حضرت خواجہ علی احمد صابر کلیری
حضرت خواجہ مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ فرید گنج شکر کے خلیفہ اعظم تھے۔ اولیائے معرفت کے امام تھے۔ پیر طریقت تھے، واقف حقیقت تھے، عارف کامل زاہد مکمل تھے۔ صاحب کرامت اور والیٔ نعمت تھے، بلند رتبہ اور اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ خرقہ خلافت حضرت خواجہ فرید گنج شکر سے پایا۔ خلافت کے علاوہ آپ کو حضرت خواجہ فرید سے نسبت فرزندی (دامادی) خواہر زادگی بھی تھی، حضرت خواجہ فرید فرمایا کرتے تھے، میرے باطنی اور ظاہری علوم تو حضرت نظام الدین کو ملے، مگر میرے پیروں کے ظاہری اور باطنی علوم کے سمندر علاء الدین کے حصہ میں آئے میرے سینے کے تمام علوم خواجہ نظام الدین بدایونی نے حاصل کیے، مگر میرے دل کے تمام علوم و اسرار علاء الدین صابر نے لیے۔
سیرالاقطاب میں لکھا ہے کہ بارہ سال تک شیخ علاء الدین نے حضرت خواجہ فرید گنج شکر کے لشکر اور درویشوں کے طعام کی خدمات سرانجام دیں، لیکن چونکہ آپ کو کھانا کھانے کا حکم نہیں دیا گیا تھا بارہ سال تک دربار اور لنگر سے کھانا نہیں کھایا اور جنگل کی جڑی بوٹیوں سے پیٹ پالتے رہے۔ بارہ سال بعد حضرت خواجہ فرید نے وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کی آپ نے لنگر کی تیاری اور اہتمام کا حکم دیا تھا کھانے کی اجازت تو نہ دی تھی، آپ کی اجازت کے بغیر میری کیا مجال تھی کہ مطبخ سے ایک دانہ بھی کھاتا، حضرت فریدالدین نے آپ کے اس صبر کی وجہ سے آپ کو صابر کا خطاب دیا۔ خرقۂ خلافت عنایت فرمایا، دہلی کی روحانی نگرانی سپرد کی، حکم دیا پاک پتن سے پہلے ہانسی جانا۔ شیخ جمال الدین قطب ہانسوی قدس سرہ سے اپنے خلافت نامہ سے مہر نصب کرانا، پھر دہلی جانا، آپ ہانسی کی طرف روانہ ہوئے ہانسی پہنچے بیہلی پر سوار ہی حضرت جمال الدین ہانسوی کی خانقاہ کے اندر جا پہنچے جمال الدین دروازے پر استقبال کے لیے آئے، مگر علی احمد بیہلی سے نیچے نہ اترے اور سواری پر ہی اندرون خانقاہ تک چلے گئے۔ حضرت جمال ہانسوی کو آپ کی یہ ادا پسند نہ آئی، مجبوراً تعظیم تو کی، مگر آداب درویشی کے خلاف عمل کو دل میں برا منایا۔ احتراماً مجلس کی مسند صدارت پر بٹھادیا، دونوں نے مل کر نماز مغرب ادا کی۔ نماز کے بعد حضرت صابر نے مسند خلافت پیش کی اور مہر نصب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دہلی کی روانگی کا ارادہ کرلیا، چونکہ اس وقت اندھیرا تھا چراغ موجود نہ تھا، حضرت جمال ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ نے مہر نصب کرنے میں تامل و تردد کیا، چراغ لایا گیا سند خلافت پیش کی گئی مگر اتفاقاً ہوا کا ایک جھونکا آیا، چراغ بجھ گیا حضرت صابر نے چراغ پر ایک پھونک ماری تو چراغ دوبارہ جل اٹھا، خواجہ جمال نے یہ صورت حال دیکھی تو مسند خلافت کو حضرت صابر کے ہاتھ سے لے کر پھاڑ دیا اور فرمایا دہلی کو آپ کے دم آتشین کی تاب نہیں ہے، اگر آپ اسی طرح چلے گئے تو شہر جل جائے گا حضرت جمال کی اس بات پر حضرت صابر برا فروختہ ہوگئے اور جوش میں آکر فرمایا، آپ نے میری سند خلافت پھاڑی ہے میں نے آپ کے سلسلہ طریقت کو پھاڑ دیا ہے آپ نے پوچھا اول سے یا آخر سے ، فرمایا اول سے اسی وقت غصے سے اٹھے اور واپس پاک پتن روانہ ہوگئے اور حضرت خواجہ فرید گنج شکر کی خدمت میں جا پہنچے اور تمام واقعہ سنادیا، حضرت خواجہ فرید نے فرمایا صابر جمال الدین کی پھاڑی ہوئی سند خلافت کو دوبارہ نہیں جوڑا جاسکتا پھر پوچھا جب جمال نے تمہاری مسند خلافت پھاڑی تھی تو تم نے کیا کہا تھا بتایا کہ میں نے کہا کہ آپ نے میری مسند خلافت پھاڑ دی ہے میں نے تیرا سلسلہ پھاڑ دیا ہے انہوں نے پوچھا کہ اول سے یا آخر سے میں نے کہا اول سے حضرت خواجہ فرید نے یہ بات سن کر فرمایا کہ اللہ کے پہلوانوں کا تیر خطا نہیں جاتا، لیکن خیر گزری کہ تم نے اول کہہ دیا، آخر سلامت رہا، ان شاء اللہ تمہارے مریدوں میں سے ایک مرید پیدا ہوگا جس کی دعا سے یہ سلسلہ جاری ہوگا (یہ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کی ذات کی طرف اشارہ تھا) حضرت صابر قدس سرہ نے جس طرح کہا تھا ویسا ہی ہوا شیخ جمال الدین ہانسوی قدس سرہ کے بڑے بیٹے شیخ جمال الدین بڑے صاحب علم و کمال تھے، دیوانہ ہوگئے چھوٹے بیٹے برہان الدین اگرچہ ساری عمر حضرت کی زیر تربیت رہا، اور حضرت ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی کوشش کی کہ اسے کوئی مقام ملے مگر کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر نے علاء الدین صابر کو کلیر کی روحانی مملکت عطا فرمادی اور سند خلافت اپنے قلم سے از سر نو تحریر کرکے حوالے کی اور تازہ خرقۂ خلافت عطا کیا۔ اور سیدھا کلیر پہنچنے کا حکم دیا۔ آپ وہاں پہنچے تو اس خطہ کو نور روحانیت سے منور کردیا اور وہاں ہی قیام پذیر ہوگئے، ان دنوں کلیر علماء مشائخ کی کثرت کی وجہ سے بغداد العلم اور مدینۃ الاولیاء بنا ہوا تھا نماز جمعہ کے لیے جامع مسجد کے سامنے عام لوگوں کے علاوہ چار سو پہیلیاں آکر رکتیں، جن میں بڑے بڑے صوفیاء اور روساء آتے۔ حضرت صابر بھی اسی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے آیا کرتے تھے اور مخلوق کے ہجوم اور کثرت کی وجہ سے مسجد کے صحن کی بجائے آپ کو مسجد سے باہر جگہ ملتی تھی کوئی شہری آپ کی طرف توجہ نہ دیتا تھا، اس صورتحال سے مایوس ہوکر آپ نے حضرت خواجہ فرید گنج شکر قدس سرہ کی خدمت میں ایک خط لکھا اور مشورہ طلب کیا کہ مجھے ان حالات میں کیا کرنا چاہیے، حضرت نے جواب دیا کہ کلیر کے سارے معاملات عزیز کے اختیار میں ہیں، اپنی مرضی سے جو چاہو کرو، آپ کو خط کا جواب ملا، تو جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے گئے اور پہلے سے بھی دور جگہ ملی، نماز جمعہ ختم ہوئی، تو حضرت نے مسجد کی طرف ایک نگاہ غضب سے دیکھا، اور فرمایا: اے مسجد نمازی تو نماز ادا کرچکے ہیں، تو بھی سجدہ ریز ہوکر دکھا۔ اچانک مسجد کی چھت گر گئی اور ہزاروں نمازی مسجد کے ملبے کے نیچے آکر دب گئے، اور ہلاک ہوگئے۔
اس کرامت کے ظہور پر بہت سے لوگ آپ کے معتقد ہوگئے مگر باقی لوگ آپ کی اس غضبناکی پر ناراض ہوئے اور آپ کے خلاف ہوگئے، مسجد کے واقع سے دوسرے سال اس علاقہ میں ایک وبا پھوٹ پڑی جس سے کلیر شہر میں ہزاروں موتیں واقع ہوئیں اس قیامت خیز و با نے سارا کلیر شہر ویران کردیا اب حضرت صابر نہایت فراغت سے ریاضت اور مجاہدہ میں مشغول ہوگئے حتی کہ انسانوں کی بجائے آپ کے ارد گرد وحشی جانور اور پرندے بھی جمع ہوتے اور آپ کی خانقاہ پر بھی یہی حیوانات جاروب کشی کیا کرتے تھے، صرف آپ کا ایک خادم خاص شمس الدین ترک پانی پتی رہ گیا تھا جو پاک پتن سے آپ کے ساتھ آیا تھا جب ک بھی حضرت صابر کو سماع کا شوق دامن گیر ہوتا تو شمس الدین ترک کو مضافات میں بھیجتے جو وہاں جاکر چند قوال لے آتا، اور مجلس سماع منعقد ہوتی۔
معارج الولایت کے مؤلف نے لکھا ہے کہ کلیر کی تباہی کا واقعہ میں نے دوسری کتابوں میں یوں لکھا دیکھا ہے کہ جن دنوں حضرت صابر خطہ کلیر میں تشریف فرما ہوئے، تو وہاں کے کئی ظاہر بیں علماء اور مشائخ آپ کے کمالات کے منکر ہوگئے، آپ کی مخالفت یہاں تک بڑھی کہ لوگ آپ کے مریدوں اور خادموں پر حملے کرنے لگے، ایک دن حضرت صابر اپنے احباب کو لے کر نماز جمعہ ادا کرنے جامع مسجد گئے، تو اجتماع سے پہلے ہی جامع مسجد کے اندر جاکر پہلی صف میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ علماء اور مشائخ آئے تو انہوں نے اپنی جگہ خالی نہ دیکھی تو آپ کے خادمین کو کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ یہ جگہ ہماری ہے انہوں نے جواب دیا ہمارے آنے سے پہلے یہ جگہ خالی تھی ہم یہاں بیٹھ گئے ہیں اب آپ لوگ دیر سے آئے ہیں، کسی دوسری جگہ بیٹھ جائیں، علماء نے بڑی سختی اور درشتی سے ان لوگوں کو دھکے دے کر اٹھادیا، اور کہا یہاں تو صرف علماء و مشائخ ہی بیٹھ سکتے ہیں عام آدمی نہیں بیٹھ سکتے، اس بات پر جھگڑا ہوگیا، حضرت صابر نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور کہاکہ اس شہر کا صاحب ولایت سب علماء مشائخ سے مقدم ہوتا ہے اور اسے صفِ اول میں بیٹھنے کا زیادہ حق ہے انہوں نے کہا کہ صاحب ولایت ہونے کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے آپ اسی وقت اپنے احباب کو لے کر مسجد سے باہر نکل آئے اور نگاہ غضب سے ان کی طرف دیکھا وہ آنا فاناً مرگئے، آپ نے فرمایا ہماری ولایت کا ثبوت یہی ہے، آپ نے مزید کہا اب اس شہر کا ایک فرد بھی زندہ نہیں بچے گا چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں سارا شہر ویران ہوگیا، مسجد کے باہر کے لوگ طاعون کا شکار ہوگئے۔
صاحب معارج الولایت نے مزید لکھا ہے کہ حضرت علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ ولایت موسوی پر تھے، آپ کا قلب اسرافیل کے قلب پر تھا۔ جس پر ایک نظر یا پھونک مارتے خاک سیاہ ہوجاتا، حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ بھی ولایت موسوی کے مالک تھے اور آپ کے جلال کا یہ عالم تھا کہ جہاں نظر اُٹھاتے مد مقابل دم بخود ہوجاتا۔
سیرالاقطاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے کئی سال بعد تک کلیر شہر ویران رہا آپ کے روضہ عالیہ کے مجاور بھی جنگلی جانوروں کی آمد و رفت اور شیر و چیتوں کے قیام کی وجہ سے آپ کے مزار پر بہت کم آتے، بہت سے مجاور کلیر کا علاقہ چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں جاکر آباد ہوگئے تھے۔ چنانچہ ایک عرصہ تک یہ علاقہ ویرانہ بنا رہا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد ہندوؤں بت پرستوں نے آپ کے روضہ کے قریب ہی ایک بت کدہ بنا لیا، ان کی یہ خواہش تھی کہ آپ کے مقبرہ کو گا کر بت خانے کی حدود میں لایا جائے مگر ایک دن ایک مردم خوار شیر جنگلوں میں سے نکلا رات کے وقت تمام ہندوؤں کو چیر پھاڑ کر ہلاک کر گیا جو بچ گئے وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے، آئندہ کسی ہندو کو آنے کی جرأت نہ ہوئی۔[۱]
[۱۔ حضرت علاءالدین صابر رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہِ غضب سے کلیر کے شہریوں اور نمازیوں کی تباہی کے واقعات معارج الولایت اور حقیقت گلزار صابری جیسی کتابوں نے بادنیٰ اختلاف ان واقعات کو قلمبند کیا ہے۔ مگر جمال صابر کے فاضل مولف ، وجبد احمد مسعودِ مرحوم نے ان واقعات کو تاریخ کے آئینہ میں تجسس و تحقیقات کا نشانہ بناکر ثابت کیا ہے کہ یہ واقعات سراسر بے بنیاد ہیں کہ ایک ولی اللہ محض ناراضگی سے اتنی بڑی مخلوق اور اتنے بڑے شہر کو ویرانے میں تبدیل کردیں اس کتاب کی تحریر سے ان مقابلوں کا پس منظر سامنے آتا ہے جو کلیر پر گزریں قارئین کرام اس کتاب کو بھی سامنے رکھیں (مترجم)]
سیرالاقطاب میں ایک اور واقعہ بھی ہمارے سامنے آیا ہے کہ ایک دن ایک ہندو جوگی اس راستے سے گزرا جہاں کبھی حضرت صابر کی خانقاہ تھی، وہ اس خانقاہ کے کھنڈرات میں چلا گیا۔ اس نے دیکھا ایک عالی شان مزار ہے مگر دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آتا، اس شخص نے ہندوانہ تعصب کے پیشِ نظر ارادہ کرلیا کہ مزار کو گراکر یہاں کوئی بت خانہ یا معبد تعمیر کرادیا جائے۔ چنانچہ اس نے ایک آہنی تیشہ لے کر مزار کو گرانا شروع کردیا۔ چند اینٹیں گرائی تھیں کہ مزار سے ایک روزن سامنے آیا۔ جوگی نے قبر کے اندر سر ڈال کر دیکھنا چاہا کہ اس مزار کے اندر کیا ہے؟ وہ نگاہ کا شکار ہوگیا اور سر باہر نہ نکال سکا، آخر کار اس کا سانس بند ہوگیا اور وہ وہیں مرگیا، رات کے وقت مجاوروں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شیخ صابر تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ایک شخص گستاخانہ ہمارے مزار پر آیا تھا۔ اسے سزا تو مل گئی ہے اب وہ مزار کے روزن میں لٹکا ہوا ہے، اُسے آکر نکال دیا جائے۔ دوسری صبح مجاور اپنے بہت سے آدمی لے کر مزار پر انوار پر پہنچے جو گی کو کھینچ کر باہر لایا گیا۔ اس کی لاش کو دور جنگل میں پھینک دیا گیا۔ اس دن سے شہر دوبارہ آباد ہونے لگا۔ خوف و خطر دور ہونے لگا اور لوگ آہستہ آہستہ پہنچنے لگے۔ سب سے پہلے مجاوروں نے مکانات تعمیر کیے اور آباد ہوگئے اور اس شہر کو پیران کلیر کے نام سے شہرت ملی۔
حضرت علی احمد صابر قدس سرہ کا وصال بقول صاحب معارج الولایت تیرہ ماہ ربیع الاول ۶۹۰ھ ہوا تھا۔ یہ سلطان جلال الدین خلجی کا عہد حکومت تھا۔ آپ حالت سماع میں واصل بحق ہوئے۔
شد چو از دنیا علاء الدین علی احمد بخلد
سال وصل آں شہ والا قدر اہل کمال
گو علی احمد علاء الدین صابر ایزدی
۶۹۰ھ
ہم علاء الدین صابر صادق آمد ارتحال
۶۹۰ھ
ہادی محبوب صابر بادشاہ(۶۹۰ھ)
صابر سراج االطابعین(۶۹۰ھ)
مخدوم (۶۹۰ھ) متقی سلیم (۶۹۰ھ)
حضرت علاؤالدین احمدصابر(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت علاؤالدین علی احمدصابر(رحمتہ اللہ علیہ)سلطان الاصفیاہیں،تاج الاولیاء ہیں۔
خاندانی حالات:
والدماجدکی طرف سےآپ سیدہیں اورغوث الاعظم میراں محی الدین حضرت عبدالقادرجیلانی (رحمتہ اللہ علیہ)کی اولادسےہیں۔والدہ ماجدہ کی طرف سےآپ کاسلسلہ نسب امیرالمومنین حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ پر منتہی ہوتاہے۔
والدماجد:
آپ کےوالدماجدکانام عبدالرحیم ہے۔
والدہ ماجدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ کانام ہاجرہ ہےاورجمیلہ خاتون کے لقب سےمشہورہیں۔
ولادت مبارک:
آپ نے۱۹ربیع الاول ۵۹۲ھ کوہرات میں اس عالم کو زینت بخشی۔
نام نامی:
آپ کانام علی احمدہے۔
خطابات:
آپ کےخطابات "مخدوم"اور"صابر"ہیں۔
لقب:
آپ کالقب "علاؤالدین"ہے۔
بچپن:
زندگی کےپہلےسال میں آپ ایک دن دودھ پیتےتھےاوردوسرےدن دودھ نہیں پیتےتھے،گویا اس دن روزہ رکھتےتھے۔جب زندگی کادوسراسال شروع ہواتوتیسرےدن دودھ پیتےتھےاوردو روز دودھ نہیں پیتےتھےگویادودن روزہ رکھتےتھے۔جب آپ دوسال کےہوگئےتودودھ پیناچھوڑیدا، جب چوتھاسال شروع ہوااورآپ کی زبان کھلی توسب سے پہلےکلمہ جوآپ کی زبان مبارک سےنکلا وہ یہ تھا۔لَامَوجُودَاِلَّااللّٰہ۔
(اللہ کےسواکوئی معبودنہیں)
آپ جب چھ سال کےہوئے کھاناپینابرائےنام رہ گیا۔رات کازیادہ حصہ عبادت میں گزارنےلگے۔ جب ساتواں سال شروع ہواتوآپ نےتہجدپابندی سےپڑھناشروع کیا۔
بچپن کاصدمہ:
پانچ سال کی عمرمیں ۱۷ربیع الاول ۵۹۷ھ کووالدماجدکاسایہ آپ کےسرسےاٹھ گیا۔
تعلیم وتربیت:
آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت اپنےوالدماجدکےسائے میں ہوئی۔والدکےانتقال کےبعدآپ کی والدہ ماجدہ نےآپ کی تعلیم وتربیت پرکافی توجہ دی۔اجودہن میں آپ کی تعلیم وتربیت حضرت بابا فریدالدین مسعودگنج شکر(رحمتہ اللہ علیہ)کی نگرانی میں ہوئی۔عربی،فارسی کےعلاوہ آپ نے فقہ، حدیث،تفسیر،منطق معانی وغیرہ میں دستگاہ حاصل کی۔
اجودہن میں آمد:
آپ اپنی والدہ کےساتھ اجودھن آئےاورآپ اپنےماموں حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکر (رحمتہ اللہ علیہ)کےپاس رہنےلگے۔حضرت بابافریدالدین گنج شکررضی اللہ عنہ نے لنگرکی تقسیم
کرنے کی خدمت آپ کے سپردفرمائی۔آپ نے۱۲سال کےعرصے میں کچھ نہیں کھایا۔حضرت بابا صاحب کو جب یہ معلوم ہواتوانہوں نے فرمایا"علاؤالدین احمدصابرہیں"۔اس روزسے آپ "صابر"کےخطاب سے مشہورہوئے۔
والدہ کاوصال:
آپ کی والدہ اجودہن میں کچھ عرصہ قیام کرکےہرات چلی گئیں تھیں ہرات سےپراجودھن واپس تشریف لائیں اور۲محرم۶۱۴ھ کوانتقال فرمایا۔
بیعت وخلافت:
حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکر(رحمتہ اللہ علیہ)نےآپ کوبیعت سےمشرف فرمایااور۱۴ ذی الحجہ ۶۵۰ھ کو خرقہ خلافت عطافرمایا،دہلی کی ولایت آپ کےسپردفرمائی کہ دہلی جانےسےقبل ہانسی جاکرحضرت جمال الدین سے خلافت نامہ پرمہرلگوائیں اورپھردہلی چلےجائیں۔
ہانسی پہنچ کرآپ حضرت جمال الدین کی خانقاہ میں چنڈول پرسوارہوکرداخل ہوئے۔خانقاہ میں چنڈول سے اترے۔۱؎یہ بات جمال الدین ہانسوی کوناگوارہوئی۔نمازکےبعدآپ نےاپنےپیرو مرشد کی عطاکی ہوئی مثال نکالی اورحضر ت جمال الدین ہانسوی سے اس پرمہرلگانے کوکہاحضرت جمال الدین ہانسوی نےچراغ منگایااورخلافت نامہ کوپڑھناشروع کیا۔ہواتیزچل رہی تھی،چراغ یکا یک گل ہوگیا۔
حضرت جمال الدین ہانسوی نےآپ سےکہاکہ چونکہ چراغ گل ہوگیاہے،لہذااب خلافت نامہ پر کل دستخط کردیئے جائیں گے۔آپ نے جب یہ سناتوپھونک ماری اورچراغ روشن ہوگیا۔۲؎
حضرت جمال الدین ہانسوی کویہ بات ناگوارہوئی اورانہوں نےآپ سےکہا۔۳؎
"تاب دم زدن شمادہلی کجاواروکہ بیک دم زدن تمام دہلی راخوابیدسوخت"۔
(دہلی والےکب آپ کوبرداشت کرسکیں گے،آپ توذراسی دیرمیں دہلی کو جلاکرخاک کردیں
گے)۔
یہ کہہ کرحضرت جمال الدین ہانسوی نےآپ کاخلافت نامہ پھاڑدیا۔خلافت نامہ پر مہرنہیں لگائی۔ آپ نے غصہ کی حالت میں حضرت جمال الدین ہانسوی سےفرمایا۔۴؎
"چوں تومشال من پارہ کردی من سلسلہ توپارہ کردم"۔
(چونکہ تم نےمیری مثال کوچاک کردیا،میں نےتمہارے سلسلہ کو مٹادیا)۔حضرت جمال الدین ہانسوی نے پوچھا۔
"ازاول یاازآخر"
(شروع سےیاآخرسے)
آپ نے جواب دیا"ازاول"(شروع سے)
واپسی:
آپ اجودہن واپس آئےاورساراماجراحضرت باباصاحب کےگوش گزارکیا۔حضرت بابانےفرمایا۔
"پارہ کردۂ رافریدنتواں دوخت"
("جمال کےپارہ کئےہوئےکوفریدنہیں سی سکتا")۔
حضرت باباصاحب نے آپ کوکلیرکی ولایت سپردفرمائی،آپ کی مثال پراپنےدستخط کئےاوراس مرتبہ آپ کوحضرت جمال الدین ہانسوی کےپاس جانےکی تاکیدنہیں فرمائی۔
کلیرمیں قیام:
بحکم اپنےپیرومرشدآپ کلیرپہنچے۔کلیراس زمانے میں ایک بڑاشہرتھا۔اس کی آبادی بھی کافی تھی، علماء،فضلاءاورمشائخ کافی تعدادمیں وہاں رہتےتھے۔جمعہ کی نمازکےلئےچارسوچنڈول آئے تھے۔۵؎رئیس کلیراورقاضی شہرپرآپ کی رُشدوہدایت کاکوئی اثرنہ ہوا۔
جب کلیرکےلوگوں کی نافرمانی اورسرکشی حدسےبڑھ چکی توآپ کےضبط کایارانہ رہا۔آپ جمعہ کی نماز کےواسطےجامع مسجدگئےاورپہلی صف میں بیٹھ گئے،اتنے میں رئیس کلیراورقاضی شہرمسجدمیں آئے،آپ کو پہلی صف میں بیٹھادیکھ کرآپ کواورآپ کے معتقدین کوبرابھلاکہااورپہلی صف سے ہٹا دیا۔
آپ وہاں سےاٹھ کرمسجدسےباہرآکربیٹھ گئے،تھوڑی دیرنہ گزری تھی کہ آپ نے مسجدکی طرف دیکھااورفرمایا۔"تونےان لوگوں کوصحیح سلامت چھوڑدیا"۔آپ کایہ فرماناتھاکہ مسجدایک دم گری اور وہ سب لوگ دب کرمرگئے۔۶؎
یہ بھی کہاجاتاہےکہ جب لوگ رکوع میں گئےتوآپ نےمسجدکوحکم دیاکہ وہ بھی سجدہ کرے،اس فرمان کےمطابق مسجدگری اوروہ سب لوگ دب کر مرگئے۔
شادی:
آپ کی والدہ کے اصرارپرحضرت بابافریدالدین گنج شکر(رحمتہ اللہ علیہ)نےاپنی لڑکی خدیجہ بیگم عرف شریفہ کانکاح آپ سے کردیاتھا،آپ اس زمانے میں حضرت باباصاحب کےپاس اجودہن میں تھے۔آپ کی والدہ ماجدہ نےآپ کے حجرےمیں روشنی کی اوردلہن کوہجرے میں لاکربٹھادیا۔ جب آپ اپنےحجرے میں تشریف لےگئےتوحجرےمیں روشنی اورایک عورت کوبیٹھاہوادیکھ کر متعجب ہوئے،آپ نےپوچھا:
"تم کون ہو"۔
دلہن نےجواب دیاکہ۔
"آپ کی بیوی ہوں"۔
یہ سن کرآپ نےفرمایا۔
"یہ کیسےممکن ہےکہ ایک دل میں دوکی محبت کوجگہ دوں،میں توایک کودل میں جگہ دےچکاہوں،
دوسرےکی قطعاًگنجائش نہیں"۔
آپ کی زبان سےیہ الفاظ نکلتےہی حجرےمیں ایک آگ نمودارہوئی،جس نےدلہن کوجلاکرخاکستر کردیا۔
وفات شریف:
آپ۱۳ربیع الاول ۶۹۰ھ کوواصل بحق ہوئے،آپ کامزارپرانوارکلیرمیں فیوض وبرکات کاسر چشمہ ہے۔
خلیفہ:
حضرت شمس الدین ترک پانی پتی آپ کے خلیفہ ہیں۔
سیرت مبارک:
آپ میں شان جلالی بدرجہ اتم تھی،آپ کونسبت فنااعلیٰ درجہ کی حاصل تھی،ریاضت عبادت اور مجاہدہ میں ہمہ تن مشغول رہتےتھے۔آپ کےپیرومرشدحضرت بابافریدالدین گنج شکر (رحمتہ اللہ علیہ)آپ سے بہت محبت کرتےتھے،جیساکہ ان کےالفاظ سےظاہرہے۔۷؎
"علم ظاہروباطن میں نیزشیخ نظام الدین بدایونی رسیدوعلم ظاہروباطنی نیزشیخ علاؤالدین علی احمد صابر برو"۔
(میراظاہروباطن علم شیخ نظام الدین بدایونی کوپہنچااورعلم ظاہری وباطنی علاؤالدین احمدلےگئے)۔
حضرت باباصاحب یہ بھی فرماتےتھے۔۸؎
"علم سینہ من درذات شیخ نظام الدین بدایونی وعلم دل من ذات شیخ علاؤالدین احمدسرایت کردہ"۔
(میرےسینےکےعلم نےشیخ نظام الدین بدایونی کی ذات میں اورمیرےدل کےعلم نےشیخ علاؤ
الدین علی احمدصابرکی ذات میں سرایت کی ہے)۔
آپ کی ولایت کاتعلق ولایت موسیٰ(علیہ السلام)سےہےاورقلب آپ کاقلب اسرافیل علیہ السلام پرواقع ہواتھا۔آپ طریقت میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سےمناسبت رکھتےتھے۔
خوراک:
آپ روزےبکثرت رکھتےتھے،پانی میں ابلےہوئے گولربغیرنمک ملائےکھاتےتھے۔
پوشاک:
آپ صرف تہہ بندباندھتےتھےاوررنگین خرقہ گل ارمنی کاپہنتےتھے،جوتانہیں پہنتےتھے۔
مقبولیت:
آپ کوبارگاہ ایزدی میں مقبولیت حاصل تھی۔آپ کی دعاءقبول ہوتی تھی،آپ جوکچھ فرماتے، ویسا ہی ہوتا۔
شعروشاعری:
آپ کوشعروشاعری کاشوق تھا،فارسی میں آپ کاتخلص "احمد"ہے۔ہندی میں آپ کاتخلص کہیں "صابر"ہےاورکہیں"علاؤالدین"۔
آپ کاایک شعر جس میں "صابر"تخلص استعمال کیاگیاہے،حسب ذیل ہے۔
اس طرح ڈوب اس میں اےصابر |
کہ بجزہوکےغیرہونہ رہے |
آپ کاوہ شعرجس میں "علاؤالدین"تخلص استعمال کیاہے،حسب ذیل ہے۔
یہ تن ہراداایکھ تھاتیس ببول کردیں |
گنےمیں گرپررکھ لوکہیں علاؤالدین |
آپ کی مشہورغزل حسب ذیل ہے۔
امروزشاہ شاہاں مہماں شدست مارا |
جبرئیل باملائک درباں شدت مارا |
درجلوہ گاہ وحدت کثرت کجابگنجید |
مژردہ ہزارعالم یکساں شدست مارا |
ماخانہ جہاں رابسیارسیرکردیم |
اےشیخ بت پرستی ایماں شدست مارا |
درمحفل گدایاں مرسل کجابگنجید |
بےبرگ وبےنوائی سامان شدت مارا |
احمدبہشت ودوزخ برعاشقاں حرام است |
ایں رارضائے جاناں رضواں شست مارا |
کشف وکرامات:
آپ کی بددعاسےکلیرویران ہوا۔دوردورتک آبادی کانشان نہیں رہا۔
حسن قوال کوچندگولردےکررخصت فرمایا،گولرلےکروہ حضرت باباصاحب کی خدمت میں اجودہن میں حاضرہوا،حضرت باباصاحب نےوہ گولرحاضرین کوتقسیم فرمائے،جس نےبھی وہ گولر کھائے اس کی کثافت دورہوئی،اس کونورباطن حاصل ہوا۔۔حضرت شمس الدین ترک پانی پتی جب آپ کی خدمت میں تھےتودن میں کئی باراندھےاورکئی بارلنگڑےہوتےتھے،جب آپ فرماتے۔"شمس الدین کیااندھاہوگیاہے"؟وہ فوراًاندھےہوجاتے۔
آپ ہرمرتبہ ان کے لئے دعافرماتےاوروہ آپ کی دعاسے پھراچھے ہوجاتے۔
حواشی
۱؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۰
۲؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۰
۳؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۰
۴؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۱
۵؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۸۲
۶؎انوارالعارفین(فارسی)ص۲۹۹
۷؎انوارالعارفین(فارسی)ص۲۹۹
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)