حضرت بابا فقیر محمد چوراہی نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت بابا فقیر محمد چوراہی نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سلسلہ نقشبندیہ کے جلیل القدر بزرگ ہیں آپ زہد و ورع اور ریاضت میں درجہ کمال پر فائز تھے بلا شبہ ریاضت و مجاہدہ میں یکتائے زمانہ تھے۔
ولادت باسعادت:
حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت باسعادت چورہ شریف ضلع کیمبل پور میں ہوئی آپ کے والد ماجد کا نام حضرت نور محمد تیراہی تھا جو زہد و ورع اور ارشادِ طریقت میں باکمال تھے شیخ کامل اور ولی اللہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو اس وقت آپ کے جد امجد حضرت خواجہ فیض اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ باحیات تھے آپ کی ولادت کی خبر سن کر فرمایا کہ بچے کو میرے پاس لے کر آؤ چنانچہ حضرت بابا فقیر محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گود میں لے کر ان کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو حضرت خواجہ فیض اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنا لعاب دہن حضرت بابا فقیر محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے منہ میں ڈال کر فرمایا کہ اس لڑکے کی قسمت بڑی اچھی ہے اس کے وجود پاک سے بہت فیض حاصل ہوگا چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اُسی دن سے آپ کے چہرہ مبارک سے انوار الٰہی کی کرنیں جگمگانہ شروع ہوگئی تھیں۔ آپ کا اسم مبارک تو حضرت فقیر محمد تھا جب کہ لقب حاجی گل تھا آپ کو عقیدت و احترام کے باعث بابا جی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
تعلیم و تربیت:
حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت نور محمد تیراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے حاصل کی جو کہ علم و فضل میں ایک ممتاز شخصیت تھے علوم ظاہری اور علوم باطنی میں کمال حاصل تھا حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تمام علوم اور باطنی فیوض اپنے والد ماجد سے حاصل کیے والد ماجد نے آپ کو سب سے پہلے قرآن حکیم کا درس دیا اور قرآن حکیم پڑھایا اس کے ساتھ ساتھ آپ کو عربی فارسی اور اُردو کی کتب کی تعلیم سے بھی روشناس کرایا جب آپ کا تعلیم میں شوق بڑھایا تو پھر آپ نے تفسیر، حدیث اور فقہ کی کتب سےاستفادہ کیا اور اعلیٰ تعلیم کی روشنی سے اپنے آپ کو منور کیا آپ کی طبیعت کا میلان تصوف کی طرف بھی تھا چنانچہ آپ تصوف کے موضوع پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ نہایت ذوق و شوق سے کرتے تھے۔ جب بھی فرصت ہوتی تو بزرگانِ دین کی کتب کے مطالعہ سے مستفید ہوتے۔
بیعت و خلافت:
حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد ماجد حضرت نور محمد تیراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سلسلہ نقشبندیہ کے باکمال بزرگ تھے اور ظاہری و باطنی علوم سے مکمل آگاہی رکھتے تھے بے شمار لوگ ان سے فیض یاب ہوئے تھے چنانچہ حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی سلسلہ نقشبندیہ میں اپنے والد ماجد سے فیوض و برکات حاصل کیے اور والد ماجد کے دست حق پرست پر بیعت کی بیس برس کی عمر میں آپ کو والد ماجد نے خرقہ خلافت مرحمت فرمایا اور سلسلہ نقشبندیہ میں تلقین و اشاعت کی تاکید فرمائی اپنے والد ماجد کے زیر سایہ ریاضت و عبادت اور اوراد و وظائف میں زیادہ وقت گزارتے تھے والد ماجد نے بھی آپ پر خصوصی نوازش کی آپ کی روحانی تربیت اس انداز سے فرمائی کہ آپ پر باطنی علوم کے دروازے کھل گئے اور علم و عرفان کا ایک سمندر آپ کے قلب میں موجزن ہوگیا اور چھوٹی عمر میں ہی آپ درجہ کمال پر فائز ہوگئے زیادہ تر وقت عبادت الٰہی میں گزرتا تھا۔
عبادت و ریاضت و دیگر معمولات:
حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر اللہ رب العزت نے علم و عرفان کے دروازے کھول دیے اور آپ تصوف کے مختلف مراحل و مراتب طے کرتے ہوئے درجہ کمال پر فائز ہوگئے تو اپنا زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت میں گزارنے لگے آپ کے معمولات اس طرح سے تھے کہ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد طلوع آفتاب تک مراقبہ کی حالت میں رہتے اس کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے اور اڑھائی سپارہ پڑھتے دوپہر کے کھانے سے قبل اپنے بزرگوں کا ختم پاک کراتے پھر کھانا تناول فرماتے اور قیلولہ کرتے تھے۔ جب نماز ظہر کا وقت ہوتا تو اس سے پہلے اُٹھ جاتے اور با جماعت نماز ادا فرماتے نماز سے فارغ ہونے کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے اس کے بعد اکثر عقیدت مند آپ کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل کرتے اور اپنی مشکلات آپ کے سامنے بیان کرتے چنانچہ آپ کسی کے حق میں دعا فرماتے کسی کو پانی دم کرکے دیتے اور کسی کو تعویز لکھ کر دیتے تھے اسی ثناء میں نماز عصر کا وقت ہوجاتا تو نمازِ عصر ادا فرماتے۔ نماز عصر کے بعد ختم مبارک حضرت امام محمد معصوم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پڑھتے آپ کی اس مجلس پاک میں صرف خاص احباب ہی شریک ہونے کی سعادت حاصل کرتے تھے پھر مغرب کی نماز ادا فرماتے اس کے بعد شام کا کھانا تناول فرماتے اور عشاء کے وقت جماعت کے ساتھ نماز عشاء ادا فرماتے آپ ذکر جہری کی بجائے ذکر خفی میں زیادہ تر مشغول رہا کرتے تھے آپ کا قلب مبارک ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مصروف رہتا تھا جب کوئی آپ کو دیکھتا تو بظاہر آپ خاموش بیٹھے ہوئے دکھائی دیتے مگر دیکھنے والے آپ کو آپ کے قلب سے ذکر الٰہی کی ہلکی سی آواز نکلتی ہوئی سنائی دیتی تھی، آپ کے روزانہ کے معمولات میں یہ بھی شامل تھا کہ آپ بلاناغہ ہر روز دلائل الخیرات اور حزب البحر پڑھا کرتے تھے۔
اولیاء کرام سے محبت:
حضرت بابا جی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بچپن سے ہی اولیاء کرام سے محبت و عقیدت رکھتے تھے اور تصوف کی طرف مائل تھے اکثر بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضری دیتے اور فیوض و برکات سے مستفید ہوتے آپ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے عظیم المرتبت بزرگ حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے آپ کا معمول تھا کہ ہر سال ان کے عرس مبارک میں شرکت کی غرض سے ایک قافلہ تیار کرتے اس قافلہ میں آپ کے خلفاء اور مریدین کی خاصی تعداد شامل ہوتی تھی آپ اس قافلے کی قیادت کرتے ہوئے سرہند شریف جاتے اور عرس کی تقریبات میں عقیدت و محبت سے حصہ لیتے وہاں پر حسبِ استطاعت لوگوں کی خدمت بھی کرتے آپ اپنا زیادہ تر وقت حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار مبارک پر مراقبہ کرتے ہوئے گزارتے تھے۔
ارشادات عالیہ:
آپ کے ارشادات عالیہ بہترین اقوال زریں ہیں تبرک کے طور پر چند درج ذیل ہیں چنانچہ فرماتے ہیں۔
۱۔ دوستوں کو آپس میں کینہ و حسد نہیں رکھنا چاہیے۔
۲۔ سفر و حضر میں ذکر الٰہی جاری رکھو۔
۳۔ آپ اکثر یہ حدیث پاک بیان فرمایا کرتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اللہ رب العزت اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ جو شخص میرے حکم پر راضی نہیں اور میری بلا پر صابر نہیں اور میری نصیحت پر شاکر نہیں اور میری عطا پر قانع نہیں پس وہ شخص میرے سوا کسی اور کو اپنا پروردگار بنالے۔‘‘
۴۔ اپنا باطن درست کرو اس لیے کہ مرنے کے بعد باطنی اعمال ہی نجات کا باعث ہوں گے۔
۵۔ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ کے لیے چاہو مقصد کے لیے یاد کرنا تو مقصد کی یاد ہے۔
رشد و ہدایت:
آپ کے دست رشد و طریقت پر بے شمار لوگوں نے بیعت کی لاتعداد راہِ حق کے متلاشی آپ کی صحبت کاملہ کے طفیل منزل حقیقی کو پاگئے آپ سلسلہ نقشبندیہ کے جامع کمالات بزرگ تھے چونکہ خود بھی حضور سرکارِ مدینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت مطہرہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرتے تھے اس لیے دوسروں کو بھی اسی کی تلقین فرماتے خلاف شرع کاموں پر سخت نا پسندیدگی کا اظہار کرتے اور اپنے پاس آنے والوں کو سنت مطہرہ کی اتاع کرنے کی تعلیم دیتے قرآن و سنت کے مطابق زندگیاں گزارنے کا درس دیتے اور حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کا سبق لوگوں کے اذہان و قلوب میں ڈالتے جو کوئی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجاتا اس پر خصوصی نوازش کرتے اور بڑی توجہ سے اس کی تربیت کرتے تھے آپ نے سلسلہ رشد و ہدایت کی ترقی کے ضمن میں دور دراز کے علاقوں کے سفر بھی کیے دوران سفر آپ مسجد میں قیام فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اس لیے قیام بھی اسی کے گھر میں ہے آ پ کی سیرت و کردار اور آپ کے دینی تبلیغی جذبے کی قدر کرتے ہوئے بہت سے جید علماء کرام بھی آپ کے حلقہ ارادت میں دخل ہوئے اور آپ کی صحبت کاملہ کی برکت کے طفیل فیوض و برکات سے مستفید ہوئے آپ اپنے وقت کے اجل اولیاء کرام میں شمار ہوتے تھے بعض طالبان حق آپ کی ایک ہی نگاہ کاملہ سے صاحب ارشاد بن گئے۔
خلفاء کرام:
آپ نے لاتعداد طالبانِ حق کی تربیت فرمائی ہزار ہا کی تعداد میں خلقتِ خدا نے آپ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد ماجد کے وصال کے بعد سجادہ نشین ہوئے تھے اور مسند رشد و ہدایت پر متمکن ہوئے تھے آپ کے خلفاء کرام نے آپ کے بعد بھی آپ کے جاری کردہ سلسلہ رشد و ہدایت کو جاری و ساری رکھا اور سلسلہ نقشبدیہ کی ترویج و اشاعت میں سرگرم عمل رہے آپ کے خلفاء کرام درج ذیل ہیں۔
۱۔ حضرت خواجہ احمد نبی نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ آپ کہ صاحبزادے بھی تھے اور ’’زلفاں والی سرکار‘‘ کے نام سے مشہور تھے اقوال و افعال اور لباس سنت رسول کریم علیہ الصلوٰۃ واسلام کے مطابق تھے اپنے والد ماجد حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرح سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے احیاء میں سرگرم عمل رہتے تھے اور تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں دور دراز کے علاقوں کے سفر کیے اور اس مقصد کے لیے دہلی، کشمیر، اجمیر شریف، امر تسر، گوردا سپور، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور افغانستان میں بھی گئے اپنی عمر مبارک کے آخری بیس برس لاہور کی آبادی و سن پورہ میں گزارے کیوں کہ ان کے کافی مریدین لاہور میں تھے اور ان کے اصرار پر لاہور میں اقامت اختیار کی اپنے ایک عقیدت مند بابا وسن کے کنویں پر تشریف لائے اور ایک حجرہ میں عبادت الٰہی میں مصروف ہوگئے جس مسجد میں نماز ادا فرمایا کرتے تھے وہ جگہ چوک پیراں والا کے نام سے مشہور ہوگئی آپ نے وسن پورہ لاہور میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی ترویج و ترقی کے لیے بہت کام کیا لاہور میں ہی وصال ہوا نماز جنازہ حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ الوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پڑھائی اور بعد میں آپ کا مزار مبارک چورہ شریف میں بنایا گیا۔
۲۔ امیر ملت حضرت حافظ سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۳۔ حضرت حاجی جماعت علی شاہ لاثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۴۔ حضرت حافظ عبدالکریم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عید گاہ راولپنڈی۔
۵۔ حضرت محمد حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گجرات۔
۶۔ حضرت حافظ فتح الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۷۔ حضرت مولوی غلام یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۸۔ حضرت سید اکبر شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۹۔ حضرت مولوی غلام محمد بگوی لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۱۰۔ حضرت راجہ شیر باز خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۱۱۔ حضرت مولوی محمد حسین پسروری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۱۲۔ حضرت مولوی غلام نبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۱۳۔ حضرت بابا محمد خان عالم باؤلی شریف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
وصال مبارک:
حضرت بابا فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس دنیائے فانی میں اپنی دنیاوی زندگی کے ماہ وسال گزار کر ۲۹ محرم الحرام ۱۳۱۵ھ بمطابق یکم جولائی ۱۸۹۷ء میں جمعرات کے دن عصر کے وقت وصال فرما گئے آپ کا مزار مبارک چورہ شریف میں واقع ہے جہاں روزانہ لاتعداد عقیدت مند مزار مبارک پر حاضری کی سعادت حاصل کرکے مستفید ہوتے ہیں۔
(مشائخ نقشبند)