حضرت ابراہیم بلخی

حضرت ابراہیم بلخی رحمۃ اللہ علیہ

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بلخ کے عظیم صوفیا میں ہوتا ہے۔ سلسلہ نسب اسطرح ہے:ابراہیم بن یوسف بن میمون بن قدامہ بلخی ۔

سیرت وخصائص:اپنے وقت کے شیخ اجل امام اکمل محدث ثقہ صدوق تھے۔ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں آپ کو بڑی عزت و حرمت حاصل تھی،مدت تک امام ابو یوسف کی صحبت میں رے یہاں تک کہ اپنے ہمسفر وں پر فائق ہو گئے۔ حدیث کو آپ نے سفیان بن عینیہ و وکیع واسمٰعیل بن علیہ اور حماد بن یزید سے سنا اور امام مالک سے صرف یہ ایک حدیث روایت کی: عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما کل مسکر خمرو کل مسکر حرام۔ سبب یہ ہو اکہ جب آپ امام مالک کے پاس حدیث سننے کےلیے آئے تو وہاں قتیبہ بن سعید موجود تھے جنہوں نے امام مالک سے کہہ دیا کہ یہ شخص ارجاء (یعنی فرقہ مرجیہ سے اسکا تعلق ہے؛غلط نسبت ظاہر کردی)ظاہر کرتا ہے،پس انہوں نے آپ کواپنی مجلس سے اٹھا دیا جس سے آپ ان سے صرف یہی ایک حدیث سماعت کر سکے ۔ آپ نے حدیث کو بعد فقہ کےحاصل کیا تھا۔ آپ کا دستو ر تھاکہ روز مرہ بعد نماز فجر کے بلخ کے آس پاس گشت کرتے اور جو قبر گِری ہوئی دیکھتے اس کو اپنے ہاتھ سے مرمت کرتے اور راستوں اور پلوں کو صاف و درست کرتے ۔ویرانہ میں ایک مسجد تھی وہاں آپ ہمیشہ ظہر کے وقت جاکر آذانِ نماز کہتے اور شہر کے فقیہ و عابدو ہاں جمع ہو کر آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔

 ایک دفعہ بلخ  کے امیر نے فقہاء سے کہا کہ میں تمہارے شیخ سے چند امور دریافت کر نا چاہتا ہوں مگر کیاکروں کہ وہ میرے پاس نہیں آتے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تیرے پاس کیا بلکہ کسی کے پاس بھی نہیں جاتے ۔ اس نے کہا کہ میں  چاہتا ہوں کہ ان کے پاس خود جاؤں ۔ انہوں نے کہا کہ یوں تو وہ تجھ سے بات بھی نہیں کرینگے ، اگر تو ظہر کے وقت اس ویران مسجد میں آئے او ربعد نماز کے ان سے رحمک اللہ کہے تو امید ہے کہ شاید تیری طرف متوجہ ہوں ،اس نے ایسا ہی کیا اور اپنی مشکلا ت کے عرض کیا کہ میں بلخ کا حاکم ہوں ،اگر آپ کو مجھ سے کچھ حاجت ہو تو آپ بلا تامل ارشاد فرمائیں ۔شیخ یہ سن کر روپڑے اور کہا میرا اندرونی تمام خون  پانی ہو گیا ہے کہ میں نے تیرے ایک سپاہی کو دیکھا ہے کہ اس نے اپنے باز کو ایک کبوتر پر چھوڑا تھا جس کے چنگل کے صدمے  سے وہ بیچا رہ خاک میں لوٹتا تھا اور وہ رحم نہیں کرتا تھا ۔امیر نے یہ سن کر اپنی قلم رو میں عام حکم دے دیا کہ آئندہ کوئی شخص باز یا کتّا وغیرہ جانور شکاری اپنے پاس نہ رکھے ۔ کہتے ہیں کہ جب آپ واسطے نماز کے باہر تشریف لاتے تو کاغذ و قلم اپنے ساتھ اس خیال سے اٹھا لاتے کہ مباد ا کوئی مسئلہ پوچھ بیٹھے اور اس کو جواب حاصل کرنے میں دیر ہو ۔ امام نسائی نے اپنی صحیح میں آپ سے روایت کی اور آپ کو ثقہ بتلایا۔

وصال: آپ کی وفات 241ھ میں ہوئی ۔" قلزم دین" آپ کی تاریخ وفات ہے۔ (حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء