حضرت خواجہ خدا بخش ملتانی

حضرت خواجہ خدا بخش ملتانی ثمہ خیر پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

وصال صفر ۱۲۵۰مزار خیر پورٹا میوالی بہادلپور

حضرت خواجہ خدا بخش خیر پوری سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے بزرگوں میں سے ہیں جنہیں بارہویں صدی ہجری میں زہد تقویٰ علم وفضل اور روحانی فیوض و برکات میں دور و نزدیک میں بے پناہ مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ آپ حافظ جمال اللہ ملتانی چشتی کے اکا بر خلفاء سے ہیں۔

ولادت :

آپ کے والد ماجد کا نام مولانا قاضی جان محمد تھا جو عالم باعمل باشرع اور صاحب زہد و تقویٰ تھے اور قصبہ تلنبہ میں رہتے تھے۔ وہیں آپ کی ۱۱۵۰ ہجری میں ولادت ہوئی۔

تحصیل علم:

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی پھر ذرا بڑا ہونے پر مزید تعلیم کے لیے والد ماجد کے کہنے پر دہلی میں تشریف لے گئے اور مدرسہ رحیمیہ دہلی میں حضرت شاہ ولی اللہ کی شاگردی اختیار کر لی۔ اور ان سے دینی علوم کی تکمیل کی دہلی میں قیام کے دوران تحصیل علم کے ساتھ ساتھ آپ نے چند دیگر مشائخ سے بھی استفادہ حاصل کیا۔

درس تدریس کا سلسلہ:

علم حاصل کرنے کے بعد واپس تلنبہ تشریف لے آئے اور والد گرامی کے زیر سایہ دہیں زندگی کے شب و روز گزارنے لگے کچھ عرصہ کے بعد یہاں سے نقل مکانی کر کے ملتان میں سکونت پذیر ہوگئے ملتان کے محلہ کمہار پورہ میں آپ کی رہائش تھی یہیں آپ نے درس و تدریس کا آغاز کیا تھوڑے عرصہ میں آپ کے درس کی شہرت گردو نواح میں پھیل گئی اور طالب علم دور دور سے آپ کے پاس آنے لگے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے چالیس سال تک ملتان میں قرآن و حدیث کا درس دیا اور ہزاروں لوگ آپ کے علمی فیض سے مستفید ہوئے درس و تدریس کے دوران ہی آپ کی طبیعت   روحانیت کی طرف مائل تھی مگر کسی پیر کامل تک رسائی نہ ہوئی ۔تلاش مرشد کی خاطر آپ نے کئی مقامات کا سفر بھی کیا اور متعد بزرگوں سے ملاقات بھی کی مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔

بیعت:

بڑی تلاش اور جستجو کے بعد آپ حافظ جمال اللہ ملتانی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ آپ کی بیعت کے بارے میں یوں کہا جاتا ہے کہ جب آپ کو زمانہ کی کچھ پریشانیوں نے آگھیرا اور دلی سکون حاصل نہ ہوا تو آپ نے دل میں ارادہ کیا کہ کسی شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت سے مشرف ہوکر راہ حق کا متلاشی ہوجانا چاہیے کیونکہ ان کا یقین تھا کہ شیخ کامل کی امداد کے بغیر صفائی باطن اور کشور کارناممکن ہے۔/آپ نے سنا کہ حضرت گنج شکر کی اولاد میں سے مولوی عبدالحکیم صاحب چشتی گڑی اختیار حاں میں ایک شخص رہتے ہیں جو بہت بڑے عالم اور قصیدہ بردہ کے عامل ہیں۔اس لیے حصول مطلب کے لیے ان کی خدمت میں روانہ ہوئے مگر جب شجاع آباد میں (جو ملتان سے اٹھا ہ میل جنوب کی طرف ہے) پہنچے تو وہاں کے لوگ آپ کی خدمت میں جمع ہوگئے۔ اور التماس کی کہ چاند دن یہاں ٹھہریں اور اپنے علم دفن سے ہمیں بھی فیض بخشیں ۔ ان کے التماس پر آپ دو ین ماہ وہاں ٹھہر گئے۔

 

سنا ہے کہ مولوی عبدالحکیم کے شاگردوں میں سے ایک شخص یہاں رہتا ہے۔ جو قصیدہ بردہ کے عمل میں مشہور ہے۔ ایک دن اس سے پاس گئے اور اپنامطلب بیان کیا اور قصیدہ بردہ کے عمل کی اجازت مانگی ۔ اس نے خیال کیاکہ شاید آپ کا مطلب فراخ روزی حاصل کرنے کا ہے۔ ایک بیت پڑھا دیا اور اس کے عمل کی ترتیب بتائی۔ جب آپ نے اس کا وظیفہ کیا تو تنگ دستی رخصت ہوگئی اور ایک دو روپیہ روزانہ فتوحات کے طورپر حاصل ہوجاتے تھے۔ استاد کی خدمت میں پھر آئے اور کہا کہ اس وظیفہ سے میری غرض صرف دنیاوی تسخیر نہ تھی بلکہ میں چاہتا ہوں کہ شیخ کامل کی زیارت نصیب ہو جس سے کہ میں فیوض باطنی حاصل کرکے مدعائے اصلی پر پہنچوں ۔ استاد نے پھر وہی بیت ایک اور طریقہ پر بتلا دیا۔ جب آپ نے نئی ترتیب سے وظیفہ شروع کیا توخواب میں ان کو حضرت حافظ محمد جمال اللہ صاحب ملتانی کی زیارت نصیب ہوئی۔ جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو روح پر ایک خوشی اور مسرت کا عالم طاری تھا ۔ یہ شعر پڑھا۔

یاردرخانہ و من گر و جہاں مے گردم

آب درکوز و من تشنہ لباں میگر دم

 اسی دن ملتان روانہ ہوئے ۔لیکن معلوم ہوا کہ جناب حافظ صاحب وہاں نہیں ہیں اور مہار شریف تشریف لے گئے۔ جب کہ ایک دوست کی اطلاع پر آپ واپس ہوئے تو بیعت کے متعلق حقیقت یہ ہے کہ ایک دن حضرت قبلہ عالم صاحب حضرت حافظ صاحب  اور دیگر علماء حضرت مولانا فخر جہاں صاحب  کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے ذکر آیا کہ ملتان حضرت بہاؤ الدین زکریا کے قبضے میں ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ وہاں کسی اورولی کا عمل دخل ہو۔ بلکہ وہ کسی کامل ولی کی اقامت کو بھی پسند نہیں کرتے ۔ یہ سن کر جنا ب مولانا صاحب خاموش رہے اور مثبت منفی کچھ بھی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن جب انہی صاحب کے ساتھ مجلس آراستہ ہوئی تو جناب مولانا صاحب نے حضرت قبلہ عالم صاحب کو مخاطب کیا اور کہا کہ میاں صاحب اس سے پہلے بے شک ملتان حضرت بہادوالدین زکریا کے قبضے میں رہا ۔ مگر آج رات ملتان ہمیں بخشا گیا۔ تم اپنے آشنا حافظ محمد جمال اللہ صاحب کو حکم دو کہ بلادریغ ملتان چلے اور خود غوث پاک کے مزار پر بیٹھ کر طالبان طریقت کو بیعت سے مشرف کریں۔ چنانچہ آپ جب مہار شریف تشریف لائے تو حضرت حافظ صاحب کو ملتان بھیجا اور فرمایا کہ جو شخص بھی تمہاری بیعت کرنا چاہے بلا تامل اس کو حضرت بہاء الدین ذکریا کے حضور میں بیعت سے مشرف کرو۔ حضرت حافظ صاحب جب ملتان آئے اور غوث صاحب کے دروازہ پر بیعت کا سلسلہ جاری کیا کسی نے مولانا صاحب کو اطلاع دی ۔دہلی دروازہ پر آکر ملیں چنانچہ آپ آئے اور حافظ صاحب نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر جناب غوث بہادالحق کی خدمت میں لائے۔ بیعت سےمشرف کیا اور روحانی نعمتیں عطا فرمائیں۔

روحانی مدارج:

حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کی مرید اختیاری کرنے کے بعد سلوک کے مدارج طے کرنے شروع کیے۔ بے حد ریاضت و عبادت کی رات دن اللہ کی یاد میں بسر کرنے لگے۔ مرشد سے صحبت کا غلبہ دن بدن بڑھتا چلا گیا آہستہ آہستہ آپ روحانیت کے مرتبہ کمال کو پہنچ گئے اور علم کی شہرت تو پہلے ہی تھی مگر طریقت کی راہ گامزن ہونے سے آپ کو اور بھی شہرت مل گئی۔

خواجہ نور محمد مہاروی کی خدمت عالی میں :

ایک دفعہ جناب حافظ صاحب  نے مہار شریف کا ارادہ کیا ۔ اور مولانا خدا بخش صاحب کو بھی ساتھ لے لیا۔ ابھی مہار شریف میں نہ پہنچے تھے کہ جناب قبلہ عالم   صاحب دوستوں سے کہنے لگے کہ اب مہار شریف میں نہ پہنچے تھے کہ جناب قبلہ عالم صاحب دوستوں سے کہنے لگے کہ اب کے حافظ صاحب عجیب تحفہ لیے آرہے ہیں۔ سب نے سمجھا کہ ملتان کی کوئی بنی ہوئی چیز ہوگی۔ لیکن حضور نے فرمایا کہ نہیں یہ تحفہ مولانا صاحب کی ذات خاص ہے ۔ جسے حافظ صاحب میرے لیے لارہے ہیں۔ الغرض جب مولانا پہنچے اور زیارت سے مشرف ہوئے تو پہلی ہی صحبت میں منظور ہوگئے اور حضرت قبلہ صاحب نے فرمایا کہ یہ شخص مشنٰے سلسلہ عالیہ ہے اور حافظ صاحب سے فرمایا کہ تم نے ایک بڑا شیر اپنے جال میں پھنسا یا ہے بارہا حضرت قبلہ عالم صاحب  اپنی زبان فیض ترجمان سے مولانا صاحب کے اوصاف بیان فرماتے اور ان کی فطری قابلیت اور استعداد اظہار فرماتے تھے۔

بلند مرتبے کا حصول:

سنا ہے کہ جناب مولانا حضرت قبلہ عالم صاحب کی خدمت میں بیس دفعہ مشرف ہوئے ہر ہر مرتبہ نیا مرتبہ پایا ۔ چنانچہ حضرت حافظ صاحب بھی بارہا فرماتے تھے کہ مولانا صاحب کو میرے ساتھ تو فقط بیعت کا تعلق ہے۔ ان کو جو بلند مرتبے حاصل ہوئے ہیں خود حضرت قبلہ عالم صاحب سے ہوئے۔

علمی کمالات:

روایت ہے کہ جذب اور سکر آپ کے حال پر تنا غالب ہوا کہ چلتے چلتے راستہ بھول جاتے تھے۔ ایک دن جناب حافظ صاحب نے ان کی یہ کیفیت حضرت قبلہ عالم صاحب  کے گوش گزار کی ۔ فرمایا ان کے اور تمام شغل معطل کرا دو۔ اور صرف تدریس کے کام پر مامور کرو۔ جو ہر خاص و عام کے لیے   بہرہ تمام کا مرحب ہے۔ اس لیے مولانا صاحب اپنے بزرگوں کی ہدایت کے مطابق علوم ظاہری کی تدریس میں مشغول ہوئے ۔ تفیر ،حدیث،فقہ،عقائد ،علم ہیت، صرف و نحو، منطق و معانی ، بدیع و بیان وغیرہ جملہ علوم متعارفہ کی تعلیم دیتے تھے اور لوگوں کی فیض رسانی میں مشغول رہے اور آپ کے علمی کمالات کے چرچے خاص و عام میں پھیل گئے۔ عنفوان شباب سے لے کر اخیر بڑھاپے تک لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور لوگوں کے فیض دینے میں کوئی بھی دقیقہ فردگزاشت نہیں کیا۔ ہمیشہ رضائے الہٰی کے طالب رہے۔ ان لوگوں کی تعداد بے شمار ہے۔ جنہوں نے آپ کے مدرسہ سے فارغ ہوکر دستار فضیلت باندھی ، عام طالبعلموں کا تو شمار نہیں ۔آپ جو دو کرم اور فیض اتم کے ایک سمندر بے کنار تھے جن کے علوم کے سیلاب سے ہزاروں پیاسوں نے اپنی طلب اور شوق کی پیاس بجھائی۔ ان کے دل کا ایک ایک قطرہ درِ نایاب تھا۔

کتاب توفیقیہ:

ضعف بدنی کے باعث جب آپ میں درس و تدیس کی طاقت نہ رہی تو درود و ظائف سے جو وقت   بچ اپنی مشہور تصنیف تو فیقیہ کے لکھنے میں مصروف رہتے۔ یہ وہ کتا ب ہے جس مین شریعت کے احکام طریقت کے آدابِ حقیقت اور معرفت کے اسرا بیان کیے ہین۔ اس رسالہ میں توحید کے ایسے دقیق مسئلے بیان کیے گئے ہین کہ راز دار ان معرفت نے کم لکھے ہوں گے جو بھی صاحب ذوق آپ کے پاس آتا ۔ اسے اس کو مسودہ دکھاتے اور فرماتے کہ ان کی تصحیح کرو ۔ بعض کو تو نایاب موتی ہاتھ لگ جاتا۔ اور بعض کا انکار اہل اللہ کے کمالات پر ٹوٹ جاتا اور بعض بیچارے گمراہی اور ضلالت میں رہ کر محروم رہ جاتے ۔آخیر عمر میں جب لکھنے پڑھنے سے رہ گئے تو اذکار اور ہدایت سے لوگوں کو محفوظ کرتے رہے۔

توحید کا یہ حال تھا کہ دوسروں کو اپنا نفع سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ مدعی جب آپ کے کمال و جمال کا تماشا دیکھتے تو دعوے سے باز رہ جاتے جیسا کہ آئینہ میں انسان اپنی صورت دیکھ پاتا ہے۔ آپ کا وجود ہی کرامت تھا۔ دنیا کی ایک ایک چیز کو اپنازجز دسمجھتے تھے اس لیے اس کی ترقی میں کوشش کرتے ۔ دنیا کے شیشہ میں آپ کی نظر مشہور حقیقی کے سوا کچھ اور نہ دیکھتی تھی اس لیے دنیا کا ایک ایک ذرہ آئینہ جمال تھا۔ تو فیقیہ میں لکھا ہے کہ جو چیز دیکھتے سمجھے کہ جلوہ ذات مقدس کا ہے۔ اور یہ کتاب آپ کے حال کا مجموعہ ہے قال کا نہیں۔

اخلاقی وصف:

اگر کوئی شخص آپ سے غصے ہوتا ۔ باوجودیکہ اس کا غصہ بے وجہ ہوتا تاہم اس کی تلافی اس طرح کرتے جس طرح ایک دوست اپنے دوست سے کرتا ہے۔ آپ فرماتے تھے۔

ایک دن میرے استاد نے میری کتا ب پر لکھ ڈالا کہ ایں کتاب حق مسکین خدا بخش  است یہ پڑھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔

جو شخص حضورکی خدمت میں دوزانوآکربیٹھتا اسے کھل کر بیٹھنے کا حکم دیتے ۔ اس بارے میں ایک قصہ بیان کرتے تھے کہ میں ایک بے پرواہ شخص کی خدمت میں گیا دو زانو ہوکر بیٹھا رہا ۔ یہاں تک کہ میرے گھٹنوں میں درد پڑگیا۔ لیکن اس شخص نے اپنی زبان سے مجھے کھل کر بیٹھنے کا حکم نہ دیا ۔ تب سے میں اپنی تکلیف یاد کر کے کسی کو بھی اس تکلیف میں ڈالنا پسند نہیں کرتا ۔ چھوٹا بڑا ہند و مسلمان جو بھی آپ کے پاس آتا۔آپ کھڑے ہوکر اس کی تعظیم کرتے تھے۔ ایک دن ایک فاضل آپ کی خدمت میں کتاب پڑھ رہا تھا ۔ ایک ہند آیا تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کو بھی اٹھنا پڑا۔ چونکہاس کو حرجہ ہوا تھا ۔ کہنے لگا کہ حضرت کفار کی تعظیم تو شرعاً منع ہے۔ فرمایا ، کیا کروں کہ تعظیم کے لیے اٹھنا میری عادت بن گئی ہے۔

عجز کا ایک واقعہ:

آپ کی سادگی کمال کو پہنچ چکی تھی۔ ایک پٹھان آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ حضرت میرا ارادہ کہیں حد سفر کو جانے کا ہے۔ کسی فقیر کو فرمادیجیے گا کہ وہ میرے گھر کا ضروری کام کاج اور سود ا لاکر دیا کرے۔میری واپسی تک ہوتا رہاہے ۔ آپ نےمنظور فرمایا۔ وہ گھر میں ہدایت دے کر چلا گیا۔ اس کے بعد آپ روزانہ اس کے دروازہ پر جاتے ۔لونڈی سے کام کاج پوچھتے اور سر انجام دیتے رہے۔ ان پر دہ نشینوں کو تو خبر نی نہ تھی کہ یہ آپ ہیں۔ یا کوئی فقیر وہ بھی بے دھڑک بتا دیتی تھی۔ ایک دن لکڑی نہ تھی تو آپ لکڑی کا ایک گٹھا سر پر رکھے ہوئے اس کے در پر آئے۔ اور آواز دی۔ اتنے میں ایک پٹھان بھی سفر سے واپس پہنچ گیا اور حضور کو اس حالت میں دیکھا تو بہت ہی شر مسار ہوا۔اور معذرت کرنے لگا۔حضور نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں میں بھی تو اک فقیر ہوں۔

توکل:

آپ کے توکل کا یہ حال تھا کہ شروع میں لنگر کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔ ایک دفعہ آپ کے حرم محترم نے کپڑوں کے چند تھان فقراء میں تقسیم کردیااور جب گھر سے اس کی قیمت طلب کی گئی تو فرمایا کہ میں نے ایک سچے آدمی کودیا ہے ۔ وہ قیمت پہنچا دے گا۔ دو تین دن کے بعد ایک شخص سکنہ ڈیرہ اسمٰعیل خاں نے آکر بہت سے روپے نذر کے طور پر دیے ۔ ان میں سے مناسب رقم گھر میں دی ۔ اور باقی فقیروں میں تقسیم کردی۔

کرامات

آپ سیف زبان تھے جو بات منہ سے نکالتے اللہ اپنی رحمت سے پوری کردیتا اور آپ کی ذات اقدس دوسروں کے لیے سراپا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ تھی آپ کے کشف و کرامات و خوراق عادات بے پناہ ہیں۔ ان میں چند ایک حسبِ ذیل ہیں۔

۱۔ باطنی کشف کا واقعہ:

میاں عبداللہ آپ کے خادم کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بیٹھے بیٹھے آپ نے فرمایا کہ میرا گھوڑا زین کرو۔ کہ میں احمد پور جانا چاہتا ہوں۔ لوگ حیران ہوئے اور وجہ معلوم نہ ہوسکی ۔ لوگ مقرخ بھی ہوئے ، مگر پرواہ نہ کی اور چلے گئے۔ ہم میں سے بعض ان کےپیچھے دوڑتے ہوئے پہنچے۔ وہاں جاکر سنا کہ خان محمد صادق حاں نواب دالیے بہاولپور سخت بیمار ہیں بلکہ نزع کی حالت میں ہیں۔ ان کا حال دگرگوں ہے اور زبان سے داد فریاد کے کلمات جاری ہیں۔ خود اس کے ڈیرہ پر پہنچے وضوکیا اور منہ مبارک ان کے کان کے قریب لے جا کر کلمہ شریف تلقین کیا ۔خان صاحب فوراً چپ ہوگئے اور کلمہ طیبہ کا ذکر بہ آواز بلند کرنے لگے۔اور اسی حالت میں ہی راہے ملک بقا ہوئے پھر حضور نے اپنی نگرانی میں ان کی تجہیز و تکفین کی۔ اور ان کے بیٹے بہاول خان کو ان کی بجائے مسند ریاست پر بٹھلایا۔ ان تمام کاموں سے فارغ ہو کر خیر پور شریف تشریف لے آئے۔ جناب قاضی محمد عاقل صاحب فرماتے ہیں کہ خان صاحب آپ کے یاروں میں سے تھے ۔ باطنی طور پر اس امر کاپتہ آپ کو ہوگیا تھا۔ اس لیے وہاں سے اتنی لمبی مسافت طے کر کے صرف اس کی ہدایت کے لیے پہنچے ۔

۲۔ ایک وقت میں دو مقاما ت پر:

حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کے ایک مرید خاص حاجی محمد نصرت کا بیان ہے کہ جب میں حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوکر واپس آیا تو علاقہ حیدر آباد میں پہنچا دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں۔ کسی نے کہا کہ چند دن سے ایک عارف کامل یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ہزار لوگ ہندو مسلم ان سے فیض پا رہے ہیں۔ مجھے بھی ان کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا ۔جب میں قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک بزرگ بعینہٖ حضرت مولانا صاحب کی ہم صورت بیٹھے ہیں اور لوگ ستاروں کی طرح ماہ منیر کے گرد حلقہ باندھے کھڑے ہیں۔ میں حیران ہو کر اگے گیا تو بالکل مولانا صاحب کا ہم شکل پایا یہ بزرگ لوگو ں کے ساتھ مشغول تھے اور کبھی بھی گوشہ چشم میری طرف بھی کرلیتے تھے۔ جب فارغ ہوئے تو میری طرف توجہ فرمائی اور کہنے لگے کہ حافظ نصرت حیران ہوکر دور کیوں کھڑے ہو قریب آؤ کہ میں بھی تمہارا پیر بھائی ہوں۔ تب مجھے یقین ہواکہ یہ صاحب بذات خود مولانا صاحب ہی ہیں، قدم بوسی کی اور عرض کی کہ حضوریہاں کیوں کر تشریف لائے۔ فرمایا کہ مجھے امرالہٰی ہوا کہ جاؤ اور ان لوگوں کو فیض پہنچاؤ۔ لیکن دوست یہ راز ظاہر کرنے کا نہیں ۔ ورنہ تمہارا خود نقصان ہوگا ۔ الغرض میں روانہ ہوا اور لمبی لمبی مسافتیں بے کر کے خیر پور شریف پہنچا ۔ یہاں آیا اور دیکھا تو حضرت محبوب اللہ مولانا صاحب ظاہری شکل میں تشریف فرما ہیں۔ پھر قدم بوسی کی تو آپ مسکرادیئے اور مجھے ملے میں نے خادموں سے پوچھا کہ ان دنوں جناب مولانا صاحب کہیں تشریف بھی لے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں تب سے میں نے سمجھا کہ ولی اللہ عام لوگوں کی طرح ایک جسم میں مقید نہیں ہوتے بلکہ متعد د جسموں کی صورت میں جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں۔

دل کی پوشیدہ بات کہہ دی:

مولوی عبید اللہ صاحب حکیم خدا بخش خیر پوری سے مروی ہے کہ مولوی غلام محمد جناب حافظ صاحب کے بھانجے تھے ۔ جناب حافظ صاحب کی خدمت میں پڑھتے تھے۔ ایک بار سبق پڑھ رہے تھے۔ انکے دل میں کوئی خیال گزرا اور توجہ اکھڑ گئی۔آپ نے نورِ معرفت سے معلوم کرلیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ لنگی کے معاملہ سے دل کو فارغ کرو۔ اور سبق پر توجہ دو۔ لنگی تمہیں مل جائے گی۔ حاضرین حیران ہوئے کہ ایک معمولی کلمہ آپ کی زبان پر کیوں کر جاری ہوگیا۔ بے چارہ مولوی اپنے کیے پر نادم ہوا۔ اور سبق سے فارغ ہوکر بیان کیا کہ ایک شخص نے دو لنگیاں حضور کی خدمت میں نذرگزاریں ۔آپ نے دو لنگیوں کو امانت رکھ دیا۔ جب میں حاضر ہوا تو امین سے کہا کہ ایک لنگی غلام محمد کو دے دو۔ اور دوسری فلاں کو جب میں گھرآیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری لنگی کم قیمت اور دوسری لنگی بیش قیمت تھی۔ مجھے رنج ہوا کہ مجھے کم قیمت کنگی کیوں دی گئی۔ حالانکہ مجھے نسبت قرابت بھی حاصل ہے۔ سبق پڑھتے ہوئے میرے دل پر اس پر ملال خیال آنا تھا کہ پیر روشن ضمیر نے ٹوکا۔

آپ کی دعا سے بارش کا ہونا:

ایک دفعہ آپ حضرت قبلہ عالم صاحب کے چند امورات سرانجام کرنے کے لیے قعلہ ڈیرہ میں تشریف فرما تھے ان دنوں والیے ریاست بہاولپور بہاول خاں ثالت تھے۔ نواب صاحب آپ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی کہ میرے ملک میں خشک سالی کی وجہ سے لوگ بہت تنگ ہیں۔ خدا کے لیے دعا کریں۔ آپ نے دعا طلب کی اورخاں صاحب سے فرمایا کہ اپنے اہل کاروں کو حکم دیں کہ وہ مکانات کے پرنالہ وغیرہ تھیک کر لیں گے۔ مگر چونکہ وہ امیر آدمی تھے سستی کر کے اس حکم کی تعمیل نہ کی۔ خدا کی قدرت اسی روز آسمان کےدروازے کھل گئے اور ایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ آپ کے مکان کے سوا تمام سرکاری مکانات وغیرہ گرنے لگے۔ خدا کی مخلوق بارش ٹھہر جانےکے لیے امان منگ رہی تھی۔ خان صاحب پھر آپ کی خدمت میں پہنچے اور عاجزانہ المتاس کی کہ ہم نے حضور سے بارش مانگی تھی نہ سیلاب ۔ خدا کے لیے غور فرمائیں کہ مینہ برسنا بند ہوجائے تاکہ لوگ نقصان سے محفوظ ہیں آپ نے پھر دعا کی خدا کی قدرت بارش تھم گئی۔

دریا کا پانی واپس چلا گیا:

مشہور ہے کہ خیر پور شریف کے علاقہ میں موضع درپور کے قریب دریا چڑھ آیا۔ لوگوں کی زمینیں اور درخت گرنے لگے۔ نواب صاحب نے لوگوں کی دعا طبی کے لیے حضورکی خدمت میں بھیجا ۔آپ نے دعا فرمائی۔ بعض لکھتے ہیں کہ کچھ دم کر کے دیا اور بعض کہتے ہیں کہ وہاں سے تھوڑا سا پانی منگاکر پی لیا ۔بہر حال نتیجہ یہ ہوا کہ دریا دہیں ٹھہر گیا اور اس موقع سے آگے پڑھنے نہ پایا۔جہاں آپ کی چار پائی رکھی ہوئی تھی۔ اب تک وہی حالت ہے۔

آپ کی دعا سے کنویں کا پانی میٹھا ہوگیا:

خیرپور شریف کے مغرب کی طرف پوہڑوں کی ایک بستی ہے۔ لوگوں نے وہاں ایک کنواں کھود ا لیکن پانی کڑوا نکلا ۔ لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور میٹھے پانی کی درخواست کی۔ حضور نے قدم رنجہ فرمایا کہ یہاں پانی کھودو۔ لوگوں نے تعمیل کی تو نہایت خوشگوار اور میٹھا پانی نکلا۔

آپ کی دعا سے غیبی امداد:

حضرت قبلہ عالم صاحب کے وصا ل کے بعد حضرت حافظ صاحب نے ایک چار دیواری بنوائی اور چاہتے تھے کہ خانقاہ شریف کے دروازہ کے آگے ایک وسیع چھجہ بنایا جائے۔ وہ اتنا وسیع ہوکہ اس کے زیر سایہ جتنے بھی لوگ آسکیں آرام کریں ۔ بقضاءِ الہٰی آپ کا وصال ہوگیا اور یہ ارادہ تشنہ تکمیل رہا۔ جب ان کے بعد حضرت مولانا صاحب زیب آرائے مسند خلافت ہوئے تو اپنے پیر روشن ضمیر کے ارادہ پورا کرنے کی تڑپ ان کے دل میں ہوگئی۔ خیر پور شریف سے یہاں تشریف لائے اور اس کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا اور میرے دادا خواجہ نور احمد صاحب سے اجازت طلب کی۔ اس کے آثار کھودنے لگے تو میاں غلام رسول لانگری جو حضرت قبلہ عالم صاحب کے خاص غلام اور مجادر بھی تھے ۔ اس کی تعمیر سے مانع آئے اور کہا کہ اول اتنی رقم موجود کرو جو اس کا خیر کے لیے مکتفی ہوااور مجھے دکھاؤ پھر کام شروع کرو ورنہ بے سود آستانہ کی زمین کو مت کھودو۔ حضور نے تو یہ کام توکل الہٰی پر شروع کردیا تھا اور کچھ ابھی اپنے ساتھ نہ لائے تھے۔ فرمایا کہ میرے پاس کوئی نقدی نہیں جو تمہیں دکھا سکوں اس نے کہا تو پھر خالی ہاتھ کیوں کر اتنی بڑی تعمیر کا ارادہ کرتے ہو۔ آپ اس خیال کو چھوڑ دیں۔ اور چلے جائیں اور جب تک کہ مجھے رحم نہ دکھاؤ گے۔ میں مشورہ نہیں دوں گا۔ آپ چپ رہے اور چلے گئے۔ آپ تین کوس کے فاصلے پر بستی مبارک پور میں پہنچے تو وہاں نواب صاحب بہاولپور کے ایک امیر کبیر میاں محمد قائم کا کاردار خدمت میں پہنچا اور دو سو روپیہ نقد پیش کرکے کہاکہ مجھے میاں محمد قائم نے دعا طلبی کے لیے بھیجا ہے اور نذروہی ہے آپ قبول فرمائیں۔ فوراً روپیہ لے کر حضرت قبلہ عالم صاحب کی خدمت میں واپس گئے اور روپیہ میاں غلا رسول کو دکھا کر اجازت طلب کی چنانچہ ان کے مشورہ کے مطابق کام شروع کیا گیا ۔ خدا کی امداد شامل حال تھی کہ ابھی ایک رقم ختم نہ ہوئی تھی کہ دوسری رقم پہنچ جاتی ۔ اس طرح ایک عالی شان چھجہ تیار ہوکر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔

ان کے معاملہ کی سچائی اور نیت کا خلوص ملاحظہ ہو کر جس طرح آپ نے محض بہ توکل الہٰی اپنے پیر اور ان پیر کے مزارات پر عمارت تعمیر کرائیں ۔ رب تعالیٰ نے ان کے وصا ل کے بعد اتنے اور ان سے بھی زیادہ خوبصورت مکان تعمیر کرانے کے اسباب پیدا کردیے۔

روحانی تصرف:

قاضی محمد بخش راوی ہیں کہ قاضی محمد پناہ سکنہ موچ کھر کو آپ کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ بہ توفیق الہٰی ایک مشکیزہ پانی سے پر کرکے اور تھوڑا سازاور اہ لے کر ایک اونٹ پر سوار ہوکر چل دیا۔ کہیں جاکر سو رہا صبح کو اٹھ کر اونٹ کو تیار کیا۔ اور اپنا اسباب مضبوط باندھ دیا ۔روانہ ہونے کو تھا کہ اونٹ کہ مہار ہاتھ سے گر گئی ۔ اور وہ جنگل کو بھاگ نکلا ۔ یہاں تک کہ نظرے غائب ہوگیا ۔ہر چند تلاش کی مگر نہ ملا ظہر کے وقت اس پر پیاس اور تکان ایسی غالب آئی کہ حس و حرکت نہ کرسکتا تھا ۔ یہاں تک جان لبوں پر آگئی اور زندگی کی امید نہ ہی حو اس ختم ہوگیا، ناچارا یک چادر نشان کے طور پر باندھ دی اور آپ اس کے نیچے زمین کھود کر پڑرہا ۔رفتہ رفتہ اس پر غشی طاری ہوئی ۔ عالم بے خودی میں دیکھتا ہے کہ حضور تشریف لائے اور اس کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا محمد پناہ اٹھو۔اور پانی پیو۔ اس نے سوچا کہ شاید میں حالت نزع میں ہوں اور میرے پیر روشن ضمیر آموجود ہوئے۔ الغرض دو تین مرتبہ ایسا ہی فرمایا ۔ تیسری دفعہ اسے کچھ ہوش آیا اور دیکھا کہ آنحضرت میری تیمارداری میں مصروف ہیں اور میری زندگی ک لیے مایہ حیات لائے ہیں۔ اٹھ کھڑا ہوا لیکن حضور کو نہ پایا ۔ ادھر ادھر پھر دیکھا مصفا پای سے لبریز ایک چشمہ ہے جس کے اردگرد تازہ سبزہ اگاہوا ہے۔ حیران ہوا کہ اس ویران جنگل میں ایسا چشمہ کہاں سے آیا۔یقین کیا کہ یہ تصرف میرے پیر کا ہے۔ الغرض چشمہ سے اپنی پیاس بجھائی ۔ وہاں کوئی نشان باندھ کر اونٹ کاپتہ لینے کے لیے چل دیا ۔ چند قدم چلاہوگا کہ اس کا اونٹ بھی مل گیا۔ پانی کے کنارے پرواپس آیا۔ مشکیزہ کا اگلا پانی گرادیا۔ اور اسے اس چشمہ غیب کےپانی سے پر کر کے باندھ دیا اور زنجیروخوبی چل دیا۔ چند دنوں کی بادیہ پیمائی کے بعد حضور کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا اور زار و زار رونے لگا۔ آپ مسکرادیے اور پوچھا کہ سفر کیسے گزرا ۔قاضی کے سرپر جو مصیبت گزری تھی۔ بیان کی اور چشمہ غیب کے پانی کو تقسیم کردیا۔

مرشد کی عنایت :

جب حضرت حافظ صاحب  کا وصال ہونے لگا تو بہ آواز بلند عام طور پر کہا کہ ہم نے خزانوں کی چابیاں مولانا کے حوالہ کردی ہیں میرے بعد جن کو حاجت ہو ان کے پاس جائے۔

کمال زہد:

جب حضرت قبلہ عالم صاحب کا وصال ہوا اور جنازہ تیار ہوگیا تو صلحائے زمانہ نے یہ رائے پیش کی کہ امامت وہی شخص کرے کہ جس سے کہ ساری عمر مستحب ترک نہ ہواہو۔ کسی کو اپنے تئیں بھروسہ نہ تھا۔ مولانا صاحب بھی اس عزت کے قابل ثابت ہوئے کہ امامت فرمائی۔

آپ کا روحانی مقام:

جن دنوں قلعہ ملتان کفار کے محاصرہ میں تھا۔ حضرت محمد جمال اللہ صاحب کے بہت سے خادم محصور تھے۔ شورش فرد ہوئی تو لوگو ںمیں مشہور ہوگیا کہ ملتان میں ایک قطب ہیں۔ ان کے جیتے جی یہ قلعہ محفوظ ہے اور کبھی کسی دشمن سے فتح نہ ہوگا ۔ جب یہ بات جناب حافظ صاحب  کے کان میں پہنچی تو اگر چہ یہ بات خود ان ہی تاہم فرمایا کہ وہاں سچ ہے ۔ حضرت مولانا صاحب قطب زمانہ یہاں موجود ہیں۔

تعمیری خدمات :

جب حضرت محبوب اللہ مولانا صاحب کی تشریف آوری کی خبر خان صاحب محمد صادق خان وایسی ریاست بہاولپور کو پہنچی توجناب ،اب صاحب نہایت منت و زاری کے ساتھ ان کو خیر پور میں لے آئے ۔ ان کے خدام کا روزیہ مقرر کیا اور لنگر شریف کا تمام خرچ اپنے ذمہ لیا۔ حضرت مولانا صاحب مدتوں میں اس شہر میں رہے ۔ خیر پور محفوظ کنواں اور عمدہ سرائے ۔ فقرائے کے لیے حجرے اور دیگرلوگوں کے لیے عمارتیں تیار کیں۔

وصال:

ہم صفر ۱۲۵۰ ہجری   بوقت اشراق مولوی خدا بخش پوری نے اس جہاں فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ فرمایا ۔آپ کا مزار اقدس خیر پور میں مرجع خاص و عام ہے ۔

مآخذ:گلشن ابرار از خواجہ امام بخش۔۲۔فخرن چشت از خواجہ امام بخش

تجویزوآراء