیا۔ اس خط کا مضمون یہ تھا کہ ایسا واقعہ وقوع میں آگیا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ پانچ صدینار نذرانہ بذریعہ حامل خط درویشوں کی خدمت میں روانہ کردو۔ چند روز کے بعد خبر آئی کہ حاکم ماوراء النہر قتل ہوگیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اسی تاریخ قتل ہوا تھا۔ یہ سن کر سب تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے کہ حق تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو ایسے تصرفات عطا فرمائے ہیں۔ حضرت خواجہ فرماتے تھے۔ دوستو! جس وقت ہم سے ایسا امر ظہور میں آتا ہے۔ ہم درمیان نہیں ہوتے۔ باوجود کمال قرب کے سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ کو خطاب ہوتا ہے۔ ’’وما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمیٰ۔ ‘‘ پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کے بیچاروں کا کیا حال ہوگا۔ جو کچھ درویشوں سے صادر ہوتا ہے۔ اس میں ان کا کچھ اختیار نہیں ہوتا۔ طالبوں کی رہنمائی کے لیے ایسا ہوتا ہے۔
خوار زم نہ جانے دیا:
ایک درویش نے یہ قصہ بیان کیا کہ ایک روز حضرت خواجہ ایک حوض کے کنارے پر کھڑے تھے۔ جو شہر بخارا سے قبلہ کی طرف ہے۔ اس حال میں ایک درویش جو لوگوں میں ارشاد و تربیت میں مشہور تھا آپ سے ملنے آیا۔ حضرت خواجہ نے اس سے فرمایا کہ میں نے سنا ےہے کہ تمہارا ارادہ خوارزم جانے کا ہے۔ اس نے عرض کی کہ ہاں۔ خواجہ نے فرمایا کہ ہم تمہیں خوارزم نہ جانے دیں گے۔ اس نے کہا۔ ایسا نہ کہیے۔ آپ کو اس بات کی قدرت نہیں۔ اتفاقاً اُسی اثناء میں مولانا حمید الدین شاشی مع ایک جماعت کے خواجہ کی ملاقات کو آئے۔ حضرت خواجہ نے وہ قصہ مولانا سے ذکر کر کے فرمایا کہ آپ گواہ رہیں ہم اس درویش کو خوارزم نہ جانے دیں گے۔ مولانا نے کہا کہ ہم بھی گواہ ہوئے۔ اس کے بعد وہ درویش خوارزم کی طرف روانہ ہوا۔ جب وہ اقشیہ میں پہنچا جو نواح بخارا میں قافلہ کے اترنے کی جگہ ہے۔ بادشاہِ وقت کے قاصد آپہنچے۔ اور انہوں نے خوارزم کا راستہ بند کردیا۔ اس درویش نے اہل قافلہ کے ساتھ تدبیر کی اور راستے سے برطرف ہو کر کچھ مسافت طے کر کے پھر خوارزم کی راہ ہولیے۔ مگر وہ قاصدان کے پیچھے آپہنچے۔ اور اس درویش کو مع قافلہ کے گرفتار کرلیا اور بخارا کی طرف لے آئے۔ اس درویش نے شیخ سیف الدین باخرزی قدس سرہ کے نواسہ خواجہ داؤد سے التجا کی اور کچھ مال دے کر قاصدوں سے رہائی پائی۔ جب یہ خبر مولانا حمید الدین کو پہنچی تو انہوں نے بہت تعجب کیا اور فرمایا کہ خواص بندگان الہی نے اس طرح تصرف کیا ہے۔
غلام کی واپسی:
حکایت ہے کہ حضرت خواجہ غدیوت (مقام)میں تھے۔ ایک جماعت کچھ انار آپ کی خدمت میں لائی۔ اس جماعت میں درویش محمد زاہد بھی تھا۔ حضرت خواجہ نے انار تقسیم کر کے فرمایا کہ کھاؤ۔ محمد زاہد نے کہا کہ میرا غلام بھاگ گیا ہے۔ اس لیے مجھے بہت تشویش ہے۔ خواجہ نے فرمایا کہ وہ کسی طرف نہیں جاسکتا۔ دو دن اور دو رات ہمارے پاس ٹھہرو۔ تیسرے روز زیورتون کی طرف اپنے مکان میں چلے جانا۔ غلام کی خبر تم کو مل جائے گی۔ محمد زاہد نے ایسا ہی کیا۔ تیسرے روز جب وہ اپنے مکان میں پہنچا تو پیشتر اس سے کہ حضرت خواجہ کی بشارت اپنے اہل سے بیان کرے غلام دروازے سے داخل ہوا۔ محمد زاہد اور اس کے گھر والوں نے تعجب کیا۔ اور غلام سے کیفیت دریافت کی۔ اس نے کہا کہ جب میں بخارا سے نکلا۔ تو میں نے نسف کی طرف جانے کا قصد کیا۔ میں نے کچھ راستہ طے کیا تھا کہ میرے پاؤں میں بیڑی ظاہر ہوئی۔ میں چل نہ سکتا تھا اور گھنٹی کی آواز آتی تھی۔ جس سے مجھے وہم پیدا ہوا کہ یہ آواز بخارا تک پہنچتی ہے۔ جب میں زیورتوں کی طرف لوٹتا وہ بیڑی کھل جاتی اور گھنٹی کی آواز نہ آتی۔ تین دن یہی حال رہا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کیفیت دوسری جگہ سے ہے۔ میں لوٹ کر آپ کی خدمت میں آگیا۔ مجھے معاف فرمائیے۔
دیناروں کی خبر:
ایک روز حضرت خواجہ قصرِ عارفاں میں تھے۔ اورشیخ شادی ‘‘غدیوت’’ سے آئے تھے۔ وہ ایک قصور کے سببب جو اِن سے سرزد ہوا تھا عذر خواہی کرتے تھے۔ خواجہ نے فرمایا کہ نذرانہ چاہیے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ایک بیل لاتا ہوں۔ خواجہ نے فرمایا کہ نذرانہ میں بیل قبول نہیں۔ اڑتالیس دینار عدلی جو غدیوت میں تم نے مدت سے دیوار کے سوراخ میں چھپائے ہوئے ہیں اور دھوئیں نے وہ جگہ سیاہ کردی ہے۔ نذرانہ میں لانے چاہئیں۔ یہ سن کر شیخ شادی کا حال دگر گوں ہوگیا۔ اس لیے کہ سوراخ میں چھپانے کے وقت کسی کو اطلاع نہ تھی۔ وہ جلدی غدیوت میں گئے اور وہ دینار خدمت میں پیش کیے۔ حضرت خواجہ نے ان میں سے ایک دینار شیخ شادی کو واپس کردیا۔ اور فرمایا کہ یہ حرام ہے۔ تجھے یہ کہاں سے ملا۔ اس وقت شیخ شادی کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ ان سینتالیس دیناروں سے ایک بیل خرید کر کھیتی کر اور بندگانِ خدا کی خدمت میں صرف کر۔ اس کے بعد شیخ شادی سے اس ایک دینار کا حال دریافت کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت خواجہ کا مرید بننے سے پہلے میں ایک مدت تک قمار بازی کرتا رہا۔ وہ دینار قمار سے حاصل ہوا تھا۔
ہر جگہ موجود:
خواجہ علاؤ الدین عطار بیان کرتے ہیں! کہ ایک روز حضرت خواجہ درویشوں کی جماعت کے ساتھ ایک درویش کے حجرے میں تھے۔ اس جماعت میں سے بعضے حضرت خواجہ کے اشارے سے دسترخوان کے سامان کے لیے نکلے۔ اور دو فریق ہوگئے۔ ایک فریق بازار صرافاں کی طرف روانہ ہوا۔ انہوں نے حضرت خواجہ کو بازار میں دیکھا اور خیال کیا کہ آپ حجرے سے نکل آئے ہیں۔ دوسرا فریق چوک کی طرف گیا اور انہوں نے حضرت خواجہ کو چوک میں دیکھا اور وہی خیال کیا جو فریق اوّل نے کیا تھا۔ بعد ازاں وہ اخی محمد درآہنی سے بازار میں ملے اور قصّہ اس سے بیان کیا اس نے کہا کہ میں نے ابھی حضرت خواجہ کو فلاں جگہ دیکھا ہے کہ ایک طرف کو تشریف لے جا رہے ہیں۔ یہ سن کر درویش حیران ہوئے کہ حضرت خواجہ سے کہاں جاکر ملیں۔ اسی فکر میں تھے کہ ایک درویش آیا اور اس نے کہا کہ حضرت خواجہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے کس واسطے اتنی دیر لگائی۔ انہوں نے سارا قصہ اس درویش سے بیان کیا۔ اس نے کہا کہ جس وقت سے تم حجرے سے نکلے ہو صاحب حجرہ اور میں حضرت خواجہ کی خدمت میں رہے ہیں۔ آپ حجرے سے نہیں نکلے۔ اس وقت آپ نے مجھے پیچھے بھیجا ہے۔ اصحاب حیران ہوئے اور اسی حالت میں حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور ان کی کیفیت دریافت کی۔ اور اپنا قصہ بیان کیا۔ آپ نے تبسم فرمایا۔ اور صاحب حجرہ یہ سن کر بہت رویا۔ اسی وقت حضرت نے فرمایا کہ ایک دفعہ ماہِ رمضان کی شام کو حضرت عزیزاں قدس سرہ کی تیرہ جگہ دعوت ہوئی۔ آپ نے قبول فرمائی۔ راوی کا بیان ہے کہ میں ان دعوتوں میں سے ایک میں حاضر تھا۔ میں نے دوسری جگہوں سے جو دریافت کیا تو یہی سنا کہ حضرت عزیزاں تمام جگہوں میں حاضر تھے۔ [۱]
[۱۔ اولیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت بخشی ہے کہ بعض دفعہ وہ ایک وقت میں متعدد جگہ حاضر ہوتے ہیں اور ان سے اعمال مختلفہ صادر ہوتے ہیں۔ بقول مجدد الف ثانی اس صورت میں وہ تو اپنی جگہ ہوتے ہیں۔ مگر ان کے لطائف مختلف اجساد سے متجسد اور مختلف اشکال سے متشکل ہوکر ایک ہی آن میں متعدد جگہوں میں اعمال عجیبہ وقوع میں لاتے ہیں۔ بعض اوقات اس تشکل کی ان کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ تجسد و تشکل کبھی عالم شہادت میں ہوتا ہے اور کبھی عالم مثال میں پایا جاتا ہے۔ (مکتوبات احمدیہ۔ دفتر دوم۔ مکتوب ۵۸)]
ندی اُلٹی بہنے لگی:
ایک درویش کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ اور شیخ شمس الدین کلال خلیفہ سید امیر کلال اس ندی کے کنارے بیٹھے تھے جو شیخ سیف الدین اور شیخ حسن بلغاری رحمہما اللہ کے مزار کے سامنے ہے۔ اور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں مچھلی کے قصہ کا ذکر آیا جو ایک دفعہ شیخ سیف الدین اور شیخ حسن کے درمیان گزرا تھا۔ شیخ شمس الدین کلال نے کہا کہ بے شک اولیاء اللہ کے ایسے تصرفات ہوئے ہیں۔ کیا اس زمانے میں بھی کوئی بزرگ ہے جس سے ایسے حالات ظہور میں آتے ہیں۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا۔ بلکہ ایسے بزرگ بھی ہوتے ہیں کہ اگر مثلاً اس ندی کی طرف اشارہ کردیں کہ اُلٹی بہہ۔ تو اُلٹی بہنے لگے۔ حضرت خواجہ یہ فر ما ہی رہے تھے کہ وہ ندی اُلٹی بہنے لگی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا۔ اس پر وہ ندی بدستور سابق بہنے لگی۔ بہت سے لوگوں نے اس کرامت کا مشاہدہ کیا۔ اور حضرت خواجہ کی کمال ولایت کا اعتراف کیا۔
پانی پر سے گزرنا:
خواجہ علاؤ الدین عطار نے یہ حکایت بیان کی کہ ایک روز موسم سرما میں حضرت خواجہ نے درویش امیر حسین سے فرمایا کہ ایندھن بہت سا جمع کرلینا چاہیے۔ جب حسب الارشاد بہت سا ایندھن جمع ہوگیا تو دوسرے دن برف گرنے لگی اور چالیس دن تک گرتی رہی۔ اسی حال میں حضرت خواجہ شیخ شادی کو ساتھ لے کر خوارزم کی طرف روانہ ہوئے۔ جب ’’حرام کام ندی ‘‘کے کنارے پر پہنچے تو آپ نے شیخ شادی سے فرمایا کہ پانی پر قدم رکھ کر گزر جاؤ۔ شیخ نے توقف کیا۔ آپ نے دوبارہ ہیبت سے شیخ کی طرف نگاہ کی۔ شیخ بے خود ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو قدم پانی پر رکھ کر روانہ ہوئے۔ حضرت خواجہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ جب جب پانی سے گزر گئے تو خواجہ نے شیخ سے فرمایا۔ کہ اپنے موزہ کو دیکھو۔ اس کی کوئی جگہ بھیگی یا نہیں۔ شیخ شادی نے دیکھا کہ قدرت الٰہی سے موزہ کی کوئی جگہ نہ بھیگی تھی۔ اسی طرح ایک دفعہ حضرت خواجہ ایک طرف جا رہے تھے۔ شیخ امیر حسین اور چند درویش ساتھ تھے۔ ایک نالہ کے پل پر پہنچے۔ آپ نے شیخ سے فرمایا کہ پانی سے گزر جا۔ حسبِ ارشاہ شیخ پانی میں کود پڑے اور حضرت پل پر سے گزر گئے۔ کچھ دیر کے بعد فرمایا۔ امیر حسین! پانی سے نکل آ۔ شیخ پانی سے نکل آئے اور ان کے کپڑے خشک تھے۔ خواجہ نے پوچھا کہ جس وقت تم پانی میں کودے تمہارا حال کیا تھا۔ عرض کی کہ میرا حال اچھا تھا۔ میں ایک نہایت صاف مکان میں تھا۔ کچھ دیر کے بعد ایک دروازہ ظاہر ہوا۔ آپ کی آواز سن کر میں اس دروازے سے نکل آیا۔
آٹے میں برکت:
ایک درویش بیان کرتا ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ میرے غریب خانے میں تشریف لائے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ گھر میں آٹا نہ تھا۔ میں اسی دن آٹے کی بوری لے آیا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ اس آٹے کو خرچ کرتے رہو۔ مگر اس کی کمی بیشی کا حال کسی سے ذکر نہ کرنا۔ حضرت خواجہ دو مہینے غریب خانہ میں رہے۔ ہر روز درویش اور دوست آپ کی زیارت کو آتے تھے۔ اُسی آٹے میں سے پکتا رہا۔ مگر وہ آٹا بدستور رہا۔ جب حضرت تشریف لے گئے مدتوں بعد اسی میں سے پکتا رہا۔ اور بحال خود اتنا ہی رہا۔ بعد ازاں میں نے خلاف ارشاد حضرت خواجہ یہ قصہ اپنے اہل و عیال سے ذکر کردیا۔ پھر وہ برکت نہ رہی۔
مولانا عارف کی آمد:
سید امیر کلال قدس سرہ کے بڑے صاحبزادے امیر برہان الدین کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت خواجہ ‘‘سوخار ’’ میں ہمارے مکان میں تھے۔ میں نے عرض کی۔ کہ مجھے مولانا عارف کی زیارت کا اشتیاق ہے۔ وہ اس وقت نسف میں ہیں۔ آپ توجہ فرمائیں کہ وہ جلدی آجائیں۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ہم ان کو جلدی بلا لیتے ہیں۔ بعد ازاں حضرت خواجہ امیر برہان الدین کے ساتھ خانقاہ کی چھت پر چڑھ گئے۔ اور تین دفعہ مولانا عارف کو آواز دی۔ پھر فرمایا کہ مولانا عارف نے ہماری آواز سن لی ہے۔ اور اس طرف چل پڑے ہیں۔ جب مولانا عارف نسف سے بخارا اور بخارا سے سوخار میں آئے تو ان سے حضرت خواجہ کے بلانے کا قصہ دریافت کیا گیا۔ مولانا عارف نے بیان کیا کہ فلاں روز فلاں وقت ہم اپنے یاروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خواجہ کی آواز میرے کان میں آئی کہ چلے آؤ۔ میں جلدی نسف سے بخارا کی طرف روانہ ہوگیا۔
آوازیں سنائی نہ دیں:
خواجہ علاؤ الدین عطار ناقل ہیں کہ ایک روز شام کے وقت حضرت خواجہ درویشوں کی ایک جماعت کے ساتھ درویش عطا کے بالا خانے میں تھے۔ پڑوس میں بخارا کے ایک امیر کا محل تھا۔ جس میں قوالوں کی ایک جماعت گا رہی تھی۔ اور صوفیہ کا ایک گروہ رقص کر رہا تھا۔ اور نہایت شور و شغب برپا تھا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے از قبیل ملا ہی ہے اس کا سننا جائز نہیں۔ تدبیر یہ ہے کہ ہم کانوں میں روئی ٹھونس لیں۔ حضرت خواجہ کا یہ فرمانا تھا کہ سب کا حال متغیر ہوگیا اور وہ آوازیں کسی کو سنائی نہ دیں۔ صبح کو پڑوسیوں نے رات کے حالات درویشوں سے بیان کر کے دریافت کیا کہ آپ کی رات کیونکر گزری۔ درویشوں نے جواب دیا کہ حضرت خواجہ کی عنایت سے وہ آوازیں ہمیں سنائی نہ دیں۔ یہ سن کر پڑوسیوں نے بہت تعجب کیا۔
سیب کا تسبیح پڑھنا:
خواجہ علاؤ الدین ناقل ہیں کہ حضرت خواجہ کا ایک درویش ایک روز سیب لایا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھہرو اس سیب کو نہ کھاؤ یہ تسبیح پڑھتا ہے۔ حضرت خواجہ کا ارشاد درست تھا۔ حاضرین میں سے بعضے اس سیب کی تسبیح صریحاً سن رہے تھے۔
چھکڑے کا خود بخود چلنا:
ایک روز قصرِ عارفاں میں حضرت خواجہ کے حکم سے درویش مٹی کا چھکڑا کھینچ رہے تھے۔ اسی اثناء میں حضرت خواجہ کا ایک مرید محمد خرکوشی زیورتون سے آیا۔ وہ حضرت کی زیارت کے لیے بے قرار ہو رہا تھا۔ اس نے درویشوں سے حضرت کا پتہ پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت دولت خانہ کو تشریف لے گئے ہیں۔ یہ سن کر محمد خرکوشی فوراً خواجہ کے مکان کی طرف روانہ ہوا اور بے قراری میں پرندے کی طرح اڑتا تھا۔ چنانچہ حضرت کے مکان تک دو دفعہ اڑا۔ درویشوں نے جب یہ حال دیکھا تو اس کے پیچھے روانہ ہوئے جب اس کے پاس پہنچے تو حضرت خواجہ مکان سے نکلے اور ان سے یوں ارشاد فرمایا کہ تم اس فقیر بے سروپا سے کیا چاہتے ہو۔ اس صفت سے کچھ حاصل نہیں۔ اس حالت پر کچھ اعتماد نہ چاہیے بہت سے بیگانے ایسے ہوتے ہیں۔ جو پرندے کی طرح ہوا میں اڑتے ہیں۔ حق طلبی اور ہی چیز ہے۔ درویش یہ سن کر بہت ڈرے۔ اس حال میں حضرت خواجہ نے ان سے کہا۔ کہ چھکڑے میں مٹی بھردو۔ پھر آپ نے چھکڑے کی طرف اشارہ کیا چھکڑا خود بخود چلتا تھا۔ اور مٹی گرا کر واپس آجاتا تھا۔ حاضرین یہ دیکھ کر اپنے فعل سے پشیمان ہوئے۔
بارش بند ہوگئی:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت خواجہ نسف میں تھے۔ جاڑے کا موسم تھا۔ حضرت کو بخارا جانے کا اتفاق ہوا۔ اسی سفر میں خواجہ محمد پارسا جو مولانا حافظ الدین کبیر بخاری کے صاحبزادوں سے تھے آپ کے ہمراہ تھے۔ اس روز ابر ہورہا تھا۔ نسف کے درویشوں نے حضرت سے درخواست کی۔ کہ ٹھہر جائیے۔ مگر آپ نہ ٹھہرے۔ درویشوں کی ایک بڑی جماعت آپ کے ہمرکاب تھی۔ مینہ برسنے لگا۔ اور ہر لحظہ زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ حضرت نے خواجہ محمد پارسا کی طرف اشارہ کیا کہ مینہ سے کہہ دو ٹھہر جا۔ خواجہ محمد نے حضرت کی موجودگی میں ایسی گستاخی نہ کی۔ حضرت نے فرمایا کہ میں تجھ سے کہتا ہوں کہ یوں کہہ دے۔ اے مینہ! ٹھہر جا۔ پس محمد پارسا نے کہا۔ اے مینہ ٹھہر جا۔ اسی وقت مینہ بند اور مطلع صاف ہوگیا اور سورج نکل آیا۔
آگ نے نہ جلایا:
ایک درویش کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ عذریوت میں درویش اسحاق کے مکان میں کھانا تیار کر رہے تھے۔ تنور میں آگ شعلہ زن تھی۔ اسی حالت میں آپ نے اپنا دست مبارک اس تنور میں ڈال دیا اور کچھ دیر تک رکھا۔ بعد ازاں نکال لیا۔ عنایت الٰہی سے دست مبارک کا بال تک نہ جلا۔
خلیل اللہ با آتش ہمے گفت
اگر موئے زمن باقیست مے سوز
یہ دیکھ کر حاضرین خوش ہوئے۔
وجود مبارک میں تبدیلی:
ایک درویش ناقل ہے کہ میں اور ایک اور درویش اس باغ میں جہاں اب حضرت خواجہ کا مزار مبارک ہے آپ کی خدمت میں تھے۔ آپ تکیہ کیے بیٹھے تھے۔ ایک ساعت کے بعد آپ میں ایک ہیبت ناک حالت پیدا ہوئی۔ وہ درویش بیہوش ہوکر گرپڑا۔ حضرت اٹھ کر حوض کے گرد پھرنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے ایک سیب کا درخت اپنی کولی میں لے لیا۔ ایک لحظہ میں آپ کا وجود مبارک اتنا بڑا ہوگیا کہ تمام باغ اس سے پُر ہوگیا۔ جہاں میری نگاہ پڑتی تھی۔ آپ کا وجود مبارک ہی دکھائی دیتا تھا۔ بعد ازاں میں نے پھر جو نظر اٹھائی تو آپ کا وجود چھوٹا ہونے لگا یہاں تک کہ اس کا نشان تک نہ رہا۔ میں نے پھر جو دیکھا تو آپ کے وجود مبارک کا اثر ظاہر ہوا۔ یہاں تک کہ اصلی حالت پر آگیا اور آپ وہی سیب کا درخت کولی میں لیے نظر آئے ہیں میں نہایت حیران ہوا کہ یہ کیا حالتیں ہیں۔ اسی وقت خواجہ نے فرمایا کہ ایسے احوال حضرت عزیزاں علیہ الرحمۃ کی نسبت بھی منقول ہیں۔
گستاخی کا نتیجہ:
ایک روز حضرت خواجہ کا ایک درویش نیک روز نامی سوخار سے آپ کی خدمت میں آیا۔ وہ بہت دلگیر تھا۔ حضرت نے سبب پوچھا اس نے عرض کی کہ سوخار میں ایک شخص حسین نام نے مجھے بہت برا بھلا کہا۔ مگر اس سے مجھے رنج نہ ہوا۔ جب اس نے آپ کی بے ادبی کی تو مجھے نہایت رنج ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ جلد ہی دنیا و آخرت میں رُسوا ہوگا۔ نیک روز کا بیان ہے کہ جب حضرت خواجہ نے یہ فرمایا نماز عصر کا وقت تھا۔ میں آپ کی خدمت سے رخصت ہوکر نماز شام کے وقت سوخار میں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ حسین اپنے خادم کے لیے کھانا لے جا رہا ہے۔ جب خادم کھانا کھانے لگا تو حسین اپنے خادم کا کام کرنے لگا۔ اسی وقت ایک بھیڑیا آیا جس نے لپک کر حسین کی ناک اور ہونٹ نوچ لیے اور اس کی شکل نہایت بھونڈی ہوگئی۔ وہ لوگوں میں رسوا ہوگیا۔ اس کا قصہ مشہور ہوگیا اور حسین‘‘ گرگ گرفتہ’’ اس کا لقب ہوا۔
حضرت خواجہ کی کرامات بہت ہیں۔ ہم نے نظر بر اختصار بیس ہی پر اکتفا کیا ہے۔
وصال مُبارک:
خواجہ علاؤ الدین عطار کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ کے انتقال کے وقت ہم سورہ یٰسین پڑھ رہے تھے۔ جب سورت نصف ہوئی تو انوار ظاہر ہونے لگے۔ ہم کلمہ پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ کا سانس منقطع ہوگیا۔ حضرت کی عمر شریف پورے تہتر سال کی تھی۔ اور چوہترویں سال میں دوشنبہ کی رات ۳ ربیع الاول ۷۹۱ھ میں وفات پائی۔ مزار مبارک قصر عارفاں میں ہے۔
ارشاداتِ عالیہ
۱۔اس راستے میں وجود کی نفی اور نیستی اور اپنے تئیں کم سمجھنا بڑا کام ہے۔ مقصد حقیقی کی دولت کا حاصل ہونا قبولیت پر موقوف ہے۔ میں نے اس معاملہ میں موجودات کے طبقوں میں سے ہر طبقہ کی سیر کی۔ اور اپنے آپ کا ذروں میں سے ہر ذرے سے مقابلہ کیا۔ میں نے سب کو حقیقت میں اپنے آپ سے بہتر دیکھا۔ یہاں تک کہ میں نے فضلات کے طبقہ کی بھی سیر کی۔ اور ان میں فائدہ دیکھا۔ مگر اپنے آپ میں کوئی فائدہ نہ پایا۔ کتے کے فضلہ تک پہنچا مجھے خیال ہوا کہ اس میں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ایک مدت میں اپنے تئیں اس خیال پر برقرار رکھا۔ آخر کار معلوم ہوا کہ اس میں بھی کوئی فائدہ ہے۔ غرض مجھے تحقیق معلوم ہوگیا کہ مجھ میں کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے ؎
از ہیچ کسئی خویشتن بے خبر |
|
میں اپنی نا قدری سے بے خبر ہوں |
|
||
|
||
|
۲۔ایک دن ایک لڑکا گھر سے نکلا۔ قرآن مجید اس کے پاس تھا۔ اس نے حضرت خواجہ کو سلام کیا۔ جب آپ نے قرآن مجید کھولا تو یہ آیت نکلی۔
وَ كَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِ
اور ان کا کتا اپنے دونوں ہاتھ چوکھٹ پر پھیلا رہا ہے۔ (سورہ کہف)
خواجہ نے فرمایا کہ امید ہے کہ ہم وہ ہوں گے۔
۳۔کبار اہلِ حقیقت کا قول ہے کہ اس راستے کا سالک اگر اپنے نفس کو سوبار فرعون کے نفس سے بدتر نہیں جانتا وہ اس راستے میں نہیں ہے۔
۴۔جن دنوں حضرت خواجہ شہر‘‘ سرخس’’ میں تھے۔ ملک حسین کے قاصد ہرات سے آئے اور انہوں نے بادشاہ کا فرمان دکھایا۔ جس کا مضمون یہ تھا کہ ہمیں درویشوں کی صحبت کا اشتیاق ہے۔ آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ اگرچہ حضرت خواجہ کو ملوک و سلاطین کی ملاقات کی عادت نہ تھی۔ لیکن اس سبب سے کہ اگر ملک حسین طوس یا سرخس کی طرف متوجہ ہوتا تو اس ولایت کے باشندوں پر دشوار ہوتا۔ حضرت خواجہ بذات خود ہرات کی طرف متوجہ ہوئے۔ جب بادشاہ کی مجلس میں پہنچے۔ وہاں بڑا ہجوم تھا۔ اور مملک ہرات کے اعیان و ارکان اور نوکر چاکروں کی ایک بڑی جماعت حاضر تھی۔ بادشاہ نے حضرت خواجہ سے سوال کیا کہ آپ کی درویشی موروثی ہے۔ خواجہ نے جواب دیا کہ نہیں۔ بحکم’’جذبۃ من جذبات الحق توازی عمل الثقلین‘‘[۱] ایک جذبہ پہنچا اور میں اس سعادت سے مشرف ہوگیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے طریقہ میں ذکر جہر اور سماع و خلوت ہے۔ خواجہ نے فرمایا کہ نہیں۔ بادشاہ نےپوچھا کہ پھر تمہارا طریقہ کیا ہے۔ خواجہ نے فرمایا کہ خواجہ عبدا لخالق غجدوانی کے خاندان کا قول ہے کہ خلوت در انجمن چاہیے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ خلوت در انجمن کیا ہے۔ خواجہ نے فرمایا کہ ظاہر میں خلق کے ساتھ اور باطن میں حق کے ساتھ ہونا۔ ؎
از دروں شو آشنا و ز بروں بیگانہ وش
اینچنیں زیبا روش کم مے بود در جہاں
[۱۔ جذبات حق میں سے ایک جذبہ جن و انس کے عمل کے برابر ہے۔]
بادشاہ نے کہا کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ حق سبحانہ وتعالیٰ اپنی کتاب کریم میں فرماتا ہے:
رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِo (سورہ نور۔ ع ۵)
وہ مرد کہ نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے۔
کچھ دیر کے بعد بادشاہ نے سوال کیا کہ بعض مشائخ نے کہا ہے کہ ولایت افضل ہے نبوت سے۔ وہ کونسی ولایت ہے جو نبوت سے افضل ہے۔ خواجہ نے فرمایا کہ اُسی نبی [۲] کی ولایت افضل ہے اس کی نبوت سے۔
[۲۔ حضرت خواجہ نے بعضے مشائخ کے قول کی تاویل بیان فرمائی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بعض رسائل میں ثابت کیا ہے کہ نبوت ولایت سے افضل ہے خواہ اسی نبی کی ولایت ہو اور حق بھی یہی ہے۔ جن مشائخ نے اس کے خلاف کہا ہے۔ ان کا قول مقام نبوت سے حالات کی بے علمی کے سبب سے ہے۔ مکتوبات احمدیہ۔ دفتر اول مکتوب ۲۵۱)]
وجود کی نفی کرنا:
اگرچہ نماز و روزہ اور ریاضت و مجاہد حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچے کا طریقہ ہے۔ مگر ہمارے نزدیک وجود کی نفی سب طریقوں سے اقرب ہے۔ اور یہ ترک اختیار اور دید قصور کے سوا حاصل نہیں ہوتی۔
حجاب کی کیفیت:
ایک روز حضرت خواجہ کی زبان مبارک سے نکلا کہ اس راستے کے سالکوں کے لیے ماسوا کے ساتھ تعلق نہایت بڑا حجاب ہے۔
خواجہ صالح بن مبارک بکاری کے دل میں آیا کہ اس صورت میں ایمان و اسلام کے ساتھ تعلق بھی مضر ہونا چاہے۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ تو نے ابن منصور حلاج کی یہ بیت نہیں سنی [۱]
[۱۔ ابنِ منصور سے یہ قول مقام جمع میں صادر ہوا ہے کہ جس میں حق و باطل میں تمیز اٹھ جاتی ہے۔ اس مقام والا سب کو صراط مستقیم پر سمجھتا ہے۔ اور کبھی خلق کو عین حق خیال کرتا ہے اور واضح رہے کہ ابنِ منصور کافر طریقت تھا(راہ طریقت میں ثابت قدم نہ رہے) جو مستحق درجات ہے نہ کہ کافر شریعت (یعنی منکر اسلام نہ تھے ،حالت جذب میں سہواً ان کی زبان سے وہ الفاظ ادا ہوئے تھے)جو مستحق عذاب ہے۔ اس کا بیان حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں آئے گا۔]
پھر فرمایا کہ ایمان واسلام حقیقی درکار ہے۔ اہلِ حقیقت نے ایمان کی تعریف یوں کی ہے۔الایمان عقد القلب بنفی جمیع ما تولھت القلوب الیہ من المضار والمنافع سوی اللہ عزوجل۔
ایمان یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے سوا وہ تمام مضار و منافع جن پر دل شیدا ہیں ان کی نفی کا اعتقاد جازم رکھے۔
مومن کی معراج:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ یہ ارشاد نماز حقیقی کے درجات کی طرف اشارہ ہے بدیں طور کہ نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت چاہیے کہ حضرت حق جل وعلا کی اکبریت نمازی کے وجود میں حال ہوجائے۔ اور اُس میں خشوع و خضوع پیدا ہوجائےیہاں تک کہ استغراق کی حالت طاری ہوجائے۔ اس صفت کا کمال جناب رسالت مآب ﷺ کو حاصل تھا۔ چنانچہ حدیث میں وارد ہے کہ نماز میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے تانبے کی دیگ کے جوش کی مانند آواز آیا کرتی تھی۔ (شمائل ترمذی)۔
رزق حلال کی برکت:
بخارا کے علماء میں سے ایک عالم نے حضرت خواجہ سے سوال کیا کہ نماز میں حضور کس چیز سے حاصل ہوتا ہے؟ خواجہ نے فرمایا کہ طعام حلال سے جو وقوف و آگاہی سے کھایا جائے۔ نماز سے خارج اوقات میں اور وضو اور تکبیر تحریمہ کے وقت بھی وقوف کی رعایت چاہیے۔
صوم حقیقی:
حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روز میرے واسطے ہے۔ یہ صوم حقیقی کی طرف اشارہ ہے۔ جو ماسوائے حق سے امساک کلی کا نام ہے۔
تین قسم کی اُمت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آتش دوزخ سے میری امت کا نصیب ایسا ہے جیسا کہ آتشِ نمرود سے ابراہیم علیہ السلام کا نصیب تھا۔ اور نیز ارشاد ہے کہ میری امت گمراہی پر متفق نہ ہوگی۔ ان حدیثوں میں امت سے مراد امت متابعت ہے۔ امت تین قسم کی ہے۔ ایک امت دعوت جس میں سب شامل ہیں۔ دوسرے امت اجابت جو ایمان لائے ہیں۔ تیسرے امت متابعت جو ایمان لاکر نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کرتے ہیں۔
ایک وقت اور حال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میرے [۱] لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک وقت ہے کہ مجھ میں اُس وقت میں کوئی مقرب فرشتہ نہیں سماتا اور نہ نبی مرسل۔ اس ارشاد کے معنٰی ایک تو یہ ہیں کہ میرا ایک حال ایسا ہوتا ہے کہ اس حال میں کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل ملحوظ نہیں ہوتا۔ یہ حال مبتدی کا بھی بعض اوقات میں ہوا کرتا ہے۔ دوسرے معنٰی یہ کہ میرا ایک حال ایسا ہوتا ہے کہ وہ حال مقرب فرشتہ اور مرسل کے حال سے اعلیٰ و اشرف ہوتا ہے۔
[۱۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں وقت سے مراد تجلی برقی نہیں۔ کیونکہ جناب رسالت مآب ﷺ کے لیے تجلی ذاتی بے پردہ دائمی ہے۔ بلکہ اس سے مراد اس تجلی دائمی میں ایک طرح کی خصوصیت ہے جو برسبیل قلت واقع ہوتی ہے۔ اور اس نادر وقت کا تحقق ادائے نماز کے وقت میں ہے۔ مکتوبات احمدیہ۔ دفتر اول۔ مکتوب ۲۸۷۔ نپز ۲۸۵۔ اور ۲۹۳)
اللہ تعالیٰ کے نام:
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ایک کم سو۔ جو شخص ان کو احصا کرے۔ وہ بہشت میں داخل ہوگا۔ اس ارشاد میں احصا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر نام کے مقتضاء کے موافق عمل کرسکے۔ مثلاً جب رزاق کہے تو روزی کا غم اس کے دل پر بالکل نہ گزرے اور جب متکبر کہے تو عظمت و کبریائی و بادشاہی کو خدا ہی کی مِلک سمجھے۔
حضرت خواجہ سے دریافت کیا گیا کہ جب ننانوے کا ذکر کیا گیا تو ایک کم سو کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ نے فرمایا کہ بطور تاکید کے اس واسطے مذکور ہوا کہ عرب کو حساب میں کچھ مہارت نہ تھی اور نہ ان کو اس طرف توجہ تھی۔ اسی سبب سے جناب رسالت مآب ﷺ نے مہینہ کے دنوں کی تعداد بیان کرنے کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اٹھا کر اشارہ فرمایا کہ مہینہ ایسا ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے۔ اور تیسری بار نو انگلیاں اٹھائیں اور محسوس کرادیا کہ مہینہ ۲۹ دن کا ہوتا ہے۔ اور زبانِ مبارک سے نہ فرمایا۔
حجاب کی کیفیت:
تیرا حجاب تیرا وجود ہے۔ دع نفسک وتعال یعنی اپنے نفس کو دروازے پر چھوڑ اور اندرجا۔
از تو تا دوست رہ بسے نیست توئی
در رہ تو خاشاک و خسے نیست توئی
صحیح حدیث میں جو اماطہ[۱] الاذیٰ عن الطریق آیا ہے۔ اس سے وجود بشریت کی نفی کی طرف اشارہ ہے۔ اور حدیث قدسی میں جو وارد ہے کہ۔
نفسک مطیتک فارفق بھا۔
تیرا نفس تیری سواری ہے۔ تو اس کے ساتھ نرمی کر۔
یہ نفسِ مطمئنہ کی طرف اشارہ ہے۔ جو الا مارحم ربی[۲] کی خلعت سے مشرف ہوگیا ہے۔
[۱۔ صحیحین میں بروایت حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ایمان کے ستر سے چند اوپر شعبے ہیں۔ جن میں سب سے افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے۔ اور سب سے ادنیٰ اماطۃ الاذیٰ عن الطریق ہے۔ اس کے معنی ہیں راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کرنا۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں۔ بحقیقت ایں رمزے است تبرک وجود و دعویٰ ہستی کہ مبدأ ہمہ شروقبائح است بردار خار و سنگ زرہ ایں چہ رمز بود۔ (مشکوٰۃ شریف۔ کتاب الایمان)]
[۲۔ وَ مَآ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (پارہ ۱۳ شروع) اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا۔ تحقیق نفس البتہ برائی کا حکم کرنے والا ہے مگر جو میرا رب رحم کرے۔ بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔]
ولایت نعمت ہے:
ولایت ایک نعمت ہے۔ ولی کو چاہیے کہ جانے کہ میں ولی ہوں تاکہ اس نعمت کا شکر ادا کرے۔ عنایت الٰہی ولی کے شامل حال ہوتی ہے۔ اس کو بحال خود نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اُس کو بشریت کی آفتوں سے بچایا جاتا ہے۔ خوارق عادات اور احوال و کرامات کے ظہور کا کچھ اعتبار نہیں۔ افعال و اقوال میں استقامت درکار ہے۔ شیخ عبد الرحمٰن نے اپنی کتاب حقائق التفسیر میں آیت فاستقم کما امرت کی تفسیر میں ارباب حقیقت میں سے ایک نقل کیا ہے۔ کہ تو استقامت کا طالب بن اور کرامت کا طالب نہ بن۔ کیونکہ تیرا رب تجھ سے استقامت طلب کرتا ہےا ور تیرا نفس تجھ سے کرامت طلب کرتا ہے۔ صوفیہ کرام کے اقوال میں سے ہے۔ کہ اگر ولی باغ میں آئے اور درختوں کے ہر پتے سے یہ آواز آئے۔ یا ولی اللہ تو چاہیے کہ ظاہر و باطن میں اسے اس آواز کی طرف کچھ التفات نہ ہو۔ بلکہ بندگی و تضرع میں اس کی کوشش ہر لحظہ زیادہ ہو۔ اس مقام کا کمال حضرت مصطفےٰ ﷺ کو حاصل تھا کہ خدا کا احسان و اکرام و انعام آپ پر جس قدر زیادہ ہوتا اسی قدر آپ کی بندگی اور نیاز مندی اور مسکنت زیادہ ہوتی۔ اسی وجہ سے آپ فرماتے ’’کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘؟
صوفیا کی اقسام:
گروہ صوفیہ کی تین قسمیں ہیں۔ مقلد۔ کامل۔ کامل مکمل۔ مقلد اس پر عمل کرتا ہے جو اپنے شیخ سے سن لیتا ہے۔ کامل فیض رسانی میں اپنی ذات سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ دوسروں کی تربیت سوائے کامل مکمل کے نہیں کرتا اور نہیں کرسکتا۔
طریق صوفیاء:
ہمارا طریقہ نو ادر سے ہے اور محکم دست آویز ہے اور سنت مصطفےٰ ﷺ کے دامن کو پکڑنا اور آپ کے صحابہ کرام کے آثار کی پیروی کرنا ہے۔ اس راہ میں ہمیں بفضل الٰہی [۱] لایا گیا ہے۔ اول سے آخر تک ہم نے یہی فضل الٰہی مشاہدہ کیا ہے نہ کہ اپنا عمل۔ اس طریقہ میں تھوڑے سے عمل سے بہت فتوح حاصل ہوتی ہیں۔ مگر سنت کی متابعت کی رعایت بڑا کام ہے۔
[۱۔ یہ محض فضلِ الٰہی ہے کہ حضرت خواجہ کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا طریقہ عطا کیا کہ دوسروں کی نہایت اس کی بدایت میں مندرج ہے۔ اسی واسطے آپ فرمایا کرتے تھے۔ مافضلیانیم۔ مکتوبات احمدیہ۔ دفتر اول مکتوب۔ ۲۶۔ ۳۹۲)]
طریق محبت:
ہمارا طریق صحبت [۲] ہے۔ کیونکہ خلوت میں شہرت ہے اور شہرت میں آفت ہے۔
[۲۔ صحبت سے مراد موافقان طریق کی صحبت ہے۔ نہ کہ مخالفان طریق کی۔ کیونکہ ایک دوسرے میں نفی ہونا صحبت کی شرط ہے اور وہ نفی بغیر موافقت کے حاصل نہیں ہوتی۔ مکتوبات احمد۔ دفتر اول مکتوب ۲۶۵۔]
خیریت:
خیریت جمعیت میں ہے اور جمعیت صحبت میں بشرط یہ کہ ایک دوسرے میں نفی ہوجائیں۔
تین حال:
مرشد کو چاہیے کہ طالب کے تینوں حال (ماضی۔ حال۔ مستقبل) سے باخبر ہوتا کہ اس کی تربیت کر سکے۔ طالب کی شرطوں میں سے ایک یہ ہے۔ کہ جس وقت خدا تعالیٰ کے دوستوں میں سے کسی دوست کی صحبت میں ہو اپنے حال سے واقف ہو اور صحبت کے زمانہ کا گذشتہ زمانہ سے مقابلہ کرے۔ پس اگر وہ نقصان سے کمال کی طرف کچھ تفاوت دیکھے۔ تو بحکم اصبت فالزم [۳] اُس بزرگ کی صحبت کو اپنے اُوپر فرض جانے۔
[۳۔ تو نے پالیا۔ پس لازم پکڑ۔]
طلب راہ کی شرط:
طریقہ سب ادب ہی ادب ہے۔ طلب راہ کی ایک شرط ادب ہے۔ ایک ادب حق سبحانہ کی نسبت ہے۔ اور ایک ادب پیغمبر ﷺ کی نسبت (منسوب)ہے اور ایک ادب مشائخ طریقت کی نسبت ہے۔ حق تعالیٰ کی نسبت ادب یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں بشرط کمال بندگی اس کے حکموں کو بجالائے اور ما سوا سے بالکل منہ پھیرلے۔ پیغمبر ﷺ کی نسبت ادب یہ ہے کہ اپنے آپکو ہمہ تن آپ ﷺکی اتباع و پیروی کے مقام میں رکھے۔ اور تمام حالات میں آپ ﷺکی واجب خدمت کو نگاہ رکھے۔ اور آپﷺ کو تمام موجودات اور حق سبحانہ کے درمیان واسطہ جو کوئی ہے اور جو کچھ ہے سب کا سَر(بنیاد) آپ کے آستان ِعزت پر ہے۔ جو ادب مشائخ کی نسبت طالبوں پر لازم و واجب ہے وہ اس جہت سے ہے کہ مشائخ سنتِ پیغمبر ﷺ کی پیروی کے سبب سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائیں۔ پس درویش کو چاہیے کہ غیبت و حضور میں ان کا ادب ملحوظ رکھے۔
ذکر کی تعلیم حاصل کرنا:
ذکر کی تعلیم کسی کامل مکمل سے ہونی چاہیے تاکہ موثر ہو اور اس کا نتیجہ ظہور میں آئے تیر بادشاہ کی ترکش سے لینا چاہیے تاکہ شایان حمایت ہو۔
علم لدنی:
وقوف عددی علم لدنی [۱] کا اول مرتبہ ہے۔
[۱۔ علم لدنی وہ علم ہے جو اہل قرب کو تعلیم الہی اور تفہیم ربانی سے معلوم و مفہوم ہوتا ہے نہ کہ دلائل عقلی و شواہد نقلی سے چنانچہ قرآن مجید میں حضرت خضر علیہ السلام کی نسبت آیا۔ وعلمنہ من لدنا علما۔ ترجمہ اور ہم نے سکھایا تھا اس کو اپنے پاس سے ایک علم۔ (سورہ کہف۔ ع ۹)]
ذکر کا مقصد:
لا الٰہ نفی الہہ طبیعت ہے اور الا اللہ اثبات معبود بحق۔ اور مقصود ذکر سےیہ ہے کہ ذاکر کلمہ توحید کی حقیقت کو پہنچ جائے۔ بہت دفعہ کہنا شرط نہیں۔ اور کلمہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ اس کلمہ کے کہنے سے ماسوا بالکل نفی ہوجائے۔
اپنے احوال سے واقفیت:
وقوف زمانی جو سالک کا کار گزار ہے۔ یہ کہ سالک اپنے احوال سے واقف رہے کہ ہر زمانہ میں اس کا حال کیسا ہے۔ موجب شکر ہے یا موجب عذر خواہی۔
خطرات کو دور کرنا:
سالکین خواطر [۱] (وسوسات)شیطانی و نفسانی کے دور کرنے میں متفاوت ہیں۔ بعضے ایسے ہیں کہ پیشتر اس کے کہ نفس و شیطان سے کوئی خطرہ دل میں آئے اسے دیکھ لیتے اور وہیں سےاس کو دور کر دیتے ہیں۔ اور بعضے ایسے ہیں کہ جب کوئی خطرہ دل میں آتا ہے تو اسے قرار پکڑنے سے پہلے دفع کردیتے ہیں اور بعضے ایسے ہیں کہ خطرہ کو قرار پکڑنے کے بعد دفع کرتے ہیں۔ مگر یہ چنداں مفید نہیں۔ ہاں اگر اس کے منشا اور اس کے انتقالات کے سبب کو معلوم کرلیں تو فائدہ سے خالی نہیں۔
[۱۔ خواطر جمع ہے خاطر کی۔ خاطر وہ کلام و خطاب ہے جو دل پر وارد ہو یا وہ وارد ہے جس میں بندے کے قصد و عمل کو دخل نہ ہو۔ خاطر جو خطاب ہو اس کی چار قسمیں ہیں۔ اوّل ربانی۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل میں القاء ہو۔ دوم ملکی ۔جوفرشتہ کے القاء سے ہو۔ اُسے الہام کہتے ہیں۔ سوم نفسانی۔ جو نفس کی طرف سے ہو اُسے ہاجس کہتے ہیں جس کی جمع ہوا جس آتی ہے۔ چہارم شیطانی۔ جو شیطان کے القاء سے ہو۔ اسے وسواس کہتے ہیں (رسالہ قشیریہ وغیرہ)]
تین راہیں:
راہ کہ جس کے ذریعے عارف مقصود حقیقی کو پالیتے ہیں اور دوسرے محروم رہ جاتے ہیں تین ہیں۔ مراقبہ۔ مشاہدہ۔ محاسبہ۔ خالق کی طرف دوام نظر اور مخلوق کی رویت کا نسیان مراقبہ کہلاتا ہے۔ یعنی سالک کو چاہیے کہ ہر وقت جناب احدیت کی طرف نظر رکھے اور تمام مخلوقات کی ہستی کی پیشانی پر نیستی و فنا و نسیان کا خط کھینچ دے۔ مراقبہ کا دوام نادر چیز ہے۔ اس گروہ میں سے کم ہیں۔ جنہوں نے یہ بات حاصل کی ہے۔ ہم نے اس کے حصول کا طریق معلوم کرلیا ہے اور وہ نفس کی مخالفت ہے۔ مشاہدہ سے مراد ان واردات غیبیہ کا معائنہ ہے جو دل پر نازل ہوتے ہیںَ چونکہ وار جلدی گزرنے والا ہے اور قرار نہیں پکڑتا ہم اس وارد کا ادراک نہیں کرسکتے۔ مگر صفت بسط و قبض سے جو ہم میں پیدا ہوتی ہے اسے معلوم کر لیتے ہیں۔ قبض میں صفت جلال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بسط میں صفت جمال کا محاسبہ یہ ہے کہ ہر ساعت جو کچھ ہم پر گزرے اس کا حساب کریں کہ اس میں غفلت کیا اور حضور کیا ہے۔ اگر دیکھیں کہ سراسر نقصان ہے۔ تو باز گشت کریں اور عمل کو از سرنو کریں۔ چونکہ راستہ ان تین میں منحصر ہےا ور دوسرے لوگ اس کا غیر طلب کرتے ہیں۔ اس لیے محروم رہ جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو پہنچاننے کی کیفیت:
جس شخص نے اللہ کو پہچان لیا اُس پر کوئی شے پوشیدہ نہیں رہتی [۱] حضرت خواجہ علاؤ الدین فرماتے تھے کہ اس کلمہ قدسیہ سے حضرت خواجہ کی مراد یہ ہے کہ عارف پر اشیاء کا ظاہر ہونا اس کی توجہ پر موقوف ہے۔
[۱۔ شیخ ابراہیم خواص (متوفی ۲۹۱ھ کا بیان ہے کہ میں کوہ لکام واقع ملک شام میں تھا۔ ایک انار کا درخت نظر آیا۔ میرے نفس میں خواہش پیدا ہوئی میں نے ایک انار توڑلیا۔ اس کو جو پھاڑا تو ترش نکلا۔ پس میں نے بغرض تادیب نفس اسے وہیں چھوڑا اور آگے چل دیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص لیٹا ہوا ہے اور اس پر بھڑیں بیٹھی ہیں۔ میں نے اسے کہا السلام علیک۔ اس نے جواب دیا وعلیک السلام یا ابراہیم۔ یہ سن کر میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے مجھے کس طرح پہچان لیا۔ اس نے جواب دیا کہ ’’جس شخص نے اللہ کو پہچان لیا۔ اس پر کوئی شے پوشیدہ نہیں رہتی۔‘‘ میں نے کہا۔ کہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تیرا ایک حال دیکھتا ہوں۔ کاش تو اس سے سوال کرتا کہ وہ تجھے ان بھڑوں کی اذیت سے بچاتا۔ یہ سن کر اس نے مجھ سے کہا۔ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تیرا ایک حال دیکھتا ہوں۔ کاش تو اس سے سوال کرتا کہ وہ تجھے انار کی شہوت و خواہش سے بچاتا کیونکہ انار کے ڈنک کی تکلیف انسان آخرت میں پائے گا۔ اور بھڑوں کے ڈنک کی تکلیف اس دنیا میں پاتا ہے۔ پس میں اسے وہیں چھوڑ کر آگےبڑھا۔ رسالہ قشیریہ۔)]
آئینہ کی جہتیں:
مشائخ میں سے ہر ایک کے آئینہ کی دو جہت اور ہمارےک آئینہ کی چھ جہت ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی اس کلمہ قدسیہ کی شرح میں فرماتے ہیں۔ کہ آئینہ سے مراد عارف کا قلب ہے جو روح و نفس کے درمیان واسطہ ہے۔ اور دو جہت سے مراد جہت روح اور جہت نفس ہے۔ دوسرے طریقوں کے مشائخ جب مقام قلب پر پہنچتے ہیں تو قلب کی دونوں جہات منکشف ہوجاتی ہیں اور دونوں مقاموں کے علو و معارف جو مناسب قلب ہیں فائض ہوتے ہیں۔ بخلاف حضرت خواجہ قدس سرہ کے طریق کےکہ اس میں آئینہ قلب کے لیے چھ جہت پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کا بیان یوں ہے کہ اس طریقہ علیہ کے اکابر پر یہ بات منکشف ہوگئی ہے کہ لطائف ستہ (نفس۔ قلب۔ روح۔ سر۔ خفی۔ اخفی) جو کلیۃ افراد انسانی میں ثابت ہیں وہ تنہا قلب میں بھی متحقق ہیں۔ چھ جہت سے حضرت خواجہ کی مراد لطائف ستہ قلب ہیں۔ پس باقی مشائخ کی سیر ظاہر قلب پر ہے۔ اور مشائخ نقشبندیہ کی سیر باطن قلب میں ہے اور وہ اس سیر سے قلب کے بطن میں بطون میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور مقام قلب میں ان پر ان چھ لطیفوں کے علوم و معارف جو اس مقام کے مناسب ہیں منکشف ہوجاتے ہیں۔ رسالہ مبدا ٔمعاد
نورِ فراست:
چالیس سال سے ہم آئینہ داری کرتے ہیں ہمارے آئینہ نے کبھی غلطی نہیں کی۔ اس سے حضرت خواجہ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اولیاء اللہ جو کچھ دیکھتے ہیں نور فراست سے دیکھتے ہیں۔ جو حضرت لایزال نے ان کو عطا کیا ہے جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے وہ بے شک صواب و درست ہوتا ہے۔
شیخ عبد القدوس جو قطب اولیاے عزیمت تھے فرماتے تھے کہ حضرت خواجہ قدس سرہ کی سیر آسمان و زمین کے تمام طبقات میں جاری تھی۔
عارف کی نگاہ:
حضرت عزیزاں علیہ رحمۃ الرحمٰن کا ارشاد ہے کہ زمین اس گروہ کی نظر میں دستر خوان کی طرح اور ہم کہتے ہیں کہ روئے ناخن کی طرح ہے۔ کوئی چیز ان کی نظر سے غائب نہیں۔ منقول ہے کہ ارشاد مذکور کے وقت حضرت عزیزاں دستر خوان پر تھے۔ اسی کے مناسب یہ فرما دیا اور حضرت خواجہ نے ہفت دائر ولایت کی نسبت سے فرمایا ہے۔ ورنہ عارف کے دل کی بزرگی کی شرح نہیں ہوسکتی۔
اگر درویش کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے۔ اسے پہنچاننا چاہیے کہ یہ کہاں سے ہے۔
کمانے والا اللہ کا دوست ہے:
حدیث میں ہے الکاسب حبیب اللہ۔ یعنی کسب کرنے والا اللہ کا حبیب ہے۔ اس حدیث میں کسب ِرضا کی طرف اشارہ ہے نہ کہ کسب ِدنیا کی طرف۔
اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا:
جو شخص اپنے آپکو بکلیت خود حضرت حق تعالیٰ و تقدس کے سپرد کردے۔ اس کا غیر حق جل وعلا سے التجا کرنا شرک ہے۔ یہ شرک عام لوگوں کے لیے معاف ہے۔ مگر خواص کے لیے معاف نہیں۔
متوکل کو چاہیے کہ اپنے آپکو متوکل خیال نہ کرے۔ اور اپنے توکل کو کسب میں چھپائے ۔
حق تبارک وتعالیٰ نے مجھے دنیا کی خرابی کےلیے موجود کیا ہے اور لوگ مجھ سے دنیا کی عمارت طلب کرتے ہیں۔
اگر اس وجود سے خراب کوئی اور وجود ہوتا تو فقر کے اس خزانہ کو وہاں رکھتے۔ کیونکہ خزانہ ہمیشہ ویرانہ میں پوشیدہ رکھتے ہیں۔
اہل اللہ بارِ خلق اس لیے اٹھاتے ہیں کہ ان کے اخلاق کی اصلاح ہوجائے یا کسی ولی سے ملاقات ہوجائے۔ اس لیے کہ کوئی ولی ایسا نہیں کہ حضرت حق کی نظر عنایت اس کی طرف نہ ہو خواہ وہ ولی اس سے واقف ہو یا نہ ہو۔ پس جو شخص اس ولی سے ملے گا۔ اس نظر الٰہی سے اس کو فیض پہنچے گا۔
صد سفرہ بدشمن کشد طالب مقصود
باشد کہ یکے دوست بیاید بضیافت
تو شمع کی طرح بن۔ تو شمع کی طرح نہ بن۔ شمع کی طرح بن بدیں معنے کہ تو دوسرے کو روشنی پہنچائے۔ اور شمع کی طرح نہ بن بدیں معنے کہ تو اپنےآپکو تاریکی میں رکھے۔
جس شخص نے کسی روز ہمارا جوتا بھی سیدھا کیا ہے ہم اس کی شفاعت کریں گے۔
اس راستے میں صاحب پندارو تکبر کا کام نہایت مشکل ہے۔
درویش کو چاہیے کہ جو کچھ کہے حال سے کہے۔ مشائخ طریقت کا قول ہے کہ جو شخص ایسے حال سے کلام کرتا ہے جو اس میں نہیں حق تعالیٰ کبھی اس کو اس حال کی سعادت نہ بخشے گا۔
حضرت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کی برکت سے مسخ صورت اس امت سے مرتفع ہے مگر مسح [۱] باطن باقی ہے۔
اندریں امت نباشد مسخ تن
لیک مسخ دل بود اے ذوالفطن
[۱۔ خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے ہیں کہ مسخ باطن کی علامت یہ ہے کہ صاحب کبیرہ کا باطن کبیرہ گناہ کرنے سے درد مندو متاثر نہ ہو۔اور برائی اور گناہوں میں نہایت اصرار کے سبب سے اس کا یہ حال ہوجائے کہ جب اس سے کبیرہ گناہ صادر ہوتو اس کے بعد اس کے باطن میں کوئی ندامت و ملامت پیدا واقع نہ ہو۔ اور اس کا دل ایسا سخت و سیاہ ہو کہ اگر اسے تنبیہ کی جائے تو وہ آگاہ متاثر نہ ہو۔ رشحات۔ صفحہ ۳۱۱۔)]
اسرار سے آگاہی:
اولیا کو اسرار پر آگاہی ہے اور آگاہی دی جاتی ہے لیکن وہ بغیر اجازت کے ان کو ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے چھپاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں وہ شور مچاتا ہے۔ ’’اسرار کا چھپانا ابرار کا کام ہے۔‘‘
ہم سے جو کچھ خواطر اور اعمال و افعال خلق کے اظہار کی نسبت صادر ہوتا ہے اس میں ہم درمیان نہیں۔ یا تو الہام سے ہمیں آگاہ کر دیتے ہیں یا کسی کے واسطہ سے ہم تک پہنچادیتے ہیں۔
درویشی کیا ہے؟ باہر بے رنگ اور اندر بے جنگ
تادریں خرقہ ایم از کس ما
ہم نرنجیم و ہم نر نجانیم
میں نے اکابر دین میں سے ایک سے پوچھا کہ درویشی کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ زبونی اور خواری۔
درویش کو تحمل و برداشت کے مقام میں ڈھول کی طرح رہنا چاہیے کہ ہر چند طمانچہ کھائے مگر صدائے مخالف اس سے ظاہر نہ ہو۔
درویش اہل نقد ہیں۔ آیندہ پر نہیں چھوڑتے ؎
امروز بیں بدیدۂ باطن جمال دوست
اے بیخبر حوالہ بفردا چہ مے کئی
الصوفی ابن الوقت اشارہ اسی صفت کی طرف ہے۔
خرد مند زانکس تبّرا کند
کہ اوکار امروز فردا کند
۵۰۔ حضرت خواجہ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی علم منطق پڑھے تو کس نیت سے پڑھے؟ فرمایا کہ حق و باطل میں امتیاز کی نیت سے۔
۵۱۔ جس شخص کی قابلیت کا بیضہ مختلف صحبتوں کے سبب سے فاسد ہوگیا۔ اس کا معاملہ دشوار ہے۔ سوائے اہل تدبیر (اولیاء اللہ) کی صحبت کے جو سرخ گندھک کی طرح کمیاب ہے درست نہیں ہوسکتا۔
جز صحبت عاشقان مستاں مپسند
دل در ہوس قوم فرد مایہ مبسند
ہر طائفہ ات بجائے خویش کشند
چغدت سوے ویرانہ و طوطی سوے قند
۵۲۔ خواجہ مسافر خوارزمی کا بیان ہے کہ میں حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ کی صحبت میں بہت رہا کرتا تھا۔ اور ان کی خدمت کیا کرتا تھا۔ مگر سماع (راگ) کی طرف میرا بہت میلان تھا۔ ایک روز میں نے آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ اتفاق کیا کہ قوال و دفاف کو حاضر کریں۔ اور حضرت خواجہ کی مجلس میں سماع میں مشغول ہوجائیں۔ دیکھیں حضرت خواجہ کیا فرماتے ہیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اور گانے بجانے والوں کو لے آئے۔ حضرت خواجہ اُس مجلس میں بیٹھے اور کسی طرح منع نہ فرمایا۔ اخیر میں آپ نے فرمایا کہ ہم یہ کام نہیں کرتے اور انکار بھی نہیں کرتے۔ [۱]
[۱۔حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام ہمارے طریق خاص کے منافی ہے۔ اس لیے نہیں کرتے۔ اور چونکہ دیگر مشائخ نے کیا ہے۔ اس لیے اس پر انکار بھی نہیں کرتے۔مکتوب احمدیہ۔ دفتر اول۔ مکتوب ۲۷۳)]
۵۳۔ بندہ کے اختیار کے ثابت کرنے میں بہت سعادت ہے تاکہ اگر کوئی عمل رضائے حق سبحانہ وتعالیٰ کے خلاف اس سے سرزد ہوجائے اور وہ اپنا اختیار سمجھے تو شرم کے مارے عذر و انابت میں مشغول ہوجائے۔ اور اگر رضائے حق تعالیٰ کے موافق اور اپنا اختیار سمجھے تو اس کی توفیق کا شکر کرے۔
مشائخ کا قول ہے۔
المجاز قنطرۃ الحقیقۃ۔ مجاز حقیقت کا پُل ہے
اس سے مراد یہ ہے کہ تمام عبادات ظاہری، قولی ہوں یا فعلی مجاز ہیں۔ [۱] جب تک سالک ان سے نہ گذرے۔ حقیقت کو نہ پہنچے گا۔
[۱۔ زائد تشریح کے لیے دیکھو مکتوبات احمدیہ۔ دفتر سوم۔ مکتوب۔ ۶۶۔]
۵۵۔ اگر طالب کو اپنے شیخ مقتدا کے معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئے۔ تو چاہیے کہ حتی المقدور صبر کرے اور بے اعتقاد نہ ہوجائے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی حکمت اس پر ظاہر ہوجائے۔ اور اگر صبر کی طاقت نہیں اور مبتدی ہو تو شیخ سے دریافت کر لے کیونکہ اس کے لیے سوال جائز ہے۔ اگر طالب متوسط الحال ہو۔ تو سوال نہ کرے۔
سیر و سلوک کا مقصد:
ماوراء النہر کے بڑے بڑے اہل اللہ میں سے ایک نے حضرت خواجہ سے پوچھا کہ سیر و سلوک سے مقصود کیا ہے؟ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ مقصود معرفت تفصیلی ہے۔ اُس بزرگوار نے پھر دریافت کیا کہ معرفت تفصیلی کسے کہتے ہیں؟ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ معرفت تفصیلی سے مراد یہ ہے کہ حضرت مخبر صادق ﷺ سے جو کچھ بطریق اجمال قبول کیا گیا ہے اسے بطریق تفصیل پہچانا جائے اور دلیل و برہان کے مرتبہ سے کشف و عیاں کے مرتبہ تک رسائی ہوجائے۔
بلا اور بلوے میں فرق:
حضرت خواجہ قدس سرہ سے دریافت کیا گیا کہ بلا اور بلوے میں کیا فرق ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ بلا بہ نسبت ظاہر ہے اور بلوےٰ بہ نسبت باطن۔
حضرت خواجہ قدس سرہ سے دریافت کیا گیا کہ جس وقت حق تعالیٰ کسی درویش سے کوئی حال واپس کرلے۔ وہ کیا کرے۔ فرمایا کہ اگر اس حال کا کچھ بقیہ باقی ہے۔ تو وہ اس امر کی دلیل ہے کہ اس سے تضرع و نیاز مطلوب ہے۔ پس وہ حق تعالیٰ سے اس کا سوال کرے اور کچھ بھی باقی نہیں رہا تو وہ اس امر کی دلیل ہے کہ اس سے صبر و رضا مطلوب ہے۔
۵۹۔ خدا طلبی بلا طلبی ہے۔ احادیث قدسیہ میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جس نے مجھے دوست رکھا میں نے اسے ابتلاء میں ڈالا‘‘۔ یہ بات ظاہر ہے کہ وظیفہ محبت کو لازم ہے کہ محب محبوب کا ہو۔ اور محبوب جس قدر زیادہ عزیز ہوتا ہے اس کی طلب کی راہ میں بلا زیادہ ہوتی ہے اور احادیث میں وارد ہے کہ ایک شخص نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی۔ یا رسول اللہ! میں آپ کو دوست رکھتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ[۱] تو فقر کے لیے تیار رہ۔ ایک اور شخص نے عرض کیا کہ میں خدا کو دوست رکھتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ بلا کے لیے تیار رہ۔
[۱۔ ترمذی شریف میں حدیث عبداللہ بن مغفل میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تین بار یوں کہا: ’’خدا کی قسم! میں آپ کو دوست رکھتا ہوں۔‘‘ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا پس تو فقر کے لیے برگستوان (پاکھر)(جھول، ترپال ،زرہ) تیار رکھ۔ البتہ فقر میرے محب کی طرف زیادہ جلدی پہنچنے والا ہے۔ درو کے پانی سے جو اپنے منتہا کو جلدی پہنچ جاتا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محب لو محنت فقر اٹھانی پڑتی ہے۔ جس کے لیے پاکھر کی ضرورت ہے۔ یہاں پاکھر کنایہ صبر سے ہے۔ یعنی جس طرح پاکھر گھوڑے کو میدان جنگ میں ضرر سے بچاتی ہے اسی طرح صبر انسان کو فقر و فاقہ کی آفت سے بچاتا ہے اور جزع و فزع کے ورطہ میں گرنے نہیں دیتا۔ (مشکوٰۃ ،فی باب فضل الفقراء)۔]
۶۰۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے سوال کیا گیا کہ کرامات کے بارے میں درویش کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ کرامتوں کا کیا ذکر جو کچھ کہ ہے کلمہ توحید کی حقیقت کے مقابلہ میں نفی ہے۔ ’’اصحاب کرامت سب کے سب محجوب ہیں۔ اور عارف کرامت کی طرف نظر کرنے سے دور رکھے گئے ہیں۔‘‘
نور کی فراست:
۶۱۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ اہل اللہ کو جو لوگوں نے خطرات و احوال و اعمال کی بصیرت و شناخت ہوتی ہے وہ کہاں سے ہے۔ فرمایا کہ اس نور کی فراست[۱] سے ہوتی ہے جو حق تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے ’’تم مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
[۱۔ فراست کے معنی لغت میں تثبت و نظر کے ہیں۔ اہل حقیقت کی اصطلاح میں اس سے مراد مکاشفہ یقین اور معائنہ غیب ہے۔ کذا فی تعریفات الجرجانی۔]
۶۲۔ لوگوں نے حضرت خواجہ قدس سرہ سے کرامت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ ہماری کرامت ظاہر ہے کہ باوجود اتنے گناہوں کے ہم روئے زمین پر چل سکتے ہیں۔
۶۳۔ مرید سے احوال کا ظاہر ہونا شیخ کی کرامت ہے۔
۶۴۔ حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر قدس سرہ سے لوگوں نے پوچھا کہ ہم آپ کے جنازہ کے آگے کون سی آیت پڑھیں، شیخ نے فرمایا کہ یہ بیت پڑھنا ؎
چیست ازیں خوتبر در ہمہ آفاق کار
دوست رسد نزد دوست یار بنزدیک یار
حضرت خواجہ نے فرمایا کہ یہ پڑھنا بڑا کام ہے۔ تم ہمارے جنازہ کے آگے یہ بیت پڑھنا۔
مفلسا نیم آمدہ در کوئے تو
شیئا للہ از جمال روئے تو
۶۵۔ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ میں نے مکہ معظمہ میں زاد اللہ تعالیٰ شرفاً وکرامۃ دو شخصوں کو دیکھا۔ ایک نہایت بلند ہمت دوسرا نہایت پست ہمت۔ پست ہمت وہ تھا جسے میں نے طواف میں دیکھا کہ خانہ کعبہ کے دروازے کے حلقہ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور ایسی شریف جگہ اور ایسے عزیز وقت میں حق سبحانہ کے سوا کچھ اور مانگ رہا ہے۔ بلند ہمت وہ جوان تھا جسے میں نے بازار منیٰ میں دیکھا کہ کم و بیش پچاس ہزار دینار کا سودا خرید وفروخت کیا اور اس عرصہ میں اس کا دل ایک لمحہ حق سبحانہ سے غافل نہ ہوا۔
۶۶۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے سوال کیا گیا کہ بعضے مشائخ کا ارشاد ہے کہ الصوفی غیر مخلوق (صوفی غیر مخلوق ہے) اس کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بعض اوقات صوفی کے لیے ایک وصف و حال ہوتا ہے کہ وہ نابود ہوتا ہے۔ مشائخ کا یہ قول اسی وقت کی نسبت ہے ورنہ صوفی مخلوق ہے۔
۶۷۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ صوفیہ کرام کا قول ہے کہ فقیر اللہ کا محتاج نہیں۔ اس قول سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سوال کرنے کی حاجت کی نفی ہے۔ حسبی من سوالی علمہ بحالی[۱] سے مقام کی طرف اشارہ ہے۔
[۱۔ نمرود علیہ العنۃ نے آگ روشن کی اور حضرت ابراہیم صلوٰۃ اللہ علیہ کو منجنیق کے پلہ میں رکھا۔ جبرائیل علیہ السلام نے آکر عرض کیا کیا تجھے کوئی حاجت ہے؟ حضرت نے فرمایا تجھ سے کوئی حاجت نہیں، جبرائیل علیہ السلام نے کہا پس خدا تعالیٰ سے مانگیے، حضرت نے فرمایا: حسبی من سوالی علمہ بحالی(بجائے لسانِ قال کے لسان حال سے سوال کرنا میرے واسطے کافی ہے) یعنی میرا حال اللہ میری نسبت بہتر جانتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ میری صلاح و بہبودی کس چیز میں ہے۔ پس مجھے سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔ کشف المحجوب۔]
۶۸۔ حضرت خواجہ قدس سرہ سے دریافت کیا گیا کہ اذا تم الفقر فھو اللہ[۱] کے کیا معنی ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ بندہ کی فنا و نیستی اور اس کی صفات کے محو ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
[۱۔ یعنی جب فقر کمال کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ ہی باقی رہ جاتا ہے۔ انتہےٰ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ اس عبارت سے صوفیہ کرام کی مراد یہ ہے کہ جب فقر کامل ہوجاتا ہے اور نیستی محض حاصل ہوجاتی ہے تو باقی نہیں رہتا مگر اللہ تعالیٰ ۔ یہ مراد نہیں کہ وہ فقیر خدا کے ساتھ متحد ہوجاتا ہے اور خدا بن جاتا ہے کیونکہ یہ تو کفر و بیدینی ہے۔ مکتوبات شریف۔ دفتر اول۔ مکتوب ۲۶۶]
۶۹۔یہ جو مشائخ کا قول ہے کہ ’’عارف کی معرفت صحیح نہیں ہوتی جس وقت وہ خدا سے تضرع کرتا ہے‘‘ یہ بندہ کی ہستی اور اس کی صفات کے باقی رہنے کی طرف اشارہ ہے۔
۷۰۔ایک شخص نے حضرت خواجہ کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں شخص بیمار ہے اور آپ کے دل مبارک کی توجہ کا طالب ہے۔ آپ نے فرمایا پہلے خستہ دل کی حاجت۔[۱] اس کے بعد شکستہ دل کی توجہ۔
[۱۔ مطلب یہ کہ پہلے شکستہ دل اپنی حاجت کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد اہل اللہ اس کی حاجت براری کی طرف توجہ فرماتے ہیں۔ پس طالب کو مشائخ کی خدمت میں خالی جانا چاہیے تاکہ پُر ہو کر واپس آئے۔ اور اپنے افلاس کو ظاہر کرنا چاہیے تاکہ ان کو اس پر شفقت آئے اور فیض رسانی کریں۔ مکتوبات احمدیہ۔ دفتر اول۔ مکتوب ۱۵۷]
۷۱۔ ہمارا روزہ ماسوا [۱] کی نفی اور ہماری نماز مقام مشاہدہ[۲] ہے۔ یہ رباعی[۳] آپ کی ہے۔
[۱۔ حضرت خواجہ محمد معصوم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نفی ماسوا سے حضرت خواجہ کی مراد ماسوا سے تعلق کی نفی اور ماسوا کی مقصودیت کی نفی ہے بلکہ ماسوا کے شعور و شہود کی نفی ہے جو فنا و توحید شہودی کا حاصل ہے۔ مکتوبات معصومیہ۔ دفتر اول، مکتوب ۱۵۲۔]
۲۔ حدیث جبرائیل علیہ السلام میں رسول اکرم ﷺنے اسلام و ایمان کے بعد احسان کو بدیں الفاظ بیان فرمایا ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ یعنی حقیقت احسان یہ ہے کہ تو خدا کی عبادت کر اس طرح کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس حال میں نہیں کہ گویا اسے دیکھ رہا ہے تو اس کی عبادت کر اس طرح کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ انتہےٰ اس ارشاد میں پہلی حالت مقام مشاہدہ اور دوسری مراقبہ ہے۔
۳۔ اس رباعی کو نقل کرکے مولانا یعقوب چرخی فرماتے ہیں !کہ اسی کے معنٰی یہ ہیں کہ مقصود پر پہنچنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ ایسی طاعت نہیں کرسکتے۔ جو خدا تعالیٰ کے لائق ہو۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: وما قدروا اللہ حق قدرہ۔ یعنی انہوں نے اللہ کی تعظیم نہیں کی جیسا کہ حق تعظیم ہے۔ کذا فی الرسالۃ الانسیۃ۔ ]
تاروے تو دیدہ ام من اے شمع طراز
نے کارکنم نہ روزہ دارم نہ نماز
و ربے تو بوم نماز من جملہ فجار
چوں با تو بام فجار من جملہ نماز
۷۲۔ بیس سال سے بفضل خدا ہم مقام بے صفتی سے مشرف ہیں۔[۱]
[۱۔ بے صفتی سے اشارہ کشف ذاتی کی طرف ہے جو بہت بلند مقام ہے اور بہت شریف درجہ ہے۔ اس درجہ بے صفتی کا کمال حضرت سید المرسلینﷺکو حاصل ہے۔ اور مقام محمود اس مرتبہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے۔ دیگر انبیاء و اولیا بحسب مراتب آپ ہی کے خوشہ چین ہیں۔ مزید توضیح کے لیے رسالہ قدسیہ مولفہ محمد پارسا دیکھو۔]
۷۳۔ حقیقت اخلاص فنا کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جب تک بشریت غالب ہوتی ہے۔ حاصل نہیں ہوتی۔
ساقی قدحے کہ نیم مستیم
محمود صباحیٔ الستیم
مارا تو بما مماں کہ تاما
با خویشتنیم بت پرستیم
۷۴۔ ہم فضلی ہیں۔ ہم دو سو آدمی تھے جنہوں نے طلب کے کوچہ میں قدم رکھا۔ مگر فضل الٰہی مجھ پر ہوا۔
۷۵۔ جو کچھ دیکھا گیا اور سمجھا گیا وہ سب غیر ہے اور حجاب ہے۔ حقیقت کلمہ لا سے اس کی نفی کرنی چاہیے۔
حضرت مجدد الف ثانی حضرت خواجہ کے اخیر کلمہ قدسیہ کو نقل کرکے یوں تحریر فرماتے ہیں۔’’پس کثرت میں وحدت کا شہود بھی شایانِ نفی ہوا۔ اور جو کچھ شایانِ نفی ہے وہ اس جناب قدس سے منتفی کے۔ حضرت خواجہ کے اس کلام نے مجھے اس شہود سے نکالا ہے۔ اور مشاہدہ و معائنہ کی گرفتاریوں سے نجات بخشی ہے۔ اور لباس کو علم سے جہل کی طرف اور معرفت سے حیرت کی طرف لے گیا ہے۔ جزاہ اللہ سبحانہ عنی خیر الجزاء۔ میں اس ایک بات سے حضرت خواجہ کا مرید ہوں اور ان کا غلام ہوں۔ حق یہ ہے کہ اولیاء میں سے کم کسی نے ایسی عبارت کے ساتھ کلام کیا ہے اور تمام مشاہدات و معانیات کو اس طریق پر نفی کیا ہے۔ اس مقام پر حضرت خواجہ کے اس ارشاد ’’خدا کی معرفت بہاء الدین پر حرام اگر اُس کی ابتداء بایزید کی انتہاء نہ ہو‘‘ کی حقیقت تلاش کرنی چاہیے کیونکہ بایزید باوجود اس بزرگی کے شہود و مشاہدہ سے آگے نہیں بڑھے۔ اور انہوں نے سبحانی کے کوچہ سے قدم باہر نہیں رکھا۔ مگر حضرت خواجہ نے ایک کلمہ لا سے بایزید کے تمام مشاہدات کی نفی کردی اور سب کو غیر حق جل سلطانہ قرار دیا۔ حضرت بایزید کی تنزیہ حضرت خواجہ کے نزدیک تشبیہ ہے اور ان کا بیچوں حضرت خواجہ کے نزدیک چوں اور ان کا کمال حضرت خواجہ کے نزدیک نقص ہے۔ اس لیے حضرت بایزید کی انتہا جو تشبیہ سے آگے نہیں بڑھی ہے۔ حضرت خواجہ کی ابتدا ہوگی۔ کیونکہ ہدایت تشبیہ سے ہے اور انتہا تنزیہ پر ہے۔ شاید آخر حال میں حضرت بایزید کو اس نقص کی اطلاع دی گئی ہے کہ وہ وصال کے وقت فرماتے تھے:
ما ذکرتک الا عن غفلۃ وما خدمتک الا عن فترۃ
میں نے تجھے یاد نہیں کیا مگر غفلت سے اور میں نے تیری خدمت نہیں کی مگر سستی سے۔
وجہ یہ انہوں نے حضور سابق کو غفلت جانا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا حضور نہ تھا بلکہ ظلال میں سے ایک ظل کا اور ظہورات میں سے ایک ظہور کا حضور تھا۔ پس ناچار وہ حضرت جل سلطانہ سے غافل ٹہرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ وراء الوراء ہے۔ ظلال و ظہورات تمام مبادی و مقدمات اور معارج و معدات سے ہیں۔ اور وہ جو حضرت خواجہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں مطابق واقع ہے۔ کیونکہ ابتدا سے ان کی توجہ احدیت صرف کی طرف ہوتی ہے۔ اور اسم و صفت سے بجز ذات ان کی مراد نہیں ہوتی۔ اس طریقہ عالیہ کے مبتدیوں کو یہ دولت بطریق انعکاس شیخ مقتدا سے جو اس کمال سے مشرف ہو حاصل ہوتی ہے خواہ وہ مبتدی جانیں یا نہ جانیں۔پس نا چار دوسرے طریقوں کے کامل مشائخ کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہوگی۔ [۱]
(انیس الطالبین مولفہ خواجہ صالح بن مبارک بخاری خلیفہ مجاز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ۔ رشحات نفحات)
(مشائخِ نقشبندیہ)